مسئلہ فلسطین اور مغربی ممالک کا کردار

   
فروری ۲۰۰۸ء

ریاست ہائے متحدہ امریکہ کے صدر جارج ڈبلیو بش مشرق وسطیٰ کا دورہ کر کے واپس جا چکے ہیں۔ اس دوران انہوں نے سعودی عرب، کویت، مصر، متحدہ عرب امارات، فلسطین اور اسرائیل وغیرہ کا دورہ کیا اور اسرائیل اور فلسطین کے راہنماؤں سے بھی تبادلہ خیالات کیا۔ ان کے اس دورے کے مقاصد کیا تھے؟ اس کی ایک جھلک بعض عرب اخبارات کے مندرجہ ذیل تبصروں سے دیکھی جا سکتی ہے:

ایک عرب اخبار ’’الحیاۃ‘‘ کا کہنا ہے کہ

’’امریکی صدر کا یہ دورہ ایک شہنشاہ کا دورہ تھا۔ مشرق وسطیٰ کے کئی ممالک مغربی اور امریکی صدور اور وزرائے اعظم کے نظارے دیکھتے رہتے ہیں، لیکن ان میں سے کوئی بھی مسئلہ فلسطین حل کر سکا ہے اور نہ ہی مشرق اوسط کے عوام کے سنگین مصائب کو کم کر سکا ہے ۔ عرب ممالک کے تعلیم یافتہ عوام بادشاہوں اور شہزادوں کے زیرنگیں رہنے کی بجائے جمہوریت کی فضا میں زندگی گزارنا چاہتے ہیں، لیکن انہیں یہ مواقع فراہم نہیں کیے جا رہے۔ اس کا قصوروار امریکہ بھی ہے۔‘‘

’’عرب نیوز‘‘ کا کہنا ہے کہ:

’’امریکی صدر کے اس دورے کے دوران مشرق وسطیٰ کے سلگتے مسائل میں سے ایک مسئلہ بھی حل نہیں ہوا ہے اور عراق میں جگہ جگہ لگی ہوئی آگ میں سے کوئی آگ بجھ نہ سکی ہے۔ افسوس کی بات ہے کہ مشرق وسطیٰ کے اس دورے کے دوران امریکی صدر ایران کے خلاف شعلہ فشانیاں کرتے رہے، حالانکہ انہوں نے مشرق وسطیٰ کے دورے پر روانہ ہونے سے قبل واشنگٹن میں کہا تھا کہ میں فلسطین کے مسائل کم کرنے کے لیے اسرائیل کو مقبوضات خالی کرنے پر مجبور کروں گا۔ لیکن ایک ہفتہ گزر گیا، امریکی صدر اسرائیلی حکمرانوں کو اس طرف مائل نہ کر سکے۔‘‘

’’الشرق الاوسط‘‘ نے لکھا ہے کہ

’’امریکی صدر جارج بش نے جس بے فکری اور غیر سنجیدگی سے اسرائیل، کویت، فلسطین اور عرب امارات کا دورہ کیا ہے اور آج وہ سعودی عرب آرہے ہیں، یوں محسوس ہوتا ہے کہ جیسے پکنک پر آئے ہوئے ہیں۔ انہوں نے کسی ایک جگہ بھی درپیش سنگین مسائل کے حل کی طرف توجہ دی، نہ فریقین کو ایک جگہ بٹھانے کا اہتمام ہی کیا ..... امریکہ چونکہ اکلوتی سپر پاور ہے اور محض اکلوتی سپر سے تمام تر توقعات وابستہ کیے رکھنا عالمی سطح پر اپنے تعلقات کو گرانے اور زک پہنچانے کے مترادف ہے، عرب ممالک سے غلطی یہ ہوئی کہ انہوں نے گزشتہ پچاس سال میں صرف امریکہ کو اپنا نجات دہندہ خیال کیا ہے، لیکن یہ خیال بار بار غلط اور غیر مفید ثابت ہوا۔‘‘

’’گلف نیوز‘‘ کا تبصرہ اس طرح ہے کہ

’’مشرق وسطیٰ کے اس دورے کے دوران امریکی صدر کی اولین ترجیح ایران رہی ہے۔ وہ ایران کے بارے میں جو پالیسی بیان دیتے رہے، ان سے یہی عیاں ہوتا ہے کہ یہ دورہ محض ایران کے لیے تھا کیونکہ جن ممالک کا موصوف نے دورہ کیا، ان کے بالکل ہمسائے میں ایران واقع ہے۔ گویا یہ بات بجا طور پر کہی جا سکتی ہے کہ ایران کے معاملات سے براہ راست آگاہی حاصل کرنے اور عرب حکمرانوں اور عوام کی نفسیات سے آگاہی کے لیے ہی مشرق وسطیٰ کے دورے کا ڈول ڈالا گیا۔ ...... اگر ایران اس خطہ کے لیے خطرہ ہے بھی تو ہم سعودی عرب کے وزیرخارجہ سعود الفیصل کے اس قول پر عمل کر کے خطرے کا مقابلہ کر سکتے ہیں جس میں انہوں نے کہا تھا کہ ایران سے ہمارے تعلقات ہیں، ہماری اس کے ساتھ کھلی بول چال ہے، اگر ہمیں اس سے کبھی خطرہ محسوس ہوا تو ہم ایران سے براہ راست بات چیت کر کے معاملات حل کر لیں گے۔ امریکی صدر نے اس دورہ کے دوران اس خطے کے لیے بار بار انصاف اور آزادی کی بات کی۔ اگر امریکی صدر ان دونوں الفاظ کی معنویت سے آگاہ ہیں تو انہیں چاہیے کہ وہ فلسطین کے مظلوم مسلمانوں کو بھی انصاف اور آزادی فراہم کرنے میں فوری اور طاقت ور امداد دیں۔‘‘

یہ تو وہ تبصرے ہیں جو معروف عرب اخبارات نے امریکی صدر کے دورۂ مشرق وسطیٰ کے اہداف اور دورے کے درمیان ان کی سرگرمیوں اور ارشادات کے حوالہ سے کیے ہیں۔ اب ایک جھلک اس صورت حال کی بھی دیکھ لی جائے جو ان کے دورے کے فوراً بعد مشرق وسطیٰ میں سامنے آئی ہے اور جس نے لاکھوں فلسطینیوں کو اسرائیل کے ہاتھوں جبر اور استبداد کے ایک اور مرحلے سے دوچار کر دیا ہے۔ روزنامہ پاکستان لاہور میں ۲۴ جنوری ۲۰۰۸ء کو شائع ہونے والی ایک خبر کے مطابق اسرائیل نے مقبوضہ بیت المقدس اور ملحقہ علاقے میں یہودی آبادیوں کے لیے نئے مکانات تعمیر کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ اسرائیلی انتظامیہ کے ترجمان نے بتایا کہ آٹھ ہزار میں سے تقریباً اڑھائی ہزار مکانات مشرقی مقبوضہ بیت المقدس اور ملحقہ علاقوں میں بنائے جائیں گے، جبکہ فلسطینی صدر محمود عباس نے اس فیصلے کی شدید مذمت کرتے ہوئے کہا ہے کہ یہودی بستیوں کی تعمیر سے مشرق وسطیٰ میں امن کا عمل متاثر ہوگا۔

روزنامہ پاکستان میں ہی ۱۶ جنوری ۲۰۰۸ء کو شائع ہونے والی خبر کے مطابق غزہ میں اسرائیلی فوج کی تازہ کارروائی میں جاں بحق ہونے والے فلسطینیوں کی تعداد سترہ ہو گئی ہے جن میں حماس کے ایک اہم رہنما اور سابق وزیر خارجہ محمود الزہار کا بیٹا بھی شامل ہے۔ اس کارروائی کے بعد اسرائیلی فوج اور فلسطینیوں کے درمیان فائرنگ کے تبادلے میں چالیس دیگر شہری بھی زخمی ہوئے ہیں۔ اخباری اطلاعات کے مطابق اسرائیل نے غزہ کی ناکہ بندی کر رکھی ہے جس سے نہ صرف بجلی بلکہ خوراک کی ترسیل کا نظام بھی بری طرح متاثر ہوا ہے اور عالمی رائے عامہ کے مسلسل احتجاج کے باوجود اسرائیل ابھی تک اس ناکہ بندی میں نرمی کرنے کے لیے تیار نہیں ہے بلکہ پاکستان میں ۲۴ جنوری کو شائع ہونے والی خبر کے مطابق اسرائیلی وزیر اعظم ایہود اولمرت نے کہا ہے کہ اگر فلسطینی عوام امن چاہتے ہیں تو حماس کے خلاف بغاوت کریں اور ان کے تحفظ کا ایک ہی راستہ ہے کہ فلسطین سے عسکریت پسندی کا خاتمہ کر دیا جائے۔ اسرائیلی وزیراعظم نے یہ بھی کہا ہے کہ غزہ کے شہری اگر اسرائیل پر حملہ کرتے ہیں تو وہ گاڑیوں کے بجائے پیدل چلیں، روشنی کی بجائے اندھیرے میں رہیں اور بھوک و افلاس سے مرتے رہیں۔

یہ ہے ایک منظر امریکی صدر کے دورۂ مشرق وسطی اور اس کے فوراً بعد رونما ہونے والی صورت حال کا، جبکہ امریکہ دنیا کو یہ تاثر دینے کی مسلسل کوشش کر رہا ہے کہ وہ مشرق وسطیٰ میں امن کی بحالی اور ایک آزاد فلسطینی ریاست کے قیام کے لیے کام کر رہا ہے اور صدر بش چاہتے ہیں کہ ان کا دور اقتدار ختم ہونے سے پہلے آزاد فلسطینی ریاست کے اعلان کی کوئی شکل سامنے آجائے۔

اس پس منظر میں اس حوالے سے ایک اور رپورٹ پر بھی نظر ڈال لی جائے جو نئی دہلی سے شائع ہونے والے سہ روزہ ’’دعوت‘‘ نے ۷ جنوری ۲۰۰۷ء کی اشاعت میں شائع کی ہے۔ اس میں بتایا گیا ہے کہ گزشتہ دنوں لبنان میں برطانیہ کی سفیر محترمہ فرانسز گائی نے ایک سیمینار سے خطاب کرتے ہوئے کہا ہے کہ

’’فلسطین میں ہمارے پیش روؤں نے جو غلطیاں کی ہیں ان کو سدھارنا ہمارے لیے ناممکن ہے، لیکن عدل و انصاف پر مبنی امن و سلامتی کے لیے کوشش کرنا ہمارے لیے یقیناً ممکن ہے، تاہم مسئلہ یہ ہے کہ برطانیہ کو ایک مؤثر طاقت نہیں سمجھا جاتا۔‘‘

اب اس بات کی وضاحت محترمہ فرانسز گائی ہی کر سکیں گی کہ ماضی کی غلطیوں کی اصلاح کیے بغیر ’’عدل و انصاف‘‘ پر مبنی امن و سلامتی کے قیام کے لیے ان کے پاس کون سا فارمولا ہے، البتہ اس حوالے سے ان کا یہ خیال توجہ طلب ہے کہ

’’دیگر ممالک کے حکمرانوں کو چاہیے کہ وہ فلسطین کا دورہ وہاں کے عوام کی ذلت و خواری کو دیکھنے اور سمجھنے کی نیت سے اور اس نیت سے کریں کہ ایسی پالیسی اختیار کی جا سکے جس سے اہل فلسطین اس صورت حال سے باہر آ جائیں۔‘‘

مشرق وسطیٰ کی صورت حال پر یہ تبصرہ کسی عرب راہنما یا فلسطینی لیڈر کا نہیں بلکہ برطانیہ کی ایک سفارت کار خاتون کا ہے جسے سامنے رکھتے ہوئے یہی کہا جا سکتا ہے کہ امریکہ اور اس کی قیادت میں مغربی حکمران مشرق وسطیٰ میں صرف ایسا امن چاہتے ہیں جس میں اسرائیل کے اب تک کے تمام اقدامات اور اس کے موجودہ کردار کو جائز تسلیم کر لیا جائے اور اس کی بالادستی کے سامنے سر تسلیم خم کرتے ہوئے فلسطینی عوام خود کو اس کے رحم و کرم پر چھوڑ دیں۔ اور اسرائیل جو کچھ بھی کرے، فلسطینی عوام اس کے خلاف کسی بھی قسم کی مزاحمت سے ہمیشہ کے لیے دست برداری کا اعلان کر دیں۔ اگر صدر بش فلسطینیوں کو امن و سلامتی کے اسی نکتے پر لانا چاہتے ہیں تو ایسا ہونا ممکن نہیں ہے، اس لیے کہ قوموں کو اس طرح دبانے اور دبائے رکھنے کی کوئی کوشش کبھی کامیاب نہیں ہوا کرتی اور آزادی، خودمختاری اور اقوام عالم میں باوقار حیثیت دنیا میں ہر قوم کی طرح فلسطینیوں کا بھی حق ہے جو جلد یا بدیر وہ ان شاء اللہ تعالیٰ حاصل کر کے رہیں گے۔

   
2016ء سے
Flag Counter