امریکی ایوانِ نمائندگان نے حکومتِ پاکستان سے مطالبہ کیا ہے کہ دستورِ پاکستان میں قادیانیوں کو غیر مسلم اقلیت قرار دینے والی شق اور توہین رسالت پر موت کی سزا کا قانون ختم کیا جائے۔ یہ مطالبہ ایک قرارداد کی صورت میں کیا گیا ہے جو صدرِ پاکستان جنرل پرویز مشرف کے حالیہ دورۂ امریکہ کے موقع پر امریکی ایوانِ نمائندگان نے منظور کی اور قرارداد کی منظوری کے بعد اس پر عملدرآمد کے اہتمام کے لیے اسے متعلقہ کمیٹی کے حوالے کر دیا گیا ہے۔
امریکہ کا یہ مطالبہ نیا نہیں بلکہ کافی عرصہ سے چلا آ رہا ہے۔ ۱۹۸۷ء میں امریکی سینٹ کی خارجہ تعلقات کمیٹی نے پاکستان کی امداد کی بحالی کے لیے جو چند شرائط عائد کی تھیں ان میں بھی قادیانیوں کو غیر مسلم قرار دینے کا فیصلہ واپس لینے کا مطالبہ کیا گیا تھا۔ ایک معاصر اخبار میں ۵ مئی ۱۹۸۷ء کو شائع ہونے والی ایک رپورٹ کے مطابق امریکی سینٹ نے یہ طے کیا تھا کہ امریکی صدر ہر سال پاکستان کے بارے میں ایک رپورٹ جاری کیا کریں گے جس میں توثیق کی جائے گی کہ حکومتِ پاکستان ان شرائط کی پابندی کر رہی ہے، تو اس کے بعد امداد کی سالانہ قسط پاکستان کے سپرد کی جائے گی۔ ان میں ایک شرط یہ بھی تھی کہ
’’حکومتِ پاکستان اقلیتی گروہوں مثلاً احمدیوں کو مکمل شہری اور مذہبی آزادیاں نہ دینے کی روش سے باز آ رہی ہے اور ایسی تمام سرگرمیاں ختم کر رہی ہے جو مذہبی آزادیوں پر قدغن عائد کرتی ہیں۔‘‘
اس کے بعد سے نہ صرف امریکہ بلکہ دیگر مغربی حکومتیں اور ایمنسٹی انٹرنیشنل سمیت بہت سے عالمی ادارے پاکستان کو مسلسل یاد دہانی کراتے آ رہے ہیں کہ وہ قادیانیوں کو غیرمسلم قرار دینے اور اسلام کے نام پر سرگرمیاں جاری رکھنے کی ممانعت سے متعلق قوانین پر نظرثانی کرے۔ امریکی ایوان نمائندگان کی حالیہ قرارداد میں اقوامِ متحدہ کے انسانی حقوق کے ’’بین الاقوامی چارٹر‘‘ کی شق ۱۸ کا بھی حوالہ دیا گیا جس کی رو سے قادیانیوں کے خلاف پاکستان میں نافذ شدہ قوانین بادی النظر میں انسانی حقوق کی خلاف ورزی قرار پاتے ہیں۔
بعد میں جب توہینِ رسالت کے بعض واقعات پر پاکستان کی مختلف عدالتوں میں مقدمات کی سماعت شروع ہوئی تو توہین رسالت پر موت کی سزا کا قانون بھی بین الاقوامی تنقید کا ہدف بن گیا اور یہ مطالبہ عالمی سطح پر ہونے لگا کہ توہینِ رسالت کو ان سنگین جرائم میں شامل نہ کیا جائے جن پر موت کی سزا دی جاتی ہے۔ چنانچہ امریکی ایوانِ نمائندگان کی حالیہ قرارداد بھی اسی پس منظر میں سامنے آئی ہے۔
جہاں تک امریکہ و دیگر مغربی حکومتوں اور بین الاقوامی اداروں کے مطالبات کا تعلق ہے تو ان کی بنیاد اقوامِ متحدہ کے انسانی حقوق کے چارٹر پر ہے جس کی دفعات ۱۸ اور ۱۹ حسبِ ذیل ہیں:
دفعہ ۱۸: ہر شخص کو آزادی خیال، آزادی ضمیر اور آزادی مذہب کا حق حاصل ہے۔ اس حق میں اپنا مذہب یا عقیدہ تبدیل کرنے اور انفرادی اور اجتماعی طور پر، علیحدگی میں یا سب کے سامنے اپنے مذہب یا عقیدے کی تعلیم، اس پر عمل، اس کے مطابق عبادت کرنے اور اس کی پابندی کرنے کی آزادی شامل ہے۔
دفعہ ۱۹: ہر شخص کو آزادی رائے اور آزادی اظہار کا حق حاصل ہے۔ اس حق میں بلا مداخلت رائے رکھنے کی آزادی اور بلالحاظ علاقائی حدود کسی بھی ذریعے سے اطلاعات اور نظریات تلاش کرنے، حاصل کرنے اور انہیں دوسروں تک پہنچانے کا حق شامل ہے۔
مغربی ممالک اور اداروں کا موقف یہ ہے کہ اقوامِ متحدہ کے منشور کی یہ شقیں بین الاقوامی قوانین کا درجہ رکھتی ہیں اور پاکستان نے اقوامِ متحدہ کے ممبر کی حیثیت سے اس منشور پر دستخط کر کے اس کی پابندی کی ذمہ داری قبول کر رکھی ہے۔ اور قادیانیوں کو غیر مسلم قرار دینے اور توہین رسالت پر موت کی سزا کے قوانین ان شقوں میں بیان کردہ آزادیوں اور حقوق کے منافی ہیں، اس لیے پاکستان کو اپنے حلف اور دستخط کے مطابق ان قوانین پر نظرثانی کرنی چاہیے اور انہیں بین الاقوامی قوانین سے ہم آہنگ کرنا چاہیے۔
دوسری طرف پاکستان کا موقف یہ ہے کہ اس ملک کا قیام اسلامی تشخص کے حوالے سے وجود میں آیا ہے۔ اسلام پاکستان کے لیے صرف ایک مذہب نہیں بلکہ ریاست کی وجہِ قیام اور دستوری بنیاد کی حیثیت رکھتا ہے۔ اسلامی احکام و قوانین کی اساس بین الاقوامی قوانین پر نہیں بلکہ قرآن و سنت پر ہے۔ اور قرآن و سنت اور اجماعِ امت کی رو سے قادیانیوں کو مسلمان تسلیم کرنے اور انہیں ملتِ اسلامیہ کے حصے کے طور پر قبول کرنے کی کسی درجہ میں کوئی گنجائش نہیں، اس لیے انہیں پاکستان کے دستور اور قانون کی رو سے مسلمان تسلیم نہیں کیا جا سکتا۔ اسی طرح توہین رسالت پر موت کی سزا اسلام کے احکام میں سے ہے جس پر قرآن و سنت کی صریح تعلیمات کے ساتھ ساتھ امتِ مسلمہ کا چودہ سو سالہ اجماعی تعامل موجود ہے، اس لیے بین الاقوامی قوانین کے ساتھ ہم آہنگی پیدا کرنے کے لیے قرآن و سنت اور اجماعِ امت کے صریح احکام سے انحراف نہیں کیا جا سکتا۔
یہاں اس امر کی وضاحت بھی ضروری ہے کہ قادیانیوں کو غیر مسلم قرار دینے اور انہیں ایک غیر مسلم اقلیت کے طور پر ملک میں قبول کرنے کا موقف دراصل علماء کرام اور دینی حلقوں کا نہیں تھا، اور وہ اس سلسلہ میں خلیفۂ اول حضرت صدیق اکبرؓ کے اسوہ کا حوالہ دیتے رہے ہیں جنہوں نے جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے وصال کے بعد نبوت کے تین دعوے داروں (۱) مسیلمہ کذاب (۲) سجاح اور (۳) طلیحہ کے خلاف باقاعدہ فوج کشی کر کے ان کا استیصال کیا تھا۔ لیکن مفکر پاکستان علامہ سر محمد اقبالؒ نے ایک درمیان کی راہ نکالی کہ قادیانیوں کو نئے نبی کے پیروکار کی حیثیت سے مسلمانوں سے الگ نئی امت تسلیم کر لیا جائے اور غیر مسلم اقلیت کے طور پر مسلم معاشرے میں انہیں برداشت کر لیا جائے۔
چنانچہ علماء کرام اور دینی حلقے اپنے موقف سے پیچھے ہٹ کر علامہ اقبالؒ کے موقف پر آ گئے لیکن قادیانیوں نے اسے تسلیم نہیں کیا اور ایک نئے مدعی نبوت کے پیروکار ہونے کے باوجود خود کو مسلمانوں میں شامل رکھنے پر بے جا اصرار کیا۔ جس پر مسلمانوں نے باقاعدہ تحریک چلائی اور ۱۹۷۴ء میں ملک کی منتخب قومی اسمبلی نے ایک دستوری ترمیم کے ذریعے سے قادیانیوں کو غیر مسلم اقلیت قرار دے دیا۔ جس کے بعد بھی قادیانیوں کا اپنے سابقہ موقف پر اصرار جاری رہا اور انہوں نے پارلیمنٹ کا متفقہ فیصلہ قبول کرنے کے بجائے دستور سے انحراف کا راستہ اختیار کرتے ہوئے اسلام کے نام پر اپنے نئے مذہب کی تبلیغ اور مسلمانوں کی مخصوص مذہبی علامات و شعائر مثلاً مسجد، کلمہ طیبہ، نماز وغیرہ کا استعمال مسلسل جاری رکھا۔ اس پر ۱۹۸۴ء میں تمام مکاتب فکر کی مشترکہ دینی تحریک کے نتیجے میں صدر جنرل محمد ضیاء الحق مرحوم نے ایک آرڈیننس کے ذریعے سے قادیانیوں پر پابندی لگا دی کہ وہ اسلام کے نام پر اپنے مذہب کی تبلیغ اور مسلمانوں کی مخصوص مذہبی علامات و شعائر استعمال نہیں کر سکتے، کیونکہ اس سے اشتباہ پیدا ہوتا اور مسلمانوں کا دینی تشخص مجروح ہوتا ہے۔ بعد میں ۱۹۸۵ء میں منتخب ہونے والی پارلیمنٹ نے بھی اس آرڈیننس کی توثیق کر دی۔
اسی طرح توہین رسالت پر موت کی سزا کے قوانین بھی منتخب پارلیمنٹ نے پاس کیے اور پاکستان کے عوام نے ان کے حق میں ملک گیر کامیاب ہڑتال کر کے یہ فیصلہ دیا کہ یہ قوانین صرف مذہبی حلقوں کا مطالبہ نہیں بلکہ پاکستان کے عوام کی غالب اکثریت کے دل کی آواز ہیں۔
اس لیے قادیانیوں کو غیر مسلم قرار دینے، انہیں اسلام کا نام اور مسلمانوں کے شعائر و علامات کے استعمال سے روکنے، اور توہین رسالت پر موت کی سزا کے قوانین پاکستانی باشندوں کے عوامی فیصلے کی حیثیت رکھتے ہیں۔ لیکن اس کے باوجود امریکہ اور دیگر مغربی ممالک اور ادارے ان پر نظرثانی کا مسلسل مطالبہ کر رہے ہیں۔ اگرچہ پاکستان کی وزارتِ خارجہ کے ترجمان عزیز احمد خان نے ایک بریفنگ میں واضح کر دیا ہے کہ یہ دونوں قوانین منتخب پارلیمنٹ کے طے کردہ ہیں اور حکومتِ پاکستان ان پر نظرثانی کا کوئی ارادہ نہیں رکھتی، لیکن ہمارے نزدیک صرف اتنی بات کافی نہیں ہے اور بین الاقوامی قوانین اور اسلامی احکام کے باہمی ٹکراؤ سے پیدا ہونے والے اس کنفیوژن کو دور کرنے کے لیے سنجیدہ محنت کی ضرورت ہے جس میں ملک کے دینی حلقوں اور حکومت دونوں کو اپنا اپنا کردار ادا کرنا چاہیے۔ ہمارے خیال میں اس مرحلے پر مندرجہ ذیل نکات کو منطق، استدلال اور معقولیت کے ساتھ عالمی رائے عامہ کے سامنے واضح کرنا ضروری ہے:
- اپنے اسلامی تشخص سے دستبردار ہونا پاکستان کے لیے ممکن نہیں ہے، اور اسلامی تشخص کو برقرار رکھتے ہوئے اقوامِ متحدہ کے انسانی حقوق کے چارٹر کو من و عن قبول کرنا بھی اس کے لیے ممکن نہیں ہے۔ اور یہ صرف پاکستان کا نہیں بلکہ دوسرے مسلم ممالک کا مسئلہ بھی ہے۔ اس لیے اقوامِ متحدہ کے انسانی حقوق کے چارٹر کی متنازع شقوں پر نظرثانی ناگزیر ہو چکی ہے اور اس کے لیے او آئی سی (اسلامی تعاون تنظیم) اور اقوام متحدہ کے درمیان علمی سطح پر سنجیدہ مذاکرات ہونے چاہئیں۔
- جن قوانین کی تبدیلی کا امریکی ایوان نمائندگان نے مطالبہ کیا ہے، وہ مخصوص مذہبی حلقوں کا مطالبہ نہیں بلکہ منتخب پارلیمنٹ کے فیصلے اور عوام کی غالب اکثریت کے دل کی آواز ہیں، اس لیے انہیں تبدیل کرنا جمہوری اصولوں کی نفی ہے۔
- پاکستان کے لیے اسلام دستوری بنیاد کی حیثیت رکھتا ہے اس لیے پاکستان میں اسلام کے خلاف بات کرنا یا اس کے کسی مسلمہ اصول کی نفی کرنا اسی طرح ہے جیسے امریکہ یا کسی اور ملک میں دستور کو چیلنج کرنا۔ اس لیے مذہب کو فرد کا پرائیویٹ معاملہ قرار دینے والے مغربی ممالک پاکستان کو خود پر قیاس نہ کریں اور اسے بھی اپنے دستور اور نظریاتی تشخص کے تحفظ کا اسی طرح حق دیں جس طرح انہوں نے خود اپنے ریاستی ڈھانچوں اور دستور کے تحفظ اور پاسداری کے لیے قوانین بنا رکھے ہیں۔