پاکستان کا مقصدِ وجود اور صورتِ حال: مقتدرہ سے چند گزارشات

   
۲ جنوری ۲۰۱۰ء

دینی جماعتوں کے اتحاد کے سلسلے میں راقم الحروف کی گزارشات کے حوالے سے حضرت مولانا مجاہد الحسینی، مولانا سید عطاء المومن شاہ بخاری، مولانا محمد احمد حافظ، مولانا محمد شفیع چترالی ، مولانا عبد القدوس محمدی اور دیگر حضرات نے مختلف مضامین میں مفید اور معلوماتی گفتگو فرمائی ہے، ان کی روشنی میں کچھ معروضات چند روز میں تفصیل کے ساتھ قارئین کی خدمت میں پیش کروں گا ان شاء اللہ۔ سردست ایک بات کی وضاحت ضروری سمجھتا ہوں کہ حضرت مولانا عمر لدھیانوی رحمہ اللہ کے بارے میں میرے تعزیتی کالم میں فیصل آباد کے حافظ ریاض احمد چشتی صاحب کو غلطی سے مولانا احمد علی لاہوری رحمہ اللہ کا خلیفہ مجاز لکھا گیا ہے جبکہ وہ ایک بزرگ حضرت مولانا ظفر احمد قادری رحمہ اللہ آف واہگہ کے خلیفہ مجاز ہیں، اس کی تصحیح کر لی جائے۔ اس کے ساتھ ایک دینی فورم کی فرمائش پر ملک کی موجودہ صورتحال میں عوامی تحریک کی ضرورت پر کچھ گزارشات قلمبند کی ہیں وہ قارئین کی خدمت میں پیش کی جا رہی ہیں۔

اسلامی جمہوریہ پاکستان کا قیام متحدہ ہندوستان میں مسلمانوں کے الگ اسلامی و تہذیبی تشخص کی بنیاد پر اس مقصد کے لیے وجود میں آیا تھا کہ اس خطے کے مسلمان اپنے عقیدہ و ثقافت کے مطابق زندگی بسر کر سکیں، اور مسلم معاشرے میں قرآن کریم اور جناب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت کی انفرادی و اجتماعی زندگی میں عملداری کا اہتمام ہو۔ تحریکِ پاکستان کے قائدین بالخصوص قائد اعظم محمد علی جناحؒ نے متعدد مواقع پر صراحت کے ساتھ اس امر کا اعلان کیا کہ پاکستان اسلامی فلاحی ریاست ہوگا۔ ایک خطاب میں قائد اعظم نے واضح کیا کہ

’’میرے پیشِ نظر ہمیشہ اسلامی ڈیموکریسی کا اصول رہا ہے۔ یہ میرا ایمان ہے کہ ہماری نجات کا راز ان سنہری اصولوں کے اتباع میں ہے جنہیں ہمارے مقنن اعظم نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں عطا فرمایا ہے، لہٰذا ہمیں اپنی ڈیموکریسی کی بنیاد حقیقی اسلامی نظریات اور اصولوں پر رکھنی چاہیے۔‘‘

جبکہ ۲۵ جنوری ۱۹۴۸ء کو کراچی بار ایسوسی ایشن سے خطاب کرتے ہوئے قائد اعظم نے کہا کہ

’’اسلامی اصول و ضوابط آج بھی اسی طرح قابلِ عمل ہیں جس طرح آج سے تیرہ سو سال پہلے تھے۔ اسلام محض رسوم و روایات اور روحانی نظریات کا مجموعہ نہیں ہے بلکہ یہ ہر مسلمان کے لیے ضابطۂ حیات بھی ہے۔ اسلام میں انسان انسان میں کوئی فرق نہیں ہے۔ مساوات، آزادی اور اخوتِ اسلام کے اساسی اصول ہیں۔ ہم دستور پاکستان بنائیں گے اور دنیا کو بتائیں گے کہ یہ اعلیٰ آئینی نمونہ ہے۔’’ (بحوالہ ’’قائد اعظم کے مہ و سال‘‘ جلد ۴، صفحہ ۳۳۰، از محمد علی چراغ، مطبوعہ سنگ میل پبلی کیشنز، لاہور)

اسی اصول کی بنیاد پر پاکستان کی پہلی دستور ساز اسمبلی نے قرارداد مقاصد منظور کی جس میں اللہ تعالیٰ کی حاکمیتِ اعلیٰ کا اقرار کرتے ہوئے کہا گیا ہے کہ پاکستان میں جمہور کے منتخب نمائندے اللہ تعالیٰ اور اس کے آخری رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی ہدایات کے مطابق ملک کا نظام چلائیں گے۔

پاکستان کے تمام مکاتبِ فکر کے اکتیس سرکردہ اکابر علماء کرام نے اسی اصول کی روشنی میں بائیس متفقہ دستوری نکات پیش کر کے یہ اعلان کیا کہ ملک کے دستوری اور قانونی نظام کے حوالے سے تمام مکاتبِ فکر ان نکات پر متفق ہیں اور اس بارے میں ان میں کوئی اختلاف نہیں ہے۔ جبکہ آج بھی ملک کے تمام مکاتب فکر کے علماء کرام ان بائیس دستوری نکات سے اصولی طور پر متفق ہیں اور ملک میں اسلامی نظام کے نفاذ کے لیے انہیں علمی و فکری اساس سمجھتے ہیں۔

اسی تسلسل میں ۱۹۷۳ء کے دستور میں اسلام کو ریاست کا سرکاری مذہب تسلیم کیا گیا اور طے پایا کہ پارلیمنٹ قرآن و سنت کے منافی قانون سازی نہیں کر سکے گی اور تمام مروجہ قوانین کو ایک مقررہ وقت کے اندر قرآن و سنت کے مطابق ڈھال لیا جائے گا، اور اس کے لیے اسلامی نظریاتی کونسل کی تشکیل عمل میں لائی گئی۔ مگر انتہائی افسوس کی بات ہے کہ ان دستوری فیصلوں کے بعد پینتیس سال سے زیادہ عرصہ گزر جانے کے باوجود ملک میں نفاذِ اسلام کا مسئلہ ہنوز روزِ اول کا منظر پیش کر رہا ہے، اور بعض مواقع پر پبلک دباؤ کے پیش نظر اگر کچھ جزوی اقدامات کیے بھی گئے ہیں تو ان پر عملدرآمد میں کسی سطح پر سنجیدگی نہیں پائی جاتی۔

اس کے برعکس پاکستان کو سیکولر ریاست بنانے کے خواہشمند بین الاقوامی اور ملکی حلقے مسلسل اس کوشش میں ہیں کہ اسلامی جمہوریہ پاکستان میں نفاذِ شریعت کے لیے اب تک کیے جانے والے اقدامات کو غیر مؤثر بنا دیا جائے، اور پاکستان کو کسی طرح دستوری طور پر بھی سیکولر ریاست کا درجہ دلایا جائے۔ اس سلسلے میں سیکولر حلقوں کی خواہشات کا اندازہ حال ہی میں دستور پاکستان پر نظرثانی کے لیے پارلیمنٹ کی طرف سے قائم کی جانے والی دستوری اصلاحات کمیٹی کے سامنے پیش کی جانے والی ان تجاویز سے کیا جا سکتا ہے، جن میں کہا گیا ہے کہ

  • اسلامی جمہوریہ پاکستان کے نام سے اسلامی کا لفظ حذف کر دیا جائے۔
  • صدر کے لیے مسلمان ہونے کی شرط ختم کی جائے۔
  • قرارداد مقاصد کو غیر عملی دفعہ کا درجہ دیا جائے،
  • اور تحفظِ ناموسِ رسالتؐ اور تحفظِ ختمِ نبوتؐ کے قوانین میں ترمیم کی جائے۔ وغیر ذلک

اس طرح ایک طرف تو ملک میں نفاذِ شریعت کے امکانات کو ختم کرنے اور پاکستان کے اسلامی نظریاتی تشخص کو مجروح کرنے کی مہم جاری ہے۔ مگر دوسری طرف کچھ جذباتی اور شدت پسند عناصر نے، جن کے پس منظر میں بین الاقوامی لابیوں اور ایجنسیوں کی منصوبہ بندی کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا، ملک کے بعض حصوں میں نفاذِ شریعت کی جدوجہد کے عنوان سے ہتھیار اٹھا کر اور مسلح جدوجہد کا راستہ اختیار کر کے ریاستی اداروں بالخصوص فوج کے ساتھ تصادم کی افسوسناک صورتحال پیدا کر رکھی ہے، جس سے ملک کا ہر شہری پریشان اور مضطرب ہے اور وطنِ عزیز کا امن اور سلامتی خطرے میں پڑ گئی ہے۔ اس پس منظر میں ہم حکومتِ پاکستان سے یہ گزارش کرنا ضروری سمجھتے ہیں کہ

  • پاکستان اور اسلام لازم و ملزوم ہیں اور پاکستان کو اسلامی تشخص سے محروم کرنے کی کوئی بھی کوشش پاکستان کے مقصدِ وجود اور اس کے لیے لاکھوں مسلمانوں کی عظیم قربانیوں کی نفی کے مترادف ہے۔
  • بانیانِ پاکستان کے صریح اعلانات، قرارداد مقاصد اور دستور پاکستان کی اسلامی دفعات کی رو سے حکمران طبقے کی یہ اسلامی، دستوری اور اخلاقی ذمہ داری ہے کہ وہ ملک میں نفاذِ شریعت کے لیے عملی اقدامات کرے اور اسلامی نظریاتی کونسل کی سفارشات کی روشنی میں تمام مروجہ غیر اسلامی قوانین کو قرآن و سنت کے مطابق ڈھالنے کا کام جلد از جلد مکمل کرے۔
  • ملک کو موجودہ سنگین معاشی بحران، غریب اور امیر کے درمیان تیزی سے بڑھتے ہوئے تفاوت، کمر توڑ مہنگائی اور اعصاب شکن غربت و افلاس کے خاتمے کے لیے ضروری ہے کہ سرمایہ دارانہ و جاگیردارانہ نظام سے نجات حاصل کر کے اسلامی اصولوں اور خلفاء راشدینؓ کے اسوہ کی روشنی میں دولت اور وسائل کی منصفانہ تقسیم کو یقینی بنایا جائے، اور بیت المال کے شرعی نظام کے تحت ملک کے عام شہریوں کو ضروریات زندگی فراہم کرنے اور بے روزگار، مفلس، نادار اور معذور افراد کی کفالت کا شفاف نظام قائم کیا جائے۔
  • میڈیا کے سرکاری اور پرائیویٹ ذرائع سے فحاشی، بے دینی اور اسلامی احکام و قوانین کی مخالفت کے تکلیف دہ سلسلہ کو فوری طور پر ختم کیا جائے اور قرآن و سنت کے احکام کی روشنی میں ابلاغ عامہ اور تفریح کے نظام کی اصلاح کی جائے۔
  • اس کے ساتھ ہی ہم یہ اعلان بھی ضروری سمجھتے ہیں کہ ملک میں نفاذِ اسلام کی جدوجہد کے لیے وہی طریق کار درست ہے جو ہمارے اکابر نے قیامِ پاکستان کے بعد اختیار کیا تھا کہ پراَمن اور قانونی جدوجہد کے لیے رائے عامہ کو منظم کیا جائے۔ اور پارلیمنٹ میں زیادہ سے زیادہ علماء کرام اور دینی ذہن رکھنے والے ارکان کو بھجوانے کے ساتھ ساتھ اسٹریٹ پاور کو حرکت میں لا کر اور پراَمن عوامی احتجاجی تحریک منظم کر کے حکمرانوں پر نفاذِ اسلام کے مطالبات منظور کرنے کے لیے دباؤ مسلسل بڑھایا جائے۔
  • ملک میں نفاذِ اسلام یا کسی بھی مطالبے کے لیے ہتھیار اٹھانے، مسلح جدوجہد اور ریاستی اداروں اور بالخصوص فوج کے ساتھ تصادم کی فضا پیدا کرنے کو ہم شرعاً درست نہیں سمجھتے۔ اور ایسے ہر عمل سے براءت کا اعلان کرتے ہوئے اس طرح کے تمام گروپوں سے اپیل کرتے ہیں کہ وہ تصادم کا راستہ ترک کر کے پراَمن عوامی جدوجہد کا راستہ اختیار کریں، تاکہ وہ نفاذِ شریعت کے جائز مطالبے کے لیے ملک بھر کے دینی حلقوں اور رائے عامہ کی حمایت حاصل کر سکیں۔ ہم انہیں یقین دلاتے ہیں کہ تصادم کا راستہ ترک کر کے پر امن جدوجہد کی راہ پر آنے پر نفاذِ شریعت کے اس مطالبے کو تمام مکاتبِ فکر کے علماء کرام اور تمام طبقات کے مسلمانوں کی بھرپور حمایت حاصل ہوگی اور یہ جدوجہد زیادہ مضبوطی اور اعتماد کے ساتھ آگے بڑھے گی۔
  • حکومت کی ذمہ داری ہے کہ وہ قومی خود مختاری اور ملکی وقار کے تحفظ اور ملکی معاملات میں روز افزوں امریکی مداخلت کا راستہ روکنے کے لیے جرأت و حوصلہ اور غیرت و حمیت کا مظاہرہ کرے۔ اور دہشت گردی کے خلاف جنگ کے حوالے سے پارلیمنٹ کی متفقہ قرارداد پر عملدرآمد کو یقینی بنانے کے ساتھ ساتھ قومی وحدت کے عملی اظہار کے لیے ملک کی تمام دینی و سیاسی جماعتوں کو اپنی پالیسیوں کے بارے میں اعتماد میں لے۔ نیز دہشت گردی اور شدت پسندی پر قابو پانے کے لیے شدت پسندوں کے ساتھ گفت و شنید اور مذاکرات کے امکانات کا بھی جائزہ لے، کیوں کہ اس کے بغیر معاملات پر مکمل گرفت اور کنٹرول کی کوئی صورت دکھائی نہیں دیتی۔
   
2016ء سے
Flag Counter