حکیم محمد سعید شہیدؒ اور مولانا محمد عبد اللہ شہیدؒ

   
۳۰ دسمبر ۱۹۹۸ء

گزشتہ روز ایک قومی اخبار میں کے پی آئی کے حوالہ سے وفاقی وزیرداخلہ چودھری شجاعت حسین کا یہ اعلان نظر سے گزرا کہ اسلام آباد کی مرکزی جامع مسجد کے سابق خطیب مولانا محمد عبد اللہ شہیدؒ کے قاتلوں کی گرفتاری یا نشاندہی پر حکومت کی طرف سے پانچ لاکھ روپے بطور انعام دیے جائیں گے۔ یہ پڑھ کر بے حد تعجب ہوا کہ حکومت کو دو ماہ بعد مولانا عبدا للہ شہیدؒ اچانک کیسے یاد آگئے؟ شہیدِ پاکستان حکیم محمد سعیدؒ اور مولانا عبد اللہؒ ایک ہی روز دہشت گردوں کا نشانہ بنے تھے، دونوں پاکستان کے محب وطن شہری اور شریف انسان تھے اور اپنی اپنی خدمات کے دائروں میں دونوں ممتاز حیثیت کے مالک تھے۔

حکیم محمد سعید شہیدؒ کے قاتلوں کی گرفتاری کے لیے حکومت نے جو کچھ کیا وہ سب کے سامنے ہے اور اس سے ملک کے ہر باشعور شہری کو اطمینان ہوا کہ حکومت اگر کسی شہری کے قاتلوں کو گرفتار کرنے میں سنجیدہ ہو تو وہ اس حد تک بھی آگے جا سکتی ہے۔ حکیم محمد سعید اپنی شرافت، دیانت، حب الوطنی اور شخصیت کے باعث اس سب کچھ کے بلکہ اس سے بھی زیادہ کے مستحق تھے۔ مگر حکیم صاحب مرحوم کے ساتھ اسی روز وفاقی دارالحکومت میں دن دیہاڑے کھلے بندوں شہید ہونے والے مولانا عبد اللہ شہیدؒ کے قاتلوں کی گرفتاری کے بارے میں حکومت کی مسلسل خاموشی ایک سوالیہ نشان بنی ہوئی ہے اور اس دوران بہت سے احباب نے خود ہم سے یہ پوچھا ہے کہ آخر کیا وجہ ہے کہ حکومت مولانا عبد اللہؒ کے قاتلوں کی گرفتاری میں کسی پیش رفت پر آمادہ دکھائی نہیں دیتی؟

اس پس منظر میں دو ماہ سے زیادہ عرصہ گزارنے کے بعد وفاقی وزیر داخلہ کی طرف سے مولانا عبد اللہ شہیدؒ کے قاتلوں کی گرفتاری یا نشاندہی پر پانچ لاکھ روپے کے انعام کے اعلان پر کسی حد تک ’’دیر آید درست آید‘‘ کہہ کر اطمینان کا اظہار کیا جا سکتا تھا کہ کسی درجہ میں ہمارے حکمرانوں کو مولانا شہیدؒ کا قتل یاد تو ہے۔ مگر گزشتہ دو ماہ کے دوران رونما ہونے والے بعض واقعات کے تناظر میں اس کی گنجائش بھی نظر نہیں آتی اس لیے کہ مصدقہ معلومات کے مطابق مولانا عبد اللہ شہیدؒ کا قاتل گرفتار ہوگیا تھا جو مبینہ طو رپر اسلام آباد کے ایک تھانے کی حوالات میں پانچ روز تک بند رہا۔ اور مولانا عبد اللہ شہیدؒ کے فرزند مولانا عبد العزیز اور قتل کی واردات کا منظر دیکھنے والے متعدد عینی شاہدوں نے شناخت کر کے تصدیق کر دی تھی کہ یہ وہی نوجوان ہے جس نے مولانا عبد اللہ شہیدؒ کو فائرنگ کر کے شہید کیا تھا۔ اور اسی موقع پر مولانا عبد العزیز پر بھی متعدد فائر کیے تھے جو خطا گئے۔ مگر پانچ روز تک حوالات میں بند رہنے کے بعد وہ نوجوان رہا ہوگیا اور دریافت کرنے پر پولیس کے حلقوں کی طرف سے بتایا گیا کہ اسے اس کے ’’روابط‘‘ چیک کرنے کے لیے چھوڑا گیا ہے اور وہ پوری طرح نگرانی میں ہے۔ لیکن اس کے بعد مبینہ طور پر وہ نوجوان ملک چھوڑ کر جا چکا ہے اور اب وفاقی وزیرداخلہ اس کی گرفتاری یا نشاندہی پر پانچ لاکھ روپے کے انعام کا اعلان کر رہے ہیں۔

ہم وفاقی وزیرداخلہ محترم چودھری شجاعت حسین سے یہ پوچھنا چاہتے ہیں کہ کہیں یہ سب کچھ ایک طے شدہ پروگرام کا حصہ تو نہیں ہے جس کا آخری آئٹم انعام کا یہ اعلان تھا تاکہ سارے مراحل مکمل ہونے کے بعد مولانا عبد اللہ شہیدؒ کے ورثاء اور عقیدت مندوں کو انعام کا ’’لولی پاپ‘‘ دے کر خوش کیا جا سکے یا کم از کم خاموش رکھا جا سکے۔ اور اگر ایسا نہیں ہے تو پھر اس بات کی وضاحت وزیرداخلہ کی ذمہ داری ہے کہ وہ نوجوان کون تھا جسے مولانا عبد اللہ کے قاتل کے طور پر گرفتار کیا گیا، مولانا عبد العزیز اور دیگر حضرات نے اسے شناخت کیا اور وہ پانچ روز تک اسلام آباد پولیس کی تحویل میں رہا؟ اور یہ بھی بتایا جائے کہ اسے رہا کرنے کی وجہ کیا تھی؟ ہمیں امید ہے کہ چودھری شجاعت حسین صاحب اس معمہ کو حل کرنے میں ملک کے شہریوں سے تعاون کریں گے۔

اس کے ساتھ ہی اسی سے ملتے جلتے ایک اور مسئلہ کی طرف بھی وفاقی وزیرداخلہ کو توجہ دلانا مناسب معلوم ہوتا ہے، وہ یہ کہ ۲۰ دسمبر ۱۹۹۸ء کو مجھ سے تھانہ کوتوالی گوجرانوالہ کے ایس ایچ او کی طرف سے جاری کردہ ایک نوٹس کی تعمیل کرائی گئی ہے جو ایک پولیس اہل کار مختار احمد LHC/۷۱۰ کے نام ہے اور اس کی عبارت یہ ہے

’’تحریر ہے کہ ذیل اشخاص کو بذریعہ نوٹس ہذا پابند کریں کہ وہ اپنی سکیورٹی کا ہر طرح سے بندوبست کریں، اشد ضروری ہے‘‘۔

اس تحریر کے نیچے ایس ایچ او تھانہ کوتوالی گوجرانوالہ کے دستخط ہیں اور اس کے نیچے میرا نام اس طرح درج ہے

’’علامہ مولانا زاہد الراشدی جامعہ مسجد شیرانوالہ باغ گوجرانوالہ‘‘۔

اس سے قبل گزشتہ سال مجھے گوجرانوالہ پولیس کی طرف سے کہا گیا تھا کہ میں اپنی حفاظت کا انتظام کروں اور اس کے ساتھ یہ پیشکش کی گئی تھی کہ اگر میں چاہوں تو مجھے سرکاری طور پر بھی گارڈ مہیا کیا جا سکتا ہے۔ مگر میں نے یہ کہہ کر شکریہ کے ساتھ معذرت کر لی کہ

  1. اول تو میرا ایمان ہے کہ موت کا ایک وقت معین ہے اور اس سے ایک لمحہ پہلے بھی موت کا کوئی وار مجھ پر کارگر نہیں ہو سکتا۔
  2. دوم یہ کہ میں اس بات کا متحمل نہیں ہو سکتا کہ اپنے طور پر حفاظتی انتظامات کے اخراجات برداشت کر سکوں اور نہ اس کا متحمل ہوں کہ کسی سرکاری گارڈ کو ساتھ ساتھ لیے پھروں اور اس کے قیام و طعام اور سفر کے اخراجات کا بوجھ بھی اٹھاؤں۔
  3. اور سوم یہ کہ آج کل دہشت گردوں کے طریقے اس قدر ایڈوانس اور سائنٹفیک ہو گئے ہیں کہ سکیورٹی کے روایتی انتظامات کا کوئی فائدہ نظر نہیں آتا اور مجھے یہ محض تکلفات دکھائی دیتے ہیں۔

اس لیے تھانہ کوتوالی گوجرانوالہ کے تازہ نوٹس کے بعد بھی ذاتی اور گھریلو طور پر بعض احتیاطی تدابیر کے سوا کچھ نہیں کر پاؤں گا۔ البتہ اس حوالہ سے وفاقی وزیرداخلہ سے، جو اپنے منصب کے اعتبار سے ملک میں امن و امان کے قیام اور شہریوں کی جان و مال کے تحفظ کے ذمہ دار ہیں، یہ ضرور پوچھنا چاہتا ہوں کہ کیا حکومت کی ذمہ داری صرف یہ ہے کہ اس کے کارندوں کو کسی شریف شہری کی جان خطرے میں نظر آئے تو وہ اسے خبردار کر دیں کہ وہ اپنی حفاظت کا خود انتظام کر لے؟ اگر حکمران اپنے ملک کے شہریوں کو جان و مال کا تحفظ بھی فراہم نہیں کر سکتے تو اقتدار کی کرسیوں پر فائز رہنے کا ان کے پاس کیا جواز رہ جاتا ہے؟

افراد و اشخاص کی اہمیت اپنی جگہ مگر اصل مسئلہ ملک کے نظام کا ہے جس نے قوم کے ہر طبقے کو بے بسی اور لاچاری کی تصویر بنا کر رکھ دیا ہے اور اس نحوست زدہ نظام سے گلوخلاصی کا کوئی راستہ ہمارے حکمرانوں کو دکھائی نہیں دے رہا۔ اس لیے کیا یہ مناسب نہیں ہوگا کہ ملا محمد عمر سے درخواست کر کے قندھار میں ایک تربیتی کورس کا اہتمام کرایا جائے اور ہمارے حکمران و افسران اس کورس میں شریک ہو کر ان سے یہ سیکھیں کہ ملک میں امن کیسے قائم کیا جاتا ہے اور شہریوں کی جان و مال کا تحفظ کس طرح ہوتا ہے؟

   
2016ء سے
Flag Counter