بھٹو حکومت کے دو سال

   
۲۸ دسمبر ۱۹۷۳ء

حکمران پارٹی نے اقتدار کے دو سال مکمل ہونے پر ۲۰ دسمبر کو ’’یوم محاسبہ‘‘ کے نام سے سالگرہ منائی ہے۔ اس روز اخبارات و جرائد نے خاص نمبر شائع کیے، ریڈیو و ٹی وی سے خصوصی پروگرام نشر کیے گئے، نیشنل سنٹرز میں اجتماعات ہوئے اور خود وزیراعظم نے راولپنڈی میں ایک بڑا جلسۂ عام منعقد کیا جس میں ملک کے مختلف حصوں سے کثیر تعداد میں حکمران پارٹی کے کارکن شریک ہوئے۔ اگرچہ یہ سارے انتظامات دو سالہ کارکردگی کے محاسبہ کے عنوان سے کیے گئے تھے لیکن حسب توقع ’’سب اچھا ہے‘‘ کی رسمی صدا کے سوا اس نقارخانے میں کچھ بھی سنائی نہیں دیا اور اس انبوہ کثیر میں کسی صاحب کو توفیق نہیں ہوئی کہ وہ دو سال کی کارکردگی پر تنقیدی نظر ڈالے اور پارٹی کے ذمہ دار قائدین کو ان کی کوتاہیوں سے آگاہ کر کے صحیح مشورہ دے۔

دو سال کا یہ عرصہ اس لحاظ سے انتہائی اہمیت کا حامل ہے کہ پاکستان کا بڑا حصہ الگ ہو جانے کے بعد ماضی کی غلط سیاست سے پیچھا چھڑا کر بچے کھچے ملک کو متحد اور محفوظ رکھنے کے لیے باہمی رواداری اور اعتماد کے ساتھ ایک نئے نظام کی بنیاد رکھی جا سکتی تھی۔ مگر جب اس نقطۂ نظر سے گزشتہ دو سال پر نگاہ ڈالتے ہیں تو سوائے مایوسی کے اور کچھ دکھائی نہیں دیتا۔ دو سال قبل جب پیپلز پارٹی برسرِ اقتدار آئی تھی اس وقت ملک کا سب سے بڑا مسئلہ یہ تھا کہ مشرقی پاکستان کی علیحدگی کے اسباب واضح کر کے ان کے اثرات سے باقی ماندہ پاکستان کو محفوظ رکھنے کے لیے انتظامات کیے جائیں اور ان غلط پالیسیوں اور نقصان دہ منصوبہ بندیوں کو خیرباد کہہ دیا جائے جن کے نتیجہ میں دنیا کی سب سے بڑی مسلم مملکت دولخت ہو کر رہ گئی۔ مگر انتہائی حیرت، تعجب اور افسوس کے ساتھ یہ کہنا پڑتا ہے کہ

  • حکمران پارٹی نے ان دو برسوں میں اس اہم ترین قومی مسئلہ کی طرف کوئی توجہ نہیں دی،
  • المیہ مشرقی پاکستان کے اسباب و علل سے ابھی تک پردہ نہیں اٹھایا جا سکا،
  • پاکستان کو توڑنے والا ہاتھ ہنوز پردۂ غیب میں ہے،
  • ملک کے باقی ماندہ حصوں کو متحد رکھنے کے لیے کوئی سنجیدہ کوشش نہیں کی گئی،
  • بلکہ چھوٹے صوبوں میں نمائندہ حکومتوں کی بجائے اپنی مرضی کی حکومتیں مسلط کر کے، وہاں کے لاتعداد سیاسی کارکنوں کو جیلوں میں ٹھونس کر، فوج کو سیاست میں ملوث کر کے، اور اظہار رائے کا حق سلب کر کے سیاسی محرومی کے احساسات کو یقین میں بدلنے کی بتدریج کوشش جاری ہے،
  • اور ملک کے دو حصوں کے درمیان منافرت بڑھانے اور المیہ سقوط ڈھاکہ پر منتج ہونے والی پالیسیاں بدستور حیطۂ عمل میں ہیں۔

یہی وجہ ہے کہ ملک کے مستقبل جیسے نازک اور اہم مسئلہ کے بارے میں بے یقینی کے سائے عوام کے ذہنوں پر لرز رہے ہیں۔ اس اہم ترین قومی مسئلہ کے علاوہ ملک و قوم کے مفاد کے دیگر مسائل بھی ابھی تک حل طلب ہیں بلکہ پہلے سے بھی زیادہ الجھ چکے ہیں۔

  • گرانی آسمان سے باتیں کر رہی ہے،
  • انصاف ناپید ہے اور آئین و قانون ’’عوامی قوت‘‘ کے خوف سے کونوں میں دبکے بیٹھے ہیں،
  • جان و مال اور آبرو کے تحفظ کا احساس پہلے کی بہ نسبت زیادہ کمزور پڑ چکا ہے،
  • رشوت، سرخ فیتہ اور اقربا پروری کا عفریت قوم کو تگنی کا ناچ نچا رہا ہے،
  • پولیس، سرکاری دفاتر اور محکموں کے چال چلن میں کوئی فرق نہیں آیا،
  • فوج ابھی تک سیاست کے نشہ سے پیچھا نہیں چھڑا سکی،
  • قومی پریس، ریڈیو، ٹی وی اور دیگر ابلاغ عامہ کے ذرائع ’’سب اچھا‘‘ کی رٹ لگانے پر مجبور ہیں،
  • سیاسی مخالفین کو انتقامی کاروائیوں کا نشانہ بنانے کی پالیسی میں کوئی تبدیلی نہیں ہوئی،
  • جھرلو اور دھاندلی کے ذریعہ الیکشن جیتنے کے حربے اسی طرح موجود اور برسرِ عمل ہیں،
  • اور نمائندوں کے ضمیر خرید کر رائے عامہ کا اسی طرح مذاق اڑایا جا رہا ہے۔

ان حالات میں حکمرانوں کو ’’سب اچھا‘‘ کی لوری سنا کر قوم و ملک کے مسائل سے غافل کرنا اور اقتدار و خوشامد کے نشہ میں مدہوش کر دینا کسی محب وطن اخبار یا لیڈر کا کام نہیں ہو سکتا۔ خدا جانے ہمارے قومی پریس اور اقتدار پرست سیاستدانوں کو کب ہوش آئے گا۔

   
2016ء سے
Flag Counter