منکرات وفواحش کا فروغ اور ارباب دانش کی ذمہ داری

   
تاریخ : 
جولائی ۲۰۰۷ء

بنی اسرائیل کو اللہ تعالیٰ نے اپنے دور میں تمام لوگوں پر فضیلت عطا فرمائی تھی اور دنیا کی مذہبی قیادت و سیادت سے نوازا تھا، لیکن پھر انہی کو ملعون و مغضوب قرار دے دیا اور سورہ مائدہ کی آیت نمبر ۷۸ و ۷۹ کے مطابق اس کی ایک وجہ یہ بیان فرمائی ’’کانوا لا یتناہون عن منکر فعلوہ‘‘ کہ وہ ایک دوسرے کو اس برائی سے روکتے نہیں تھے جس کا وہ ارتکاب کرتے تھے۔ جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی متعدد احادیث میں یہ بات بیان فرمائی ہے کہ سوسائٹی میں منکرات کے ارتکاب پر باہمی روک ٹوک کا باقی رہنا ضروری ہے، ورنہ پوری سوسائٹی اللہ تعالیٰ کی طرف سے لعنت اور عذاب کی مستحق قرار پاتی ہے۔ امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کے جس فریضہ کا قرآن مجید نے بار بار تذکرہ کیا ہے، وہ سوسائٹی میں نیکی کے فروغ اور برائی کی روک تھام کی یہی مشترکہ ذمہ داری ہے۔ اسے اللہ تعالیٰ نے سورۃ الحج کی آیت ۴۱ میں مسلم حکمرانوں کی ذمہ داری کے طور پر بیان فرمایا ہے اور سورہ آل عمران کی آیت ۱۱۰ میں اسے امت کی عمومی ذمہ داریوں میں شمار کیا ہے، اس لیے معاشرہ میں نیکیوں کا فروغ اور برائیوں کی روک تھام جہاں حکومت کے فرائض کا حصہ ہے، وہاں عوام کے فرائض میں بھی شامل ہے اور سوسائٹی کے تمام طبقات درجہ بدرجہ اس بات کے لیے مسئول ہیں۔

جس طرح ایک انسانی جسم کے اندر فطری طور پر جو قوت مدافعت موجود ہوتی ہے، وہ اگر قائم رہے تو جسم بڑی سے بڑی بیماری کا مقابلہ کر لیتا ہے، لیکن اگر وہ قوت مدافعت مضمحل یا ختم ہو جائے تو چھوٹی سی بیماری سے نمٹنا بھی جسم کے لیے مشکل ہو جاتا ہے، یہی مثال سوسائٹی میں برائیوں پر باہمی روک ٹوک کے نظام کی ہے۔ اگر معروفات کی باہمی تلقین اور منکرات پر باہمی روک ٹوک کا سسٹم موجود ہے تو اس کا مطلب یہ ہے کہ سوسائٹی منکرات کا مقابلہ کرنے کی پوزیشن میں ہے اور خود کو ان سے محفوظ رکھنے کی صلاحیت رکھتی ہے، لیکن اگر یہ سسٹم کمزور پڑ جائے تو سوسائٹی کی قوت مدافعت کمزور پڑ جاتی ہے اور سوسائٹی خود کو کسی برائی سے محفوظ رکھنے کی صلاحیت سے محروم ہو جاتی ہے، اور اگر کسی سوسائٹی میں نیکیوں کی باہمی تلقین اور برائیوں پر باہمی روک ٹوک کا سسٹم سرے سے ختم ہو جائے تو اس کا مطلب یہ ہے کہ سوسائٹی نے برائیوں کو اجتماعی طور پر قبول کر لیا ہے اور یہی وہ مرحلہ ہوتا ہے جب کوئی قوم قرآن کریم کے ارشاد کے مطابق خدائی لعنت اور جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے بقول عمومی عذاب کی مستحق بن جاتی ہے۔

گزشتہ دنوں لال مسجد اسلام آباد کی انتظامیہ کے رضاکاروں نے مبینہ طور پر ایک قحبہ خانے پر چھاپہ مار کر وہاں کی انچارج خاتون کو حراست میں لے لیا اور ابھی چند روز قبل ایک مساج پارلر کے کارندوں کو حراست میں لینے کے بعد اسلام آباد انتظامیہ کی اس یقین دہانی پر انہیں آزاد کیا کہ اسلام آباد میں مساج پارلروں کو بند کر دیا جائے گا۔ اس پر ملک بھر میں یہ سوال کھڑا ہو گیا کہ کیا اس طرح پرائیویٹ طور پر احتساب کا نظام قائم کرنا اور قانون کو ہاتھ میں لے کر برائی کا ارتکاب کرنے والوں کے خلاف کارروائی کرنا درست عمل ہے؟ ملک بھر کے سنجیدہ حلقوں نے اس طرز عمل سے اختلاف کیا اور ہم نے بھی واضح طور پر عرض کیا کہ حکومت وقت کے ساتھ تصادم کا ماحول پیدا کرنا اور قانون کو ہاتھ میں لینا شرعاً، اخلاقاً اور قانوناً کسی بھی لحاظ سے درست طرز عمل نہیں ہے اور لال مسجد کی انتظامیہ کو زود یا بدیر اس طرز عمل پر نظر ثانی کرنا ہوگی، لیکن ہمارے خیال میں ابھی تک یہ بحث یک طرفہ طور پر چل رہی ہے اور معاملہ کے صرف ایک رخ پر مسلسل بات کی جا رہی ہے کہ برائیوں کی روک تھام کے لیے پرائیویٹ سطح پر کوئی کارروائی کرنا اور قانون کو ہاتھ میں لینا درست نہیں ہے، جبکہ اس معاملے کے دوسرے رخ پر توجہ دینے سے ہمارے دانش ور ابھی تک کترا رہے ہیں کہ معاشرہ میں منکرات کی روک تھام آخر کس کی ذمہ داری ہے؟ خصوصاً جب صورت حال یہ ہو گئی ہو کہ حکومتی ادارے فحاشی اور منکرات کی روک تھام کے لیے کوئی کردار ادا کرنے کے بجائے خود ان کے فروغ کا ذریعہ بن رہے ہوں، سیاسی اور دینی جماعتوں نے مکمل خاموشی اختیار کر رکھی ہو اور سماجی اداروں کے ایجنڈے میں بھی یہ بات شامل نہ ہو تو کیا عملاً یہی صورت نہیں بن جاتی کہ سوسائٹی نے برائی کو اجتماعی طور پر قبول کر لیا ہے اور اس کا کوئی طبقہ برائی کی روک تھام کے لیے کوئی کردار ادا کرنے کو تیار نہیں ہے؟ ہمارا یہ سوال ان طبقات اور ارباب دانش سے ہے جو قرآن و سنت میں امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کے حوالے سے موجود تعلیمات سے آگاہ ہیں کہ کیا منکرات و فواحش کے مسلسل فروغ پر سوسائٹی کی اجتماعی خاموشی کی صورت حال کو قبول کر لیا جائے اور ایسی صورت میں قرآن و سنت میں جو وعیدیں وارد ہوئی ہیں، انہیں یکسر نظر انداز کر دیا جائے؟ اور کیا ارشاد ربانی ’’کالذین نسوا اللہ فانساہم انفسہم‘‘ کا عملی منظر اسی طرح کا نہیں ہوتا؟

مساج پارلروں کا معاملہ ہی سامنے رکھ لیا جائے جن میں نوجوان اور نوعمر لڑکیاں مردوں کو مساج کرتی ہیں اور مساج کے نام پر بدکاری کا ایک وسیع نیٹ ورک کام کر رہا ہے۔ اسلامی جمہوریہ پاکستان کے دارالحکومت اسلام آباد میں اس قسم کے بدکاری کے اڈوں کی موجودگی، ان کا فروغ اور ان پر حکومتی اداروں، دینی و سیاسی جماعتوں کی خاموشی اور سماجی اداروں کی لا تعلقی اور بے حسی کا ایک انتہائی افسوس ناک منظر سامنے ہے۔ اس صورت حال میں اگر ہمارے دانش ور صرف لال مسجد کی انتظامیہ کو ہی کوستے چلے جائیں کہ وہ غلط کر رہے ہیں، انہیں قانون کو ہاتھ میں نہیں لینا چاہیے اور از خود کسی کارروائی سے گریز کرنا چاہیے تو ہمارے نزدیک یہ بات صحیح ہونے کے باوجود ادھوری اور یک طرفہ ہے۔

لال مسجد کی انتظامیہ کے طریق کار کو ہم بھی غلط سمجھتے ہیں جس کا ہم نے برملا اظہار کیا ہے، لیکن ہمارے نزدیک یہ رد عمل ہے منکرات و فواحش کے مسلسل فروغ پر حکومتی اداروں، دینی و سیاسی جماعتوں اور سماجی اداروں کی مجرمانہ خاموشی اور بے حسی کا جو منکرات و فواحش ہی کی طرح پیہم بڑھتی چلی جا رہی ہے۔ ہم ارباب فکر و دانش سے یہ عرض کرنا چاہیں گے کہ وہ لال مسجد کی انتظامیہ کو اس کے غلط طریق کار پر ضرور ٹوکیں اور انہیں سمجھائیں کہ برائی کو روکنے کا یہ طریقہ درست نہیں ہے، لیکن اس کے ساتھ ہمارے دانشوروں کی یہ ذمہ داری بھی ہے کہ وہ قوم کو بتائیں کہ مسلم معاشرے کو منکرات و فواحش سے پاک رکھنا کس طرح ممکن ہے اور برائیوں کی روک تھام کے لیے حکومتی اداروں، دینی و سیاسی جماعتوں اور سماجی اداروں کی ذمہ داری کیا ہے؟ ورنہ اگر برائیوں پر باہمی روک ٹوک کا نظام ختم ہونے پر بنی اسرائیل خدا تعالیٰ کی طرف سے لعنت کے مستحق ہو گئے تھے تو اللہ تعالیٰ کے اس قانون سے ہمارے لیے کوئی استثنا موجود نہیں ہے کہ جس جرم پر اللہ رب العزت نے بنی اسرائیل پر لعنت نازل فرما دی تھی، اسی جرم کے ارتکاب پر ہمیں وہ سزا نہیں دی جائے گی۔ اور پھر بات ’’سزا دی جائے گی‘‘ کی بھی نہیں ہے، ہم افراد سے لے کر قوم اور پوری ملت تک جس صورت حال سے دوچار ہو چکے ہیں، کیا اس کے بعد کسی اور لعنت کا انتظار باقی رہ گیا ہے؟ اللہ تعالیٰ ہمیں صورت حال کے صحیح ادراک کی توفیق سے نوازیں، آمین یا الٰہ العالمین۔

   
2016ء سے
Flag Counter