بت شکنی اور طالبان حکومت کا موقف

   
تاریخ : 
اپریل ۲۰۰۱ء

عید الاضحٰی کے بعد پاکستان شریعت کونسل کے امیر حضرت مولانا فداء الرحمان درخواستی کے ہمراہ قندھار جانے کا اتفاق ہوا اور طالبان حکومت کے سربراہ امیر المومنین ملا محمد عمر اور دیگر سرکردہ حضرات سے ملاقات و گفتگو کا موقع ملا۔ امیر محترم کے فرزند مولانا رشید احمد درخواستی بھی ہمارے ساتھ تھے، اور ہمارا قیام قندھار کے کور کمانڈر ملا اختر عثمانی کے ہاں تھا جو مدرسہ نصرۃ العلوم گوجرانوالہ میں دورۂ تفسیر قرآن کریم میں شریک رہ چکے ہیں۔

ان دنوں قندھار میں قطر اور مصر کے بعض سرکردہ علماء کرام کا وفد بھی آیا ہوا تھا جو طالبان حکومت کو یہ سمجھانا چاہتے تھے کہ بتوں کو مسمار کرنے کا جو عمل آپ لوگوں نے شروع کر رکھا ہے وہ مصلحت کے خلاف ہے۔ ان علماء کی امیر المومنین سے ملاقات نہیں ہو سکی البتہ افغانستان کی سپریم کورٹ کے چیف جسٹس مولوی نور محمد ثاقب سے ان کے مذاکرات ہوئے مگر وہ افغان حکّام کو اپنے موقف پر قائل نہ کر سکے۔ مولوی نور محمد ثاقب افغانستان کے سرکردہ علماء کرام میں شمار ہوتے ہیں اور مدرسہ انوار العلوم گوجرانوالہ میں تعلیم حاصل کرتے رہے ہیں۔

قریبی حلقوں کے مطابق مولوی نور محمد ثاقب صاحب نے عرب علماء سے دریافت کیا کہ ایک اسلامی ریاست میں کھلے بندوں بت اور مجسمے نصب ہوں تو اسلامی حکومت کی ذمہ داری کیا ہے؟ جواب میں عرب علماء نے کہا کہ شرعاً ایسے بتوں اور مجسموں کو توڑنا اسلامی حکومت پر واجب ہے۔ افغانستان کے قاضی القضاۃ نے دریافت کیا کہ اگر ان بتوں کو مسمار کرنا واجب ہے تو پھر آپ حضرات ہمیں اس عمل سے رک جانے کا مشورہ کیسے دے رہے ہیں؟ انہوں نے بتایا کہ ہم مصلحت کی خاطر یہ کہہ رہے ہیں۔ اس پر مولوی نور محمد ثاقب نے یہ بصیرت افروز جواب دیا کہ شرعی واجبات میں کسی اور مصلحت کا لحاظ نہیں ہوتا بلکہ شریعت کے فرائض اور واجبات خود مصلحت پر مبنی ہوتے ہیں۔

چنانچہ وفد طالبان کو حکومت کو قائل نہ کر سکا اور بے نیل مرام واپس لوٹ گیا۔ امیر المومنین ملا محمد عمر حفظہ اللہ تعالیٰ وایدہ اللہ بنصرہ العزیز سے ہماری ملاقات ہوئی تو اس میں مولوی نور محمد بھی شریک تھے اور انہوں نے امیر المومنین کو اس موقع پر عرب علماء سے گفتگو کی کچھ تفصیل سنائی۔ جس پر امیر المومنین نے کہا کہ یہ بات غلط ہے کہ ان بتوں کی پوجا نہیں ہوتی تھی اور یہ محض نمائش اور یادگار کے لیے تھے، اس لیے کہ پوجا اور عبادت صرف سامنے آ کر سر جھکانے کا نام نہیں بلکہ ہزاروں میل دور اُن کے لیے تعظیم اور محبت کے وہ جذبات بھی عبادت کے زمرہ میں آتے ہیں جو خالقِ کائنات کی ذاتِ گرامی کے ساتھ مخصوص ہیں۔ اس موقع پر انہوں نے یہ بھی کہا کہ ہم سمجھتے ہیں کہ اختیار ملنے کے بعد ان بتوں کو مسمار کرنے میں ہم نے جو تاخیر کی ہے وہ ہماری غلطی ہے اور اسی وجہ سے دو برس سے بارش نہیں ہو رہی تھی، اور اب جبکہ ہم نے بتوں کو توڑنے کا عمل شروع کیا ہے تو پورے افغانستان میں بارانِ رحمت کا نزول ہو گیا ہے۔

ہم نے قندھار میں تین روزہ قیام کے دوران بطورِ خاص یہ بات محسوس کی کہ افغانستان کے خلاف اقوامِ متحدہ کی سلامتی کونسل کی پابندیوں سے افغان حکومت اور عوام کی مشکلات میں اضافہ ضرور ہوا ہے مگر ان کے چہروں پر اس سلسلہ میں پریشانی اور اضطراب کے اثرات نہیں ہیں بلکہ وہ پورے حوصلہ اور اعتماد کے ساتھ ان پابندیوں کو برداشت کرتے ہوئے نفاذِ اسلام کے عمل کو بہرحال مکمل کرنے کا عزم رکھتے ہیں۔ قارئین سے گزارش ہے کہ وہ آزمائش اور ابتلا کے اس نازک مرحلہ میں امارتِ اسلامی افغانستان کی حکومت کے لیے استقامت و کامیابی کی دعاؤں کا اہتمام کریں اور اس کے ساتھ ساتھ اپنے مظلوم افغان بھائیوں کی امداد اور معاونت کے لیے بھی ہر ممکن عملی صورت اختیار کریں۔

   
2016ء سے
Flag Counter