فہم قرآن کریم کی اہمیت اور اس کے تقاضے

   
۱۵ جون ۲۰۰۴ء

گزشتہ روز نماز مغرب کے بعد مسجد وکیلاں والی (سیٹلائیٹ ٹاؤن، گوجرانوالہ) میں ترجمہ قرآن کریم کے ایک کورس کی افتتاحی تقریب میں شرکت کا موقع ملا۔ مدرسہ مظاہر العلوم گوجرانوالہ کے استاد حدیث مولانا محمد داؤد نے اسکولوں اور کالجوں کی تعطیلات کے دوران نوجوانوں کے لیے اس خصوصی کورس کا اہتمام کیا ہے جس میں قرآن کریم کے منتخب حصوں کے ترجمہ کے ساتھ ساتھ ضروریاتِ دین اور عربی زبان کے بنیادی قواعد کی تعلیم دی جائے گی۔ شہر کے علمائے کرام، طلبہ، دینی کارکنوں، تاجروں اور وکلاء کی ایک بڑی تعداد نے تقریب میں شرکت کی اور شیخ الحدیث حضرت مولانا محمد سرفراز خان صفدر دامت برکاتہم نے دعا کے ساتھ کلاس کا افتتاح فرمایا۔ اس تقریب میں راقم الحروف کو فہم قرآن کریم کی اہمیت اور اس کے ضروری تقاضوں کے حوالے سے کچھ گزارشات پیش کرنے کا موقع ملا جن کا خلاصہ قارئین کی دلچسپی کے لیے پیش خدمت ہے۔

قرآن کریم اللہ تعالیٰ کا کلام ہے اور ہمارے لیے ہے۔ جب یہ بات بطور عقیدہ ہمارے ذہن میں آجاتی ہے تو اس کا لازمی تقاضا یہ ہوتا ہے کہ ہم اپنے لیے اللہ تعالیٰ کے اس پیغام کو سمجھنے کی کوشش کریں۔ کسی بھی پیغام کا پہلا حق یہی ہوتا ہے کہ اسے پڑھا جائے، سمجھا جائے اور پیغام بھیجنے والے کے مقصد سے آگاہی حاصل کی جائے۔ پیغام کسی دوست کا ہو، دفتری خط ہو، عدالتی سمن ہو، کاروباری لیٹر ہو حتیٰ کہ کسی دشمن کا پیغام بھی ہو تو منطقی طور پر اسے وصول کرنے والے کی پہلی ذمہ داری یہ ہوتی ہے کہ وہ اسے پڑھے اور سمجھے کہ پیغام بھیجنے والے نے اسے کیا کہا ہے اور اس سے کس بات کا تقاضا کیا ہے۔ زبان سے آگاہ نہ ہونا ان میں سے کسی پیغام کو سمجھنے میں رکاوٹ نہیں بنتا۔ اور اگر کسی شخص کو کوئی پیغام ایسی زبان میں ملا ہے جس سے وہ واقف نہیں ہے لیکن یہ اسے معلوم ہے کہ پیغام اسی کے نام ہے تو وہ زبان سے ناواقفیت کا بہانہ کر کے اس خط کو ایک طرف نہیں ڈال دے گا بلکہ زبان جاننے والے کو تلاش کرے گا اور جب تک اسے پیغام کی تفصیل معلوم نہیں ہو جائے گی اس خط کو وہ ادھر ادھر نہیں ہونے دے گا۔ مگر بدقسمتی سے وہ عذر جو کسی اور پیغام کے لیے ہم روا نہیں سمجھتے اسے ہم نے قرآن کریم کے لیے عملاً اختیار کر رکھا ہے۔ قرآن کریم کے بارے میں ہمارا عقیدہ یہ ہے کہ یہ اللہ تعالیٰ کا پیغام ہے، ہمارے خالق و مالک کا پیغام ہے، رازق و حاکم کا پیغام ہے اور ہمارے نام ہے۔ لیکن اسے سمجھنے کی طرف اس لیے توجہ نہیں دیتے کہ وہ عربی زبان میں ہے اور ہم عربی زبان سے ناواقف ہیں۔ یہ قرآن کریم کی حق تلفی ہے کیونکہ قرآن کریم کے ہمارے ذمے جو حقوق ہیں ان میں ایک یہ بھی ہے کہ ہم اسے سمجھیں اور اللہ تعالیٰ کے پیغام اور منشا سے آگاہی حاصل کرنے کی کوشش کریں۔

قرآن کریم کو سمجھنا ہماری ضرورت ہے اور یہ ضرورت بہت سے حوالوں سے ہے۔ ان میں سے بطور مثال ایک پہلو کا ذکر کرنا چاہوں گا۔ کچھ عرصہ پہلے کی بات ہے کہ بس میں سفر کرتے ہوئے ساتھ والی سیٹ پر بیٹھے ایک مسافر نے مجھ سے کہا کہ میں ایک الجھن کا شکار ہوں آپ میری راہنمائی کریں۔ الجھن یہ ہے کہ ہمارے ہاں مختلف علمائے کرام آتے ہیں اور ایک دوسرے سے مختلف مسائل بیان کرتے ہیں لیکن سب قرآن کریم کی آیات پڑھتے ہیں۔ ایک مولوی صاحب آتے ہیں ایک مسئلہ بیان کرتے ہیں اور قرآن کریم کی دو چار آیات پڑھ دیتے ہیں۔ چند روز کے بعد دوسرے مولوی صاحب آتے ہیں وہ اس سے الٹ مسئلہ بیان کرتے ہیں اور وہ بھی قرآن کریم کی چند آیات تلاوت کر دیتے ہیں۔ ہمیں اس بات سے الجھن ہوتی ہے کہ دونوں قرآن کریم پڑھ رہے ہیں ہم ان میں سے کس کی بات مانیں اور کس کی نہ مانیں؟ آپ اس الجھن کا کوئی حل بتائیں۔

میں نے ان صاحب سے عرض کیا کہ آپ کا کوئی بچہ سکول میں پانچویں یا چھٹی جماعت میں پڑھ رہا ہے، اگر میں اس بچے سے باتیں کرتے ہوئے انگریزی کا کوئی لفظ بولوں اور اس کا غلط ترجمہ کر دوں تو کیا وہ اس کو مان لے گا؟ مثال کے طور پر کیٹ کا ترجمہ میں بلی کی بجائے چوہا کر دوں تو کیا وہ اسے تسلیم کر لے گا؟ کہنے لگے ہرگز نہیں! میں نے عرض کیا کہ مجھے بھی یقین ہے کہ وہ میری بات نہیں مانے گا اور میں اپنا خود ساختہ ترجمہ اسے منوانے کے لیے کتنی ہی چرب زبانی سے کام لوں کتنے ہی اچھے اسلوب میں گفتگو کروں، اشعار پڑھوں، ترنم میں خطاب کروں مگر وہ میری کسی بات سے متاثر نہیں ہوگا اور صاف کہہ دے گا کہ مولوی صاحب! کیٹ کا معنٰی چوہا نہیں بلی ہے، اس لیے کہ وہ اس لفظ کا ترجمہ جانتا ہے۔

حیرت کی بات ہے کہ ایک چھوٹا بچہ انگلش کے کسی لفظ کا غلط ترجمہ تسلیم کرنے کے لیے تیار نہیں ہوتا مگر آپ بڑے اور سیانے لوگ مختلف اور متضاد معانی کے لیے قرآن کریم کی آیات جھوم جھوم کر سنتے چلے جاتے ہیں۔ اس کی وجہ صرف یہ ہے کہ آپ خود قرآن کریم کو نہیں سمجھتے اور کلام اللہ کے ساتھ آپ کا فہم کا تعلق نہیں ہے۔ اس لیے قرآن کریم کی چند آیات پڑھ کر جو شخص بھی کوئی مسئلہ آپ کے سامنے بیان کر دے آپ خاموشی کے ساتھ سن لیتے ہیں۔ میں اس حوالہ سے غلط بیان کرنے والے کے قصور کو مانتا ہوں مگر اس سے قبل آپ مجرم ہیں کہ آپ کی بے خبری اور ناواقفیت کی وجہ سے ہی کسی کو آپ کے سامنے ایسا کرنے کا حوصلہ ملتا ہے۔ اس کی بجائے اگر آپ خود قرآن کریم کو سمجھتے ہوں اور عربی گرائمر سے تھوڑا بہت واقف ہوں تو کسی کو آپ کی بے خبری سے فائدہ اٹھانے کی جرأت نہ ہو۔ چنانچہ قرآن کریم کو سمجھنا یہ ہماری ضرورت بھی ہے اور میں سمجھتا ہوں کہ اگر ہمارے معاشرے میں قرآن کریم کا فہم عام ہو جائے تو ہمارے اس طرح کے بہت سے مسائل خودبخود حل ہو جائیں گے۔

اس کے ساتھ ہی میں فہم قران کریم کے ایک ضروری تقاضے کی طرف آپ کو توجہ دلانا ضروری سمجھتا ہوں، وہ یہ کہ اس سلسلہ میں ہمارے ہاں بہت زیادہ افراط و تفریط پائی جاتی ہے:

  • ایک طرف یہ ذہن ہے کہ قرآن کریم کو سمجھنا عام آدمی کے بس کی بات نہیں ہے، اس کو سمجھنے کے لیے بہت سے علوم پر مہارت کا ہونا ضروری ہے، اس کے بغیر قران کریم کے ترجمہ اور مفہوم کی طرف توجہ دینا غلط ہے، اس لیے قرآن کریم کی تلاوت کرتے رہو اور اس کے سمجھنے کا معاملہ صرف علمائے کرام پر چھوڑ دو۔ یہ ایک طرف کی انتہا ہے۔
  • جبکہ دوسری طرف کی انتہا یہ ہے کہ جس شخص کو عربی زبان سے تھوڑی بہت واقفیت حاصل ہو جاتی ہے اور وہ قرآن کریم کو تھوڑا بہت سمجھنے لگتا ہے تو وہ مفتی اور شارح بن جاتا ہے، پھر اس کا تقاضا یہ ہوتا ہے کہ قرآن کریم کی تعبیر و تشریح میں اسے اتھارٹی تسلیم کیا جائے اور ہر دینی مسئلہ میں ٹانگ اڑانا وہ اپنا حق سمجھنے لگتا ہے۔

یہ دونوں باتیں غلط ہیں۔ یہ کہنا بھی غلط ہے کہ عام مسلمان کو قرآن کریم کے سمجھنے کی طرف توجہ نہیں کرنی چاہیے اور یہ بھی غلط ہے کہ جس کو تھوڑا بہت قرآن کریم سمجھ آنے لگے وہ اتھارٹی بن کر بیٹھ جائے اور دین کے ہر مسئلہ پر رائے دینا شروع کر دے۔ قرآن کریم کے نفس مفہوم کو سمجھنا اور چیز ہے اور یہ ہر مسلمان مرد اور عورت کی ذمہ داری ہے کہ قرآن کریم کی تلاوت کرتے ہوئے سمجھ رہا ہو کہ اس آیت میں کس چیز کا حکم ہے اور کیا تقاضا کیا گیا ہے۔ لیکن قرآن کریم کی تشریح کا حق اور اس سے مسائل و احکام کے استنباط کا حق اس سے بالکل مختلف چیز ہے اور یہ صرف اس عالم کا حق ہے جو قرآن کریم کی تفسیر و تشریح کی شرائط کا حامل ہے اور مسلمہ اصولوں کے مطابق وہ اس کی اہلیت و صلاحیت رکھتا ہے۔

چونکہ یہ مسجد وکیلاں والی کہلاتی ہے اور شرکائے محفل میں بہت سے وکلاء موجود ہیں اس لیے میں ان کی زبان میں یہ مسئلہ واضح کرنا چاہوں گا کہ قانون سے آگاہ ہونا اور بات ہے اور قانون کی تشریح کرنا اس سے بالکل مختلف امر ہے۔ قانون سے آگاہ ہونا ملک کے ہر شہری کی ذمہ داری ہے اور ملک کی کسی سطح کی عدالت کسی ملزم کا یہ موقف قبول نہیں کرے گی کہ چونکہ وہ متعلقہ قانون سے واقف نہیں تھا اس لیے اس سے قانون شکنی کا جرم ہوگیا ہے۔ اس کا یہ عذر کہیں بھی تسلیم نہیں کیا جائے گا اور اس سے کہا جائے گا کہ ملک کے شہری کی حیثیت سے یہ اس کی ذمہ داری ہے کہ وہ قوانین سے آگاہ ہو، اس لیے بے خبری کسی قانون کی خلاف ورزی کا عذر نہیں بن سکتی۔ مگر قانون کی تشریح کا حق ہر شخص کو حاصل نہیں ہے اور نہ ہی اس پر بحث کرنے اور دلائل دینے کا ہر شخص کو حق حاصل ہے۔ قانون کی تشریح اعلیٰ عدالتوں کا کام ہے ان کے سوا کوئی قانون کی تشریح نہیں کر سکتا، جبکہ قانون پر بحث کرنا اور دلائل دینا وکلاء کا حق ہے ان کے علاوہ کوئی عدالت کسی شخص کو، خواہ اس کا قانون کا مطالعہ کتنا وسیع کیوں نہ ہو، کسی قانون کی تشریح میں دلائل دینے اور بحث کرنے کا حق نہیں دے گی۔

اس لیے جس طرح قانون سے واقف ہونا ہر شہری کا صرف حق نہیں بلکہ ذمہ داری ہے لیکن قانون پر بحث کرنا وکلاء کا اور اس کی تشریح کرنا اعلیٰ عدالتوں کے جج صاحبان کا حق ہے، اسی طرح قرآن کریم کے نفس مفہوم سے واقف ہونا ہر مسلمان مرد و عورت کی ذمہ داری ہے لیکن اس کی تشریح کرنا اور اس کے بیان کردہ مسائل پر بحث کرنا ان علمائے کرام کا کام ہے جو اس کی صلاحیت و اہلیت رکھتے ہیں اور اس کی مسلمہ شرائط پر پورے اترتے ہیں۔

فہم قرآن کریم کے ان ضروری تقاضوں کو ہم ملحوظ رکھیں گے تو قرآن کریم کے ساتھ ہمارا فہم و ادراک کا تعلق قائم ہوگا اور بہت سی گمراہیوں سے بچے رہیں گے۔ ان گزارشات کے ساتھ ترجمہ قرآن کریم کی اس کلاس کے آغاز پر آپ سب کو مبارکباد دیتا ہوں اور اس کی زیادہ سے زیادہ افادیت کے لیے دعاگو ہوں، آمین یا رب العالمین۔

   
2016ء سے
Flag Counter