تدریس حدیث کے چند اہم تقاضے

   
تاریخ: 
۱۵ فروری ۲۰۰۹ء

(۱۵ فروری ۲۰۰۹ء کو الشریعہ اکادمی میں ’’عصر حاضر میں تدریس حدیث کے تقاضے‘‘ کے موضوع پر منعقدہ سیمینار سے خطاب)

یہ سیمینار جو ’’عصر حاضر میں تدریس حدیث کے اہم تقاضے‘‘ کے زیرعنوان منعقد ہو رہا ہے، اس میں اپنے معزز مہمان جناب حضرت مولانا مفتی برکت اللہ صاحب کو، جو ورلڈ اسلامک فورم کے سیکرٹری جنرل اور لندن کے معروف علماء اور اہل دانش میں سے ہیں، اور حضرت مولانا مفتی محمد زاہد صاحب زید مجدہم کو جو جامعہ اسلامیہ امدادیہ فیصل آباد کے استاذ الحدیث اور ہمارے مخدوم و محترم حضرت مولانا نذیر احمد قدس سرہ کے فرزند ہیں، اور حضرت مولانا محمد رمضان علوی کو جو اسلام آباد کے بڑے علماء میں سے ہیں، میں ان سب کو خوش آمدید کہتا ہوں۔ آپ حضرات کا بھی خیرمقدم کرتا ہوں۔ اللہ تعالیٰ ہمارا مل بیٹھنا قبول فرمائے اور جس مقصد کے لیے جمع ہیں، اس میں کچھ مقصد کی باتیں کہنے سننے کی توفیق عطا فرمائے۔

تدریس حدیث کے حوالے سے، آج کے معروضی تناظر کے حوالے سے اپنے آپ کو بھی اور حدیث کے دوسرے اساتذہ کو بھی چند پہلوؤں کی طرف توجہ دلاؤں گا۔

  1. پہلی بات پرانی بھی ہے اور نئی بھی ہے:
    • امام بخاری ؒ نے حضرت علیؓ کا یہ قول تعلیقاً نقل کیا ہے کہ حضرت علی کرم اللہ وجہہ نے فرمایا ’’حدثوا الناس بما یعرفون اتحبون ان یکذب اللہ ورسولہ؟‘‘ کہ لوگوں کے سامنے حدیث ایسے بیان کرو یا وہ حدیث بیان کرو جو لوگوں کے معروفات و مسلمات کے دائرے میں ہو۔ ایسی بات مت کرو جس سے ان کے ذہن میں نفرت پیدا ہو اور وہ اللہ اور اس کے رسول کی تکذیب کی منزل پر چلے جائیں۔ یعنی معروفات کو سامنے رکھو اور اس کے مطابق حدیث کی بات کرو۔
    • ایک قول امام مسلمؒ نے مقدمہ میں حضرت عبداللہ بن مسعودؓ کا نقل کیا ہے، فرماتے ہیں ’’ما انت بمحدث قوما حدیثا لا تبلغہ عقولھم الا کان لبعضھم فتنۃ‘‘ اگر تم لوگوں کے سامنے کسی گروہ کے سامنے ایسی حدیث بیان کرو گے یا ایسے انداز سے بیان کرو گے کہ ان کی عقلوں کی جہاں تک رسائی نہیں ہے تو تمہارا یہ بیان کرنا ان میں سے بعض لوگوں کے لیے فتنہ بن جائے گا، آزمائش بن جائے گا۔
    • اس کے ساتھ حضرت ابوہریرہؓ کا ارشاد بھی ملا لیا جائے، وہ فرماتے ہیں کہ میں نے جناب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے جو کچھ سنا ہے وہ ’’وعائین‘‘ (دو برتن) ہیں۔ ایک برتن تو میں نے تمہارے سامنے پھیلا دیا ہے، اور اگر دوسرے کو بکھیروں تو میری یہ گردن کٹ جائے۔

    صحابہؓ میں حدیث کے تین بنیادی راویوں کے ان ارشادات کو سامنے رکھ کر یہ اصول اخذ ہوتا ہے کہ حدیث کو بیان کرنے میں اور اس کے انداز میں اس دور کے معروفات و مسلمات کو سامنے رکھنا ضروری ہوتا ہے۔ اور حدیث کو لوگوں کے ایمان میں اضافہ کا ذریعہ بننا چاہیے، اس میں تشکیک و شبہات کا ذریعہ نہیں بننا چاہیے۔

  2. میں بھی حدیث کا ایک پرانا طالب علم ہوں، پڑھتے پڑھاتے نصف صدی گزر گئی ہے۔ جب ہم حدیث پڑھا رہے ہوں تو جس طرح پبلک کے ایک اجتماع میں حدیث بیان کرتے ہوئے پبلک کی ذہنی نفسیات اور ذہنی سطح اور اس کے معروفات و مسلمات کو سامنے رکھنا ضروری ہے، اسی طرح ہمارے سامنے جو کلاس بیٹھی ہے، اس کی ذہنی سطح کو بھی سامنے رکھنا ضروری ہے کہ یہ کلاس کس لیول ہے، کون سی بات ان کے ذہن میں جائے گی اور کون سی نہیں جائے گی۔ کیونکہ آج ہمارے سامنے جو طلبہ حدیث پڑھنے بیٹھتے ہیں، ان کا لیول آج سے پچاس سال پہلے والا نہیں ہے۔ چالیس پچاس سال پہلے ہوتا یہ تھا کہ سامنے بیٹھے ہوئے طلبہ کی اکثریت مطالعہ کر کے آتی تھی۔ استاد کو بس اشارہ کرنا پڑتا تھا۔ استاد روایت سناتا اور اشارہ دیتا تھا۔ ایک دن میں بیس بیس صفحے ویسے ہی نہیں پڑھے جاتے تھے۔ ایک روایت پڑھی گئی ہے جو طلبہ کے ذہن میں پہلے سے ہے، استاد نے اشارہ کر دیا کہ یہ بات یوں ہے، بس بات آگے نکل گئی۔ اب میرے خیال میں ایسا نہیں ہے۔

    میں عرض کیا کرتا ہوں کہ اب تو ہمارے سامنے بیٹھے ہوئے طلبہ اگر نفس حدیث سمجھ لیں کہ حدیث کیا کہتی ہے اور اس حدیث کا ترجمۃ الباب سے تعلق کیا ہے، بس وہ اتنی بات سمجھ لیں تو ان کی ہم پر بڑی مہربانی ہے کہ وہ نفس حدیث سمجھ گئے ہیں اور اس کا مضمون سمجھ گئے ہیں کہ کس مضمون کی یہ روایت ہے۔ یہ ہمارا المیہ ہے کہ ہمارا استعداد کا لیول کم ہوتے ہوتے اس مقام پر آگیا ہے، لیکن ہماری بیشتر تقریریں پچاس سال پہلے کی اسی سطح کی ہیں۔ اور یہ ایک عملی بات ہے جو میں محسوس کر رہا ہوں کیونکہ ہم نے اسٹڈی وہاں سے کی ہوئی ہے، لیکن سننے والے کا لیول اور فریکونسی اس سے نہیں ملتی۔ آج میرے نزدیک حدیث کی تدریس میں ترجیح یہ ہونی چاہیے کہ پہلے نفس حدیث سمجھائیں کہ حدیث کیا کہتی ہے اور مضمون کیا ہے، اس کے بعد اگر کوئی بات ضروری ہے تو ان کے فہم کے مطابق بیان کر دیں، ورنہ تکلف کی ضرورت نہیں ہے۔ چنانچہ ایک بات میں یہ عرض کرنا چاہوں گا کہ لوگوں کی ذہنی سطح، ان کے فہم کا دائرہ اور اس کا لیول ہمیں دیکھنا چاہیے اور کوشش یہ کرنی چاہیے کہ حدیث کے ساتھ ان کا فہم کا تعلق زیادہ سے زیادہ قائم ہو۔

  3. تیسری بات میں یہ عرض کرنا چاہوں گا کہ حضرت امام طحاویؒ ہمارے احناف کے بہت بڑے وکیل ہیں اور ان کی کتاب ’’شرح معانی الآثار‘‘ ہمارے مستدلات کا بھی اور استدلال کا بھی بہت بڑا ماخذ ہے، لیکن امام طحاوی ؒ نے شرح معانی الآثار لکھی کیوں تھی۔ انہوں نے اس کو لکھنے کی وجہ بھی بیان فرمائی ہے۔ مضمون اس کتاب کا یہی ہے کہ ترتیب سے احناف اور دوسرے فقہاء کا موقف اور اختلافی مسائل میں دلائل بیان کرتے ہیں، پھر استدلال و ترجیح ثابت کرتے ہیں۔ لیکن امام طحاوی ؒ اپنی کتاب کی وجہ تصنیف کیا بیان فرماتے ہیں کہ میں نے یہ کتاب کیوں لکھی ہے؟ وہ فرماتے ہیں:

    سالنی بعض اصحابنا من اہل العلم ان اضع لہ کتابا اذکر فیہ الآثار المذکورۃ عن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فی الاحکام التی یتوہم اہل الالحاد والضعفۃ من اہل الاسلام بعضہا ینقض بعضاً، لقلۃ علمھم بناسخہا من منسوخہا وما یجب العلم منہا لما یشہد لہ من الکتاب الناطق والسنۃ المجتمع علیھا۔

    کہتے ہیں کہ کتاب میں نے اس لیے لکھی کہ فقہاء کے اختلاف کے حوالے سے جو مختلف احادیث لوگوں کے سامنے آتی ہیں تو عام آدمی کا یہ تاثر بنتا ہے کہ حدیثوں میں بہت تناقض ہے، بہت تعارض ہے۔ ایک بات میں دس دس حدیثیں متعارض ہیں، اس لیے عام کمزور مسلمان تشویش میں پڑتا ہے اور ملحدین اس سے فائدہ اٹھاتے ہیں۔ ایک مسئلہ میں دس حدیثیں مختلف آگئیں۔ ایک میں کچھ ہے اور دوسری میں کچھ ہے، تیسری میں کچھ ہے اور چوتھی میں کچھ ہے۔ اس سے عام کمزور آدمی سوچے گا کہ یہ کیا معاملہ ہے، مسئلہ ایک ہے اور حدیثیں اتنی اور بالکل متعارض ہیں۔ جبکہ ملحدین اس صورتحال سے فائدہ اٹھاتے ہیں کہ ان حدیثوں میں تعارض ہے۔ حالانکہ تناقض و تعارض نہیں ہے۔ تیئس سالہ زندگی میں پھیلی ہوئی حدیثیں ہیں، کوئی کسی موقع کی ہے، کوئی کسی موقع کی ہے، کسی کا پس منظر اور ہے، کسی کا پس منظر اور ہے، کسی کا محل اور ہے، کوئی پہلے کی ہے اور کوئی بعد کی ہے، کوئی ناسخ ہے کوئی منسوخ ہے۔ اصل قصہ یہ ہے کہ عام آدمی کہ چونکہ معلوم نہیں ہے، اس لیے وہ وہم میں پڑ جاتا ہے اور اس سے الحاد والوں کو فائدہ پہنچتا ہے کہ حدیث سے لوگوں کا اعتماد ختم کریں۔ تو امام طحاویؒ کہتے ہیں کہ میں نے مختلف احادیث کو الگ الگ محل کے ساتھ بیان کر کے اور ترجیحات قائم کر کے اس تاثر کو ختم کرنے کی کوشش ہے کہ حدیثوں میں تعارض ہے ۔ امام طحاوی ؒ کہتے ہیں کہ میں نے یہ تاثر ختم کرنے کے لیے یہ کتاب لکھی ہے تاکہ تعارض کا تاثر ختم ہو اور یہ بتایا جائے کہ یہ حدیث اس موقع کی ہے اور اس کا محل یہ ہے۔ یہ راجح ہے اور یہ مرجوح ہے اور یہ ناسخ ہے اور یہ منسوخ ہے اور ہر حدیث اپنی جگہ صحیح ہے۔ میں نے یہ بتانے کی کوشش کی اور بڑی کامیابی سے بتائی بھی ہے۔ امام طحاوی ؒ کا یہ کمال ہے کہ بڑی کامیابی سے ایک واقعہ کی متعارض حدیثوں کا الگ الگ محل بیان کر کے انہوں نے یہ بتایا بھی ہے کہ شاید یہ چند حدیثیں منسوخ ہوں، باقی ساری راجح مرجوح ہوں یا اس میں ایک کا محمل یہ ہے، ایک کا یہ ہے۔

    میرے خیال میں اگر تیسری صدی ہجری میں یہ صورت حال تھی تو آج کی پندرہویں صدی میں بھی یہی صورت حال ہے اور اس سے کہیں زیادہ ہے۔ امام طحاوی ؒ تیسری صدی کے آخر اور چوتھی صدی ہجری کے آغاز کے بزرگ ہیں۔ اگر تیسری صدی کے آخر میں یہ صورت حال تھی کہ حدیثوں کا ظاہری تعارض اور ظاہری اختلاف و تناقض لوگوں میں شکوک و شبہات کا باعث بنتا تھا اور ملحدین کو فائدہ اٹھانے کا موقع ملتا تھا تو میرے خیال میں آج بھی تدریس میں اس ذوق کو سامنے رکھنے کی ضرورت ہے کہ ہم احادیث کے تعارض کو جھگڑے کے لیے استعمال نہ کریں۔ اس میں تطبیق اور ہم آہنگی کے پہلو کو نمایاں کرنے کی کوشش کریں جو ہمارے سب سے بڑے امام، امام طحاویؒ کا موقف ہے۔

  4. چوتھی بات حضرت شاہ ولی اللہؒ کے حوالے سے کروں گا۔ حضرت شاہ ولی اللہ کے نزدیک تو حدیث کا بالکل ایک الگ تصور ہے، کہتے ہیں کہ حدیث تمام علوم دینیہ کا ماخذ اور سرچشمہ ہے۔ حتیٰ کہ قرآن کا ماخذ بھی حدیث ہے۔ یہ بات کہ قرآن کی فلاں آیت قرآن کی ہے، ہمارے پاس اس کی دلیل حدیث ہی ہے۔ یوں سمجھ لیجیے کہ شاہ صاحب فرما رہے ہیں کہ حدیث Raw material (عمومی مال کا ذخیرہ) ہے کہ اس سے قرآن بھی مستنبط ہوتا ہے، سنت بھی مستنبط ہوتی ہے، اور فقہ بھی مستنبط ہوتی ہے۔ اصل ماخذ اور اساس علم حدیث ہے۔ شاہ صاحب ؒ کہتے ہیں کہ اس سے تمام علوم مستنبط ہوتے ہیں۔ شاہ صاحب ؒ کے نزدیک حدیث کا درجہ تو یہ ہے کہ قرآن پاک کی تشریح بھی ہے اور قرآن پاک کا ماخذ بھی ہے۔ شاہ صاحب نے ؒ اپنی کتاب ’’حجۃ اللہ البالغہ‘‘ میں، جو علم اسرار دین پر لکھی ہے، علم اسرار دین کو علم حدیث کا شعبہ بتایا ہے۔ علم حدیث کے چار شعبے کیے ہیں، چوتھا شعبہ ان میں اسرار دین اور علم حکمت ہے۔

    شاہ صاحب فرماتے ہیں کہ آج کے دور میں اور آئندہ دور میں علماء پر واجب کیا ہے؟ فرماتے ہیں کہ قرآن کریم کے اعجاز کا ایک پہلو یہ تھا کہ قرآن فصاحت و بلاغت میں تمام کلاموں سے برتر ہے۔ یہ کلام الملوک ملوک الکلام، بادشاہ کا کلام ہے اور بادشاہی درجہ کا ہے۔ فصاحت و بلاغت میں اللہ تعالیٰ کا کلام تمام کلاموں میں برتر ہے۔ کہتے ہیں کہ ایک دور وہ تھا جو گزر گیا کہ لوگوں نے دلائل دیے، کوئی دلائل کا جواب نہیں دے سکا۔ قرآن کریم کے مقابلہ میں کوئی نہیں آیا۔ لیکن قرآن پاک کے اعجاز کا ایک دوسرا پہلو بھی ہے جس کے بارے میں شاہ صاحب فرماتے ہیں کہ آئندہ زمانے میں بات کرنے کی ضرورت ہے۔ وہ یہ کہ قرآن کریم نے سوسائٹی کے لیے جو ضوابط و قوانین پیش کیے ہیں، سوسائٹی کے مصالح کے پیش نظر، سوسائٹی کی ضروریات کے پیش نظر، ایسے مکمل ضوابط اور قوانین کوئی نہیں پیش کر سکتا۔ کسی انسان کے بس کی بات نہیں ہے کہ وہ قرآن کریم جیسے قوانین اور جناب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم جیسے احکام و ضوابط وضع کرے جو سوسائٹی کے منافع کے لیے ہوں، فوائد کے لیے ہوں۔ مصلحت کے اعتبار سے، سوسائٹی کی ضروریات کے اعتبار سے جتنا مکمل قانون قرآن کریم کا ہے اور جناب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ہے، دنیا میں کوئی اور نظام اور قانون اس کا مقابلہ نہیں کر سکتا۔ شاہ صاحب فرماتے ہیں:

    وجب ان یکون فی الائمۃ من یوضح وجوہ ہذا النوع من الاعجاز والآثار الدالۃ علی ان شریعتہ صلی اللہ علیہ وسلم اکمل الشرائع وان اتیان مثلہ بمثلہا معجزۃ عظیمۃ کثیرۃ مشہورۃ‘۔

    یعنی علماء پر واجب ہے کہ قرآن پاک اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشادات اور قوانین کی حکمت، ان کی فلاسفی، ان کا نفع، ان کی مصلحت، سوسائٹی کے لیے ان کی ضرورت، اور سوسائٹی میں اس کے اثرات، یہ واضح کیے جائیں۔ آج کی یہ ضرورت ہے۔ میں سمجھتا ہوں کہ حدیث پڑھنے پڑھانے والے کو شاہ صاحب کا یہ سبق بھی، اگرچہ تین سو سال کے بعد ہے، یاد کر لینا چاہیے کہ حدیث بیان کرتے ہوئے ہم آج کے زمانے کے مطابق اس پہلو کو ٹچ کریں کہ اس پر عمل نہ کرنے کا یہ نقصان ہے اور عمل کرنے کا یہ فائدہ ہے۔ تو یہ حکمت اور اس کی لم و سر بیان کرنا، یہ بھی تدریس حدیث کی ضروریات میں ہے۔

  5. ایک بات مزید کہہ کر میں اپنی بات ختم کروں گا کہ حدیث کی تدریس کے تقاضوں میں ایک تقاضا میری طالب علمانہ رائے میں یہ بھی ہے کہ آج کی جدید تحقیقات کو سامنے رکھا جائے۔ حدیث کے مدرس کو جدید تحقیقات کا مطالعہ کرنا چاہیے اور تطبیق دینی چاہیے۔ بیسیوں باتیں آپ کو ملیں گی۔ میں مثال کے طور پر عرض کرتا ہوں کہ کچھ دن پہلے یہ حدیث اتفاق سے سبق میں آگئی کہ جناب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ ماں کے پیٹ میں نطفہ چالیس دن ٹھہرتا ہے، پھر علقہ ہوتا ہے، پھر مضغہ ہوتا ہے۔ فرشتہ تو پہلے دن سے ہی مقرر ہو جاتا ہے۔ جب سے نطفہ ٹھہرتا ہے، پہلے دن ہی فرشتے کی ڈیوٹی لگ جاتی ہے۔ وہ رپورٹ دیتا رہتا ہے کہ اے اللہ چالیس دن گزر گئے، اے اللہ دوسرا چلہ گزر گیا۔ اس کے بعد روح کا تعلق جوڑنے سے پہلے اللہ پاک کچھ چیزوں کو لکھواتے ہیں اور اس کی فائل بنتی ہے کہ رزق کتنا ہے؟ عمر کتنی ہے؟ اس کی صحت، سقم کیا ہے؟ شقی ہے یا سعید؟ کس کیٹگری کا ہے اور کس کھاتے میں جائے گا۔ یہ کچھ سوالات وہاں لکھوائے جاتے ہیں اور یہ فائل روح کا کنکشن دینے سے پہلے بنتی ہے۔ پوری زندگی کا پروگرام لکھوایا جاتا ہے اور پھر روح کا تعلق جسم کے ساتھ جوڑنے کا آرڈر ہوتا ہے۔ میں نے اس پر کہا کہ بات سنو، آج کی سائنس کہتی ہے کہ انسان کے جین میں اس کا پروگرام فیڈ ہے، ہماری رسائی ہو گئی ہے مگر پڑھ نہیں پا رہے ہیں، جس دن پڑھ لیا تو اس دن پتہ چل جائے گا کہ اس کے دسویں سال میں کیا ہونا ہے اور چالیسویں سال میں کیا ہونا ہے، یوں ہم بہت سا بندوبست پہلے سے کر لیں گے۔ تو کیا جناب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشاد کا اعجاز نہیں ہے کہ آپ نے یہ بات چودہ سو سال پہلے فرما دی تھی کہ بھئی سارا پروگرام پہلے بن جاتا ہے، فیڈ ہو جاتا ہے اور فائل بن جاتی ہے۔ میں سمجھتا ہوں کہ آج کی جدید تحقیقات کو سامنے رکھنا اور طلبہ کو ان سے متعارف کرانا، اس سے حدیث پر ایمان بھی بڑھے گا اور تفہیم بھی بڑھے گی۔

میں نے زیادہ لمبی بات نہیں کی، تین چار اشارے دیے ہیں۔ اب میں چاہتا ہوں کہ معزز مہمانان گرامی زیادہ تفصیل سے آپ سے مخاطب ہوں۔

2016ء سے
Flag Counter