معاشرے کے خصوصی افراد

   
تاریخ: 
۲۹ اپریل ۲۰۱۴ء

۲۹ اپریل کو ضلع کونسل ہال گوجرانوالہ میں ’’معاشرے پر خصوصی افراد کے حقوق‘‘ کے عنوان سے سیمینار تھا جس کا اہتمام ’’سپیشل پرسنز فرینڈ شپ سوسائٹی‘‘ (تحریک برائے بحالی خصوصی افراد) نے کیا تھا۔ خصوصی افراد سے مراد جسمانی طور پر معذور شہری ہیں جن کے حقوق اور بحالی کے لیے یہ رجسٹرڈ تنظیم کچھ عرصہ سے کام کر رہی ہے۔ اس کے سرپرست اعلیٰ اعجاز احمد تارڑ، صدر محمد زبیر شیخ اور سیکرٹری جنرل کاشف رؤف اپل ہیں، جبکہ سینئر نائب صدر جامعہ نصرۃ العلوم کے شعبہ تجوید کے سربراہ مولانا قاری سعید احمد ہیں جن کی سرگرمیاں دیکھ کر مولانا محمد اسلم شیخوپوری رحمہ اللہ تعالیٰ کا چہرہ نگاہوں کے سامنے گھوم جاتا ہے کہ بالکل انہی کی طرح جسمانی طور پر معذور ہیں اور ان کی طرح ہی ہر وقت متحرک اور سرگرم رہتے ہیں۔ اس موقع پر مقابلہ حسن قراء ت کا بھی اہتمام کیا گیا جس میں بہت سے بچوں نے حصہ لیا اور پوزیشن حاصل کرنے والے طلبہ کو اعزازی شیلڈز سے نوازا گیا۔ سیمینار سے مولانا عبد الواحد رسول نگری، میاں عطاء الرحمن اور دیگر حضرات کے علاوہ محکمہ سوشل ویلفیئر کے ڈپٹی ڈائریکٹر ڈاکٹر زبیر احمد نے بھی خطاب کیا۔ جبکہ راقم الحروف نے بھی کچھ معروضات پیش کیں جن کا خلاصہ درج ذیل ہے۔

بعد الحمد والصلوٰۃ۔ معاشرے کے خصوصی افراد کے حقوق کے لیے منعقد ہونے والے اس سیمینار میں حاضری میرے لیے سعادت کی بات ہے کہ اس مقدس مہم کے لیے کام کرنے والے بھائیوں اور بہنوں کے ساتھ کچھ وقت گزارنے، ان کے کام کو دیکھنے اور اس سے واقف ہونے کا موقع ملا ہے۔ یہ اللہ تعالیٰ کی تقسیم ہے اور اس کی حکمت ہے جسے وہ ہی بہتر جانتا ہے کہ ہمارے بہت سے بھائی جسمانی لحاظ سے معذور پیدا ہوتے ہیں یا معذور ہو جاتے ہیں۔ لیکن وہ بھی سوسائٹی کا حصہ ہوتے ہیں اور ہمارے جیسے ہی ہوتے ہیں۔ ان کی بنیادی ضروریات اور احساسات ہم سے مختلف نہیں ہوتے۔ اس لیے سوسائٹی کی اجتماعی ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ ان کا خیال رکھے اور ان میں احساس محرومی نہ پیدا ہونے دے۔ اس حوالہ سے اس اجتماع میں جو تجاویز پیش کی گئی ہیں اور حکومت سے جو مطالبات کیے گئے ہیں، میں ان سب کی تائید کرتا ہوں، لیکن اپنے سپیشل دوستوں سے عرض کرنا چاہتا ہوں کہ وہ عزم و ہمت سے کام لیں اور سہولتوں پر بھروسہ کرنے کی بجائے خود آگے بڑھنے کی کوشش کریں۔ اس سلسلہ میں اپنے ایک احساس کا تذکرہ کرنا مناسب سمجھتا ہوں۔

میں کبھی کبھی سوچتا ہوں کہ اللہ رب العزت نے انسان کو جسمانی اعضا کی صورت میں بڑی بڑی نعمتوں سے نوازا ہے۔ جسمانی اعضا قدرت کا بیش بہا عطیہ ہیں جن میں کسی ایک کی بھی کوئی قیمت نہیں ہے۔ لیکن ان اعضا کے ساتھ قدرت نے انسان کو جس عزم و حوصلہ اور قوت ارادی سے بہرہ ور کیا ہے وہ ان سے کہیں زیادہ قیمتی ہے اور ان سے کہیں زیادہ طاقت ور ہے۔ کبھی خیال آتا ہے کہ یہ اعضا زیادہ مؤثر ہیں یا ان کے پیچھے جو قوت ارادی ہوتی ہے وہ زیادہ کارگر ہوتی ہے۔ تو تجربہ اور مشاہدہ یہ بتاتا ہے کہ قوت ارادی اور عزم و حوصلہ کی طاقت سب سے زیادہ ہے۔ اس لیے کہ بہت سے انسان جسمانی اعضا کی صحت سے مالامال ہوتے ہیں اور کسی بھی حوالہ سے کوئی جسمانی کمزوری ان میں دکھائی نہیں دیتی، لیکن وہ قوت ارادی مضبوط نہ ہونے کی وجہ سے اور عزم و حوصلہ کی کمزوری کے باعث کچھ نہیں کر پاتے۔ جبکہ بہت سے لوگوں کو ہم دیکھتے ہیں کہ وہ جسمانی طور پر معذور ہوتے ہیں، اور بظاہر کچھ بھی کرنے کی پوزیشن میں دکھائی نہیں دیتے مگر اپنی قوت ارادی اور حوصلہ و عزم کے باعث بہت کچھ کر گزرتے ہیں، اور ان کی قوت کارکردگی دیکھ کر حیرت ہوتی ہے۔

اس لیے میں سمجھتا ہوں کہ اعضا کی صحت بھی بہت بڑی نعمت ہے، لیکن عزم و حوصلہ اور قوت ارادی ان سے بھی بڑی نعمتیں ہیں جنہیں کام میں لا کر جسمانی کمزوریوں پر قابو پایا جا سکتا ہے۔ انسان بہت کمزور بھی ہے اور انسان بہت طاقت ور بھی ہے۔ اگر اس کے عزم و حوصلہ کا رخ کمزوری کی طرف ہے تو اس سے زیادہ کمزور کوئی نہیں ہے۔ اور اگر اس کی قوت ارادی عزم و ہمت کی طرف متوجہ ہے تو اس سے زیادہ طاقت ور بھی کوئی نہیں ہے۔ اللہ تعالیٰ نے انسان کو عزم و حوصلہ کی صورت میں بہت بڑی قوت عطا فرمائی ہے اور اسے کام میں لا کر انسان بڑی سے بڑی کمزوری پر قابو پا سکتا ہے۔

اس کے ساتھ ہی ان دوستوں کے سامنے ایک واقعہ بیان کرنا چاہوں گا جو معروف محدث و مؤرخ خطیب بغدادیؒ نے اپنی کتاب الفقیہ والمتفقہ میں ذکر کیا ہے کہ قاضی اوقصؒ نام کے ایک بزرگ اسلامی تاریخ کے بڑے قاضیوں میں شمار ہوتے ہیں۔ ان کا نام محمد بن عبد الرحمنؒ تھا اور وہ قاضی اوقصؒ کے نام سے متعارف تھے۔ شکل و صورت اور جسمانی ساخت کے لحاظ سے ان کی پوزیشن ایسی تھی کہ مشکل سے ہی کوئی صاحب ان کے پاس بیٹھنا گوارا کرتے تھے۔ وہ اپنا واقعہ بیان کرتے ہیں کہ میں پیدائشی طور پر ہی ایسا تھا، لیکن میری ماں بہت سمجھدار تھی، میں نے جب سوچنا سمجھنا شروع کیا تو مجھے ایک دن بٹھا کر سمجھایا کہ بیٹا! اللہ تعالیٰ نے تمہیں شکل و صورت اور جسمانی ساخت ایسی دی ہے کہ کوئی شخص شاید تمہارے پاس بیٹھنا بھی گوارا نہ کرے، اس لیے میری یہ بات مان لو کہ علم دین کے حصول کے لیے خوب محنت کرو۔ اس لیے کہ علم ایسی دولت ہے جو سارے عیوب اور کمزوریوں پر پردہ ڈال دیتی ہے۔ مجھے ماں کی یہ بات سمجھ آگئی، میں نے خود کو علم کے حصول کے لیے وقف کر دیا اور فقہ اسلامی میں اتنا عبور حاصل کیا کہ آج میں قاضی ہوں جبکہ جن لوگوں کے بارے میں یہ سمجھا جاتا تھا کہ وہ میرے ساتھ بیٹھنا بھی گوارا نہیں کریں گے، وہ میرے پاس اپنے تنازعات لے کر آتے ہیں اور میں ان کے فیصلے کرتا ہوں۔

قاضی اوقصؒ کے اس سبق آموز واقعہ کے حوالہ سے میں آپ حضرات سے عرض کرنا چاہتا ہوں کہ اپنے لیے سہولتوں کا تقاضہ ضرور کریں اور حقوق کے مطالبات بھی کریں، لیکن اگر علم اور ہنر کو اپنی منزل بنا لیں اور عزم و حوصلہ سے کام لیں تو معاشرے میں آپ کو وہ مقام حاصل ہوگا کہ کسی سے کچھ مانگنے کی ضرورت ہی نہیں پڑے گی۔ اس لیے میں آج کی اس تقریب کی تمام تجاویز اور مطالبات کی تائید کرنے کے ساتھ ساتھ سوسائٹی کے سپیشل افراد سے یہ عرض کرتا ہوں کہ ان کی اصل طاقت عزم و حوصلہ اور قوت ارادی ہے اور ان کا سب سے بڑا ٹارگٹ علم و ہنر ہونا چاہیے۔ اگر وہ اس بات کو قاضی اوقصؒ کی طرح سمجھ لیں تو لوگ خودبخود ان کے پاس آئیں گے اور سوسائٹی بھی ان کا حقیقی مقام انہیں دینے پر مجبور ہو جائے گی۔ اللہ تعالیٰ ہم سب کو عزم و ہمت اور علم و ہنر کی دولت سے مالامال فرمائیں۔ آمین یا رب العالمین۔

(روزنامہ اسلام، لاہور ۔ ۲ مئی ۲۰۱۴ء)
2016ء سے
Flag Counter