ڈاکٹر اسرار احمدؒ کے ساتھ میری مناسبت کے مختلف پہلو

   
تھنکرز فورم پاکستان
۲۰۱۰ء

پاکستان کی ایک عظیم دینی شخصیت جنہوں نے زندگی بھر قرآن پاک کا پیغام لوگوں تک پہنچانے میں، خلافت کا پرچم بلند کرنے میں، دینی اقدار کی سربلندی میں، اور اسلام کے غلبہ اور نفاذ میں اپنی تمام توانائیاں صَرف کیں اور آخر وقت تک اسی مشن پر گامزن رہے۔ ڈاکٹر اسرار احمد رحمۃ اللہ علیہ ہمارے ملک کی دینی تحریکات میں اور دینی شخصیات میں صفِ اول کی شخصیت ہیں اور مختلف حوالوں سے ان کی یاد بہت دیر تک ہمارے درمیان تازہ رہے گی۔ یہ شکوہ بجا بھی ہے اور ایک لحاظ سے بے جا بھی ہے کہ ہم آج کے میڈیا سے یہ توقع کر رہے ہیں کہ وہ اپنی روش بدلے گا اور وہ دینی شخصیات کو اور تحریکی شخصیات کو اور نظریاتی شخصیات کو اور فکری شخصیات کو اپنے ہاں کوئی جگہ دے گا۔ ہمارے میڈیا کا ایجنڈا ہی کچھ اور ہے، پروگرام ہی کچھ اور ہے، میں اس کی تفصیل میں نہیں جانا چاہتا۔ لیکن بہرحال ان شخصیات کا حق ہے امت پر، ہم پر، کہ ان کے مشن کو بھی زندہ رکھا جائے اور ان کی یاد کو بھی تازہ رکھا جائے اور ان کی زندگی کی تگ و تاز کے مختلف مراحل کو وقتاً‌ فوقتاً‌ سامنے لایا جاتا رہے۔

مجھے ڈاکٹر اسرار احمد صاحب مرحوم سے ایک عرصہ سے نیاز مندی کا تعلق تھا اور آخر وقت تک رہا، مختلف حوالوں سے۔ میں بھی ان کی خدمت میں حاضر ہوتا رہا، وہ بھی میرے پاس تشریف لائے، اور مختلف تحریکات میں ہم اکٹھے رہے، مختلف فورموں میں ہم نے اکٹھے کام کیا۔ میری ان کے ساتھ دلچسپی اور نیاز مندی اور تعلق کے مختلف پہلو ہیں جن میں سرسری طور پر دو تین کا تذکرہ مناسب سمجھتا ہوں۔

سب سے بڑی بات یہ ہے کہ وہ اس ملک میں اقامتِ دین، غلبۂ اسلام، اور اسلام کے نفاذ کے صرف داعی نہیں تھے بلکہ اس کے لیے مسلسل کام کرنے والے راہنما اور کارکن بھی تھے۔ یہ ہمارا مشترکہ ملّی مقصد ہے۔ اگر ہم پاکستانی ہیں اور پاکستان کی اساس کو سمجھتے ہیں تو پاکستان میں اسلام کا نفاذ، اسلام کا غلبہ، اسلام کی بالادستی، یہ نہ علماء کے طبقے کا کام ہے، نہ دینی کارکنوں کی بات ہے، یہ تو ہمارا ملّی مقصد ہے بطور پاکستانی کے۔ پاکستان کی اساس اِس پر ہے۔ پاکستان کی اساس اِس پر ہے، پاکستان کے دستور کی اِساس اس پر ہے۔ پاکستان کے استحکام اور بقا کی اساس اِس پر ہے۔ یہ ہمارا مشترکہ کام ہے لیکن ڈاکٹر صاحب نے اس محاذ پر جو مسلسل تگ و دو کی ہے، محنت کی ہے، میں بھی اس تحریک کا ایک کارکن ہوں، اپنے اپنے دائرے میں ہم سب کارکن ہیں۔ تو میری دلچسپی کا ایک پہلو تو یہ تھا کہ ہم ایک ملّی تحریک کے کارکن ہیں، کام کرنے والے ہیں اور مختلف دائروں میں کام کر رہے ہیں۔ ہم اکٹھے بھی ہوتے تھے، الگ الگ بھی کرتے تھے کام۔

ڈاکٹر صاحبؒ کے ساتھ میری نیاز مندی اور تعلق کی ایک وجہ یہ بھی تھی کہ انہوں نے آج کے دور میں خلافت کا نام زندہ رکھا، جو ہم بھول گئے ہیں۔ ہمارا اسلام کا پولیٹیکل سسٹم تو خلافت ہے۔ ہماری اپنی اصطلاح جو ہے، اگر ہم اپنے سیاسی نظام کو پولیٹیکل سسٹم کو مستعار اصطلاحات کی بجائے اپنی اصطلاح میں بیان کریں تو وہ خلافت ہے۔ اور خلافت کوئی شرمندگی کا عنوان نہیں، فخر کا عنوان ہے۔ خلافت کا ایک ہزار سال کا رول جو ہے کوئی شرمندگی کی بات نہیں ہے کہ ہم نام لیتے ہوئے شرمائیں۔ خلافت کے مختلف ادوار، افراد ضرور اِدھر اُدھر کے کمزور آتے رہے ہوں گے، لیکن خلافت بحیثیت خلافت، اس کا جو رول ایک ہزار سال اور بارہ سو سال تک رہا ہے وہ ہمارے لیے فخر کی بات ہے اور ہمارا ماضی ہے۔ مجھے ڈاکٹر صاحب کے ساتھ اس حوالے سے بھی تعلق تھا اور ان سے انس تھا کہ خلافت کا نام، خلافت کی اصطلاح، خلافت کا جھنڈا، وہ نعرہ لگاتے رہتے تھے۔ اور دنیا میں بیسیوں گروہ ہیں، میں واقف ہوں اکثر سے، دنیا کے مختلف حصوں میں جو خلافت کے عنوان سے، خلافت کے پرچم تلے، خلافت کے ٹائٹل کے ساتھ دینی تحریک کا کام کر رہے ہیں۔ بہرحال میری ایک مناسبت کی وجہ یہ بھی تھی کہ انہوں نے ہماری اصل اصطلاح کو اور ہمارے اصل ٹائٹل کو انہوں نے باقی رکھا ہوا ہے اور متعارف کراتے رہتے ہیں۔

ڈاکٹر صاحب کے ساتھ مناسبت کی ایک وجہ یہ بھی تھی کہ وہ قرآن پاک کے داعی تھے اور قرآن پاک کے فروغ میں ان کا ایک کردار تھا۔ آج سچی بات یہ ہے اگر ہم اپنی کمزوریوں، کوتاہیوں، سستیوں، بے پرواہیوں اور اپنے بہت سے پہلوؤں کو نظرانداز کرتے ہوئے عالمی تناظر میں قرآن پاک کی اہمیت اور قرآن پاک کے پیغام کو آج کے تناظر میں تھوڑا دیکھیں، اپنی سطحوں سے بالاتر ہو کر، تو آج کی دنیا کی سب سے بڑی ضرورت یہی ہے۔ اس کی ایک ہلکی سی جھلک، بالکل معمولی سی جھلک، آپ نے اخبارات میں پڑھا ہو گا، جس کا لیول یہ ہے، دنیا کی ضروریات کا اور قرآن پاک کے تعلق کا لیول یہ ہے۔ گزشتہ ہفتے نیویارک میں ماحولیات پر ایک بین الاقوامی کانفرنس ہوئی ہے۔ ایک چھوٹی سی خبر چھپی ہے، آپ کی نظر سے گزری ہو گی، ماحولیات پر کہ دنیا میں ماحولیاتی آلودگی اور ماحولیاتی حوالے سے تباہی کا دائرہ پھیلتا جا رہا ہے اور دنیا کو بچانا ہے۔ تو اس میں شہزادہ چارلس نے جو تقریر کی ہے، اس نے یہ جملہ کہا ہے کہ دنیا کو اگر ماحولیات کے حوالے سے تباہی سے بچانا ہے تو قرآن پاک کے احکام پر عمل کیے بغیر کوئی راستہ نہیں ہے۔ یہ بات نیویارک میں کہی جا رہی ہے اور آج کے ماحول میں کہی جا رہی ہے اور چارلس کہہ رہا ہے۔ میں اِس سے صرف لیول بتانا چاہ رہا ہوں کہ قرآن پاک کی دعوت کا لیول کیا ہے، قرآن پاک کے پیغام کی سطح کیا ہے اور اس کا رخ کیا ہے۔

ہم بہت اس سے اپنے اپنے دائروں میں محدود ہو کر قرآن پاک کی بات کرتے بھی ہیں تو بہت محدود دائروں میں کرتے ہیں۔ میں اپنے اس درد کے احساس کے ساتھ ڈاکٹر صاحبؒ کو خراجِ عقیدت پیش کرنا چاہوں گا کہ انہوں نے قرآن پاک کے عمومی پیغام کو اور قرآن پاک کی اس دعوت کو جو آج کی نسلِ انسانی کے لیے گلوبل ماحول میں ہے۔ اپنے اپنے دائروں میں تو ہم قرآن پاک کی بات کرتے ہی ہیں، اپنے اپنے رخ پر بھی کرتے ہیں، سب کچھ کرتے ہیں، سارے ہی کرتے ہیں، کوئی بھی ایسا نہیں کہ جو نہیں کرتا۔ لیکن آج کی گلوبل انسانی سوسائٹی کے ماحول میں قرآن پاک کی دعوت کا جو رخ ہے اس پر کام کرنے والے چند افراد میں ایک ڈاکٹر اسرار احمد صاحبؒ ہیں۔ اور میری ان سے مناسبت کی ایک وجہ یہ بھی تھی۔

ایک اور وجہ بھی ہے۔ ڈاکٹر صاحبؒ بھی فرمایا کرتے تھے بلکہ لکھا بھی ہے انہوں نے، کئی دفعہ گفتگو میں بات ہوئی۔ ہمارے ماضی کی ایک بڑی شخصیت گزری ہیں شیخ الہند مولانا محمود حسن رحمۃ اللہ علیہ۔ ڈاکٹر صاحبؒ فرمایا کرتے تھے کہ شیخ الہندؒ نے مالٹا کی اسارت سے واپسی پر جو دو نکاتی ایجنڈا پیش کیا تھا کہ قرآن پاک کی دعوت کو عام کرو اور مسلمانوں کے اختلافات کو کم سے کم کرنے کی کوشش کرو۔ ڈاکٹر صاحبؒ کہتے تھے کہ میں اس تحریک کا آدمی ہوں۔ ڈاکٹر صاحبؒ برملا کہتے تھے کہ میں شیخ الہندؒ کی اس فکر کا آدمی ہوں اور اس دائرے کا آدمی ہوں۔

میرا حال بھی تقریباً‌ یہی ہے، ابھی آتے ہوئے میرے میزبان جو مجھے یہاں لا رہے تھے، انہوں نے پوچھا آپ کس گروپ کے آدمی ہیں؟ مہربان دوست ہیں۔ آپ کس گروپ کے ہیں؟ ان سے تو میں نے کہا میں کسی گروپ کا نہیں ہوں۔ آپ فلاں جماعت کے کس گروپ کے ہیں؟ میں نے کہا میں کسی گروپ کا نہیں ہوں۔ میں تو جو دین کا کام کرتا ہے اس کا ساتھی ہوں اور جھگڑنے والوں سے دو میل دور رہتا ہوں، لڑائیوں جھگڑوں سے دو میل دور رہتا ہوں۔ اور جہاں بھی دین کا کوئی کام نفاذِ شریعت کے حوالے سے، یا تحریک ختمِ نبوت کے حوالے سے، یا دینی اقدار کی سربلندی کا، جو بھی ملک میں کام کر رہا ہے میں کوشش کرتا ہوں اس سے تعاون کروں۔ میرا گروپ یہ ہے۔ لیکن اب مجھے یہ بات کہنے میں کوئی حجاب نہیں ہے، میں بھی شیخ الہندؒ کے گروپ کا ہی ہوں۔ فکری طور پر اگر مجھے کوئی پوچھے کہ تم فکری اور نظریاتی طور پر کس دائرے میں ہو؟ تو میرا ذہن وہیں جاتا ہے کہ میں بھی خود کو تحریکِ شیخ الہندؒ کا ایک کارکن سمجھتا ہوں۔

ڈاکٹر صاحبؒ کے ساتھ اپنی مناسبت کے اور اپنی نیاز مندی کے مختلف پہلو میں نے ذکر کیے۔ ڈاکٹر صاحبؒ نے بڑی بھرپور زندگی گزاری ہے، بڑی متحرک زندگی گزاری ہے، بیماری کے باوجود، علالت کے باوجود، بہت سے عوارض کے باوجود، آخر وقت تک وہ اپنے مشن پر کاربند رہے ہیں۔ اور ان کی جدوجہد کو خراجِ عقیدت پیش کرتے ہوئے ہمارے لیے بھی راستہ یہی ہے کہ ہم ان کی استقامت سے، ان کی اپنے موقف کے ساتھ کمٹمنٹ سے، اور ان کے ویژن سے جو دنیائے اسلام کے لیے اور پوری دنیا کے حوالے سے تھا، اس ویژن کے ساتھ اپنے تعلق کا اظہار کریں اور کوشش کریں کہ یہ مشن جاری رہے اور اس مشن میں ہمارا بھی کچھ نہ کچھ حصہ پڑتا رہے۔ ان گزارشات کے ساتھ میں اجازت چاہتا ہوں۔ وآخر دعوانا ان الحمد للہ رب العالمین۔

https://www.facebook.com/share/v/1BdUmpnMxs

2016ء سے
Flag Counter