جماعۃ الدعوۃ کے امیر پروفیسر حافظ محمد سعید نے جب دوسری جماعتوں کے ساتھ مل کر مسئلہ کشمیر پر جدوجہد کو آگے بڑھانے کے لیے تحریک آزادی کشمیر کے نام سے نیا مشترکہ فورم تشکیل دیا اور ملک بھر میں ازسرِنو سرگرمیاں شروع کر دیں تو مجھے یہ بات کھٹک گئی تھی کہ وہ زیادہ دیر تک اسے جاری نہیں رکھ سکیں گے۔ کیونکہ وہ ایک ایسے بریکر کی طرف مسلسل بڑھتے جا رہے تھے جو دکھائی تو نہیں دیتا لیکن کسی کے لیے آسے آسانی کے ساتھ عبور کرنا بھی ممکن نہیں ہوتا۔
’’عملیات‘‘ کی دنیا میں ایک معمول چلا آرہا ہے کہ عامل لوگ کچھ وظائف اور معمولات کے ساتھ اپنے اردگرد حصار قائم کر لیتے ہیں تاکہ کوئی ان تک نہ پہنچ پائے۔ ایسا روحانی عملیات میں بھی ہوتا ہے اور کالے علم کے سفلی عملیات میں بھی اس کا معمول موجود ہے۔ قیام پاکستان کے بعد سے ہماری اسٹیبلشمنٹ نے بھی اپنے اردگرد ایک مضبوط حصار قائم کر رکھا ہے کہ قوم کے مختلف حلقے جس حوالہ سے بھی متحرک ہوں اور جتنی بھی اچھل کود کرتے رہیں وہ اس حصار کا دائرہ کراس نہ کرنے پائیں جس کے اندر نوآبادیاتی نظام کو محفوظ کر دیا گیا ہے۔ اور کسی طرف سے بھی کوئی ایسی گنجائش باقی نہیں رہنے دی گئی کہ نوآبادیاتی نظام کے کسی شعبہ کے بنیادی ڈھانچے، پالیسی اور طریق کار میں کوئی تبدیلی لائی جا سکے۔ اس میں نفاذِ شریعت ، تعلیمی اہداف، معاشرتی اقدار، معاشی خودمختاری، انتظامی و عدالتی ڈھانچے اور سیاسی استحکام کے ساتھ ساتھ مسئلہ کشمیر بھی شامل ہے۔
ان سب شعبوں میں گزشتہ سات عشروں کی صورتحال پر نظر ڈال لیں آپ کو تبدیلی کے مطالبات نظر آئیں گے، اصلاح و تجاویز کی فائلیں ادھر سے ادھر گھومتی دکھائی دیں گی، بیانات اور تجزیوں کا وسیع تناظر سامنے آئے گا، وعدوں اور تسلیوں کے سبز باغ آپ کی نگاہوں کے سامنے رہیں گے، احتجاج و اضطراب کی لہریں بھی مسلسل موجود ملیں گی لیکن کیا مجال ہے کہ اس سب کچھ کے باوجود کسی شعبہ میں کوئی عملی تبدیلی دیکھنے میں آجائے۔ ہم ستر سال کے بعد بھی کولہو کے بیل کی طرح ایک ہی دائرے میں گھوم رہے ہیں بلکہ بعض معاملات میں تو ہم اس سے بھی پیچھے جا چکے ہیں۔ اور سیانوں کی محفلوں میں یہ کہا جانے لگا ہے کہ اس سے تو انگریزوں کا دور ہی بہتر تھا۔ میں اس پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا کرتا ہوں کہ یہ بات واقعتاً درست بھی ہے اس لیے کہ نوآبادیاتی نظام کو اس دور میں جن اہداف کے لیے تشکیل دیا گیا تھا ، اسے جو لوگ چلا رہے تھےوہ ان اہداف سے واقف بھی تھے اور ان کے ساتھ مخلص بھی تھے۔ ان کے جانے کے بعد ہمیں نہ اس نظام کے اہداف کا علم ہے اور نہ ہی اس کے ساتھ ہماری قومی درجہ کی کمٹمنٹ موجود ہے جس کا نتیجہ یہ ہے کہ ہم ایک کمپاؤنڈر کی طرح چھوٹے موٹے اور وقتی مسائل تو حل کر رہے ہیں لیکن بڑی بیماریوں کو مزید سے مزید خراب کرتے چلے جا رہے ہیں۔ اور اس عمل میں عالمی استعمار کا کردار وہی ہے جو کاروباری دنیا کے ان بڑے کھلاڑیوں کا ہوتا ہے جو نئے اور کم تجربہ کار لوگوں کو سر اٹھانے سے ہر جائز و ناجائز اقدام کے ذریعے روکتے ہیں۔
گزشتہ دنوں مسئلہ کشمیر کے حوالہ سے پارلیمنٹ کی ’’قومی کشمیر کمیٹی‘‘ کے غیر متحرک ہونے پر بہت زور دار تبصرے ہوئے اور بھانت بھانت کی بولیاں سننے میں آئیں، اب مسئلہ کشمیر پر ’’متحرک کردار‘‘ کا حشر دیکھ کر ان دوستوں کی بھی تسلی ہوگئی ہوگی کہ یہاں تو قومی مقاصد کی طرف بڑھنے والوں کے قدموں کا باہمی فاصلہ بھی ماپا جاتا ہے اور نوآبادیاتی نظام کے حصار کی طرف بڑھتے ہوئے قدموں کا اس سے فاصلہ کم ہونے پر چاروں طرف خطرے کے الارم چنگھاڑنے لگ جاتے ہیں۔
تحریک آزادی کشمیر کے نام سے قائم ہونے والے نئے فورم نے سالِ رواں کو مسئلہ کشمیر کے لیے جدوجہد کا سال قرار دیا ہے، مختلف شہروں میں اجتماعات کا نظام ترتیب دیا ہے اور ۵ فروری کو ’’یوم کشمیر‘‘ بھرپور طریقے سے منانے کی حکمت عملی طے کی ہے۔ راقم الحروف بھی گزشتہ جمعہ کے روز گوجرانوالہ کے مرکز اقصیٰ میں منعقد ہونے والی ’’آل پارٹیز کشمیر کانفرنس‘‘ میں شریک ہوا، اس موقع پر جدوجہد کے اس نئے راؤنڈ کے ساتھ ہم آہنگی اور یک جہتی کے لیے جن خیالات کا اظہار کیا ان کا خلاصہ یہ ہے۔
- مسئلہ کشمیر ہمارا قومی مسئلہ ہے کہ یہ تقسیم ہند کا ادھورا ایجنڈا ہے۔ اور مسئلہ کشمیر حل ہوئے بغیر پاکستان کی بین الاقوامی سرحدوں کی تکمیل نہیں ہو سکتی۔
- یہ ہمارا علاقائی مسئلہ ہے جو جنوبی ایشیا کے ممالک کے درمیان تعاون و اشتراک میں رکاوٹ بنا ہوا ہے۔ اور اس مسئلہ کو حل کیے بغیر جنوبی ایشیا کے ممالک آپس میں کوئی قابل عمل رابطہ کا نظام قائم نہیں کر سکتے۔
- یہ ہمارا دینی اور ملی مسئلہ ہے کہ کشمیر کی مسلم اکثریت اپنی آزادی اور اسلامی شناخت کی جنگ لڑ رہی ہے او راسے اپنے مستقبل کا فیصلہ خود کرنے کا مسلمہ حق نہیں دیا جا رہا ہے۔ اس لیے اس کی حمایت و امداد ہمارا شرعی فریضہ ہے۔
- یہ ایک بڑا عالمی مسئلہ بھی ہے کہ دنیا کے امن کے لیے فلسطین، شام اور کشمیر جیسے مسائل سنگین خطرہ بنے ہوئے ہیں اور عالمی امن کو کسی وقت بھی تباہ کرنے کا ذریعہ بن سکتے ہیں۔
چنانچہ مسئلہ کشمیر کے حل کے لیے قومی سطح کی مشترکہ اور مربوط جدوجہد ضروری ہے اور تمام دینی و سیاسی جماعتوں اور طبقوں کو اس کے لیے بھرپور کردار ادا کرنا ہوگا۔ ۵ فروری کو ملک بھر میں منایا جانے والا ’’قومی یوم کشمیر‘‘ یقیناً اس سلسلہ میں قومی موقف اور جذبات کے ازسرِنو اظہار کا ذریعہ ہوگا جس کی بھرپور کامیابی کے لیے سب حلقوں اور طبقوں کو محنت کرنی چاہیے۔ لیکن اس کے ساتھ یہ بھی ہماری قومی ضرورت ہے کہ نوآبادیاتی نظام اور ماحول و نفسیات سے آزادی کے لیے سنجیدگی کے ساتھ محنت کی جائے کیونکہ ہمارا اصل مسئلہ ’’قومی خودمختاری‘‘ کی بحالی کا ہے۔
ہمارے دینی حلقے اگرچہ تحریک آزادی میں اپنے قائدانہ کردار کا فخر ساتھ ذکر کرتے ہیں جو بلاشبہ ان کا حق اور تاریخی حقیقت ہے لیکن نوآبادیاتی نظام کے خاتمہ اور قومی خودمختاری کی بحالی کے معاملات میں وہ مفاد پرست سیاستدانوں اور اسٹیبلشمنٹ پر انحصار کر رہے ہیں جو خودفریبی سے کم نہیں ہے۔ اس پر بہرحال نظرثانی کرنا ہوگی اور تحریک آزادی کی طرح تحریک خودمختاری کی قیادت کے لیے بھی دینی حلقوں اور علماء ہی کو آگے بڑھنا ہوگا۔ اس کی عملی صورت یہ ہے کہ دینی قوتیں نوآبادی نظام کے خاتمہ کے لیے منظم تحریک چلائیں اور اس کے ساتھ ساتھ اپنی نئی نسل کو مذہبی و عصری تعلیم و تربیت سے بہرہ ور کر کے ملکی نظام کا حصہ بنائیں۔ ورنہ موجودہ رولنگ کلاس سے نوآبادیاتی نظام میں کسی تبدیلی اور قومی خودمختاری کی طرف عملی پیش رفت کی توقع کا مطلب اس کے سوا کچھ نہیں ہے کہ
اسی عطار کے لونڈے سے دوا لیتے ہیں