آج قارئین کے سامنے ایک پرانی داستان کی یاد تازہ کرنا چاہتا ہوں جو بہت سے دوستوں کو شاید یاد ہوگی۔ کم و بیش ربع صدی قبل کی بات ہے کہ گوجرانوالہ میں دیوبندی مسلک کے علماء کرام اور دیگر متعلقین نے جمعیت اہل السنۃ والجماعۃ کے نام سے ایک تنظیم قائم کی تھی جس کا مقصد مسلکی معاملات کی بجا آوری اور بوقت ضرورت دیوبندی مسلک سے تعلق رکھنے والے حلقوں اور جماعتوں کو باہمی اجتماع کے لیے مشترکہ فورم مہیا کرنا تھا۔ یہ جمعیت آج بھی موجود ہے، لیکن زیادہ متحرک نہیں رہی اور صرف علماء کرام تک محدود ہو کر رہ گئی ہے۔ ابتدا میں دوسرے طبقات کے سرکردہ دیوبندی حضرات بھی اس کا حصہ تھے، بلکہ اس کے صدر اور سیکرٹری جنرل بھی رہے ہیں۔
شہر کے ایک معروف صنعت کار الحاج میاں محمد رفیق رحمہ اللہ تعالیٰ اس دور میں جمعیت اہل السنۃ والجماعۃ کے صدر تھے۔ ان کا شیخوپورہ روڈ پر الہلال فونڈری کے نام سے کارخانہ تھا۔ وہ حضرت مولانا صوفی عبد الحمید سواتی رحمہ اللہ تعالیٰ کے حلقۂ درس سے تعلق رکھتے تھے اور ان کے قریبی عقیدت مندوں اور معتمدین میں سے تھے۔ ان کے زیرصدارت ایک اجلاس میں فیصلہ کیا گیا کہ مدرسہ نصرۃ العلوم گوجرانوالہ شہر کے وسط میں واقع ہونے کی وجہ سے اپنی عمارات میں مزید توسیع کا متحمل نہیں ہے، اس لیے جی ٹی روڈ پر کوئی بڑا مدرسہ قائم ہونا چاہیے اور اس میں دینی علوم کی تعلیم کے ساتھ ساتھ عصری علوم کو بھی نصاب میں شامل کیا جانا چاہیے۔ یہ بات مدرسہ نصرۃ العلوم کے ابتدائی مقاصد میں بھی شامل تھی اور حضرت مولانا صوفی عبد الحمید سواتیؒ نے ۱۹۵۲ء میں مدرسہ نصرۃ العلوم کے آغاز کے موقع پر ’’ہمارا تعلیمی و تبلیغی لائحہ عمل‘‘ کے عنوان سے جو پمفلٹ شائع کیا تھا، اس میں اس عزم کا اظہار کیا گیا تھا لیکن حالات و وسائل کی نامساعدت کی وجہ سے ایسا نہ ہو سکا۔
والد محترم حضرت مولانا محمد سرفراز خان صفدرؒ، عم مکرم حضرت مولانا عبد الحمید سواتیؒ اور راقم الحروف کو جمعیت اہل سنت میں ابتدا سے ہی سرپرست کی حیثیت حاصل رہی ہے، بلکہ ہمارے ایک مسلکی حریف بزرگ جو اب مرحوم ہوچکے ہیں، ہم تینوں کا ’’باپ، بیٹا اور روح القدس‘‘ کے عنوان کے ساتھ تعریضاً ذکر کیا کرتے تھے، چنانچہ رسمی سرپرست کے طور پر بھی اس فیصلے اور اس پر عملدرآمد کے مختلف مراحل میں شریک کار رہا ہوں، جبکہ ہمارے ایک پرانے دوست حافظ عبد الماجد ایڈووکیٹ اس دور میں جمعیت اہل السنۃ والجماعۃ کے سیکریٹری جنرل تھے۔
ہم نے جی ٹی روڈ پر لاہور کی طرف جاتے ہوئے اٹاوہ کے قریب ریلوے پھاٹک کی دوسری طرف اٹھائیس ایکڑ زمین خرید کر ’’نصرۃ العلوم اسلامی یونیورسٹی‘‘ کے نام سے اس منصوبے کا آغاز کیا۔ حضرت مولانا محمد سرفراز خان صفدرؒ اور حضرت مولانا صوفی عبد الحمید سواتیؒ اس منصوبے کے بڑے سرپرست تھے اور انہوں نے ایک عرصہ تک اس کی عملی اور متحرک سرپرستی فرمائی مگر حضرت مولانا صوفی صاحبؒ کی رائے یہ تھی کہ یہ پروگرام درست ہے، جسے عمل پذیر ہونا چاہیے، لیکن یہ نیا تجربہ ’’نصرۃ العلوم‘‘ کے نام سے نہ کیا جائے۔ نصرۃ العلوم اپنی روایات کے مطابق اپنی جگہ کام کرتا رہے اور دینی و عصری تعلیم کے امتزاج کا یہ نیا منصوبہ کسی اور عنوان سے شروع کیا جائے چنانچہ ہم نے نام تبدیل کر کے ’’فاروق اعظمؓ اسلامی یونیورسٹی‘‘ کا عنوان اختیار کیا اور اس منصوبے کا دوسرا تعارف اس نام کے ساتھ شائع ہوا۔ اسی سلسلہ میں حضرت صوفی صاحبؒ کے ساتھ ایک روز مشاورت ہو رہی تھی تو انہوں نے فرمایا کہ ’’بھئی! جس کے پروگرام پر کام کرنا چاہتے ہو اس کا نام کیوں نہیں لیتے؟‘‘ ہم سمجھ گئے کہ وہ اس پروگرام کو حضرت شاہ ولی اللہ دہلویؒ کے اسم گرامی کے ساتھ موسوم کرنا چاہتے ہیں، اس لیے ہم نے دوسری دفعہ اس کا نام تبدیل کر کے ’’شاہ ولی اللہ یونیورسٹی‘‘ کے عنوان کے ساتھ کام کرنے کا فیصلہ کر لیا۔ اس مقصد کے لیے ’’شاہ ولی اللہ ٹرسٹ‘‘ کے نام سے ایک باقاعدہ ادارہ قائم کیا گیا، ٹرسٹ کے بنیادی ارکان چھ تھے:
(۱) حضرت مولانا محمد سرفراز خان صفدرؒ (۲) حضرت مولانا صوفی عبد الحمید سواتیؒ (۳) الحاج میاں محمد رفیقؒ (۴) الحاج شیخ محمد اشرف مرحوم (۵) الحاج عزیز ذوالفقار اور (۶) راقم الحروف ابوعمار زاہد الراشدی۔
’’باپ، بیٹا اور روح القدس‘‘ تینوں کو سرپرست کا درجہ دیا گیا۔ الحاج میاں محمد رفیقؒ ٹرسٹ کے چیئرمین اور الحاج شیخ محمد اشرف مرحوم اس کے سیکریٹری جنرل چنے گئے اور ٹرسٹ کو باضابطہ طور پر رجسٹرڈ کرا لیا گیا۔ الحاج عزیز ذوالفقار بھی شہر کے بڑے صنعت کار ہیں، مگر وہ ابتدا سے ہی اس پورے منصوبے سے لاتعلق رہے، بلکہ بعد میں اس سے استعفٰی بھی دے دیا۔ اس لیے ٹرسٹ کے عملی ارکان پانچ ہی رہے، اس کے ساتھ ’’شاہ ولی اللہ ویلفیئر ایجوکیشنل سوسائٹی‘‘ کے نام سے ایک اور ادارہ رجسٹرڈ کرایا گیا، جس کی مشاورت اور دیگر معاملات میں شہر کے سرکردہ علماء کرام، پروفیسر حضرات اور تاجر و صنعت کار دوستوں کو شریک کیا گیا۔ زمین ٹرسٹ کے نام سے خریدی گئی اور تعلیمی و انتظامی امور سوسائٹی کے تحت انجام دیے جاتے رہے۔ بلڈنگ کا ایک حصہ تعمیر ہونے کے بعد ہم نے وہاں ’’شاہ ولی اللہ کالج‘‘ کے نام سے ایک تعلیمی پروگرام کا آغاز کیا جس کے تحت گوجرانوالہ تعلیمی بورڈ اور پنجاب یونیورسٹی کے نصاب کے تحت بی اے تک کالج کی تعلیم کی کلاس شروع کی گئی اور اس نصاب میں ضروری دینی تعلیم کو سمو کر مشترکہ نصاب کا تجربہ شروع ہوا۔ ہمارے ساتھ شہر کی معروف تعلیمی شخصیت اور سینئر استاذ پروفیسر غلام رسول عدیم بھی شروع سے آخر تک متحرک رہے، جو گورنمنٹ کالج گوجرانوالہ میں شعبۂ اردو کے سربراہ رہے ہیں۔ نصرۃ العلوم میں دورۂ حدیث میں ایک سال شریک رہے ہیں اور حضرت والد محترم کے تلامذہ میں سے ہیں۔ راقم الحروف اس پروگرام کے تعلیمی بورڈ کا چیئرمین اور پروفیسر ڈاکٹر محمد اقبال لون سیکریٹری تھے، جبکہ راقم الحروف اس کالج کا ایڈمنسٹریٹر بھی تھا۔
اس پروگرام میں ہم نے درس نظامی کے فضلاء کے لیے ایک کورس کا آغاز کیا، جس کی بنیاد اس پر تھی کہ دینی مدارس کے وفاقوں کی اسناد کو ’’یونیورسٹی گرانٹس کمیشن‘‘ نے اس شرط پر ایم۔ اے اسلامیات و عربی کے برابر تسلیم کر رکھا تھا کہ وہ اس سند کی بنیاد پر صرف تعلیمی شعبہ میں کام کر سکیں گے، جبکہ دوسرے شعبوں میں اس سند کے ساتھ جانے کے لیے انہیں پانچ سو نمبر کا بی اے کا ایک خصوصی امتحان دینا ہوگا۔ اس میں کامیابی پر ان کی سند کو مکمل ایم۔ اے کے برابر تسلیم کیا جائے گا۔ ہم نے یہ پروگرام بنایا کہ درس نظامی کے فضلاء کو اس خصوصی امتحان کے لیے ایک سال میں تیاری کرائی جائے وار ان کے لیے ایم فل اور پی ایچ ڈی میں آگے پڑھنے کے لیے راستہ ہموار کیا جائے، چنانچہ کالج اور درس نظامی کے فضلاء کے یہ دونوں تعلیمی پروگرام شروع کیے گئے اور ہماری دو تین کلاسیں بی اے تک پہنچیں، جبکہ فضلاء کی دو کلاسوں نے بھی پنجاب یونیورسٹی سے پانچ سو نمبر کے بی اے کے خصوصی امتحان کا مرحلہ عبور کیا، مگر اس کے بعد دو وجہ سے اس پروگرام میں رکاوٹ پیدا ہونا شروع ہو گئی:
- ایک یہ کہ پنجاب یونیورسٹی نے ہمیں اس پروگرام کے تحت آگے بڑھنے کی سہولت دینے سے انکار کر دیا اور ہمارے فضلاء بی اے کا خصوصی امتحان دینے کے بعد بھی آگے نہ بڑھ سکے، جس کی وجہ سے درس نظامی کے فضلاء والا یہ کورس اپنے مقاصد حاصل نہ کر سکا۔
- دوسری وجہ یہ بنی کہ ہماری باہمی انڈراسٹینڈنگ کمزور پڑنے لگی۔ اس منصوبے کے لیے سب سے زیادہ محنت، اخراجات اور وقت الحاج میاں محمد رفیق مرحوم نے صرف کیا اور سب سے زیادہ انہوں نے قربانی دی، لیکن چونکہ وہ تعلیمی مزاج اور میدان کے لوگ نہیں تھے، اس لیے انتظامی و تعلیمی معاملات میں اختلافات کا سلسلہ شروع ہوگیا، جو رفتہ رفتہ اس نتیجے تک پہنچا کہ میں نے اس منصوبے سے عملاً علیحدگی اختیار کر لی، حتیٰ کہ مختلف وجوہ کی بنا پر ’’باپ، بیٹا اور روح القدس‘‘ تینوں شاہ ولی اللہ یونیورسٹی سے عملاً لاتعلق ہو گئے۔
اس کے بعد الحاج میاں محمد رفیقؒ، شیخ محمد اشرفؒ، میاں محمد عارف اور پروفیسر غلام رسول عدیم اور ان کے رفقاء میدان میں رہ گئے۔ ان حضرات نے بہت محنت کی اور کیڈٹ کالج، میڈیکل کالج، ہسپتال اور انجینئرنگ کالج کے منصوبوں کو آگے بڑھانے کے لیے کئی برس صرف کیے لیکن کسی منصوبے میں کامیابی حاصل نہ کر سکے، البتہ میاں محمد رفیق مرحوم کی محنت، خلوص اور ایثار و قربانی کے باعث بڑی بڑی بلڈنگیں تعمیر ہوتی رہیں اور انہوں نے دن رات ایک کر کے سینکڑوں کمروں پر مشتمل بڑی بڑی عمارتیں اور ایک بڑی مسجد کھڑی کر دی۔
راقم الحروف نے پروگرام سے علیحدگی تو اختیار کر لی لیکن کھلے بندوں اس کی مخالفت نہیں کی اور ایک ٹرسٹی کے طور پر خاموش تعلق باقی رکھا، حتیٰ کہ اکا دکا پروگراموں میں بھی شریک ہوتا رہا۔ ٹرسٹ کے سیکریٹری جنرل الحاج شیخ محمد اشرف مرحوم چند سال قبل انتقال کر گئے جبکہ چیئرمین الحاج محمد رفیق مرحوم کا ابھی چند ماہ قبل انتقال ہوا ہے۔ اس کے ساتھ ہی حضرت والد محترمؒ اور حضرت صوفی صاحبؒ کا بھی ایک سال کے وقفہ سے انتقال ہوگیا تو ٹرسٹ کے ارکان میں سے صرف میں ہی موجود تھا، جبکہ عملاً کام کرنے والوں میں میاں محمد رفیق صاحب مرحوم کے دو بیٹے میاں محمد توفیق صاحب، میاں محمد توقیر صاحب اور پروفیسر غلام رسول عدیم صاحب اپنے دیگر رفقاء کی ٹیم کے ساتھ متحرک تھے اور ہائی اسکول کی سطح کے ایک تعلیمی سلسلہ کے علاوہ ایک ڈسپنسری عملاً کام کر رہی تھی۔
محترم میاں محمد رفیق صاحب مرحوم کی وفات کے بعد اس ورکنگ ٹیم نے محسوس کیا کہ کام کو اس رخ پر آگے نہیں بڑھایا جا سکتا اور کروڑوں روپے کے یہ منصوبے چلانا اس ٹیم اور گوجرانوالہ کے لوگوں کے بس میں نہیں ہے، اس کے لیے کسی بڑے ادارے سے رجوع کرنا چاہیے۔ ان حضرات نے مجھ سے رابطہ قائم کر کے اس صورتحال سے آگاہ کیا تو میرے دل میں فطری طور پر پہلی خواہش یہی تھی کہ اس منصوبے کو اپنی اصل کی طرف لوٹا دیا جائے اور ’’جامعہ نصرۃ العلوم‘‘ اس کو سنبھال لے مگر میری دیانتدارانہ رائے یہ تھی کہ عملاً ایسا نہیں ہوگا۔ اس لیے میں نے نصرۃ العلوم کے منتظمین کو جو میرے عزیز ہی ہیں، آگاہ کیا کہ اگرچہ میری پہلی خواہش یہی ہے لیکن عملاً مجھے یہ ممکن نظر نہیں آرہا۔ اس لیے میں سوچتا ہوں کہ بجائے اس کے کہ اس زمین اور بلڈنگ پر حکومت یا کوئی اور ادارہ قبضہ کر لے ہم خود کسی اچھے ادارے سے رابطہ کر کے اسے اس کے حوالہ کر دیں۔ میری اس رائے سے پروفیسر غلام رسول عدیم صاحب اور الحاج میاں محمد رفیق مرحوم کے دونوں بیٹوں میاں محمد توفیق صاحب اور میاں محمد توقیر صاحب نے بھی اتفاق کیا اور محترم میاں محمد رفیق مرحوم کی وفات کے وقت مشاورت کا جو نظام موجود تھا، اس میں شریک حضرات کے ساتھ مختلف نشستیں منعقد کرنے کے بعد ان کو بھی اعتماد میں لے لیا گیا۔
میاں محمد توفیق صاحب نے جو میاں محمد رفیق صاحب مرحوم کی وفات کے بعد اس ادارے کے عملاً منتظم تھے، اس مقصد کے لیے مختلف اداروں کے نام لیے تو ان میں ایک نام ’’جامعۃ الرشید‘‘ کا بھی تھا جو میرے لیے انتہائی خوشی کا باعث بنا، اس لیے کہ میں کئی بار اس بات کا اظہار کر چکا ہوں کہ جامعۃ الرشید کراچی میرے ان خوابوں کی عملی تعبیر ہے، جو تعلیمی شعبہ کے حوالے سے ایک عرصہ سے دیکھتا آرہا ہوں اور جس کے لیے شاہ ولی اللہ یونیورسٹی کا پروگرام شروع کیا گیا تھا۔ اس لیے جب میاں محمد رفیق صاحب مرحوم کے بیٹوں نے ’’جامعۃ الرشید‘‘ کا نام لیا تو میری خوشی کی انتہا نہ رہی اور میں سالہاسال کی لاتعلقی کے بعد صرف اس لیے اس پروگرام کے ساتھ دوبارہ منسلک ہوگیا تاکہ اپنی نگرانی میں اس اچھی خواہش کو تکمیل تک پہنچا سکوں۔ الحاج میاں محمد رفیق صاحب مرحوم کی وفات کے وقت کام کرنے والے ورکنگ گروپ اور مشاورتی نظام کے ساتھ تفصیلی گفتگو کے بعد میں نے ان کی طرف سے جامعۃ الرشید کراچی میں حاضری دی اور حضرت مولانا مفتی عبد الرحیم صاحب دامت برکاتہم سے ذاتی طور پر درخواست کی کہ وہ ہمارے دوستوں کی اس خواہش اور پیشکش کو قبول کریں تاکہ گوجرانوالہ کے سینکڑوں لوگوں کی خلوص کے ساتھ لگی ہوئی وہ رقوم صحیح مصرف کی طرف لوٹ سکیں جو اس منصوبے پر اب تک خرچ ہو چکی ہیں اور خاص طور پر حضرت مولانا محمد سرفراز خان صفدرؒ اور حضرت مولانا صوفی عبد الحمید سواتیؒ جیسے بزرگوں کی دعائیں اور سرپرستی اس کی پشت پر رہی ہیں، اس پر جامعۃ الرشید کے شورائی نظام نے تفصیلی غور کیا اور ہمارے ساتھ بھی متعدد نشستیں ہوئیں جس کے بعد بحمد اللہ تعالیٰ یہ بات طے پا گئی کہ جامعۃ الرشید کراچی کو چلانے والی مجلسِ علمی شاہ ولی اللہ ٹرسٹ اور شاہ ولی اللہ یونیورسٹی گوجرانوالہ کے پورے نظام کو اپنی تحویل میں لے گی اور اسے جامعۃ الرشید کراچی کے ’’شاہ ولی اللہ تعلیمی پروجیکٹ‘‘ کے نام سے چلایا جائے گا، اس کے لیے نیا ٹرسٹ رجسٹرڈ کرایا جائے گا جس میں میاں محمد رفیق، میاں محمد توقیر اور راقم الحروف بھی شریک ہوں گے، مگر اس کا پورا تعلیمی، مالیاتی اور انتظامی کنٹرول جامعۃ الرشید کی مجلس شوریٰ کے ہاتھ میں ہوگا۔
اس معاہدہ کے بعد جامعۃ الرشید نے شاہ ولی اللہ ٹرسٹ کے تحت تمام شعبوں کا انتظام سنبھال لیا ہے اور رمضان المبارک کے بعد کلاسوں کے باقاعدہ اجرا کے ارادے کے ساتھ اس کے مطابق بلڈنگوں کی تیاری اور مرمت کا کام شروع کر دیا ہے۔ مجھے اس بات پر خوشی ہے کہ جو منصوبہ میرے دو بزرگوں کی دعاؤں اور سرپرستی سے شروع ہوا تھا، جس میں خود میرے کم و بیش دس سال صرف ہوئے ہیں اور جس میں گوجرانوالہ شہر کے بہت سے دیگر مخلصین کے ساتھ الحاج میاں محمد رفیق مرحوم کی محنت، ایثار اور قربانیوں کا بڑا حصہ شامل ہے، یہ منصوبہ ضائع ہونے سے بچ گیا ہے اور اچھے لوگوں کے ہاتھ میں چلا گیا ہے۔ میں جامعۃ الرشید کو اس نئے منصوبے کے آغاز پر تہِ دل سے مبارک باد دیتے ہوئے دعاگو ہوں کہ اللہ رب العزت جامعۃ الرشید کے ہاتھوں اس عظیم پروگرام کو شروع کرنے والوں کی نیتوں اور ارادوں کے مطابق تکمیل تک پہنچانے کی توفیق دیں! آمین یا رب العالمین۔ میری ملک بھر کے احباب سے اپیل ہے کہ وہ اس پروگرام کی کامیابی لیے پرخلوص دعاؤں کے ساتھ ساتھ عملی تعاون سے بھی نوازیں۔