ضروریات اور معاوضوں کا تفاوت ۔ ایک استفسار

   
۴ دسمبر ۲۰۰۹ء

کراچی کے جناب افتخار احمد (باغ ملیر، کراچی) کی طرف سے بھجوایا جانے والا ایک استفسار مختلف مفتیان کرام کے ہاں زیرغور ہے جو مساجد اور دینی مدارس میں کام کرنے والے ملازمین کی تنخواہوں اور دیگر حقوق کے معیار اور مقدار کے حوالے سے ہے۔ راقم الحروف کو بھی اس کی کاپی موصول ہوئی ہے، میں عام طور پر فتویٰ نہیں دیا کرتا البتہ ذاتی رائے کے طور پر اس بارے میں کچھ گزارشات افتخار احمد کو ان شاء اللہ ضرور بھجواؤں گا اور ان سے قارئین کرام کو بھی آگاہ کروں گا۔ سرِدست ان کا استفسار ملاحظہ فرمائیے اور داد دیجئے ان سینکڑوں این جی اوز کو جو دینی مدارس کی خامیوں کو اجاگر کرنے میں سالہا سال سے دن رات مصروف ہیں لیکن یہ پہلو آج تک ان کی توجہ حاصل نہیں کر سکا۔

’’کیا فرماتے ہیں علماء دین و مفتیان شرع متین اس مسئلہ میں کہ:

  1. آج کے اس ہوشربا مہنگائی کے دور میں جس میں کہ روز بروز مسلسل اضافہ ہی ہو رہا ہے، آئمہ مساجد، مؤذنین و خادمین مساجد، علماء کرام جو کہ متفرق شعبہ جات مثلاً حدیث، فقہ، صرف و نحو، عربی، تفسیر، تصنیف و تالیف، افتاء اور دینی ادارے کے ترجمان ماہانہ رسائل وغیرہ میں اپنے فرائض منصبی انجام دے رہے ہیں، یا ناظم تعلیمات، نگران، اکاؤنٹنٹ، دفتری امور کلرک، قاصد، گارڈ، چوکیدار، یا مدارس درجہ ناظرہ ہو یا حفظ و شعبہ تجوید و خطاطی کا، یا نان بائی و باورچی وغیرہ وغیرہ کے امور دینی مدارس و مساجد میں انجام دے رہے ہیں، ان کی تنخواہوں کا ماہانہ معیار کیا ہونا چاہیے؟
  2. علماء و مفتیان کرام وغیرہ جو کہ کم و بیش دس سے بارہ سال کے عرصہ میں ادارے سے فارغ التحصیل ہوتے ہیں، یا چند سالوں میں حفاظ و قراء بننے والے حضرات ہوتے ہیں، ان کو اکثر دینی مداس و مساجد میں آج کے اس شدید ترین مہنگائی کے دور میں بھی ۴۰۰۰ سے ۶۰۰۰ روپے ماہانہ تنخواہ بھی بڑی مشکل سے دی جا رہی ہے بلکہ بعض مدارس و مساجد میں اس سے بھی کم ہے۔ جبکہ اتنے ہی عرصہ میں دنیاوی تعلیم حاصل کر کے فارغ التحصیل شخص کو علماء کرام وغیرہ کے مقابلہ میں کئی گنا زیادہ ماہانہ تنخواہ (اکثر دنیاوی کمپنیوں، اداروں یا بینک وغیرہ میں) دیگر سہولیات مثلاً علاج معالجہ، گھر، گاڑی، پیٹرول، ڈرائیور وغیرہ وغیرہ کے ساتھ دی جا رہی ہیں۔ تو معلوم یہ کرنا ہے:

    (الف) کیا یہ دنیا دار لوگوں کے مقابلہ میں دینی حضرات کی بذات خود بھی اور ان کے مناصب کی توہین نہیں ہے؟

    (ب) کیا اس طرح کا عمل جائز ہے یا ناجائز اور اس کی ذمہ داری کس پر عائد کی جائے گی؟

    (ج) اگر مساجد و مدارس و دینی ادارے کی انتظامیہ کے پاس فنڈ ہوتا ہو لیکن تنخواہیں پھر بھی کم دی جاتی ہوں اور وہ بھی بغیر کسی سہولیات کے تو ان کے بارے میں قرآن و حدیث کیا کہتے ہیں؟ حقوق العباد سے متعلق بھی فرمائیں نیز ماتحتوں سے متعلق سلوک کے بارے میں بھی فرمائیں۔

    (د) آج کے اس گرانی کے دور میں ایک انگوٹھا چھاپ، تعلیم سے بے بہرہ، جاہل گنوار عام سا مزدور بھی جو کہ کسی راج مستری، الیکٹریشن، پلمبر، کار پینٹر وغیرہ کا ہیلپر ہوتا ہے وہ بھی یومیہ ۴۰۰ روپے اجرت لے رہا ہے، جبکہ ایک کاریگر راج مستری، الیکٹریشن، کارپینٹر وغیرہ یومیہ آٹھ سے نو گھنٹے کام کرنے کی اجرت ۷۰۰ سے ۱۰۰۰ روپے لے رہے ہیں۔ اگر ان کی یومیہ اجرت کے حساب سے ماہانہ رقم اور دینی مدارس و مساجد میں خدمات انجام دینے والوں کو ماہانہ تنخواہ کو مدنظر رکھتے ہوئے ۴۰۰۰ سے ۶۰۰۰ جو کہ عموماً مدارس و مساجد میں دی جا رہی ہیں، اگر کوئی شخص اپنے بچوں کو دینی تعلیم کے بجائے دنیاوی تعلیم ہی دلوائے، یا راج مستری، الیکٹریشن، پلمبر، کارپینٹر وغیرہ بنوانا شروع کر دے کہ میرا بچہ کم از کم مالی لحاظ سے پریشان حال اور تنگ دست تو نہیں ہوگا (دنیاوی اسباب کے لحاظ سے) تو اس دین کی تعلیم سے بے رغبتی کی ذمہ داری کس پر عائد ہوگی؟ دینی اداروں کے مہتمم حضرات اور ان کی انتظامیہ بھی اگر ادارے میں کوئی بجلی کا کام، پلمبری کا کام، رنگ و روغن، کارپینٹر یا راج مستری وغیرہ سے متعلق کوئی کام نکلتا ہے تو ان مزدوروں کو چند گھنٹوں سے لے کر آٹھ نو گھنٹوں کی اجرت بخوشی ۷۰۰ سے ۱۰۰۰ روپے تک یومیہ ادا کرتے ہیں، نیز کاریگر کے ساتھ ہیلپر کی اجرت بھی ۴۰۰ روپے یومیہ ادا کی جاتی ہے۔ جبکہ ان کے مقابلے میں متفرق شعبہ جات کے اساتذہ کرام و علماء کرام، ائمہ مساجد وغیرہ کو ان سے کہیں زیادہ وقت دینے کے باوجود یومیہ اس کی آدھی اجرت بھی ادا نہیں کی جاتی۔ اس کی جوابدہی کس پر ہوگی؟ کیا یہ عمل قرآن و حدیث اور ان کی تعلیم دینے والوں کی تذلیل کے زمرے میں نہیں آئے گا کہ پیٹ، اہل و عیال اور بنیادی ضروریات زندگی کے اخراجات کی تکمیل جیسے مسائل سبھی کے ساتھ ہیں۔

  3. کسی دینی یا دنیاوی اداروں میں ایک شخص تین مختلف شعبہ جات میں اپنے فرائض منصبی مکمل طور پر ادا کرتا ہے تو

    (الف) کیا وہ تینوں شعبہ جات کی علیحدہ علیحدہ اور پوری پوری تنخواہ لینے کا حقدار نہیں ہے؟

    (ب) کیا ایک ادارے سے کسی ملازم کو مختلف شعبہ جات میں متفرق امور انجام دینے پر ایک سے زائد تنخواہ دینا ناجائز و حرام ہے؟

  4. مثلاً ایک دینی ادارے میں مسمیٰ زید کو تین مختلف اور اہم شعبہ جات

    (۱) مدرس قرآن کریم تقرر ملازمت ۱۸ مارچ ۱۹۸۲ء

    (۲) کارہائے خصوصی تقرر ملازمت یکم دسمبر ۱۹۸۳ء جس کے تحت ناظم تعلیمات، ناظم تعمیرات، نگران، دفتری امور کلرک وغیرہ کے کام بھی آجاتے ہیں

    (۳) پیش امام و خطیب تقرر ملازمت ۱۰ اکتوبر ۱۹۸۵ء۔ تینوں ملازموں پر علیحدہ علیحدہ ماہانہ تنخواہ پر تقرر کیا گیا ہے اور تینوں ملازمتوں کا عرصہ چوبیس سال سے اٹھائیس سال ہو چکا ہے اور وہ شخص دیگر ملازمین کے مقابلہ میں ہر ملازمت کے امور احسن طریقہ سے پوری دیانتداری اور ذمہ داری کے ساتھ انجام دے رہا ہے۔

    (الف) اتنی طویل مدت ملازمت کے بعد آج کے اس شدید ترین مہنگائی کے دور میں اس کی تنخواہ کا معیار اس کے مناصب کے لحاظ سے کیا ہونا چاہیے؟ ادارہ کے اس سینئر ترین ملازم کو مدرس کی تنخواہ اس کے شاگرد اور ساڑھے پانچ سال جونیئر ملازم سے بھی کم ۵۹۰۰ روپے کارہائے خصوصی کے، ۳۱۰۰ روپے (دو ملازمتوں کی تنخواہ ملا کر ۹۰۰۰) بغیر طعام و قیام وغیرہ کی سہولت کے، اور امام و خطابت کے صرف ۳۵۰۰ کسی بھی قسم کی طعام و قیام وغیرہ کی سہولت کے بغیر، یعنی تین اہم ترین ملازمتوں کی کل تنخواہ چوبیس سے اٹھائیس سال کے عرصہ ملازمتوں کے بعد ۱۲۵۰۰ روپے دی جا رہی ہے۔ جبکہ اگر کسی شخص کا کسی دنیاوی کمپنی یا ادارہ یا بینک وغیرہ میں یا کسی سرکاری و نیم سرکاری ادارہ میں چوبیس سے اٹھائیس سال کا عرصہ ہو چکا ہو، وہ بھی ادنیٰ ترین درجہ کی ملازمت کا مثلاً ایک غیر تعلیم یافتہ، انگوٹھا چھاپ، چوکیدار، گارڈ، چپراسی، قاصد، ڈرائیور کی ملازمت کرنے والے کو بھی بہت سی مراعات کے ساتھ صرف ایک ملازمت کے ۱۲۰۰۰ سے ۱۵۰۰۰ کے درمیان ماہانہ تنخواہ دی جا رہی ہے۔

    (ب) تو کیا اس دینی ادارے کے ملازم کی بذات خود اور ان تینوں اہم مناصب کی بھی یہ تذلیل نہیں ہے؟ یہ دینی ادارے کا ملازم زید خود صاحب حیثیت بھی نہیں ہے، کرایہ کے مکان میں رہتا ہے، شادی شدہ ہے، الحمد للہ تین بچے بھی ہیں۔ کرایہ مکان، بل بجلی، بل گیس اور کرایہ آمد و رفت میں ہی ۷۰۰۰ سے ۸۰۰۰ خرچ ہو جاتے ہیں۔ بقیہ ۵۰۰۰ میں گھر کا ماہانہ راشن، علاج معالجہ، کپڑا لتا، بچوں کے اسکول وغیرہ کی فیس و دیگر بنیادی ضروریات زندگی پورا کرنا مشکل ہی ناممکن ہو جاتا ہے۔ کیونکہ ادارہ کی ان تینوں ملازمتوں کے علاوہ زید کے پاس کوئی اور ذرائع آمدن نہیں ہیں اور بارہ سے چودہ گھنٹے کی ملازمتوں کے بعد کسی دوسرے امور و ملازمت کے لیے بھی وقت نہیں ملتا ہے۔ جبکہ اسی ادارے میں آج اگر کسی نئے مؤذن و خادم مسجد کا تقرر کیا جاتا ہے تو ۵۰۰۰ روپے طعام و قیام کی سہولت کے ساتھ یہاں تک کہ نئے چوکیدار یعنی ادنیٰ درجہ کے ملازم کا تقرر بھی کم از کم ۳۵۰۰ روپے پر طعام و قیام کی سہولت کے ساتھ کیا جاتا ہے۔ جبکہ ان لوگوں کی تنخواہ بھی آج کے اس ہوشربا مہنگائی کے دور کے حساب سے کچھ بھی نہیں ہے۔

    (ج) بلکہ مجبوری سے ناجائز فائدہ اٹھاتے ہوئے کیا یہ ظلم کے زمرے میں نہیں آئے گا؟ کیا دینی ادارے کی انتظامیہ کا یہ عمل درست ہے یا خلاف شرع اور ناجائز ہے؟ اور مؤذن و خادم کی تنخواہ امام سے زیادہ مقرر کر کے، جبکہ وہ صلاحیت و قابلیت میں امام کے مقابلے میں بہت کمتر ہو اور چوبیس سال امام سے جونیئر ہو تو کیا یہ امام کے منصب او رخود امام کی بھی توہین نہیں ہے؟

  5. کیا ادارہ یا مساجد و مداس کی انتظامیہ کمیٹی کی ائمہ مساجد، مؤذن و خادم مسجد کے لیے رہائش کا انتظام گھر یا اس کا کرایہ وغیرہ دینے کی ذمہ داری ہے کہ نہیں؟ تاکہ یہ حضرات سکون قلب کے ساتھ بہ حسن خوبی اپنے فرائض منصبی انجام دے سکیں۔
  6. آج پوری دنیا میں کسی بھی مذہب سے تعلق رکھنے والے کسی بھی ادارہ کے ملازم کو ان سالانہ رخصتوں کے علاوہ جو اس ادارے وغیرہ کی طرف سے متعین ہوتی ہیں، ہفتہ میں ایک رخصت ضرور دی جاتی ہے تاکہ وہ اپنے اہل و عیال، رشتہ دار وغیرہ کے حقوق کی ادائیگی اور دیگر گھریلو ضروریات وغیرہ سے خوش اسلوبی سے عہدہ برآ ہو سکے۔ تو کیا ائمہ کرام، مؤذنین و خادمین مسجد کو ہفتہ میں ایک رخصت دینا ناجائز و حرام ہے؟ کیا یہ ان کی تحقیر و تذلیل میں شمار نہیں ہوگا؟ کیونکہ کسی دینی ادارے کی انتظامیہ امام و خطیب، مؤذن و خادم مسجد کو ہفتہ میں ایک بھی رخصت نہیں دیتی۔ کیا انتظامیہ کا یہ عمل خلاف شرع ہے یا صحیح ہے؟

ازراہِ کرم و عنایت شرع کی رو سے آج کے اس ہوشربا مہنگائی کے دور میں بھرپور طریقے سے مدنظر رکھتے ہوئے، نیز دنیاوی امور کے سلسلہ میں ملازمت، چاہے وہ ادنیٰ درجہ کا چوکیدار، گارڈ، نائب قاصد وغیرہ کی ملازمت ہو، بھاری تنخواہ پانے والے راج، مستری، پلمبر، الیکٹریشن، کار پینٹر یا ان کے ہیلپر وغیرہ کی یومیہ اجرت کے حساب سے ماہانہ رقم (کم وقت یعنی آٹھ سے نو گھنٹے کام کر کے صرف)، اور دینی امور کی خدمات انجام دینے والے حضرات کے مناصب و مراتب اور زیادہ اوقات کار اور دنیاوی لوگوں کی آمدنی اور دینی امور کی خدمات انجام دے کر ماہانہ آمدنی کے تقابل کو بھی خصوصی طور پر ملحوظ رکھتے ہوئے (کیونکہ گھر بار، اہل و عیال اور بنیادی ضروریات زندگی وغیرہ کے مسائل سب کے ساتھ ہیں) مندرجہ بالا تمام سوالات کے مدلل و مفصل جوابات مرحمت فرما کر ممنون و مشکو رفرمائیں۔ تاکہ سائل کے علاوہ دیگر عوام و خواص کی معلومات میں بھی اضافہ ہو جائے، نیز درپیش تمام مسائل سے متعلق معلومات حاصل ہو کر اصلاح بھی ہو جائے گی، ان شاء اللہ تعالیٰ۔

   
2016ء سے
Flag Counter