ہفت روزہ ترجمان اسلام، لاہور

مولانا قاضی عبد اللطیف پر بغاوت کا مقدمہ؟

روزنامہ جنگ لاہور ۲۷ اگست کی ایک خبر کے مطابق وفاقی وزارت قانون جمعیۃ علماء اسلام صوبہ سرحد کے امیر مولانا قاضی عبد اللطیف کے خلاف بغاوت کا مقدمہ درج کرنے کا جائزہ لے رہی ہے۔ خبر کے مطابق قاضی صاحب موصوف نے گزشتہ دنوں ایک پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے فوج کو موجودہ صورتحال میں مداخلت کی دعوت دی تھی جس کا وفاقی حکومت نے سنجیدگی سے نوٹس لیا ہے ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر

۲۵ اگست ۱۹۸۹ء

امریکہ میں یورپی آبادکاروں کا’’یوم تشکر‘‘

اٹلانٹا (جارجیا) کا ائیرپورٹ امریکہ کے بڑے ہوائی اڈوں میں شمار ہوتا ہے اور کہا جاتا ہے کہ اس ائیرپورٹ پر بسا اوقات ایک گھنٹہ میں سو سے زیادہ فلائٹیں اترتی ہیں۔ اتنے بڑے ائیر پورٹ پر آنے والے مسافر کی فلائیٹ کا نمبر اور وقت کا صحیح علم نہ ہو تو مسافر کو لینے کے لیے ائیر پورٹ پر آنے والے حضرات کے لیے مسئلہ بن جاتا ہے جس کا سامنا مجھے بھی کرنا پڑا۔ میں ۱۹ نومبر کو شام ساڑھے چھ بجے ٹورانٹو سے اٹلانٹا پہنچا اور حسب معمول بیگیج کلیم کے لاؤنج تک آگیا جہاں سے افتخار رانا صاحب مجھے وصول کیا کرتے ہیں ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر

۱۹۸۹ء غالباً

عورت کی حکمرانی اور مولانا فضل الرحمان کا موقف

عورت کی حکمرانی کے بارے میں تمام مکاتب فکر کے جمہور علماء ایک طرف ہیں کہ قرآن و سنت کے صریح احکام اور امت مسلمہ کے چودہ سو سالہ تواتر عملی کے باعث کسی مسلمان ملک پر عورت کے حکمران بننے کا شرعاً کوئی جواز نہیں ہے۔ جبکہ علماء کہلانے والے چند افراد دوسری طرف ہیں جو کسی منطق، استدلال اور جواز کے بغیر سرکاری ذرائع ابلاغ کے ذریعہ اس پراپیگنڈا میں مصروف ہیں کہ عورت کے حکمران بن جانے میں کوئی حرج نہیں ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر

۱۷ مارچ ۱۹۸۹ء

افغانستان اور روسی فوجیں

روس نے جنیوا گٹھ جوڑ کے ذریعہ یہ منصوبہ بندی کی تھی کہ افغان مجاہدین کو درمیان سے نکال کر افغانستان میں اپنی مرضی کی کوئی اور حکومت قائم ہو جائے، اور پھر عالمی رائے عامہ کی آنکھوں میں دھول جھونک کر اسے افغان عوام کی نمائندہ حکومت تسلیم کرا لیا جائے۔ لیکن روسی فوجوں کی واپسی کے ساتھ ساتھ افغان مجاہدین نے مختلف محاذوں پر جو کامیاب پیش قدمی کی ہے ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر

۱۸ نومبر ۱۹۸۸ء

مجلس تحفظ ختم نبوت ہندوستان کے نائب صدر مولانا محمد اسماعیل کٹکی سے ملاقات

۳۱ اگست ۱۹۸۸ء کو لندن میں منعقد ہونے والی چوتھی سالانہ عالمی ختم نبوت کانفرنس میں بھارت سے ایک بزرگ عالم دین مولانا محمد اسماعیل کٹکی تشریف لائے اور اپنے خطاب میں یہ کہہ کر سب حاضرین و سامعین کو چونکا دیا کہ مسلمانوں اور قادیانیوں کی میں ختم نبوت کے عقیدہ پر اختلاف نہیں ہے کیونکہ مسلمانوں کی طرح قادیانی حضرات بھی سلسلۂ نبوت کو منقطع اور ختم مانتے ہیں ۔ ۔ مکمل تحریر

۱۸ نومبر ۱۹۸۸ء

۱۶ نومبر، قومی تاریخ کا فیصلہ کن موڑ

۱۶ نومبر کے عام انتخابات کے لیے سیاسی جماعتوں کی انتخابی مہم آخری مراحل میں داخل ہو گئی ہے اور یہ سطور قارئین کے سامنے آنے تک انتخابی جوش و خروش انتہائی عروج تک پہنچ چکا ہو گا۔ اسلامی جمہوری اتحاد کے میدانِ عمل میں آنے سے اس وقت ملک دو واضح کیمپوں میں تقسیم ہو چکا ہے: ایک طرف پاکستان پیپلز پارٹی ہے جو اس ملک کی دینی روایات اور نظریاتی تشخص کے برعکس ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر

۱۸ نومبر ۱۹۸۸ء

حضرت مولانا محمد مالک کاندھلویؒ

تحریک پاکستان کے رہنما شیخ الاسلام علامہ شبیر احمدؒ عثمانی کے فکری جانشین اور جامعہ اشرفیہ لاہور کے شیخ الحدیث مولانا محمد مالک کاندھلویؒ راہیٔ ملکِ عدم ہوگئے، انا للہ وانا الیہ راجعون۔ ان کی عمر باسٹھ سال تھی اور وہ تحریک پاکستان کے بزرگ راہنما، مفسر و محدث اور جید عالم دین مولانا محمد ادریس کاندھلویؒ کے فرزند ارجمند تھے ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر

۲۱ اکتوبر ۱۹۸۸ء

برطانیہ میں مسلم فرقہ واریت کے اثرات

اس وقت میں برطانیہ کے شہر شیفیلڈ میں مولانا مفتی محمد یونس کشمیری کی رہائشگاہ میں بیٹھا ہوں۔ لندن سے شائع ہونے والا اردو روزنامہ ملت (۲۶ اگست) میرے سامنے ہے، اس کے صفحہ اول پر ایک خبر کی تین کالمی سرخی یہ ہے: ’’نیلسن میں برائرفیلڈ کی مسجد میں ہنگامہ کرنے پر ۶ افراد کو جرمانے کی سزا’’۔ خبر کے مطابق مذکورہ مسجد میں کچھ عرصہ قبل امامت کے مسئلہ پر دو فریقوں میں تنازعہ ہوا جو باہمی تصادم کی شکل اختیار کر گیا۔ مسجد کچھ عرصہ کے لیے بند کر دی گئی۔ پنج وقتہ نمازیں بھی مسلمان اس عرصے میں ادا نہ کر سکے ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر

۸ اکتوبر ۱۹۸۸ء

مسز بے نظیر زرداری اور علماء کرام ‒ افغان جارحیت اور جنیوا معاہدہ

بدقسمتی سے ہماری سیاست اس وقت مکمل طور پر غیر ملکی حصار میں جکڑی ہوئی ہے۔ بڑے سیاسی راہنما غیر ملکی آقاؤں کی خوشنودی کے لیے ان کے اشارہ ابر پر چلنے کو اپنے لیے باعث افتخار سمجھتے ہیں۔ اس تگ و دو میں وہ دینی مسلمات اور صریح احکامات تک کو ہدف تنقید بنانے سے گریز نہیں کرتے۔ لادین سیاسی نظریات کی حامل تنظیمیں تو ہمیشہ سے اسلامی تعلیمات اور قوانین و ضوابط کی تضحیک کو اپنا بہترین مشغلہ بنائے ہوئے ہیں ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر

۱۶ ستمبر ۱۹۸۸ء

قادیانیوں کی تازہ مہم اور حکومت کی ذمہ داری

آئی جی پنجاب کی پریس کانفرنس میں مولانا محمد اسلم قریشی کی اچانک برآمدگی کے ڈرامہ کے ساتھ ہی ملک بھر میں مرزا طاہر احمد کے اس کتابچہ کی وسیع پیمانے پر تقسیم و اشاعت کا سلسلہ شروع ہوگیا ہے جس میں قادیانی جماعت کے سربراہ نے دنیا بھر کے مسلمانوں کو ’’مباہلہ‘‘ کا چیلنج دے کر بظاہر اپنی پاک دامنی اور سچائی کا ثبوت دینے کی کوشش کی ہے۔ مباہلہ کا یہ چیلنج لندن سے رجسٹرڈ ڈاک کے ذریعے مدیر ترجمان اسلام لاہور کو بھی موصول ہوا ہے، اس کا مفصل جواب آئندہ شمارہ میں دیا جا رہا ہے ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر

۵ اگست ۱۹۸۸ء

گلگت کو صوبہ بنانے کا منصوبہ

ہم اس سے قبل ان کالموں میں گلگت اور دیگر شمالی علاقہ جات کو نیا صوبہ بنانے کا منصوبہ پر اظہار خیال کر چکے ہیں اور ہمارے نقطۂ نظر سے پاکستان، چین، بھارت، روس اور افغانستان کی سرحدوں کے درمیان اس نازک اور حساس خطہ کو الگ صوبہ کی حیثیت دینا کسی طرح بھی ملک کے مفاد میں نہیں ہے ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر

۵ اگست ۱۹۸۸ء

کمیونزم نہیں اسلام

کمیونزم ایک انتہا پسندانہ اور منتقمانہ نظام کا نام ہے جو سرمایہ دارانہ و جاگیردارانہ نظام کے مظالم کے ردعمل کے طور پر ظاہر ہوا ہے۔ محنت کشوں اور چھوٹے طبقوں کی مظلومیت اور بے بسی کو ابھارتے ہوئے اس نظام نے منتقمانہ جذبات اور افکار کو منظم کرنے میں کامیابی حاصل کی ہے اور یہ کھیل اسلامی ممالک اور پاکستان میں بھی کھیلا جا رہا ہے۔ پاکستان سمیت مسلم ممالک میں سرمایہ دارانہ اور جاگیردارانہ نظام اپنی تمام تر خرابیوں اور مظالم کے ساتھ آج بھی نافذ ہے اور اس ظالمانہ نظام نے انسانی معاشرت کو طبقات میں تقسیم کر کے انسان پر انسان کی خدائی اور بالادستی کا بازار گرم کر رکھا ہے ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر

مئی ۱۹۸۸ء ۔ جلد ۳۱ شمارہ ۱۹ و ۲۰

کُل پاکستان نظامِ شریعت کانفرنس اور مقامی و ضلعی جمعیتوں کی ذمہ داری

جمعیۃ علماء اسلام پاکستان کے زیر اہتمام ۴ مارچ ۱۹۸۸ء کو مینارِ پاکستان پارک لاہور میں کُل پاکستان نظامِ شریعت کانفرنس کے انعقاد کا اعلان کیا گیا ہے۔ اس سلسلہ میں صوبائی جمعیتوں کی طرف سے سرگرمیوں کا آغاز ہو چکا ہے اور مرکزی و صوبائی راہنماؤں کے وفود ملک کے مختلف حصوں کے دورے کر رہے ہیں ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر

۲۶ فروری ۱۹۸۸ء

فرقہ وارانہ واقعات اور دینی راہنماؤں کی ذمہ داری

گزشتہ روز پنجاب کے دارالحکومت لاہور میں بیگم کوٹ کے مقام پر فرقہ وارانہ دہشت گردی کا ایک اور افسوسناک سانحہ رونما ہوا اور ایک مکتبِ فکر کی مسجد پر دوسرے مکتبِ فکر کے قبضہ کی کوشش نے ایک نوجوان کی جان لے لی۔ مبینہ طور پر بیگم کوٹ لاہور کی مسجد طیبہ اہل السنت والجماعۃ حنفی دیوبندی مکتبِ فکر کے لوگوں کے زیر انتظام چلی آتی ہے ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر

۵ فروری ۱۹۸۸ء

خان عبد الغفار خان مرحوم

خان عبد الغفار خان مرحوم کا شمار برصغیر کی ان ممتاز شخصیات میں ہوتا ہے جنہوں نے برطانوی استعمار کے خلاف جنگ آزادی کی جرأت مندانہ قیادت کی اور عزم و استقلال کے ساتھ قربانیوں اور مصائب و آلام کے مراحل طے کر تے ہوئے قوم کو آزادی کی منزل سے ہمکنار کیا۔ انہوں نے وطن عزیز کی آزادی کے لیے قید و بند کی مسلسل صعوبتیں برداشت کیں اور تخویف و تحریص کے ہر حربہ کو ناکام بناتے ہوئے برٹش استعمار کو بالآخر اس سرزمین سے بوریا بستر سمیٹنے پر مجبور کر دیا ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر

۲۹ جنوری ۱۹۸۸ء

علامہ محمد اقبالؒ اور سردار محمد عبد القیوم خان

روزنامہ نوائے وقت لاہور نے ڈاکٹر جاوید اقبال اور سردار محمد عبد القیوم خان کی ناروے کی تقاریر کے حوالے سے جس افسوسناک بحث کا آغاز کیا تھا اس کا سلسلہ دراز ہوتا جا رہا ہے اور نوئے وقت اس بحث کو بلاوجہ طول دے کر اس مطالبہ پر اصرار کر رہا ہے کہ سردار محمد عبد القیوم خان اپنی ناروے کی تقریر میں علامہ محمد اقبالؒ کی مبینہ توہین پر معافی مانگیں۔ جبکہ سردار صاحب کا موقف یہ ہے کہ انہوں نے علامہ محمد اقبالؒ کی توہین نہیں کی بلکہ علامہ اقبالؒ کے نام سے غلط نظریات اور گمراہ کن خیالات پیش کرنے والوں کو ہدف تنقید بنایا ہے اور اس پر وہ کسی معذرت کے لیے تیار نہیں ہیں ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر

۲۲ جنوری ۱۹۸۸ء

قومی سنی کنونشن کے سلسلہ میں ایک ضروری وضاحت

یادش بخیر حضرت مولانا فضل الرحمٰن نے روزنامہ جنگ لاہور کے ۱۳ جنوری ۱۹۸۸ء کے شمارہ میں شائع ہونے والے ایک بیان میں ’’قومی سنی کنونشن‘‘ سے لاتعلقی کا اعلان کرتے ہوئے تین باتیں فرمائی ہیں: کنونشن کے سلسلہ میں ان کی جماعت کو اعتماد میں نہیں لیا گیا اور وہ اس کے مقاصد اور اہداف سے بے خبر ہیں ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر

۲۲ جنوری ۱۹۸۸ء

افغان حریت پسندوں کا جہادِ آزادی: پس منظر، ثمرات اور توقعات

آج سے آٹھ سال قبل جب روس نے افغانستان کو اپنی مسلح فوجی یلغار کا نشانہ بنایا تو روس کی عظیم فوجی قوت، افغانستان میں کمیونسٹ لابی کے مؤثر اور مسلسل ورک، اور دینی حلقوں کے نمایاں خلفشار و انتشار کو دیکھتے ہوئے یہ بات عام طور پر زبانوں پر آگئی تھی کہ اب بخارا، تاشقند اور سمرقند کی طرح افغانستان کا یہ خطہ بھی روس کے زیر تسلط مسلم ریاستوں کے زمرے میں شامل ہو جائے گا۔ کیونکہ بظاہر افغانستان میں کوئی ایسی قوت دکھائی نہیں دے رہی تھی جو کمیونسٹ لابی کے تسلط اور روسی افواج کی مداخلت کا سامنا کر سکے ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر

۲۵ دسمبر ۱۹۸۷ء

مولانا سید ارشد مدنی اور مولانا اعجاز احمد قاسمی کی پاکستان تشریف آوری

شیخ العرب والعجم حضرت مولانا سید حسین احمد مدنیؒ کے فرزند اور دارالعلوم دیوبند کے استاذ الحدیث حضرت مولانا سید ارشد مدنی مدظلہ العالی گزشتہ ہفتہ پاکستان تشریف لائے اور اسیر مالٹا حضرت مولانا عزیر گل دامت برکاتہم کی زیارت و عبادت کے علاوہ مختلف مقامات پر علماء کرام اور دیگر راہنماؤں سے ملاقات کی۔ حضرت موصوف شیرانوالہ گیٹ لاہور بھی تشریف لے گئے ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر

۱۱ دسمبر ۱۹۸۷ء

برطانیہ کے دو دینی ادارے: دارالعلوم ہولکمب بری اور مدینۃ العلوم الاسلامیہ کڈر منسٹر

برطانیہ میں بیس دن گزارنے کے بعد پاکستان واپس آتے ہوئے ۲۳ ستمبر کو رات دس بجے جدہ ایئرپورٹ پر اترا اور بحمد اللہ تعالیٰ ایک بجے شب عمرہ کی ادائیگی کے لیے مسجد حرام کے دروازے تک پہنچ گیا۔ برطانیہ میں قیام کے دوران ۲۰ ستمبر کو ویمبلے سنٹر لندن میں منعقد ہونے والی تیسری سالانہ عالمی ختم نبوت کانفرنس میں شرکت کے علاوہ دو اور تقریبات میں بھی حاضری کی سعادت حاصل ہوئی ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر

۲۳ اکتوبر ۱۹۸۷ء

چند روز حرمین شریفین کی فضاؤں میں

لندن کی عالمی ختم نبوت کانفرنس میں شرکت کے بعد واپسی پر عمرہ کا ارادہ تھا، سعودی عرب کے سفارت خانہ سے رابطہ قائم کیا تو معلوم ہوا کہ ابھی عمرہ کے ویزا پر پابندی ہے۔ عالمی مجلس تحفظ ختم نبوت کے ایک وفد نے مولانا سید عبد القادر آزاد کی سربراہی میں سفارتخانہ کے حکام سے ملاقات کی تو ختم نبوت کانفرنس کے شرکاء میں سے واپسی پر عمرہ ادا کرنے کے خواہشمند حضرات کو وزٹ ویزا دے دیا گیا۔ چنانچہ ۲۳ ستمبر کو KLM کی فلائٹ سے پہلے لندن سے ایمسٹرڈیم اور پھر وہاں سے جدہ کا سفر کیا ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر

۲۳ اکتوبر ۱۹۸۷ء

مہدی سوڈانی کا تعارف اور امام سراج وہاج سے ایک ملاقات

میرے نیویارک کے سفر کے مقاصد میں بلیک مسلم تحریک کے مختلف گروپوں کے بارے میں معلومات حاصل کرنا اور کسی صحیح العقیدہ گروپ کے ساتھ رابطہ کی کوشش کرنا بھی تھا۔ چنانچہ اس میں اس حد تک کامیابی حاصل ہو سکی کہ حلقہ اسلامی شمالی امریکہ کے امیر جناب عبد الشکور کی وساطت سے بلیک مسلم تحریک کے ایک اہم راہنما امام سراج وہاج کے ساتھ ایک تفصیلی نشست ہوئی۔ اور ’’انصار اللہ‘‘ کے نام سے کام کرنے والے ایک اور بلیک مسلم گروپ کے بارے میں عربی زبان میں ایک کتابچہ میسر آگیا ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر

۲ اکتوبر ۱۹۸۷ء

امریکہ میں پاکستانیوں کی سرگرمیاں

نیویارک کے علاقہ بروکلین میں مقیم پاکستانی ان دنوں پاکستان سوسائٹی کے سالانہ انتخابات کی گہماگہمی میں مصروف ہیں۔ ایک طرف جناب عبد الشکور کا گروپ ہے اور دوسری طرف جناب محمد الیاس اور ان کے رفقاء سرگرم عمل ہیں۔ جناب عبد الشکور پنجاب یونیورسٹی کے سابق طالب علم راہنما کی حیثیت سے پاکستان میں معروف ہیں اور یہاں حلقہ اسلامی شمالی امریکہ کے امیر کے منصب پر فائز اپنے مشن کے لیے مصروفِ کار ہیں، سرگرم، پرجوش اور مرنجان مرنج شخصیت کے حامل ہیں ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر

۲۵ ستمبر ۱۹۸۷ء

نیویارک میں پاکستان کا قومی دن ۔ عوامی پریڈ، راگ و رنگ اور نظریۂ پاکستان

۲۲ اگست کو صبح نماز کے بعد فندق الاسلامی ہوٹل سے قاہرہ ایئرپورٹ کے لیے روانہ ہوا تو سورج نکل رہا تھا اور ایئرپورٹ پر پہنچنے تک پوری آب و تاب کے ساتھ افق پر جلوہ گر ہو چکا تھا۔ آٹھ بجے کے ایل ایم ایئرلائن کی ایمسٹرڈیم (نیدرلینڈ کا دارالحکومت) کے لیے فلائٹ تھی جو ساڑھے بارہ بجے وہاں پہنچی، وہاں بھی وقت ساڑھے بارہ ہی تھا۔ یہاں سے نیویارک کے لیے دوسری فلائیٹ کا وقت شام چھ بجے کا تھا جس نے آٹھ گھنٹہ کی پرواز کے بعد نیویارک پہنچنا تھا ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر

۲۵ ستمبر ۱۹۸۷ء

انسانی حقوق اور قادیانی مسئلہ

روزنامہ جنگ لندن ۹ ستمبر ۱۹۸۷ء کی ایک خبر کے مطابق جنیوا میں انٹرنیشنل کمیشن آف جیورسٹس نے پاکستان میں انسانی حقوق کی صورتحال کے بارے میں حال ہی میں جو رپورٹ جاری کی ہے اس میں گزشتہ دسمبر میں کمیشن کے ارکان کے دورۂ پاکستان کا حوالہ دیتے ہوئے اقلیتوں کے بارے میں امتیازی قوانین کا ذکر کیا گیا اور خاص طور پر ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر

ستمبر ۱۹۸۷ء

بیرون ملک مقیم پاکستانیوں کے مسائل کے بارے میں سالانہ کانفرنس کی تجویز

دوبئی سے قاہرہ روانگی سے قبل میں نے اپنے تاثراتی مضمون میں بیرونِ ملک مقیم پاکستانیوں کے بعض مسائل اور مشکلات کا ذکر کیا تھا اور جب قاہرہ پہنچا تو یہاں بیرونی ممالک میں کام کرنے والے مصریوں کی سالانہ کانفرنس شروع تھی۔ اس کانفرنس کا اہتمام حکومتِ مصر کرتی ہے اور اس میں بیرونِ مصر کام کرنے والے مصریوں کے سرکردہ نمائندوں کے علاوہ حکومت کے ذمہ دار حضرات بھی شریک ہوتے ہیں۔ اس وقت مصر کا قومی اخبار ’’الاہرام‘‘ میرے سامنے ہے ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر

۱۱ ستمبر ۱۹۸۷ء

قاہرہ میں پانچ دن ۔ مشاہدات، تاثرات اور محسوسات

بیرونی ممالک میں کام کرنے والے مصریوں کی چوتھی سالانہ کانفرنس گزشتہ روز ختم ہوگئی ہے۔ یہ کانفرنس پانچ روز جاری رہی، اس کے افتتاحی اجلاس سے صدرِ مصر جناب حسنی مبارک نے اور اختتامی اجلاس سے وزیراعظم جناب ڈاکٹر عاطف صدقی نے خطاب کیا۔ اس دوران مختلف وزارتوں اور محکموں کے سربراہوں نے کانفرنس کے شرکاء کے سامنے مصری حکومت کی پالیسیوں پر روشنی ڈالی اور بیرونِ ملک مقیم مصریوں کے نمائندوں نے بھی خطاب کیا ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر

۱۱ ستمبر ۱۹۸۷ء

جمعیۃ اہل السنۃ والجماعۃ متحدہ عرب امارات کے سربراہ مولانا محمد فہیم سے ملاقات

سوات سے تعلق رکھنے والے بزرگ عالم دین مولانا محمد فہیم کو جمعیۃ اہل السنۃ والجماعۃ متحدہ عرب امارات کا دوبارہ متفقہ طور پر امیر منتخب کر لیا گیا ہے۔ مولانا موصوف ۱۹۸۰ء سے، جب سے جمعیۃ اہل السنۃ قائم ہوئی ہے، اس کے امیر چلے آرہے ہیں۔ جمعیۃ اہل السنۃ والجماعۃ للدعوۃ والارشاد متحدہ عرب امارات کی سطح پر گزشتہ سات برس سے کام کر رہی ہے اور اس میں متحدہ عرب امارات میں مقیم پاکستان، بھارت اور بنگلہ دیش سے تعلق رکھنے والے علماء اور دینی کارکن شریک ہیں۔ تمام ریاستوں میں جمعیۃ کی باقاعدہ شاخیں کام کر رہی ہیں ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر

۲۸ اگست ۱۹۸۷ء

جہادِ افغانستان اور عالمِ اسلام

جہاد اسلام کے بنیادی احکام میں سے ایک حکم ہے جس پر ملت اسلامیہ کی سطوت و شوکت اور غلبہ و اقتدار کا دارومدار ہے۔ قرآن کریم میں اللہ رب العزت نے جہاد کے احکام و مسائل اسی تفصیل و اہتمام کے ساتھ ذکر فرمائے ہیں جس تفصیل و اہتمام کے ساتھ نماز، روزہ، حج، زکوٰۃ اور دیگر احکام شرعیہ کا ذکر کیا گیا ہے۔ قرونِ اولیٰ میں اسلام کے احکام کا ذکر جب بھی ہوتا تھا جہاد کا ذکر ان کے ساتھ ہوتا تھا اور نماز، روزہ، حج، زکوٰۃ اور جہاد میں فکری یا عملی طور پر کوئی فرق نہیں کیا جاتا تھا ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر

۲۱ اگست ۱۹۸۷ء

شریعت بل پر اتفاق رائے ۔ وزیراعظم محمد خان جونیجو کے نام کھلا خط

گزارش ہے کہ روزنامہ مشرق لاہور ۲۷ جون ۱۹۸۷ء کی اشاعت میں ایک خبر شائع ہوئی ہے جس کے مطابق وفاقی کابینہ نے شریعت بل کے بارے میں عوامی رابطہ کے عنوان سے وزراء کے ملک گیر دوروں کا پروگرام طے کیا ہے اور اس پروگرام کی تکمیل تک سینٹ کے اجلاس کے انعقاد کو مؤخر کرنے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔ خبر کے مطابق وزراء کے ان دوروں کا مقصد یہ بیان کیا گیا ہے کہ شریعت بل کو تمام طبقات کے لیے قابل قبول بنایا جائے۔ اس خبر کے حوالہ سے آنجناب کی خدمت میں چند ضروری گزارشات پیش کرنا ضروری سمجھتا ہوں ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر

۳ جولائی ۱۹۸۷ء

مولانا سید حامد میاں، شریعت بل اور فقہ حنفی

جامعہ مدنیہ لاہور کے مہتمم اور شیخ الحدیث حضرت مولانا سید حامد میاں مدظلہ العالی ہمارے ملک کے بڑے علماء میں شمار ہوتے ہیں اور اس وقت ایم آر ڈی میں شامل ایک جماعت کے سربراہ بھی ہیں۔ کراچی کے ہفت روزہ تکبیر کی ۲۵ جون ۱۹۸۷ء کی اشاعت میں ان کا ایک انٹرویو شائع ہوا ہے جس میں انہوں نے بعض دیگر مسائل کے علاوہ ’’شریعت بل‘‘ کے بارے میں بھی اظہار خیال فرمایا ہے ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر

۳ جولائی ۱۹۸۷ء

پاکستان کے لیے امریکی امداد کی شرائط یا ریموٹ کنٹرول غلامی کا امریکی منصوبہ؟

پہلی اور دوسری جنگِ عظیم کے بعد جب استعماری قوتوں کے قویٰ مضمحل ہونے لگے اور نوآبادیاتی مقبوضات پر ان کی گرفت قائم رہنے کے امکانات کم ہوگئے تو ان غلام ملکوں کے رہنے والے عوام کی اس دیرینہ خواہش کی تکمیل کے آثار پیدا ہوگئے کہ وہ آزاد قوم کی حیثیت سے آزاد فضا میں سانس لے سکیں اور استعماری قوتوں کے مقبوضہ ممالک یکے بعد دیگرے آزاد ہونے لگے۔ لیکن سامراجی طاقتوں نے نوآبادیاتی مقبوضات پر تسلط سے مکمل طور پر دستبردار ہونے کی بجائے ایسی حکمتِ عملی اختیار کی ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر

۲۶ جون ۱۹۸۷ء

شریعت بل کا مخالف کون ہے اور کس لیے ہے؟

شریعت بل کی مخالفت میں سب سے پیش پیش حکومتی حلقے ہیں۔ جس روز سینٹ میں ’’شریعت بل‘‘ پیش کیا گیا اس وقت کے وزیر قانون اقبال احمد خان نے اسے بحث کے لیے منظور کرنے کی مخالفت کی، لیکن ووٹنگ میں اس وقت تک غیر جماعتی ایوان ہونے کی وجہ سے تین ووٹوں کی اکثریت سے شریعت بل کو بحث کے لیے منظور کر لیا گیا ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر

۵ جون ۱۹۸۷ء

امریکی امداد کی شرائط اور قادیانیت کی سرپرستی

پاکستان کو دی جانے والی امریکی امداد کی شرائط میں اسلامی قوانین کے نفاذ کو روکنے اور قادیانیوں کو تحفظ دینے کی شرائط بھی شامل ہیں اور اس قسم کی شرطوں کے ساتھ امداد کو قبول کرنا قومی غیرت اور دینی حمیت کے منافی ہے۔ امریکی سینٹ کی خارجہ تعلقات کمیٹی نے پاکستان کو امداد دینے کی سفارش جس قرارداد کے ذریعے کی ہے اس میں امداد کو جمہوری عمل، انسانی حقوق اور مذہبی آزادی کی تین شرطوں کے ساتھ مشروط کیا گیا ہے ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر

۲۲ مئی ۱۹۸۷ء

ایران میں گیارہ روز: ایرانی انقلاب کے اثرات، معاشرتی تبدیلیاں، اور اہل سنت کے مسائل

کوئٹہ کی جامع مسجد سفید کے خطیب مولانا قاری عبد الرحمٰن ایرانی انقلاب کے ان پرجوش حامیوں میں شمار ہوتے ہیں جو نہ صرف خود انقلابِ ایران کے محاسن و فضائل کے پرچار میں مصروف رہتے ہیں بلکہ ان کی مسلسل کوشش رہتی ہے کہ پاکستان کے دینی حلقوں کے روابط ایرانی انقلاب کے رہنماؤں کے ساتھ مثبت بنیادوں پر استوار ہوں اور پاکستان میں نفاذ اسلام کی جدوجہد کے سلسلہ میں ایران کے انقلابی رہنماؤں کے تجربات سے استفادہ کیا جائے۔ گزشتہ سال حج بیت اللہ کے موقع پر مدرسہ صولتیہ مکہ مکرمہ میں ان سے ملاقات ہوئی ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر

۶ فروری ۱۹۸۷ء

علامہ محمد اقبالؒ اور تجدد پسندی ۔ ڈاکٹر محمد یوسف گورایہ صاحب کے خیالات

روزنامہ نوائے وقت کی ۱۸ و ۱۹ نومبر کی اشاعت میں ’’جدید اسلامی ریاست میں تعبیرِ شریعت کا اختیار‘‘ کے عنوان سے محترم ڈاکٹر محمد یوسف گورایہ کا مضمون شائع ہوا ہے جس میں انہوں نے علامہ محمد اقبالؒ کے حوالہ سے اس عنوان پر بحث کی ہے کہ بدلتے ہوئے حالات میں ایک اسلامی ریاست کی تشکیل کے لیے قانون سازی اور تعبیر شریعت کا دائرہ کار اور دائرہ اختیار کیا ہونا چاہیے۔ یہ مضمون اس لحاظ سے قابلِ قدر ہے کہ اس کے ذریعے اس قومی بحث کو ایک واضح رخ دینے کی کوشش کی گئی ہے ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر

۱۲ دسمبر ۱۹۸۶ء

علامہ محمد اقبالؒ کا اسلام

جمعیۃ علماء اسلام کے مرکزی سیکرٹری اطلاعات مولانا زاہد الراشدی نے مساوات پارٹی کے سربراہ جناب محمد حنیف رامے کے اس بیان کو گمراہ کن قرار دیا ہے کہ ہمیں ملّا کا اسلام نہیں بلکہ اقبالؒ کا اسلام چاہیے۔ انہوں نے کہا کہ مسٹر رامے نے اس بیان کے ذریعے یہ تاثر دینے کی کوشش کی ہے کہ علامہ اقبالؒ چودہ سو سال سے چلے آنے والے مسلمہ اسلام کی بجائے کسی جدید اسلام کے داعی تھے ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر

۲۸ مارچ ۱۹۸۶ء

جمعیۃ علماء اسلام کے اتحاد کا بنیادی تقاضہ

ماہِ رواں کی چار تاریخ کو ٹوبہ ٹیک سنگھ میں اخباری نمائندوں سے گفتگو کے دوران ایک اخبار نویس دوست نے مجھ سے سوال کیا کہ کیا جمعیۃ علماء اسلام پاکستان کے دوبارہ متحد ہونے کا کوئی امکان ہے؟ میں نے اس کے جواب میں عرض کیا کہ جمعیۃ میں تفریق ایم آر ڈی میں شرکت کے سوال پر ہوئی ہے کیونکہ اسلامی نظام اور دینی مقاصد کی بالادستی کی شرط کے بغیر کسی سیاسی اتحاد میں شمولیت ہماری روایات، دینی تشخص اور ولی اللہی مشن کے منافی ہے ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر

۲۰ جنوری ۱۹۸۴ء

اسلامی ثقافت، جمہوریت، نجی ملکیت اور اجتہاد

سوال: کیا یہ درست ہے کہ اسلامک کلچر نام کی کوئی چیز سرے سے موجود نہیں ہے کیونکہ مسلمان جہاں بھی گئے انہوں نے وہیں کا کلچر اپنا لیا؟ جواب: اس سلسلہ میں سب سے پہلے غور طلب امر یہ ہے کہ کلچر کہتے کس کو ہیں؟ عام طور پر کلچر کے بارے میں جو کچھ کہا جاتا ہے اس کا خلاصہ یہ ہے کہ کلچر کسی قوم کی انفرادی و اجتماعی زندگی میں رچ بس جانے والی ان روایات اور اعمال سے عبارت ہوتا ہے جن سے اس قوم کا تشخص اور امتیاز دوسری اقوام سے ظاہر ہو ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر

۱۸ نومبر ۱۹۸۳ء

ایک بار پھر سوچ لیجئے!

جمعیۃ علماء اسلام کے متوازی گروپ کے ساتھ مصالحت کے سلسلہ میں مولانا حبیب گل صاحب کی زیر قیادت ہونے والی سرگرمیوں کی ایک سرسری رپورٹ زیر نظر شمارہ میں آپ ملاحظہ فرمائیں گے۔ جہاں تک جماعتی اختلافات سے ہونے والے نقصانات اور اس کے مضمرات کا تعلق ہے، اس سے دونوں اطراف کے کسی ذی شعور کو انکار نہیں ہو سکتا، اور انہی نقصانات و مضمرات کو سامنے رکھتے ہوئے مصالحت و مفاہمت کے اس عمل کو تکمیل تک پہنچانے کی کوشش کی گئی ہے ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر

۵ اگست ۱۹۸۳ء

محنت کش اور اسلامی نظام

محنت انسانی عظمت کا ایک ایسا عنوان اور اجتماعیت کا ایک ایسا محور ہے جس کے گرد انسانی معاشرہ کی چکی گھومتی ہے اور جس کے بغیر نوع انسانی کی معاشرت اور اجتماعیت کا تصور بھی نہیں کیا جا سکتا۔ یہی وجہ ہے کہ کائنات کے خالق و مالک نے انسانی معاشرہ کے لیے جو فطری نظامِ زندگی نازل فرمایا اس میں محنت کی عظمت کا نہ صرف اعتراف کیا گیا ہے بلکہ دینِ خداوندی کو پیش کرنے والے عظیم المرتبت انبیاء علیہم السلام کو ’’محنت کشوں‘‘ کی صف میں کھڑا کر کے خداوندِ عالم نے محنت کو پیغمبری وصف کا درجہ عطا فرمایا ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر

یکم اپریل ۱۹۸۳ء

شہیدِ حریت مولانا سید شمس الدین شہیدؒ

مولانا سید شمس الدین شہیدؒ بلوچستان کے نامور سپوت اور تحریکِ ولی اللہی کے ایک جرأت مند رہنما تھے جنہوں نے ۲۹ سالہ مختصر زندگی میں قومی و دینی جدوجہد کے مختلف مراحل طے کرتے ہوئے بلوچستان کی سیاست میں ایک اہم مقام حاصل کیا اور قومی منظر پر عزیمت و استقامت کا عنوان بن کر ابھرے۔ سید شمس الدین شہیدؒ کی ولادت بلوچستان کے مقام ژوب میں ۲۱ جمادی الاول ۱۳۶۴ھ کو ہوئی ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر

۱۹ مارچ ۱۹۸۲ء

فرقہ وارانہ کشیدگی اور ہماری ذمہ داری

اردن کے شاہ حسین نے گزشتہ دنوں ایک اخباری انٹرویو میں کہا ہے کہ ’’عالمِ اسلام میں شیعہ سنی تنازعات کو ہوا دینے کی مسلسل کوشش کی جا رہی ہے اور بین الاقوامی سطح پر سازشی عناصر اس سلسلہ میں مصروفِ عمل ہیں‘‘۔ اسلام میں ایک جائز حد کے اندر اختلافِ رائے کی افادیت و ضرورت کو تسلیم کیا گیا ہے اور جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس علمی اختلاف کو رحمت قرار دیا ہے۔ لیکن یہ اختلاف وہ ہے جو علمی مسائل میں جائز حدود کے اندر نیک نیتی سے دینی امور کی وضاحت کے لیے کیا جائے ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر

۱۲ مارچ ۱۹۸۲ء

مولانا مفتی محمودؒ کی آئینی جدوجہد اور اندازِ سیاست

قائدِ محترم حضرت مولانا مفتی محمود قدس اللہ سرہ العزیز کی علمی، دینی اور سیاسی جدوجہد پر نظر ڈالتے ہوئے ان کی جو امتیازی خصوصیات او رنمایاں پہلو دکھائی دیتے ہیں ان میں ایک یہ بھی ہے کہ مرحوم نے قومی سیاست کے دھارے میں شامل ہو کر خود کو اس میں جذب نہیں کر دیا بلکہ وہ اس دھارے کو اپنے عزائم اور مقاصد کی طرف موڑنے میں کامیاب بھی رہے۔ اور اگر آپ آج سے پچیس سال قبل کی قومی سیاست کا آج کی قومی سیاست سے موازنہ کریں گے تو ان نمایاں تبدیلیوں کے پس منظر میں مولانا مفتی محمودؒ اور ان کے رفقاء کی جدوجہد جھلکتی نظر آئے گی ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر

۱۷ اپریل ۱۹۸۱ء

حضرت مولانا مفتی محمودؒ

دل زخمی ہے، جگر فگار اور ذہن حیرت کی وسعتوں میں گم کہ خدایا یہ اچانک بیٹھے بٹھائے کیا ہوگیا ہے۔ موت ایک ناگزیر حقیقت ہے جس سے کسی کو مفر نہیں، جو شخص دنیا میں آیا ہے اس نے جانا ہے۔ جب انبیاء علیہم الصلوات والتسلیمات جیسی ذوات مقدسمہ کو دنیا کی زندگی میں دوام نہ مل سکا تو اور کون ہے جسے موت سے مستثنیٰ قرار دیا جا سکے۔ مولانا مفتی محمودؒ بھی دوسرے انسانوں کی طرح گوشت پوست کے انسان تھے، ان کی ذات لافانی نہ تھی، انہوں نے بھی دنیا سے جانا تھا اور وہ اپنا وقت پورا کر کے خالق و مالک کی بارگاہ میں سرخرو چلے گئے ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر

۷ نومبر ۱۹۸۰ء

مولانا محمد حیاتؒ اور مولانا عبد الحئیؒ

مولانا محمد حیاتؒ ایک اولوالعزم انسان تھے جنہوں نے علامہ سید محمد انور شاہ کشمیری نور اللہ مرقدہ کی پیروی میں علمی محاذ پر قادیانیت کے تعاقب کو اپنا مشن بنایا اور پھر اپنا تمام تر علم و فضل، قوت و توانائی اور صلاحیتیں اس کے لیے وقف کر دیں۔ احرار کی قیادت نے انہیں قادیان میں اپنے مشن کے لیے بھیجا تو ان کی جرأت و استقامت نے ’’فاتح قادیان‘‘ کے خطاب کو ہمیشہ کے لیے ان کے سینے کا تمغہ بنا دیا۔ دیکھنے میں ایک بھولا سا جاٹ مگر عزم و ہمت کا پیکر یہ مرد درویش اپنے وقت کا عظیم مناظر تھا ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر

۲۹ اگست ۱۹۸۰ء

حضرت درخواستی اور مفتی محمود کی قیادت میں ’’نظام العلماء‘‘ کا قیام

ملک کی معروف دینی درسگاہ مدرسہ عربیہ مخزن العلوم والفیوض عیدگاہ خانپور ضلع رحیم یار خان کا سالانہ جلسہ تقسیم اسناد و دستار بندی اس سال اس لحاظ سے خاصی اہمیت کا حامل تھا کہ مدرسہ کے مہتمم اور علماء حق کے قافلہ سالار حضرت مولانا محمد عبد اللہ درخواستی دامت برکاتہم نے جلسہ میں شرکت و خطاب کے لیے کسی امتیاز کے بغیر دیوبندی مکتبِ فکر سے تعلق رکھنے والے تمام سرکردہ علماء و مشائخ کو دعوت دی ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر

۹ مئی ۱۹۸۰ء

علامہ شبیر احمد عثمانیؒ

علامہ شبیر احمد عثمانیؒ مادر علمی دارالعلوم دیوبند کے وہ مایۂ ناز سپوت ہیں جنہوں نے علمی، دینی و سیاسی محاذ پر ملّت اسلامیہ کی بھرپور راہنمائی کی اور خداداد علمی و فکری صلاحیتوں سے ملّت اسلامیہ کو فیضیاب کیا۔ علامہ شبیر احمد عثمانیؒ ممتاز ماہر تعلیم مولانا فضل الرحمان کے فرزند تھے، آپ نے تعلیم شیخ الہند حضرت مولانا محمود حسنؒ جیسے عالم دین کے زیرسایہ مکمل کی ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر

۲۸ فروری ۱۹۸۰ء

الشیخ محمد بن عبد الوہابؒ: عقائد، دعوت اور علماء کی رائے

اس وقت ہمارے سامنے محکمہ شرعیہ قطر کے قاضی الشیخ احمد بن حجر آل ابو طامی کا کتابچہ ہے جس میں انہوں نے شیخ محمد بن عبد الوہابؒ کی زندگی، عقائد، دعوت اور ان کے بارے میں علماء کی آراء کا تذکرہ کیا ہے۔ کتابچہ کا عنوان ہے: ’’الشیخ محمد بن عبد الوہابؒ: عقیدۃ السلفیہ و دعوۃ الاصلاحیۃ وثناء العلماء علیہ‘‘۔ کتابچہ کی تصحیح سعودی عرب کے مقتدر عالمِ دین فضیلۃ الشیخ عبد العزیز بن الباز نے کی ہے اور اس پر مقدمہ بھی لکھا ہے ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر

۱۱ جنوری ۱۹۸۰ء

انسانی اجتماعیت کے جدید تقاضے اور اسلام کا عادلانہ نظام

لاہور ہائی کورٹ کے شریعت بینچ میں ریٹائرڈ جسٹس جناب بدیع الزمان کیکاؤس کی طرف سے انتخاب و سیاست کے مروجہ قوانین کو چیلنج کیے جانے کے بعد سے علمی و فکری حلقوں میں اس بحث نے سنجیدگی اور شدت اختیار کر لی ہے کہ آج کے دور میں اسلام کے نظامِ عدل و انصاف کو نافذ کرنے کے لیے عملی اقدامات اور ترجیحات کی کیا صورت ہوگی؟ اور موجودہ دور نے انسان کی اجتماعی زندگی کے لیے جن تقاضوں اور ضروریات کو جنم دیا ہے اسلام کا دائرۂ توسعات انہیں کس حد تک اپنے اندر سمونے کے لیے تیار ہے؟ ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر

۲۱ دسمبر ۱۹۷۹ء

جمعیۃ علماء اسلام کے انتخابات اور دستور

حضرت الامیر مولانا محمد عبد اللہ درخواستی مدظلہ نے ایک خصوصی حکم کے تحت جمعیۃ علماء اسلام کی رکن سازی اور انتخابات کے نظام الاوقات میں درج ذیل ترمیم فرما دی ہے: ابتدائی انتخابات اور رکن سازی کا باقی ماندہ کام جمادی الاخریٰ کے اختتام تک مکمل کر لیا جائے گا۔ ضلعی انتخابات رجب اور شعبان کے دوران کرائے جائیں گے ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر

۲۷ اپریل ۱۹۷۹ء

مولانا سید محمد شمس الدین شہیدؒ

شہید حریت مولانا سید شمس الدین شہیدؒ کو ہم سے جدا ہوئے ۱۳ مارچ ۱۹۷۸ء کو چار برس ہو جائیں گے لیکن ان کی جرأت و استقامت اور عزم و استقلال کے مظاہر ابھی تک نظروں کے سامنے ہیں او ریوں لگتا ہے جیسے وہ ہم سے جدا ہو کر بھی ہمارے درمیان موجود ہیں متحرک ہیں اور سرگرم ہیں کہ جرأت و جسارت کا ہر واقعہ ان کی یاد کو دل میں تازہ کیے دیتا ہے ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر

۲۴ مارچ ۱۹۷۸ء

لو آپ اپنے دام میں صیاد آ گیا

بھٹو گورنمنٹ نے برسراقتدار آنے کے بعد سے اب تک جتنے پینترے بدلے ہیں اور سوشلزم، جمہوریت اور اسلام کے نام سے جس طرح عوام کو بے وقوف بنانے کی مسلسل کوشش کی ہے وہ کسی سے مخفی نہیں۔ اس فریب کار گروہ کا آخری حربہ ’’اسلام‘‘ ہے۔ بھٹو صاحب نے لاہور میں ۱۸ اپریل کو پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے اسلامی اصلاحات کا اعلان کیا ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر

۲۷ مئی ۱۹۷۷ء

مذاکرات کے سائے میں

بھٹو صاحب ریفرنڈم کے طمطراقانہ اعلان، قومی اسمبلی سے آئین میں ترمیم کی منظوری، اور قومی اسمبلی کے دوبارہ انتخابات کو یکسر مسترد کر دینے کے بعد ایک روز اچانک تین وفاقی وزراء کے ساتھ سہالہ پہونچے اور ’’قومی اتحاد‘‘ کے سربراہ مولانا مفتی محمود سے ازسرنو مذاکرات کا ڈول ڈالا ۔ اس گفتگو کے نتیجے میں سردار عبد القیوم رہا ہوئے اور ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر

۲۷ مئی ۱۹۷۷ء

پہنچی وہیں پہ خاک ۔۔۔

ملک غلام مصطفیٰ کھر کے بارے میں ہماری جچی تلی رائے ابتدا ہی سے یہ رہی ہے کہ ان صاحب نے جس انداز سے بھٹو صاحب کے سائے میں حکمرانی کی ہے، اور ایک صوبہ کی حکمرانی سے جس طرح ہاتھ رنگے، اس کے پیش نظر اپوزیشن کا ساتھ دینا ان کے بس کی بات نہیں، اور اگر وہ اپوزیشن میں ہونے کا دعویٰ کرتے ہیں تو خود کو بھی اور قوم کو بھی فریب دیتے ہیں ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر

۲۷ مئی ۱۹۷۷ء

بھٹو صاحب! قوم کے راستہ سے ہٹ جائیں!

پاکستان قومی اتحاد کے سربراہ مولانا مفتی محمود کے پرائیویٹ سیکرٹری چوہدری محمد شریف ایڈووکیٹ نے ۱۵ اپریل کو سنٹرل جیل ہری پور میں ان سے ملاقات کی اور بعد ازاں ایک بیان میں کہا کہ مولانا مفتی محمود نے ایک پیغام میں قوم کے مختلف طبقات کو قومی تحریک میں جرأت و استقامت کے ساتھ حصہ لینے پر زبردست خراج عقیدت پیش کیا ہے ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر

۲۲ اپریل ۱۹۷۷ء

جمعیۃ کی مرکزی مجلسِ عاملہ کے اجلاس میں اہم فیصلے

جمعیۃ علماء اسلام کی مرکزی مجلسِ عاملہ اور صوبائی امراء و نظماء کا مشترکہ اجلاس ۷ محرم الحرام ۱۳۹۷ھ بروز بدھ صبح ساڑھے دس بجے دارالعلوم حنفیہ عثمانیہ ورکشاپی محلہ راولپنڈی میں منعقد ہوا۔ جس میں ملک کی تازہ ترین سیاسی صورتحال پر غور و خوض کے بعد متعدد اہم فیصلے کیے گئے۔ حضرت الامیر مولانا محمد عبد اللہ درخواستی دامت برکاتہم علالت کی وجہ سے اجلاس میں شریک نہ ہو سکے ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر

۷ جنوری ۱۹۷۷ء

سیدنا ابراہیم علیہ السلام، عزیمت و استقامت کے پیکر

سیدنا ابراہیم علیٰ نبینا وعلیہ الصلاۃ والسلام وہ ذات گرامی ہیں جنہیں اللہ رب العزت نے سرور کائنات خاتم الانبیاء حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد ساری کائنات میں افضل ترین مقام و مرتبہ عطا فرمایا۔ اور ان کی عظیم قربانیوں اور عزیمت و استقامت کے شاندار مظاہروں کے عوض دنیا بھر کی ایسی امامت بخشی کہ آج دنیا کا کم و بیش ہر الہامی مذہب خود کو حضرت ابراہیمؑ کی طرف منسوب کرنے میں فخر محسوس کرتا ہے۔ یہودی اپنے آپ کو حضرت ابراہیمؑ کا پیروکار کہتے ہیں، عیسائی اس بات کے اپنے لیے دعوے دار ہیں ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر

۲۶ نومبر ۱۹۷۶ء

عوامی مجلس کے کارکنوں کا ضمانت پر رہائی سے انکار

جمعیۃ علماء اسلام کے مرکزی ناظم نشر و اشاعت اور عوامی مجلسِ تحفظِ مدارس و مساجد کے راہنما مولانا زاہد الراشدی (راقم الحروف) نے اپنے ۲۵ سے زائد رفقاء سمیت مسجد نور کی غیر مشروط واگزاری کے واضح اعلان سے قبل ضمانتوں پر رہائی سے انکار کر دیا ہے، اور کہا ہے کہ اگر ان کی مرضی کے خلاف ان کی ضمانتیں کرائی گئیں تو وہ دوبارہ جلوس نکال کر گرفتاریاں پیش کر دیں گے ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر

۸ اکتوبر ۱۹۷۶ء

مجلس تحفظ ختم نبوت اور جمعیۃ علماء اسلام کے درمیان مخاصمت پیدا کرنے کی کوشش

گزشتہ ماہ چنیوٹ میں مجلس تحفظ ختم ختم نبوت پاکستان کے زیراہتمام سالانہ کانفرنس منعقد ہوئی جس میں ملک کے تمام مکاتب فکر کے رہنماؤں نے شرکت فرمائی۔ اس کانفرنس کے بارے میں لاہور کے ایک روزنامہ نے مندرجہ ذیل شرانگیز خبر شائع کی ہے: ’’یہ امر قابل ذکر ہے کہ تحفظ ختم نبوت کے جلسہ کو جمعیۃ علماء اسلام مفتی محمود کے کارکنوں نے متعدد بار ناکام بنانے کی کوشش کی ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر

۳۰ جنوری ۱۹۷۶ء

جمعیۃ طلباء اسلام کی ذمہ داریاں: مولانا عبید اللہ انور کے ارشادات

جمعیۃ علماء اسلام پنجاب کے امیر حضرت مولانا عبید اللہ انور مدظلہ العالی نے جمعیۃ طلباء اسلام کی مرکزی مجلس عمومی کے انتخابی اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے طلبہ پر زور دیا کہ وہ علم کے حصول کے ساتھ ساتھ دینی و اخلاقی تربیت بھی حاصل کریں کیونکہ عمل و تربیت کے بغیر محض علم گمراہی کا باعث بنتا ہے۔ انہوں نے فرمایا کہ اسلام علم کا مذہب ہے، قرآن کرم کی سب سے پہلی آیات کریمہ جو نازل ہوئی تھیں یہ تھیں ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر

۲۳ جنوری ۱۹۷۶ء

شرعی عدالتیں اور نوائے وقت

روزنامہ نوائے وقت لاہور کے مراسلات کے کالم میں چونیاں کے محترم نور احمد کا ایک مراسلہ شائع ہوا ہے جس میں انہوں نے جمعیۃ علماء اسلام کی طرف سے شرعی عدالتوں کے قیام کے فیصلے کو حسن نیت او رخلوص پر مبنی قرار دیتے ہوئے دو وجوہ سے اسے ناقابل عمل اور سادہ لوحی کا شکار ہونے کے مترادف قرار دیا۔ ان کا ارشاد ہے کہ (۱) کوئی حکومت وقت اپنے مقابلے میں متوازی نظام کو قطعاً برداشت نہیں کر سکتی خواہ وہ نظام صحیح ہی کیوں نہ ہو۔ (۲) جمعیۃ علماء اسلام کے پاس کوئی ایسی قوت نہیں کہ وہ شرعی عدالت کے فیصلوں پر عملدرآمد کرا سکے ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر

۱۶ جنوری ۱۹۷۶ء

تحریک پاکستان کے بارے میں نیشنلسٹ علماء کا موقف

تحریک پاکستان کے بارے میں جمعیۃ علماء ہند، مجلس احرار اسلام اور دیگر جماعتوں سے تعلق رکھنے والے ان مسلمانوں کا موقف آج کل پھر صحافتی حلقوں میں زیر بحث ہے جنہیں ’’نیشنلسٹ مسلمانوں‘‘ کا خطاب دیا جاتا ہے۔ اس لیے سرکردہ نیشنلسٹ مسلم لیڈروں کے خیالات قارئین کی خدمت میں پیش کیے جا رہے ہیں تاکہ تصویر کے دوسرے رخ کے طور پر نیشنلسٹ مسلمانوں کا اصل موقف سامنے آسکے ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر

۷ نومبر ۱۹۷۵ء

نظام شریعت کنونشن کے اہم گوشے

جمعیۃ علماء اسلام کے زیر اہتمام دو روزہ نظامِ شریعت کنونشن گزشتہ شب بخیر و خوبی اختتام پذیر ہوا۔ کنونشن میں پنجاب، سرحد، سندھ، بلوچستان اور آزادکشمیر سے کم و بیش دس ہزار مندوبین نے شرکت کی جن میں علماء کرام، وکلاء، طلباء اور ہر طبقہ سے تعلق رکھنے والے افراد شامل تھے۔ کنونشن کا اعلان ۲۸ و ۲۹ اپریل کو مرکزی مجلس شوریٰ کے اجلاس منعقدہ ملتان کے بعد کیا گیا تھا۔ مولانا مفتی محمود نے صوبائی حکومت سے بھی رابطہ قائم کیا مگر آخر وقت تک انتظامیہ نے شیرانوالہ باغ میں کنونشن کے انعقاد کی اجازت دینے یا نہ دینے کے بارے میں مجلس استقبالیہ کو کوئی باضابطہ جواب نہیں دیا ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر

۳۱ اکتوبر ۱۹۷۵ء

حضرت شاہ ولی اللہؒ اور ان کی تحریک

حضرت شاہ ولی اللہ رحمۃ اللہ علیہ نے جب شعور کی آنکھ کھولی تو سلطنتِ مغلیہ کا چراغ ٹمٹمارہاتھا۔ طوائف الملوکی ڈیرہ ڈالے ہوئے تھی اور فرنگی تاجر کمپنیاں دھیرے دھیرے مغل حکمرانوں کی جگہ لینے کے لیے آگے بڑھ رہی تھیں۔ مرہٹے ایک طاقتور سیاسی قوت کی حیثیت اختیار کرتے جارہے تھے اور برصغیر ان کے قبضے میں چلے جانے کا خطر ہ دن بدن بڑھتا جارہا تھا۔ حضرت امام ولی اللہؒ نے فوری حکمت عملی کے طور پر مرہٹوں کی سرکوبی اور ان کے خطر ہ سے نجات حاصل کرنے کے لیے افغانستان کے بادشاہ احمد شاہ ابدالیؒ سے رابطہ قائم کیا ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر

۲۴ اکتوبر ۱۹۷۵ء

نظامِ شریعت کنونشن کے سلسلہ میں چند اہم گزارشات

کل پاکستان جمعیۃ علماء اسلام کی مرکزی مجلس شوریٰ کے فیصلہ کے مطابق آل پاکستان نظامِ شریعت کنونشن ۱۸ و ۱۹ اکتوبر ۱۹۷۵ء بروز ہفتہ و اتوار گوجرانوالہ میں ان شاء اللہ پروگرام کے مطابق منعقد ہو رہا ہے۔ تمام صوبوں اور اضلاع کی جمعیتوں کو کنونشن کی تفصیلات سے بذریعہ سرکلر آگاہ کر دیا گیا ہے ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر

۳ اکتوبر ۱۹۷۵ء

اسلام پر رحم کیجئے

یوں محسوس ہوتا ہے کہ ’’چچا سام‘‘ ایک بار پھر اسلام اور سوشلزم کے نام سے پاکستانی قوم کی باہمی کشتی دیکھنے کا خواہشمند ہے کیونکہ پچھلی بار جمعیۃ علماء اسلام کے ارباب بصیرت نے کباب میں ہڈی ڈال دی تھی اور ان کی بروقت مداخلت کی وجہ سے اسلام اور سوشلزم کا دنگل دیکھنے کی خواہش چچا سام پوری نہیں کر سکا تھا۔ وہ دن بھی عجیب تھے، ایک طرف سرمایہ داروں، جاگیرداروں اور مفاد پرستوں کا طبقہ ’’اسلام پسندی‘‘ کا لیبل لگا کر اپنے مفادات اور اغراض کے تحفظ کی جدوجہد میں مصروف تھا ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر

۲۶ ستمبر ۱۹۷۵

جمعیۃ کی انقلابی سیاست اور اس کے تقاضے

مرکزی ناظم انتخابات محترم جناب قاری نور الحق صاحب قریشی ایڈووکیٹ کے اعلان کے مطابق یکم شعبان المعظم مطابق ۹ اگست بروز ہفتہ ملک بھر میں آئندہ سہ سالہ مدت کے لیے جمعیۃ علماء اسلام کی رکن سازی کا آغاز ہو رہا ہے۔ رکن سازی کا یہ سلسلہ ۱۳۹۵ھ کے آخر تک جاری رہے گا۔ آئندہ ہجری سال کے آغاز پر ضلعی انتخابات ہوں گے ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر

۸ اگست ۱۹۷۵ء

جمعیۃ راولپنڈی کا اجلاس ‒ اکابر کی عیادت ‒ دینی مدارس کے منتظمین سے

۸ جولائی کو دارالعلوم عثمانیہ ورکشاپی راولپنڈی میں راولپنڈی ڈویژن کے جماعتی امراء و نظماء اور کارکنوں کا اجلاس منعقد ہوا، جمعیۃ کے صوبائی نائب امیر حضرت مولانا قاری عبد السمیع صاحب سرگودھوی نے اجلاس کی صدارت فرمائی اور اپنے زریں ارشادات سے شرکاء اجلاس کو محظوظ کیا۔ مولانا نے جماعتی احباب پر زور دیا کہ اپنی صفوں کو منظم کرنے اور جمعیۃ علماء اسلام کے حلقۂ اثر کو وسیع بنانے کے لیے پوری محنت اور تندہی کے ساتھ جدوجہد کریں ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر

۱۸ جولائی ۱۹۷۵ء

نظامِ شریعت کنونشن کی تیاروں کا آغاز ‒ لائل پور میں شعبہ نشر و اشاعت کا قیام

مرکزی مجلس شوریٰ جمعیۃ علماء اسلام نے ملتان کے ایک اجلاس میں فیصلہ کیا تھا کہ کل پاکستان نظامِ شریعت کنونشن ۱۸ و ۱۹ اکتوبر کو گوجرانوالہ میں ہوگا۔ حضرت مولانا عبید اللہ انور دامت برکاتہم کو مجلس استقبالیہ کا صدر منتخب کر کے باقی عہدہ داروں اور ارکان کا تعین گوجرانوالہ جمعیۃ کی صوابدید پر چھوڑ دیا گیا تھا۔ چنانچہ کنونشن کی تیاریوں کے آغاز او رمجلس استقبالیہ کے باقاعدہ قیام کے سلسلہ میں ۳۰ جون کو مکی مسجد بخاری روڈ گوجرانوالہ میں جمعیۃ علماء اسلام ضلع گوجرانوالہ کی مجلس عمومی کا اجلاس منعقد ہوا ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر

۱۱ جولائی ۱۹۷۵ء

علماء کا سیاست میں حصہ لینا کیوں ضروری ہے؟

آج کل ایک گمراہ کن غلطی عام طور پر ہمارے معاشرہ میں پائی جاتی ہے کہ علماء اسلام کو ملکی سیاست میں حصہ نہیں لینا چاہیے بلکہ مساجد میں بھی صرف نماز، روزہ اور حج وغیرہ عبادات و اخلاقیات ہی کی بات کرنی چاہیے۔ اس کے علاوہ ملکی معاملات پر گفتگو کرنا اور عام لوگوں کے سیاسی مسائل میں دلچسپی لینا علماء کے لیے غیر ضروری بلکہ نامناسب ہے۔ یہ غلط فہمی سامراج اور اس کے آلۂ کار افراد نے اتنے منظم طریقہ سے پھیلائی ہے کہ آج سامراجی نظام اس غلط فہمی کے سہارے مساجد و مدارس دینیہ میں سیاسیات کے تذکرہ کو روکنے کے لیے قانونی اقدامات کی طرف بڑھنے کی کوشش کر رہا ہے ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر

۴ جولائی ۱۹۷۵ء

کچھ آزاد کشمیر کے بارے میں

راقم الحروف نے علاقہ کے دین دار مسلمانوں خصوصاً علماء کرام کو اس طرف متوجہ کیا کہ انہیں عملی سیاست کو شجر ممنوعہ سمجھنے کی بجائے اسے اپنانا چاہیے۔ کیونکہ ظلم و جبر کے نظام کی مخالفت اور دین حق کے اعلاء و اجراء کی جدوجہد کرنا علماء کرام کا دینی و ملی فرض ہے اور علماء کرام ہی کی سیاسی قیادت عوام کے مسائل کو مخلصانہ طور پر حل کر سکتی ہے۔ دراصل آزادکشمیر کے علماء کرام نے شروع ہی سے سیاسی مسائل میں عوام کی نمائندگی و رہنمائی کی ہے اور ان کی ایک تنظیم ’’جمعیۃ علماء آزاد کشمیر‘‘ کے نام سے تیس سال سے سیاسی و مذہبی میدان میں سرگرم عمل ہے ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر

۴ جولائی ۱۹۷۵ء

اسلام اور رہبانیت

حضرت ابو امامہ الباہلیؓ فرماتے ہیں کہ ایک دفعہ ہم کچھ صحابہؓ جناب نبی کریمؐ کے ساتھ کسی غزوہ پر جا رہے تھے، ہم میں سے ایک شخص نے راستہ میں ایک غار دیکھا جس میں پانی کا چشمہ تھا، اس کے دل میں خیال پیدا ہوا کہ اگر نبی اکرمؐ اجازت مرحمت فرما دیں تو میں اپنی باقی عمر اسی غار میں اللہ اللہ کرتے ہوئے گزار دوں۔ یہ سوچ کر حضورؐ سے مشورہ و اجازت لینے کی غرض سے آپؐ کی خدمت میں حاضر ہوا، آنحضرتؐ نے اس کی خواہش سن کر فرمایا ’’میں یہودیت یا عیسائیت (کی طرح رہبانیت) کی تعلیم دینے کے لیے نہیں مبعوث ہوا۔ میں تو یکسوئی کا سیدھا راستہ لے کر آیا ہوں ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر

۱۳ جون ۱۹۷۵ء

متحدہ جمہوری محاذ کی دو سالہ جدوجہد

متحدہ جمہوری محاذ کے باعزم رہنما ہدیۂ تبریک کے مستحق ہیں کہ اس دور میں بھی جمہوری اقدار کی سربلندی اور ملکی سالمیت کے تحفظ کی جدوجہد میں مصروف ہیں جبکہ حکمران پارٹی اپنے اقتدار کو مضبوط اور شخصی آمریت کو مستحکم کرنے کی خاطر تمام سیاسی، اخلاقی اور جمہوری حدود و قیود کو خیرباد کہہ چکی ہے۔ محب وطن سیاسی رہنماؤں کے خلاف سرکاری ذرائع ابلاغ کا مکروہ پراپیگنڈا اور پولیس و فیڈرل فورس کے وحشیانہ مظالم ہٹلر اور مسولینی کی روح کو بھی شرما رہے ہیں ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر

۶ جون ۱۹۷۵ء

ظلم کے خلاف جنگ اور ہمارے اسلاف کا مثالی کردار

دوسرا بڑا مقصد جس کے لیے ہمارے اکابر و اسلاف نے بے پناہ قربانیاں دی ہیں، ظلم و کفر کے خلاف جنگ ہے۔ حضرت عبد اللہ بن زبیرؓ سے لے کر حضرت قطب الاقطاب مولانا احمد علی قدس سرہ العزیز تک اکابر کے پورے سلسلہ کی ایک کڑی بھی ایسی نہیں جو ظلم و جبر کے خلاف جدوجہد کے اثرات سے خالی ہو۔ اور اسلامی تاریخ کے وسیع دور میں ایک لمحہ کا بھی ایسا وقت موجود نہیں ہے جب ہمارے اسلاف میں سے کسی نہ کسی نے ظلم و جبر کے خلاف کلمۂ حق نہ بلند کیا ہو۔ حضرت امام ابوحنیفہؒ نے جیل میں زہر کا پیالہ پی کر جام شہادت نوش کیا ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر

۳۰ مئی ۱۹۷۵ء

شعبہ نشریات اور انصار الاسلام ۔ چند اہم فیصلے

۱۵ مئی کو مرکزی دفتر جمعیۃ علماء اسلام لاہور میں مرکزی نائب امیر حضرت مولانا محمد شریف صاحب وٹو، سالارِ اعظم انصار الاسلام حاجی کرامت اللہ صاحب، سالارِ اعلیٰ انصار الاسلام پنجاب خواجہ عبد الرؤف صاحب، ناظم نشر و اشاعت راقم الحروف، ناظم جمعیۃ علماء اسلام ملتان شیخ محمد یعقوب اور سالار انصار الاسلام ضلع گوجرانوالہ مولانا گل محمد توحیدی نے ایک غیر رسمی مشاورت میں اہم تنظیمی امور پر غور و خوض کے بعد تنظیمی تعطل کو دور کرنے کے لیے چند تجاویز مرتب کیں ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر

۲۳ مئی ۱۹۷۵ء

مرکزی مجلس شوریٰ کے اجلاس سے حضرت درخواستی اور مفتی محمود کا خطاب

کل پاکستان جمعیۃ علماء اسلام کی مجلسِ شوریٰ کا اجلاس ملک کی موجودہ سیاسی صورتحال اور جماعتی تنظیمی امور پر غور و خوض کی غرض سے ۲۸، ۲۹ اپریل کو مدرسہ قاسم العلوم ملتان میں طلب کیا گیا۔ ملک کے موجودہ حالات کے پیش نظر نہایت اہم اور نازک مسائل زیر بحث آئے اور دور رس نتائج کے حامل اہم فیصلے کیے گئے ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر

۱۶ مئی ۱۹۷۵ء

جمعیۃ علماء اسلام کی مرکزی مجلسِ شوریٰ کے اہم فیصلے

حضرت امیر مرکزیہ مولانا محمد عبد اللہ درخواستی دامت برکاتہم، قائد جمعیۃ حضرت مولانا مفتی محمود مدظلہ، حضرت مولانا عبید اللہ انور مدظلہ، حضرت مولانا خان محمد مدظلہ آف کندیاں شریف اور حضرت مولانا سید نیاز احمد شاہ گیلانی پر مشتمل وفد بہت جلد مندرجہ ذیل شہروں کا دورہ کر کے کارکنوں کے علاقائی اجتماعات سے خطاب کرے گا۔ کراچی، حیدر آباد، سکھر، رحیم یار خان، ملتان، لاہور، گوجرانوالہ، لائل پور، سرگودھا، راولپنڈی، پشاور، کوئٹہ، جھنگ، سیالکوٹ ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر

۹ مئی ۱۹۷۵ء

سردار عبد القیوم خان کی صدارت سے برطرفی

آزاد کشمیر میں بالآخر وہ سب کچھ ہوگیا جس کی مدت سے توقع کی جا رہی تھی۔ سردار عبد القیوم کی برطرفی آزاد کشمیر کی سیاست سے دلچسپی رکھنے والے کسی شخص کے لیے غیر متوقع نہیں تھی۔ سردار صاحب نے اگرچہ موجودہ حکومت کے ساتھ مفاہمت و معاونت کی پالیسی اختیار کر رکھی تھی جو کشمیر کی مخصوص صورتحال کے پیش نظر ان کے لیے ناگزیر بھی تھی لیکن اس کے باوجود سردار صاحب کے ساتھ پی پی پی کا نباہ مشکل دکھائی دے رہا تھا۔ اس لیے کہ پیپلز پارٹی کے چیئرمین کا ’’انا ولا غیری‘‘ کا عملی منشور اور سردار صاحب کا دینی مزاج اور حریت پسندی ایک ساتھ نہیں چل سکتے تھے ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر

۲ مئی ۱۹۷۵ء

مولانا منظور احمد چنیوٹی کا عرب ممالک کا دورہ

جمعیۃ علماء اسلام کے راہنما مولانا منظور احمد چنیوٹی خوش قسمت ہیں کہ عقیدۂ ختم نبوت کے ساتھ والہانہ عقیدت کے باعث انہیں عرب ممالک میں اس مشن کی خدمت اور حرمین شریفین کی بار بار زیارت کا موقع ملتا رہتا ہے اور اس ضمن میں ان کی خدمات وقیع ہیں۔ جن دنوں پاکستان میں تحریک ختم نبوت جاری تھی مولانا موصوف سعودی عرب میں تھے اور تحریک کے عالمی سفیر کے طور پر اس محاذ پر کام کر رہے تھے جس کی اجمالی رپورٹ قارئین ترجمان اسلام میں پڑھ چکے ہیں ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر

۲۵ اپریل ۱۹۷۵ء

وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو کا دورۂ گوجرانوالہ

وزیراعظم جناب ذوالفقار علی بھٹو ’’رابطہ عوام‘‘ مہم کے اختتام پر لاہور ڈویژن کے دورہ پر تشریف لائے تو گوجرانوالہ کی سرزمین کو درود مسعود کے شرف سے نوازا۔ وزیراعظم کی تشریف آوری سے ہفتہ عشرہ قبل ہی انتظامیہ کی نقل و حرکت کسی آندھی اور طوفان کی آمد کا پتہ دے رہی تھی۔ ضلع کی اہم شاہراہوں پر پولیس آفیسر بسوں کے کاغذات وصول کر کے انہیں وزیراعظم کی آمد پر دیہات سے عوام کو ڈھونڈنے کا فریضہ سونپ رہے تھے۔ انتظامیہ، عدلیہ اور پولیس آفیسر شب و روز جلسہ عام کی تیاریوں میں مصروف تھے ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر

۱۸ اپریل ۱۹۷۵ء

شاہ فیصل بن عبد العزیز آل سعود شہید

۲۵ مارچ ۱۹۷۵ء کو اخبارات میں ڈاکٹر ہنری کسنجر وزیرخارجہ ریاست ہائے متحدہ امریکہ کا یہ بیان جلی سرخیوں میں شائع ہوا کہ مشرق وسطیٰ میں ان کا امن مشن اسرائیل کی ہٹ دھرمی کے باعث ناکام ہوگیا ہے۔ اس کے ساتھ صدر انور سادات کا یہ نعرۂ حق بھی منظرِ عام پر آیا کہ اسرائیل نے ہٹ دھرمی ترک نہ کی تو جہاد شروع کیا جائے گا، اور عرب وزراء خارجہ کا ہنگامی اجلاس طلب کیے جانے کی خبر بھی اخبارات کی زینت بنی۔ یہ خبریں اس امر کا احساس دلانے کو کافی تھیں کہ مشرق میں ’’کچھ‘‘ ہونے والا ہے ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر

۱۱ اپریل ۱۹۷۵ء

حیاتِ شہیدؒ کا ایک ورق

مولانا شمس الدینؒ کا قبیلہ حریف آل کہلاتا ہے۔ اس قبیلہ کے جد امجد حضرت حریف شہید رحمۃ اللہ علیہ بخارا سے ہجرت کر کے فورٹ سنڈیمن کے شمال جنوب میں ۳۰ میل دور ایک صحت افزا مقام شین غر میں آئے تھے اور وہیں قیام پذیر ہو گئے تھے۔ یہ ہجرت بھی عجیب حالات میں ہوئی، حریف شہیدؒ کے والد محترم حضرت عبد اللہ رحمۃ اللہ علیہ ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر

۲۱ مارچ ۱۹۷۵ء

مولانا سید شمس الدین شہیدؒ کا سفرِ آخرت

مولانا سید شمس الدین شہیدؒ مارچ ۱۹۷۴ء کے پہلے ہفتے گھر سے روانہ ہو کر کوئٹہ پہنچے تو صوبائی جنرل سیکرٹری جمعیۃ علماء اسلام جناب محمد زمان خان اچکزئی نے حضرت الامیر مولانا محمد عبد اللہ درخواستی دامت برکاتہم کا وہ پیغام آپ کو پہنچایا جو حضرت مدظلہ نے مدینہ منورہ میں مولانا شمس الدین کے لیے خان صاحب کے سپرد کیا تھا۔ پیغام یہ تھا کہ آپ گورنر بلوچستان خان احمد یار خان سے ملاقات کریں ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر

۲۱ مارچ ۱۹۷۵ء

جمعیۃ علماء اسلام اور امام ولی اللہ کا انقلابی اسلامی پروگرام

تحریک آزادیٔ ہند میں کانگریس اور مسلم لیگ سمیت دوسری جماعتیں ایک عرصہ تک صرف داخلی خودمختاری اور آئینی مراعات کے مطالبات پر اکتفا کیے ہوئے تھیں لیکن بہت جلد ان کو جمعیۃ علماء ہند کی طرح مکمل آزادی کے اسٹیج پر آنا پڑا ۔۔۔ اور پھر جب پاکستان کے قیام کی تحریک چلی تو اگرچہ ولی اللہی پارٹی کے سرکردہ ارکان قیام پاکستان کے مخالف تھے اور جمعیۃ علماء ہند نے کھلم کھلا اس کی مخالفت کی تھی، لیکن اس فیصلہ سے اختلاف کر کے تحریک پاکستان کے کیمپ میں شامل ہونے والے عظیم راہنما علامہ شبیر احمدؒ عثمانی بھی ولی اللہی گروہ سے ہی تعلق رکھتے تھے ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر

۲۸ فروری ۱۹۷۵ء

دینی مدارس کے تحفظ کے لیے علماء کرام کا اہم فیصلہ (۲)

مولانا پیر کرم شاہ الازہر: مولانا پیر کرم شاہ الازہری نے خطاب کرتے ہوئے فرمایا کہ یہ تجربہ جو یہاں کیا جانے والا ہے، اس سے قبل تاشقند، بخارا، ماوراء النہر جیسے علمی مراکز میں کامیاب ہو چکا ہے، اور اس سلسلہ میں علماء کرام کو جس حریف سے پالا پڑا ہے وہ بہت شاطر ہے، اس لیے علماء کرام کو سوچ سمجھ کر مضبوط قدم اٹھانا چاہیے ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر

۱۴ فروری ۱۹۷۵ء

دینی مدارس کے تحفظ کے لیے علماء کرام کا اہم فیصلہ (۱)

دینی مدارس کو قومی تحویل میں لینے کے فیصلہ کے بارے میں اخبارات نے گزشتہ دنوں جو خبر شائع کی تھی اس نے ہر دین دار شخص کو دینی اداروں کے مستقبل کے بارے میں تشویش اور اضطراب میں مبتلا کر دیا ہے۔ ملک کے دوسرے شہروں کی نسبت دینی مدارس کے مرکز ملتان میں زیادہ گہماگہمی رہی۔ قائد جمعیۃ کی پریس کانفرنس: قائد جمعیۃ علماء اسلام حضرت مولانا مفتی محمود صاحب ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر

۷ فروری ۱۹۷۵ء

دینی مدارس کا جرم؟

لاہور کے بعض اخبارات میں شائع ہونے والی اس خبر سے ملک بھر کے دینی حلقوں میں غم و غصہ اور احتجاج و اضطراب کی لہر دوڑ گئی ہے کہ حکومت نے تمام دینی مدارس کو قومی تحویل میں لینے کا فیصلہ کر لیا ہے۔ اس خبر کے مطابق اصولی طور پر اس امر کا فیصلہ ہوچکا ہے اور اب صرف یہ بات فیصلہ طلب ہے کہ قومی تحویل میں لینے کے بعد دینی مدارس کا نظام وفاقی حکومت چلائے گی یا صوبائی حکومتوں کو یہ ذمہ داری قبول کرنا ہوگی؟ خبر میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ ابتدائی مرحلہ میں پنجاب کے اڑھائی سو مدرسے قومیائے جائیں گے اور مدارس کو اول دوم اور سوم تین مدارج میں تقسیم کیا جائے گا ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر

۳۱ جنوری ۱۹۷۵ء

جمعیۃ علماء اسلام اور امام ولی اللہؒ کا انقلابی اسلامی پروگرام

انگریز مؤرخ ڈبلیو ڈبلیو ہنٹر کے بقول ’’لڑاؤ اور حکومت کرو‘‘ کے فرنگی حربے کو آزمایا گیا اور شرک و بدعت کے خلاف شاہ اسماعیل شہیدؒ اور سید احمد شہیدؒ کی اصلاحی تحریک کو غلط رنگ دے کر ان کے خلاف نفرت انگیز پروپیگنڈہ کا طوفان کھڑا کر دیا گیا، اور تخویف و تحریص کے حربوں سے متعدد قبیلوں کے سرداروں کو امیر المومنین سید احمد شہیدؒ سے باغی کر دیا گیا ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر

۔

معجزہ شق القمر

جناب رسول اللہؐ کے پاس مشرکوں کا ایک گروہ آیا جس میں ولید بن مغیرہ، ابوجہل، عاص بن وائل، عاص بن ہشام، اسود بن عبد المطلب اور نضر بن حارث بھی تھے، انہوں نے آنحضرتؐ سے کہا کہ اگر آپ واقعی سچے ہیں تو اپنی سچائی کے ثبوت میں چاند دو ٹکڑے کر کے دکھائیں، اس طرح کہ اس کا ایک ٹکڑا قبیس کی پہاڑی پر اور دوسرا ٹکڑا قعیقعان پر ہو۔ نبی اکرمؐ نے پوچھا کہ اگر ایسا ہوگیا تو کیا تم لوگ ایمان لے آؤ گے؟ کہنے لگے ہاں! وہ رات چودھویں تھی اور چاند آسمان پر پورے آب تاب کے ساتھ جگمگا رہا تھا ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر

-

جامع مسجد شیرانوالہ باغ گوجرانوالہ میں قائد جمعیۃ مفتی محمود کا خطاب

قائد جمعیۃ علماء اسلام حضرت مولانا مفتی محمود صاحب نے جامع مسجد شیرانوالہ باغ گوجرانوالہ میں یکم دسمبر کو صبح ۹ بجے کارکنوں، علماء اور طلبہ کے ایک بھرپور اجلاس سے خطاب کیا۔ اجلاس کی صدارت ضلعی امیر شیخ الحدیث حضرت مولانا محمد سرفراز خان نے فرمائی۔ قائد جمعیۃ نے اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے کارکنوں پر زور دیا کہ ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر

۱۳ دسمبر ۱۹۷۴ء

مولانا چنیوٹی کا دورۂ عرب ممالک اور قادیانیت کے متعلق پارلیمنٹ کا فیصلہ

مولانا منظور احمد چنیوٹی نے جمعیۃ علماء اسلام کے پلیٹ فارم پر تحریکِ ختمِ نبوت کے سلسلہ میں جو نمایاں خدمات سرانجام دی ہیں وہ کسی پر مخفی نہیں ہیں۔ حضرت مولانا لال حسین اختر رحمۃ اللہ علیہ کے بعد یہ اعزاز مولانا چنیوٹی ہی کے حصہ میں آیا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے انہیں بیرون ممالک میں قادیانیت کا تعاقب کرنے اور تحریکِ ختمِ نبوت منظم کرنے کے مواقع میسر فرمائے ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر

۱۸ اکتوبر ۱۹۷۴ء

پارلیمنٹ کا فیصلہ اور قادیانیوں کے عزائم

قادیانیت کے سلسلہ میں پارلیمنٹ کے فیصلہ کو ایک ماہ گزر چکا ہے لیکن ابھی تک نہ تو اس فیصلہ کو عملی جامہ پہنانے کے لیے ضروری اقدامات کا آغاز ہوا ہے اور نہ ہی قادیانی گروہ نے اس فیصلہ کو تسلیم کرنے کا اعلان کیا ہے۔ مرزا ناصر احمد نے گزشتہ دنوں ربوہ میں ایک اجتماع سے خطاب کرتے ہوئے آئین میں واضح ممانعت کے باوجود اپنے دادا کی نبوت کا پرچار جاری رکھنے کا عزم ظاہر کیا ہے اور ’’خدا کی بشارتوں‘‘ کے حوالے سے کہا ہے کہ میں جنوری تک اس فیصلہ کے بارے میں کوئی ردعمل ظاہر نہیں کروں گا ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر

۱۸ اکتوبر ۱۹۷۴ء

غازی جمال عبد الناصرؒ، عرب اتحاد کا عظیم علمبردار

صدر جمال عبد الناصر ۱۵ جنوری ۱۹۱۸ء کو شمالی مصر کے ایک چھوٹے سے گاؤں بنی مور میں ایک متوسط الحال مصری گھرانے میں پیدا ہوئے۔ آٹھ برس کی عمر میں انہیں تحصیل علم کے لیے قاہرہ بھیج دیا گیا جہاں انہوں نے نہضۃ المصر ثانوی سکول میں داخلہ کیا۔ ثانوی تعلیم کی تکمیل کے بعد ۱۹۳۷ء میں جب ان کی عمر ۱۹ برس تھی، وہ ملٹری اکیڈمی میں داخل ہوئے ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر

۴ اکتوبر ۱۹۷۴ء

پاکستان، امریکی مفاد کی کڑی؟

جہاں تک امریکہ کی فوجی امداد کی بحالی کا تعلق ہے، اگر امریکہ پاکستان کی امداد بحال کر دے تو اس سے پاکستان کو دفاعی ضروریات پوری کرنے اور برصغیر میں طاقت کا توازن برقرار رکھنے میں یقیناً مدد ملے گی۔ لیکن اس امداد کے پس منظر میں ڈاکٹر کیسنجر کے ریمارکس کے پیش نظر ہم اس خدشہ کا اظہار کیے بغیر نہیں رہ سکتے کہ شاید ایک بار پھر پاکستان کی خارجہ پالیسیوں کے گرد استعماری زنجیروں کا حلقہ تنگ کیا جا رہا ہے اور امریکہ کی طرف سے فوجی امداد کی یہ بحالی اس سلسلہ کی ایک کڑی ہے ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر

۴ اکتوبر ۱۹۷۴ء

۱۹۷۱ء کے ہنگامی حالات، آخر کب تک؟

پارلیمنٹ نے گزشتہ روز مشترکہ اجلاس میں حزب اختلاف کے واک آؤٹ کے بعد ہنگامی حالات میں مزید چھ ماہ کی توسیع کی قرارداد منظور کر لی۔ اس سے قبل قائد حزب اختلاف خان عبد الولی خان نے قرارداد کی مخالفت کرتے ہوئے کہا کہ ہنگامی حالات کو باقی رکھنے کا اقدام عوام کے ساتھ سخت ناانصافی ہے۔ خان صاحب نے کہا کہ ۱۹۷۱ء میں پاک بھارت جنگ کی بناء پر ملک میں ہنگامی صورتحال کا اعلان ہوا تھا اور یہ صورتحال اب تک برقرار رکھی جا رہی ہے۔ حالانکہ حکومت نے بھارت کے ساتھ شملہ معاہدہ کے تحت حالات کو معمول پر لانے کی راہ اختیار کر لی ہے ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر

۳۰ اگست ۱۹۷۴ء

آزاد کشمیر کے انتخابات

ان دنوں آزاد کشمیر میں نئے انتخابات کی خاطر سیاسی سرگرمیاں شروع ہو چکی ہیں۔ توقع ہے کہ آئینی فارمولے پر حکومتِ پاکستان اور حکومتِ آزاد کشمیر کے مابین مفاہمت کے بعد انتخابات کے حتمی پروگرام کا اعلان ہو جائے گا۔ ریاستی انتخابات کے ضمن میں ہم کوئی حتمی رائے قائم کرنے کی پوزیشن میں نہیں ہیں لیکن ریاست کے عوام سے یہ گزارش ضرور کریں گے کہ وہ اس نازک موڑ پر اپنی نئی قیادت کا انتخاب کرتے وقت سابقہ تجربات کو سامنے رکھیں ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر

۹ اگست ۱۹۷۴ء

امریکی صدر نکسن سے استعفٰی کا مطالبہ

واٹر گیٹ اسکینڈل کے سلسلہ میں غلط بیانی کے اعتراف کے ساتھ ہی امریکہ کے صدر نکسن کو امریکہ کے قومی حلقوں حتیٰ کہ خود اپنی ری پبلکن پارٹی کی طرف سے استعفیٰ کے مطالبہ کا سامنا کرنا پڑ گیا ہے اور سیاسی حلقوں کے مطابق اب مسٹر نکسن کے لیے استعفیٰ کے بغیر کوئی چارہ نہیں رہا۔ امریکی صدر رچرڈ نکسن کا قصور یہ ہے کہ ان کے دور میں امریکہ کے کچھ ذمہ دار شہریوں کے فون خفیہ طور پر ٹیپ کیے گئے ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر

۹ اگست ۱۹۷۴ء

جناب وزیر اعظم! تشدد سے مسئلہ حل نہیں ہوگا

وزیراعظم جناب ذوالفقار علی بھٹو نے کوئٹہ میں پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے فرمایا ہے کہ قادیانی مسئلہ کے حل میں تاخیر ملک و قوم کے مفاد میں نہیں ہے اس لیے میں قومی اسمبلی کے ارکان سے کہوں گا کہ وہ سات ستمبر تک اس مسئلہ کا کوئی حل طے کر لیں۔ اس بات سے قطع نظر کہ ۷ ستمبر تک مہلت بھی تاخیر کے زمرے میں آتی ہے یا نہیں، ہمیں بھٹو صاحب کے اس ارشاد سے سو فیصد اتفاق ہے کہ اس مسئلہ کے حل میں تاخیر ملک و قوم کے مفاد میں نہیں ہے ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر

۹ اگست ۱۹۷۴ء

متحدہ جمہوری محاذ کی تنظیم نو

متحدہ جمہوری محاذ کی ایک پریس ریلیز کے مطابق ماتحت شاخوں کو ہدایت کی گئی ہے کہ وہ ۲۰ اگست تک ضلع اور شہر کی سطح پر تنظیم نو مکمل کر لیں تاکہ محاذ نئے سرے سے اپنی جدوجہد کو منظم کر سکے۔ متحدہ جمہوری محاذ موجودہ حکومت کے واضح غیر آئینی، آمرانہ اور جمہوریت کش اقدامات کے پیش نظر جمہوری اقدار کے تحفظ کے لیے قائم ہوا تھا اور اب تک اپنی بساط کے مطابق اس میدان میں مصروف جہد و عمل ہے ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر

۹ اگست ۱۹۷۴ء

حالات و واقعات

مشرقی پاکستان کے حالیہ واقعات اور سیاسی بحران کے بارہ میں بھارت اور اس کے مغربی ہمنوا جو گمراہ کن پروپیگنڈہ کر رہے ہیں اس کی تردید نسبتاً زیادہ منظم اور گمراہ کن ہے۔ چنانچہ مولانا منظور احمد چنیوٹی نے، جو تا دمِ تحریر مدینہ منورہ میں مقیم ہیں، مدیر ترجمان اسلام کے نام ایک مکتوب میں اس امر کی طرف توجہ دلائی ہے ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر

۲ اگست ۱۹۷۴ء

حضرت مولانا محمد ادریس کاندھلویؒ

ملک کی مشہور دینی درسگاہ جامعہ اشرفیہ لاہور کے شیخ الحدیث اور مادر علمی دارالعلوم دیوبند کے سابق مدرس حضرت مولانا الحاج محمد ادریس کاندھلویؒ ۲۸ جولائی ۱۹۷۴ء بروز اتوار صبح ۵ بجے انتقال فرما گئے، انا للہ وانا الیہ راجعون۔ مولانا مرحوم ایک عظیم مدرس، یگانہ روز خطیب، قابل صد فخر محدث و مفسر اور ایک مایہ ناز مصنف تھے ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر

۲ اگست ۱۹۷۴ء

اور جنرل یحیٰی خان؟

وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو صوبہ سرحد کے شمالی علاقوں میں خان عبد الولی خان پر الزامات کے تیر برسانے میں مصروف تھے کہ وزیرداخلہ مسٹر عبد القیوم خان نے قومی اسمبلی میں اعلان کر دیا کہ سابق صدر یحییٰ خان اب حکومت کی حراست میں نہیں ہیں۔ یحییٰ خان نے ایوب خان کے دستبردار ہونے پر پاکستان کا نظم و نسق سنبھالا تھا اور سقوط مشرقی پاکستان کے المناک سانحہ پر ان کے اقتدار کا سروج غروب ہوگیا تھا ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر

۲۶ جولائی ۱۹۷۴ء

قبرص کا بحران!

قبرص کا مسئلہ بھی ان مسائل میں سے ہے جنہیں بین الاقوامی استعمار نے عالم اسلام کو الجھائے رکھنے کے لیے جنم دیا ہے۔ یہ مسئلہ کئی بار مسلح تصادم کا باعث بنا ہے اور آج بھی اس کے باعث ترکی اور یونان کے درمیان مسلح جنگ کے خطرات شدید ہوتے جا رہے ہیں۔ قبرص بحیرہ روم کا ایک بڑا جزیرہ ہے جہاں یونانی عیسائی اور ترک مسلمان آباد ہیں۔ عیسائی اکثریت میں ہیں،مسلمان اقلیت میں ہیں اور ان کے درمیان چپقلش مدت سے چلی آرہی ہے ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر

۲۶ جولائی ۱۹۷۴ء

مسئلہ کشمیر نئے دور میں!

وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو کی طرف سے آزاد کشمیر کو پاکستان کا صوبہ بنانے کی تجویز پر جمعیۃ علماء اسلام کے قائد مولانا مفتی محمود نے قوم کو خبردار کیا تھا کہ اس سے مسئلہ کشمیر کے بارے میں پاکستان کے موقف کو نقصان پہنچے گا اور یہ تجویز عملاً مسئلہ کشمیر کو دفن کر دینے کے مترادف ہے ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر

۲۶ جولائی ۱۹۷۴ء

ولی خان، مسٹر بھٹو اور افغانستان

وزیراعظم جناب ذوالفقار علی بھٹو نے گزشتہ دنوں صوبہ سرحد کے شمالی علاقوں کا دورہ کرتے ہوئے اپنی تقاریر میں پاکستان کی سرحدوں پر افغانستان اور بھارت کی افواج کے اجتماع کے انکشاف کے ساتھ ساتھ قومی اسمبلی میں حزب اختلاف کے قائد جناب عبد الولی خان کے خلاف بھی غم و غصہ کا اظہار فرمایا ہے۔ اگرچہ اس سلسلہ میں انہوں نے کوئی نئی بات کرنے کی بجائے وہی باتیں دہرائی ہیں جو وہ اور ان کے پیشرو حکمران اس سے قبل متعدد بار کہہ چکے ہیں ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر

۲۶ جولائی ۱۹۷۴ء

’’ترجمانِ اسلام‘‘ کے سلسلہ میں چند اہم گزارشات

۱۷ جولائی کو حضرت مولانا عبید اللہ انور مدظلہ کی زیر صدارت ہفت روزہ ترجمان اسلام لاہور کے عملہ اور معاونین کا ایک خصوصی مشاورتی اجلاس منعقد ہوا جس میں ترجمان اسلام کو پیش آمدہ مسائل کے بارے میں غور و خوض کرنے کے بعد ترجمان اسلام کے دورِ نو کے لیے مندرجہ ذیل خطوط متعین کیے گئے ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر

۲۶ جولائی ۱۹۷۴ء

’’ترجمانِ اسلام‘‘ کا دورِ نو اور ہماری ذمہ داریاں

ہفت روزہ ترجمانِ اسلام لاہور کے مالی بحران کی طرف ہم نے قارئین اور ایجنٹ حضرات کو بار بار توجہ دلائی ہے لیکن ابھی تک اس کا کوئی مثبت نتیجہ سامنے نہیں آیا۔ اسی بحران کے باعث پرچہ کے معیار اور قارئین کی شکایات کی طرف پوری توجہ نہیں دی جا سکی، جس کا ادارہ کو پورا پورا احساس ہے ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر

۱۲ جولائی ۱۹۷۴ء

قادیانی مسئلہ: وزیراعظم بھٹو کی تقریر پر مولانا مفتی محمود کے ارشادات

مولانا مفتی محمود نے اخباری کانفرنس میں مجلس عمل کے فیصلوں پر روشنی ڈالتے ہوئے فرمایا کہ وزیراعظم بھٹو قادیانیوں کو غیر مسلم اقلیت قرار دینے اور اس سلسلہ میں سواد اعظم کے دوسرے مطالبات تسلیم کرنے کے سلسلہ میں سنجیدہ نہیں ہیں، وہ اس مسئلہ کو اسلامی مشاورتی کونسل یا سپریم کورٹ کے سپرد کر کے سرد خانہ میں ڈالنا چاہتے ہیں۔ مجلس عمل کے مطالبات بالکل واضح ہیں، قادیانیوں کو غیر مسلم اقلیت قرار دینے کے مسئلہ کو قانونی حیثیت دینے کے لیے قومی اسمبلی سے فیصلہ لینا ضروری ہے ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر

۲۱ جون ۱۹۷۴ء

اسلامیانِ پاکستان کو ربوہ کا چیلنج

پشاور سے آنے والی بارہ ڈاؤن چناب ایکسپریس پر آج ربوہ ریلوے اسٹیشن پر قادیانی فرقہ کے تقریباً پانچ ہزار افراد نے حملہ کر دیا۔ یہ حملہ اس بوگی پر کیا گیا جس میں نشتر میڈیکل کالج ملتان کے ۱۶۰ طالب علم سوار تھے۔ حملہ آور خنجروں، ہاکیوں، تلواروں اور لاٹھیوں سے مسلح تھے۔ اس حملہ میں ۳۰ طالب علم شدید زخمی ہو گئے ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر

جون ۱۹۷۴ء

مسئلہ قادیانیت، دینی جماعتوں کے مطالبات

۹ جون کو مدرسہ قاسم العلوم اندرون شیرانوالہ گیٹ لاہور میں علماء کرام، مشائخ عظام اور سیاسی راہنماؤں کے مشترکہ کنونشن میں حکومت سے مطالبہ کیا گیا ہے کہ (۱) قادیانیوں کو غیر مسلم اقلیت قرار دیا جائے، (۲) کلیدی آسامیوں سے قادیانیوں کو الگ کیا جائے، (۳) ربوہ کو کھلا شہر قرار دے کر مسلمانوں کو وہاں بسنے کی جازت دی جائے، (۴) واقعہ ربوہ کے سلسلہ میں مرزا ناصر احمد اور دیگر ذمہ دار افراد کو فی الفور گرفتار کیا جائے۔ کنونشن میں ان مطالبات کے لیے پر امن تحریک چلانے کی غرض سے ’’آل پارٹیز ختم نبوت ایکشن کمیٹی‘‘ کے قیام کا بھی فیصلہ کیا گیا ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر

۱۴ جون ۱۹۷۴ء

حالات و واقعات

ہفت روزہ ’’نصرت‘‘ لاہور جو کبھی وزیر اعلیٰ پنجاب جناب محمد حنیف رامے کی زیرادارت سوشلزم کی منادی کیا کرتا تھا، آج کل رامے صاحب کی سرکاری مصروفیات کے باعث ایک اور صاحب کی ادارت میں عریانی کو سندِ جواز فراہم کرنے کی کوششوں میں مصروف ہے۔ ’’نصرت‘‘ کے ۱۲ مئی کے شمارہ میں سیدنا حضرت آدم و حوا علیہم السلام کی بالکل عریاں تصاویر کی اشاعت اور ایک غیر معروف مسلم ریاست عجمان کی ڈاک ٹکٹوں کے حوالے سے عریانی کے جواز پر بحث اس قدر حیا سوز ہے کہ ارباب ’’نصرت‘‘ کی شرم و حیا کا ماتم کرنے کو جی چاہتا ہے ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر

۳۱ مئی ۱۹۷۴ء

مشترکہ اسلحہ سازی کا مستحسن فیصلہ

عرب وزرائے خارجہ و دفاع نے اپنے ایک حالیہ اجلاس میں یہ طے کیا ہے کہ عرب ممالک مشترکہ طور پر اسلحہ سازی کی صنعت قائم کریں گے اور اس کا ہیڈ کوارٹر قاہرہ میں ہوگا۔ اس مقصد کے لیے ضروری تفصیلات طے کرنے کی غرض سے ایک تکنیکی کمیٹی قائم کر دی گئی ہے۔ موجودہ دور میں اسلحہ سازی کی صنعت نے جو ترقی کی ہے اور اس پر بڑی طاقتوں کی اجارہ داری کے باعث دنیا کے چھوٹے ممالک مصائب و مشکلات کا شکار ہو چکے ہیں ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر

۳۱ مئی ۱۹۷۴ء

آزادکشمیر ۔ حق و باطل کی رزمگاہ اور مصائب و مسائل کی آماجگاہ

دارالعلوم تعلیم القرآن باغ کی دعوت پر اس سال مئی کے پہلے ہفتہ میں آزادکشمیر جانے کا موقع ملا، دارالعلوم تعلیم القرآن کے جلسہ میں شرکت کے علاوہ مدرسہ حنفیہ تعلیم الاسلام کے جلسہ میں بھی حاضری ہوگئی۔ حضرت مولانا سید عبد المجید صاحب ندیم ان جلسوں میں شریک تھے۔ الحمد للہ تین روز کے اس مختصر دورہ میں آزادکشمیر کےبارے میں معلومات حاصل کرنے اور مختلف عنوانات پر وہاں کے علماء، طلبہ اور سیاسی کارکنوں سے تبادلۂ خیالات کرنے کا موقع ملا ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر

۲۴ مئی ۱۹۷۴ء

بھارت کا ایٹمی دھماکہ!

انڈیا نے گزشتہ روز راجستھان کے صحراؤں میں پہلا ایٹمی دھماکہ کیا اور اس طرح امریکہ، روس، برطانیہ، فرانس اور چین کے بعد ایٹمی طاقتوں کی فہرست میں چھٹے ملک کا اضافہ ہوگیا۔ بھارت کے اس ایٹمی دھماکے پر عالمی رائے عامہ کی طرف سے ملے جلے ردعمل کے اظہار کا سلسلہ جاری ہے۔ پاکستان اور دوسرے بہت سے ممالک نے یہ رائے ظاہر کی ہے کہ اس دھماکے سے ایٹمی ہتھیاروں کے پھیلاؤ کو روکنے کے لیے کی جانے والی کوششوں کو نقصان پہنچے گا۔ وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو نے یہ بھی کہا ہے کہ پاکستان بھارت کے اس اقدام سے مرعوب نہیں ہوگا ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر

۲۴ مئی ۱۹۷۴ء

کشمیر، تاریخ کے آئینے میں

(۱) چودھویں صدی عیسوی کے ربع اول میں کشمیر کے ایک راجہ نے، جس کا نام رینچن یا رام چندر بتایا جاتا ہے، ایک عرب مسافر سید بلبل شاہؒ کی نماز اور تبلیغ سے متاثر ہو کر اسلام قبول کیا، اپنا اسلامی نام صدر الدینؒ رکھا اور سری نگر میں جامع مسجد تعمیر کی۔ اس طرح کشمیر کے اسلامی دور کا آغاز ہوا۔ (۲) پندرہویں صدی کے ربع اول میں کشمیر کو سلطان زین العابدینؒ جیسا نیک دل، رعایا پرور اور علم دوست بادشاہ نصیب ہوا جس نے عدل، تدبر، رحم دلی اور اسلامی اخوت و مساوات کے جذبہ سے ریاست میں اسلام کی بنیادوں کو مستحکم کیا ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر

۲۴ مئی ۱۹۷۴ء

سید شمس الدین شہیدؒ کی سیٹ پر ضمنی انتخاب

قائد جمعیۃ علماء اسلام حضرت مولانا مفتی محمود نے کوئٹہ میں پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے خبردار کیا ہے کہ فورٹ سنڈیمن (ژوب) کے ضمنی الیکشن میں سرکاری مداخلت ترک نہ کی گئی تو یہ انتخابات منعقد نہیں ہو سکیں گے۔ ادھر جمعیۃ علماء اسلام بلوچستان کے جنرل سنیٹر حاجی محمد زمان خان اچکزئی نے بھی انتباہ کیا ہے کہ انتخاب میں دھاندلیوں کا پوری قوت سے مقابلہ کیا جائے گا اور دھاندلیوں کے ذریعہ سرکاری امیدوار کو کامیاب بنانے کی کوشش کامیاب نہیں ہونے دی جائے گی ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر

۱۷ مئی ۱۹۷۴ء

جمعیۃ طلباء اسلام جموں و کشمیر کے نوجوانوں کی خدمت میں!

جمعیۃ طلباء اسلام جموں و کشمیر کے زیر اہتمام ۲۶ و ۲۷ مئی کو باغ ضلع پونچھ میں طلبہ کا ایک عظیم الشان کنونشن منعقد ہو رہا ہے جس میں آزاد کشمیر کے دینی مدارس اور کالجوں کے طلبہ شریک ہوں گے۔ آزادکشمیر کے علماء کرام کے علاوہ قائد جمعیۃ علماء اسلام پاکستان حضرت مولانا مفتی محمود صاحب بھی اس میں شرکت فرمائیں گے۔ یہ کنونشن آزادکشمیر کی موجودہ صورتحال کے پیش نظر بہت زیادہ اہمیت اختیار کر چکا ہے اور جمعیۃ طلباء اسلام کے باہمت نوجوانوں نے یہ ذمہ داری قبول کر کے ایک اہم قدم اٹھایا ہے جس کے اثرات آزاد کشمیر کی تاریخ میں دور رس اور وقیع ہوں گے ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر

۳ مئی ۱۹۷۴ء

قصہ حضرت الامیر کی گرفتاری کا

۲۸ اپریل کو روزنامہ جنگ راولپنڈی نے خبر دی کہ حضرت مولانا محمد عبد اللہ درخواستی دامت برکاتہم امیر مرکزی جمعیۃ علماء اسلام پاکستان کو نوشہرہ ضلع پشاور پولیس نے تحفظ امن عامہ کی دفعہ ۱۶ کے تحت گرفتار کر لیا ہے۔ اس سے قبل یہ خبر موصول ہو چکی تھی کہ حضرت مولانا عبد الحق صاحب مدظلہ، مولانا سمیع الحق اور دیگر سیاسی کارکنوں کے وارنٹ گرفتاری مذکورہ دفعہ کے تحت جاری کر دیے گئے ہیں۔ اسی روز خانپور فون پر رابطہ قائم کیا گیا تو معوم ہوا کہ حضرت الامیر مدظلہ گھر میں تشریف فرما ہیں اور گرفتاری عمل میں نہیں آئی ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر

۳ مئی ۱۹۷۴ء

بھٹو صاحب کا ’’اعلان بلوچستان‘‘

وزیراعظم جناب ذوالفقار علی بھٹو نے ۱۳ اپریل کو بالآخر وہ اعلان کر ہی دیا جس کا قوم کو گزشتہ پون سال سے انتظار کرایا جا رہا تھا اور جس کے بارے میں وسیع پراپیگنڈا کے ذریعہ اس قدر سسپنس پیدا کر دیا گیا تھا کہ (ملک کے سنجیدہ سیاسی حلقوں کے سوا) اعلانِ تاشقند کی طرح اعلانِ بلوچستان بھی عوام کی توجہات کا مرکز اور اخبارات و رسائل میں موضوع بحث بن چکا تھا۔ اور خود وزیراعظم نے اس کے بارے میں یہاں تک کہہ دیا تھا کہ اس اعلان سے تمام حلقے مطمئن ہو جائیں گے ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر

۱۹ اپریل ۱۹۷۴ء

بلوچستان امن و انصاف مانگتا ہے

بلوچستان نیشنل عوامی پارٹی کے راہنما جناب احمد نواز بگتی گزشتہ روز لاہور تشریف لائے اور پارٹی ورکروں کے اجتماع سے خطاب کے علاوہ ایک مقامی روزنامہ کو انٹرویو بھی دیا جس میں انہوں نے بلوچستان کے سیاسی حل کے بارے میں وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو کی طرف سے متوقع اعلان، بلوچستان کی سیاسی صورتحال اور مسئلہ بلوچستان کے صحیح حل کے سلسلہ میں چند فکر انگیز باتیں کی ہیں۔ بلوچستان کی نازک صورتحال اور وزیراعظم بھٹو کے متوقع اعلان کے پیش نظر بگتی صاحب کے ان خیالات کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا اس لیے ان کے خطاب اور انٹرویو کے اہم نکات درج ذیل ہیں ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر

۵ اپریل ۱۹۷۴ء

بلوچستان: قائد جمعیۃ کا بیان اور قومی پریس

قائد جمعیۃ علماء اسلام حضرت مولانا مفتی محمود صاحب مدظلہ ۳۰ مارچ کو اسلام آباد سے بہاولنگر جاتے ہوئے تھوڑی دیر کے لیے مرکزی دفتر لاہور میں رکے۔ آپ کے ساتھ سنیٹر حاجی محمد زمان خاں اچکزئی (کوئٹہ) اور سنیٹر حاجی محمد شعیب شاہ (بنوں) بھی تھے۔ اس موقع پر آپ نے ’’بلوچستان بچاؤ کمیٹی‘‘ کے نام سے لاہور میں ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر

۵ اپریل ۱۹۷۴ء

مولانا سید شمس الدین شہیدؒ

جمعرات ۱۴ مارچ کی صبح کو ملک بھر میں یہ خبر انتہائی غم کے ساتھ سنی گئی کہ گزشتہ روز کوئٹہ فورٹ سنڈیمن روڈ پر پاکستان کے انتہائی قابل احترام عالم با عمل، عظیم سیاسی راہنما، بلوچستان جمعیۃ کے امیر، صوبائی متحدہ جمہوری محاذ کے نائب صدر اور صوبائی اسمبلی کے ڈپٹی اسپیکر حضرت مولانا سید محمد شمس الدین شہید کر دیے گئے، انا للہ وانا الیہ راجعون۔ اس اندوہناک سانحہ نے ملک کے دینی و سیاسی حلقوں میں صفِ ماتم بچھا دی ہے۔ مولانا سید شمس الدین جمعیۃ علماء اسلام کے مقتدر راہنما تھے ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر

۲۲ مارچ ۱۹۷۴ء

بلوچستان کی صورتحال، میاں محمد حسن شاہ کی باتیں

مارچ کا قصہ ہے کہ راقم الحروف کو علامہ محمد احمد صاحب لدھیانوی جنرل سیکرٹری متحدہ جمہوری محاذ گوجرانوالہ، قاری محمد یوسف عثمانی صاحب نائب امیر جمعیۃ شہر گوجرانوالہ، اور ڈاکٹر غلام محمد صاحب مبلغ جمعیۃ ضلع گوجرانوالہ کی معیت میں جمعیۃ کے علاقائی تربیتی کنونشن کے لیے فیصلز ہوٹل جی ٹی روڈ گوجرانوالہ کے ہال کی بکنگ کی غرض سے ہوٹل جانے کا اتفاق ہوا۔ ہوٹل کے صدر دروازے پر سیاہ رنگ کی کار اور اس پر قومی پرچم دیکھ کر خیال ہوا کہ شاید اندر کوئی عوامی وزیر ہوٹل کو شرف قدوم سے نوازنے تشریف لائے ہیں ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر

۱۵ مارچ ۱۹۷۴ء

بلوچستان، ایک لمحہ فکریہ

گورنر بلوچستان خان احمد یار خان نے فرمایا ہے کہ وزیراعظم بھٹو بے پناہ مصروفیات کے باعث وعدہ کے مطابق ۲۵ فروری کو بلوچستان کی صورتحال کے بارے میں کسی فیصلہ کا اعلان نہیں کر سکے، اب وہ یکم اپریل تک یہ اعلان کر دیں گے۔ گورنر نے یہ بھی کہا ہے کہ نیشنل عوامی پارٹی کے لیڈروں کے خلاف مقدمات سابق گورنر اکبر بگتی کی سفارش پر قائم کیے گئے تھے۔ ادھر سابق گورنر اکبر بگتی نے کہا ہے کہ نیپ لیڈروں کے خلاف جھوٹے مقدمات قائم کیے گئے تھے تاکہ ان کی نشستیں خالی قرار دے کر ان کی جگہ پیپلز پارٹی کے ارکان کو صوبائی اسمبلی کے لیے ’’منتخب‘‘ کرایا جا سکے ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر

۱۵ مارچ ۱۹۷۴ء

مسلم سربراہ کانفرنس لاہور کا اختتام

مسلم سربراہوں کی سہ روزہ لاہور کانفرنس متعدد کھلے اور بند اجلاسوں، طویل بحث و تمحیص اور قائدین کی تقاریر کے بعد قراردادوں، فیصلوں اور اعلانِ لاہور کے اجراء کے ساتھ بخیر و خوبی اختتام پذیر ہوگئی۔ ’’لاہور کانفرنس‘‘ کے بارے میں جن توقعات کا اظہار کیا جاتا رہا ہے وہ کہاں تک پوری ہوئی ہیں، اس کا اندازہ کانفرنس کے اعلانات سے بخوبی کیا جا سکتا ہے۔ تاہم یہ بات انتہائی اطمینان بخش ہے کہ تمام مسلم راہنماؤں نے اخوت و محبت کے ماحول میں عالم اسلام کے مسائل کا جائزہ لیا، ایک دوسرے کی مشکلات کو سمجھنے کی کوشش کی اور باہمی ارتباط کے مختلف پہلوؤں پر غور و خوض کیا ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر

یکم مارچ ۱۹۷۴ء

مسئلہ کشمیر اور مسلم سربراہ کانفرنس لاہور

قائد جمعیۃ علماء اسلام مولانا مفتی محمود نے سکھر میں اخباری نمائندوں سے گفتگو کرتے ہوئے اس امر پر زور دیا ہے کہ مسلم سربراہ کانفرنس میں عالم اسلام کے دیگر مسائل کے ساتھ ساتھ مسئلہ کشمیر پر بھی غور کیا جائے۔ ادھر معروف کشمیری راہنما میر واعظ مولانا محمد فاروق نے بھی کانفرنس کے ایجنڈے میں مسئلہ کشمیر کو شامل کرنے کا مطالبہ کیا ہے۔ مسئلہ کشمیر قیام پاکستان کے بعد سے اب تک پاکستان اور ہندوستان کے درمیان مسلسل کشیدگی کا باعث چلا آرہا ہے اور دو سے زائد بڑی جنگوں کا محرک بن چکا ہے۔ اور اس سے نہ صرف برصغیر اور ایشیا بلکہ پوری دنیا کے امن کو خطرہ لاحق ہے ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر

۱۵ فروری ۱۹۷۴ء

تقسیم ہند کی معقولیت سے انکار

وزیراعظم جناب ذوالفقار علی بھٹو نے گزشتہ روز لاہور میں اخباری نمائندوں سے گفتگو کرتے ہوئے یہ عجیب و غریب انکشاف فرمایا ہے کہ ’’پاکستان مذہبی ملک نہیں ہے‘‘ اور یہ کہ ’’کسی ملک کے سیکولر ہونے سے اس کے اسلامی مزاج میں کوئی فرق نہیں پڑتا۔‘‘ (روزنامہ مشرق لاہور ۔ یکم فروری ۱۹۷۴ء)۔ خدا جانے مذہب کے نام سے بھٹو صاحب کی اس جھجھک کا پس منظر کیا ہے، حالانکہ اس حقیقت سے انکار کی کوئی گنجائش نہیں کہ پاکستان مذہب کے نام پر لا الہ الا اللہ کا نعرہ لگا کر قائم کیا گیا تھا ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر

۸ فروری ۱۹۷۴ء

مولانا محمد یوسف الحسینیؒ

ختم نبوت کانفرنس میں شرکت کی غرض سے چنیوٹ جانے کے لیے تیار ہو رہا تھا کہ لائل پور سے فون پر یہ روح فرسا خبر ملی کہ جمعیۃ علماء اسلام ضلع لائل پور کے امیر اور بزرگ عالم دین حضرت مولانا مفتی محمد یوسف الحسینیؒ عالم فانی سے رحلت فرما گئے ہیں، انا للہ وانا الیہ راجعون۔ جنازہ کا جو وقت بتایا گیا اس پر گوجرانوالہ سے لائل پور پہنچنا مشکل تھا ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر

۸ فروری ۱۹۷۴ء

جماعتی قائدین اور کارکنوں کے ساتھ آٹھ دن

’’ترجمانِ اسلام‘‘ میں اعلان ہو چکا تھا اور احباب کو خطوط بھی لکھے جا چکے تھے۔ چنانچہ طے شدہ پروگرام کے مطابق ۷ جنوری کو گکھڑ سے روانہ ہو کر عشاء کی نماز کے قریب ٹیکسلا پہنچا۔ انجمن شبان اسلام کے دفتر میں جماعتی احباب اور ترجمانِ اسلام کے ایجنٹ حضرات گرد و نواح سے جمع تھے ۔ جماعتی مسائل پر گفتگو کے علاوہ ترجمانِ اسلام کا معیار بلند کرنے اور اس کی اشاعت کو وسیع تر کر دینے ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر

یکم فروری ۱۹۷۴ء

مسلم سربراہ کانفرنس لاہور سازشوں کے گرداب میں!

مسلم سربراہ کانفرنس لاہور کے بارے میں اپنے جذبات، تاثرات اور توقعات کا اظہار ہم گزشتہ اشاعت میں کر چکے ہیں۔ ہماری دلی خواہش ہے کہ یہ گزارشات عالم اسلام کے قائدین تک پہنچیں اور مسلم سربراہ کانفرنس اسلام کی سربلندی و نفاذ اور عالم اسلام کے اتحاد و ترقی کے لیے صحیح طور پر کوئی ٹھوس لائحہ عمل تیار کر سکے۔ اس وقت ہم کانفرنس کے انتظامات کے سلسلہ میں کچھ امور کی طرف حکومت کو متوجہ کرنا چاہتے ہیں۔ یہ اعزاز اسلامیان پاکستان کے لیے باعث صد افتخار ہے کہ اس عظیم کانفرنس کی میزبانی کا شرف پاکستان کو حاصل ہو رہا ہے ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر

یکم فروری ۱۹۷۴ء

لاہور میں مسلم سربراہ کانفرنس کا انعقاد

آئندہ ماہ لاہور میں مسلم ممالک کے سربراہوں کی تاریخی کانفرنس منعقد ہونے والی ہے جس کی تیاریاں پورے جوش و خروش کے ساتھ جاری ہیں اور اسلامی سیکرٹریٹ کے سیکرٹری جنرل جناب حسن التہامی گزشتہ روز کانفرنس کے انتظامات کا جائزہ لینے کے لیے پاکستان پہنچ چکے ہیں۔ انہوں نے اسلام آباد ایئرپورٹ پر اخباری نمائندوں سے گفتگو کے دوران مسلم سربراہ کانفرنس کی اہمیت واضح کرتے ہوئے کہا ہے کہ ’’لاہور میں منعقد ہونے والی اسلامی کانفرنس کے بعد عالم اسلام کی شیرازہ بندی بین الاقوامی تعلقات میں مؤثر کردار ثابت ہوگی ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر

۲۵ جنوری ۱۹۷۴ء

وزیراعظم بھٹو کا اعتراف اور جسٹس حمود الرحمان کمیشن کی رپورٹ

وزیراعظم جناب ذوالفقار علی بھٹو نے عید الاضحیٰ سے چند روز قبل ایک غیر ملکی جریدہ کو انٹرویو دیتے ہوئے اس امر کا اعتراف کیا ہے کہ پاکستان کافی عرصہ سے غیر ملکی مداخلت کا نشانہ بنا ہوا ہے اور خصوصاً بلوچستان غیر ملکی سازشوں اور مداخلت کی زد میں ہے۔ اس سے قبل بھٹو صاحب نے متعدد بار اس مداخلت کے وجود سے انکار کیا ہے بلکہ ایک بار تو یہاں تک فرمایا کہ بلوچستان میں غیر ملکی مداخلت کا قصہ ہم صرف اخبارات میں پڑھتے ہیں۔ مگر اب ان کے اس اعتراف کے بعد یہ امر شک و شبہ سے بالاتر ہو چکا ہے کہ بلوچستان میں غیر ملکی عناصر نے سازشوں کے جال پھیلا رکھے ہیں ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر

۱۸ جنوری ۱۹۷۴ء

سنت ابراہیمیؑ کا اصل سبق

حضرت ابراہیم علیہ السلام کی یہ عظیم سنت ہر سال ہمیں یہ بھولا ہوا سبق یاد دلاتی ہے کہ اگر خدا کی دوستی چاہتے ہو تو ہر چیز کو اس کی رضا پر قربان کر دینے کے لیے تیار رہو۔ اگر دنیاوی اسباب کے مقابلہ میں اللہ تعالیٰ کی خصوصی نصرت کے طلب گار ہو تو ایثار و قربانی اور اطاعت و وفا کی راہوں پر گامزن ہو جاؤ۔ اور اگر اللہ رب العزت کی بے پایاں خصوصی رحمتوں کے متمنی ہو تو اس کے ہر حکم اور ہر اشارہ پر سر تسلیم خم کر دو۔ قربانی محض ایک رسم نہیں کہ جانور خریدا اور ذبح کر دیا۔ یہ عبادت ہے، اس میں ایک عظیم سبق ہے جسے ہم بھول چکے ہیں ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر

۴ جنوری ۱۹۷۴ء

بھٹو حکومت کے دو سال

حکمران پارٹی نے اقتدار کے دو سال مکمل ہونے پر ۲۰ دسمبر کو ’’یوم محاسبہ‘‘ کے نام سے سالگرہ منائی ہے۔ اس روز اخبارات و جرائد نے خاص نمبر شائع کیے، ریڈیو و ٹی وی سے خصوصی پروگرام نشر کیے گئے، نیشنل سنٹرز میں اجتماعات ہوئے اور خود وزیراعظم نے راولپنڈی میں ایک بڑا جلسۂ عام منعقد کیا جس میں ملک کے مختلف حصوں سے کثیر تعداد میں حکمران پارٹی کے کارکن شریک ہوئے۔ اگرچہ یہ سارے انتظامات دو سالہ کارکردگی کے محاسبہ کے عنوان سے کیے گئے تھے لیکن حسب توقع ’’سب اچھا ہے‘‘ کی رسمی صدا کے سوا اس نقارخانے میں کچھ بھی سنائی نہیں دیا ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر

۲۸ دسمبر ۱۹۷۳ء

قائد جمعیۃ مولانا مفتی محمود کا دورۂ لاہور ڈویژن

قائد جمعیۃ علماء اسلام حضرت مولانا مفتی محمود صاحب یکم دسمبر کو لاہور ڈویژن کے تین روزہ دورے پر تشریف لائے۔ اس روز آپ ظہر کے بعد گوجرانوالہ پہنچے اور حضرت مولانا عبد الواحد صاحب سے ملاقات کے بعد ڈسکہ روانہ ہو گئے۔ رات کو دارالعلوم مدنیہ ڈسکہ کی وسیع گراؤنڈ میں مقامی جمعیۃ کے زیر اہتمام عظیم الشان جلسہ عام منعقد ہوا ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر

۱۴ دسمبر ۱۹۷۳ء

مذاکرات کا جال اور وعدے، بھٹو صاحب کی سیاسی تکنیک

گزشتہ دنوں وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو نے قائد جمعیۃ حضرت مولانا مفتی محمود سے قومی اسمبلی کے چیمبر میں چالیس منٹ تک بات چیت کی جس میں وزیرقانون پیرزادہ بھی شریک ہوئے۔ اس گفتگو کی تفصیلات معلوم نہیں ہو سکیں مگر دوسرے روز متحدہ جمہوری محاذ کی قرارداد منظر عام پر آئی جس میں اعلان کیا گیا ہے کہ جب تک حکومت ’’مری مذاکرات‘‘ میں کیے گئے وعدے پورے نہیں کرتی اس سے مذاکرات نہیں کیے جائیں گے۔ اس قرارداد سے مترشح ہوتا ہے کہ بھٹو صاحب نے مفتی صاحب سے ملاقات کے دوران اپوزیشن کو مذاکرات کی دعوت دی جسے محاذ نے مسترد کر دیا ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر

۱۴ دسمبر ۱۹۷۳ء

مولانا سید محمد ایوب جان بنوری سے ملاقات

جمعیۃ علماء اسلام صوبہ سرحد کے امیر شیخ الحدیث حضرت مولانا سید محمد ایوب جان بنوری دامت برکاتہم ۲۱ رمضان المبارک ۱۳۳۰ھ کو پشاور میں پیدا ہوئے، آپ کے والد محترم کا اسم گرامی مولانا سید فضل خانؒ ہے۔ آپ نے ابتدائی تعلیم گھر میں حاصل کی اور دورہ حدیث دارالعلوم دیوبند میں شیخ الاسلام حضرت مولانا حسین احمدؒ مدنی نے ۱۳۵۲ھ میں کیا۔ طالب علمی کے دور میں دارالعلوم میں طلبہ کی انجمن اصلاح الکلام کے ناظم رہے جبکہ شیخ الحدیث مولانا عبد الحق مدظلہ ایم این اے اکوڑہ خٹک اس انجمن کے صدر تھے ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر

۱۴ دسمبر ۱۹۷۳ء

قومی پریس کا کردار

قائد جمعیۃ علماء اسلام حضرت مولانا مفتی محمود صاحب نے گزشتہ روز گکھڑ میں اخباری نامہ نگاروں سے گفتگو کرتے ہوئے ملکی مسائل پر سیر حاصل تبصرہ کیا جس کی مفصل رپورٹ آئندہ شمارے میں ہمارے وقائع نگار خصوصی کے قلم سے ملاحظہ فرمائیں گے۔ اس موقع پر آپ نے قومی پریس پر عائد پابندیوں کا بھی ذکر فرمایا اور اخبار نویسوں پر زور دیا کہ وہ اپنی ذمہ داریوں کو محسوس کرتے ہوئے صحیح رپورٹنگ کیا کریں اور محض حکومت کو خوش کرنے کے لیے سیاسی قائدین کے بیانات کو توڑ موڑ کر نہ پیش کریں ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر

۷ دسمبر ۱۹۷۳ء

تیل، ایک کارگر ہتھیار

سعودی عرب کے شاہ فیصل نے اعلان کیا ہے کہ جب تک اسرائیل تمام مقبوضہ عرب علاقے خالی نہیں کرتا اور فلسطینی عوام کو خود ارادیت کا حق نہیں دیا جاتا، سعودی عرب تیل کے ہتھیار سے مؤثر طور پر کام لینے، مصری مفادات کو تقویت پہنچانے اور عرب اتحاد کو مستحکم کرنے کی پالیسی پر گامزن رہے گا۔ دوسری طرف امریکہ نے عرب ممالک کو دھمکی دی ہے کہ اگر انہوں نے تیل کی سپلائی بحال نہ کی تو انہیں سخت نقصان اٹھانا پڑے گا ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر

۳۰ نومبر ۱۹۷۳ء

وطن دشمن تنظیموں پر پابندی کا آرڈیننس

صدر مملکت جناب فضل الٰہی چوہدری نے ایک آرڈیننس جاری کیا ہے جس کے تحت وفاقی حکومت کو یہ اختیار دیا گیا ہے کہ وہ ملکی مفاد کے منافی سرگرمیوں میں حصہ لینے والی تنظیموں پر پابندی لگا سکتی ہے اور افراد کو سزا دے سکتی ہے۔ ملکی مفاد کے منافی سرگرمیوں کے ضمن میں: ایک سے زائد قومیتوں کے پرچار، فرقہ وارانہ جذبات ابھارنے، علاقائی سالمیت اور خودمختاری میں رخنہ ڈالنے، لسانی، نسلی اور علاقائی بنیادوں پر تفریق پیدا کرنے، اور ملک کے کسی حصہ کی علیحدگی کی کوششوں کا خصوصیت کے ساتھ ذکر کیا گیا ہے ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر

۳۰ نومبر ۱۹۷۳ء

صدر انور سادات کے خلاف مہم

قارئین کو یاد ہوگا جب مصر کے مرحوم صدر جمال عبد الناصر عرب عوام کے اتحاد کی مہم اور سامراجی مفادات کی بیخ کنی کے مشن میں مصروف تھے، جنیوا میں بیٹھ کر اسلام کی ’’خدمت‘‘ کرنے والے ایک صاحب، جو اب پاکستان کی قومی اسمبلی کے رکن ہیں، کاغذات کا پلندہ اٹھائے یہ ثابت کرتے پھر رہے تھے کہ جمال عبد الناصر یہودیوں کا ایجنٹ ہے، اس نے اسلام کے خلاف سازشیں کی ہیں اور قرآن کریم کی توہین کی ہے وغیرہ وغیرہ۔ مگر علماء حق کی جرأت مندانہ للکار اور پاکستان کے عرب دوست عوام کی بیداری کے باعث اس جھوٹے پراپیگنڈا کے تاروپود بکھر کر رہ گئے ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر

۱۶ نومبر ۱۹۷۳ء

مولانا سید محمد شمس الدین کے ساتھ ایک نشست

برادرِ مکرم حضرت مولانا سید محمد شمس الدین صاحب امیر جمعیۃ علماء اسلام بلوچستان و ڈپٹی اسپیکر صوبائی اسمبلی میرے ساتھی اور دوست ہیں۔ دورۂ حدیث میں ہم اکٹھے تھے۔ اللہ تعالیٰ نے انہیں عزم و استقامت کے میدان میں جو سبقت عطا فرمائی ہے وہ موصوف کے میرے جیسے ساتھیوں کے لیے قابل فخر بھی ہے اور قابل رشک بھی۔ اللہ تعالیٰ ان کے عزم و ہمت میں برکت دیں۔ مولانا گزشتہ دنوں گوجرانوالہ تشریف لائے تو ایک مختصر محفل میں تعارف و خیالات کی رپورٹ قلمبند ہوگئی ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر

۱۶ نومبر ۱۹۷۳ء

چوہدری ظہور الٰہی کے خلاف اسلحہ اسکینڈل

بلوچستان کی صوبائی حکومت نے متحدہ جمہوری محاذ کے راہنما اور قومی اسمبلی کے رکن چوہدری ظہور الٰہی کو اس الزام میں گرفتار کر لیا ہے کہ وہ بلوچستان میں شر پسندوں کو اسلحہ سپلائی کر رہے ہیں۔ اور ان کے ایک معتمد چوہدری محمد شریف کو بلوچستان میں اسلحہ لے جاتے ہوئے پکڑ لیا گیا ہے۔ وزیراعلیٰ جام غلام قادر کے بیان کے مطابق چوہدری محمد شفیع کو کوہلو سے بالا ڈھکہ (بلوچستان) اسلحہ لے جاتے ہوئے گرفتار کیا گیا (امروز ۱۷ نومبر ۱۹۷۳ء)۔ مگر چوہدری صاحب کے فرزند محمد اکرم نے لاہور میں پریس کانفرنس سے گفتگو کرتے ہوئے اس بات کو غلط قرار دیا ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر

۱۶ نومبر ۱۹۷۳ء

مشرقِ وسطیٰ کی جنگ اور اقوامِ متحدہ کا امتحان

سلامتی کونسل نے روس اور امریکہ کی کوشش سے ایک قرارداد منظور کی ہے جس میں مشرقِ وسطیٰ میں جنگ کے تمام فریقوں کو حکم دیا گیا ہے کہ وہ جنگ بند کر دیں اور اس کے بعد ۱۹۶۷ء کی سرحدوں پر واپس چلے جائیں۔ مصر اور اسرائیل نے جنگ بندی قبول کر لی ہے اور سینائی کے محاذ پر جنگ بند ہو چکی ہے ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر

۲۶ اکتوبر ۱۹۷۳ء

قوتِ اتحاد کا تحفظ کیجئے!

مشرق وسطیٰ میں عرب عوام سامراج اور اس کے پروردہ غنڈے اسرائیل کے خلاف فیصلہ کن جنگ میں مصروف ہیں۔ سینا کے محاذ پر مصر کی بہادر افواج دشمن کو دھکیلتے ہوئے آگے بڑھ رہی ہیں۔ تاریخ میں ٹینکوں کی سب سے بڑی جنگ بھی اسی میدان میں اسرائیل کے عبرتناک حشر کی یادگار بن چکی ہے۔ گولان کے محاذ پر شام، عراق، سعودی عرب، اردن اور مراکش کے غیور مجاہدین اسرائیل سے نبرد آزما ہیں ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر

۱۹ اکتوبر ۱۹۷۳ء

عرب اسرائیل جنگ

نہر سویز کے مغربی کنارے پر اسرائیلی فوج کے حملہ کے نتیجہ میں اسرائیل اور مصر و شام کے درمیان گھمسان کی جنگ چھڑ گئی ہے۔ تادمِ تحریر مصر و شام کی بہادر افواج دشمن کو دھکیلتے ہوئے اور اسے بھاری جانی نقصان پہنچاتے ہوئے آگے بڑھ رہی ہیں۔ اسرائیل جب سے سامراجی سازشوں کے نتیجہ میں قائم ہوا ہے ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر

۱۲ اکتوبر ۱۹۷۳ء

مولانا مفتی محمود کے خلاف وائٹ پیپر

سرحد کے وزیراعلیٰ جناب عنایت اللہ گنڈاپور کو جب سے وزارت اعلیٰ کی کرسی پر ٹکایا گیا ہے وہ کچھ عجیب سے احساس کا شکار ہو کر رہ گئے ہیں۔ ان کے لیے مصیبت یہ ہے کہ جس مسند پر وہ حضرت مولانا مفتی محمود صاحب جیسی قدآور سیاسی شخصیت کو دیکھ چکے ہیں اس پر خود بیٹھتے ہوئے انہیں اردگرد خلا سا محسوس ہو رہا ہے۔ اور شاید اسی خلاء کو پر کرنے کے لیے وہ ’’مفتی صاحب کی بدعنوانیوں کے قرطاس ابیض‘‘ کا سہارا لینے پر مجبور ہوئے ہیں۔ اس قرطاس ابیض کا ڈھنڈورا کئی ماہ سے اس انداز سے پیٹا جا رہا تھا ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر

۱۲ اکتوبر ۱۹۷۳ء

سیاست میں تشدد کا رجحان

قلات سے آمدہ ایک رپورٹ کے مطابق مستونگ میں جمعیۃ علماء اسلام بلوچستان کے امیر اور صوبائی اسمبلی کے ڈپٹی اسپیکر حضرت مولانا شمس الدین صاحب پر غنڈوں نے قاتلانہ حملہ کیا، جس کے نتیجے میں ان کے کچھ ساتھی زخمی ہو گئے، مگر الحمد للہ کہ مولانا شمس الدین کو کوئی گزند نہیں پہنچا ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر

۵ اکتوبر ۱۹۷۳ء

متحدہ جمہوری محاذ کی پیش قدمی

گورنر پنجاب نے متحدہ جمہوری محاذ کی ۲۴ روزہ کامیاب تحریک کے بعد دفعہ ۱۴۴ کے خاتمہ کا اعلان کر دیا ہے۔ اس دوران محاذ کے کارکنوں کو جن حالات میں جدوجہد جاری رکھنا پڑی ان پر ذرا سرسری نظر ڈال لیجئے: ریڈیو اور ٹی وی نے محاذ کے راہنماؤں کی کردارکشی اور کارکنوں کی تذلیل کی مہم مسلسل جاری رکھی۔ پریس ٹرسٹ کے اخبارات نے حق نمک ادا کرنے میں کوئی کسر نہ چھوڑی۔ سرکاری پارٹی کے کارکنوں نے محاذ کے جلسوں اور جلوسوں میں دل کھول کر غنڈہ گردی کی۔ محاذ میں شامل جماعتوں کے چیدہ چیدہ راہنماؤں کو گرفتار کر کے تحریک کو روکنے کی ناکام کوشش کی گئی ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر

۲۱ ستمبر ۱۹۷۳ء

تشدد ناکام ہو گا / بلوچستان میں ایرانی فوج؟

موجودہ حکومت نے سیاسی انتقام اور مخالفین پر تشدد کی جو نئی روایات قائم کی ہیں ان کی مثال سیاسی دنیا میں نہیں ملتی۔ اکثریت کو اقتدار سے محروم کر دینا، بنیادی حقوق سے عوام کی محرومی، سیاسی راہنماؤں کے خلاف گمراہ کن پروپیگنڈہ، اپوزیشن کے جلسوں میں مسلح غنڈہ گردی، سیاسی مخالفین کو راشن کی فراہمی میں رکاوٹ ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر

۷ ستمبر ۱۹۷۳ء

امام ذہبیؒ کی کتاب الکبائر (۱۳) : نواں کبیرہ گناہ رشتہ داروں سے قطع تعلق ہے

اللہ تعالیٰ کا ارشاد گرامی ہے: واتقوا اللہ الذی تساءلون بہ والارحام۔ (النساء ۱) ’’یعنی رشتہ داروں کے بارے میں اللہ سے ڈرو اور انہیں قطع نہ کرو۔‘‘ دوسرے مقام پر ارشاد باری تعالیٰ ہے: فھل عسیتم ان تولیتم ان تفسدوا فی الارض وتقطعوا ارحامکم۔ اولئک الذین لعنھم اللہ فاصمھم واعمیٰ ابصارھم۔ (محمد ۲۲، ۲۳) ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر

۳۱ اگست ۱۹۷۳ء

زندہ باد مولانا شمس الدین

خدا خوش رکھے جمعیۃ علماء اسلام بلوچستان کے جواں سال سربراہ برادرِ مکرم مولانا سید شمس الدین کو کہ انہوں نے اس نازک دور میں اسلاف کی عظیم روایات کی پاسداری کا مقدس فریضہ سرانجام دیا جبکہ بڑے بڑے ’’پیرانِ پارسا‘‘ اقتدار کی چوکھٹ پر سجدہ ریز ہو چکے ہیں، اور زر و سیم کی دلربائی اور ہوس اقتدار کی حدت کے سامنے ’’زہد و ورع‘‘ کے پرانے اور زنگ آلود قفل بھی پگھل کر رہ گئے ہیں۔ اندازہ لگائیے کہ دباؤ اور لالچ کا وہ کونسا حربہ ہے جو اس مردِ قلندر کو پھسلانے کے لیے آزمایا نہیں گیا ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر

۳۱ اگست ۱۹۷۳ء

متحدہ جمہوری محاذ کو یک طرفہ نصیحت

متحدہ جمہوری محاذ کی طرف سے حکومت کی غیر جمہوری پالیسیوں اور غیر آئینی اقدامات کے خلاف سول نافرمانیوں کی تحریک پر ارباب اقتدار اور ان کے ہمنوا سخت جزبز ہیں اور عوام کی توجہ اپوزیشن کی تحریک سے ہٹانے کے لیے سیلاب سے پیدا شدہ صورتحال سے ناجائز فائدہ اٹھاتے ہوئے یک طرفہ اور بے بنیاد پراپیگنڈہ کیا جا رہا ہے۔ حتیٰ کہ محاذ میں شامل جماعت اسلامی نے بھی سول نافرمانی سے پیچھا چھڑانے کے لیے اس سہارے کو غنیمت جانا ہے حالانکہ اس سارے افسانے کی حققیت مغالطہ آفرینی کے سوا کچھ نہیں ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر

۳۱ اگست ۱۹۷۳ء

جماعتی فیصلوں سے انحراف کس نے کیا؟

اے پی پی کے مطابق حضرت مولانا غلام غوث ہزاروی نے ایک بیان میں یہ کہا ہے کہ انہوں نے از خود جمعیۃ علماء اسلام کا نظم و نسق سنبھال لیا ہے اور ساتھ ہی آپ نے قائد جمعیۃ علماء اسلام حضرت مولانا مفتی محمود صاحب پر یہ الزام بھی لگایا ہے کہ ’’مفتی صاحب نے جمعیۃ کے منشور اور مجلس شوریٰ کے فیصلوں سے انحراف کیا ہے اور جمعیۃ کے وقار اور اکابر کے مسلک کو نقصان پہنچایا ہے‘‘۔ مولانا ہزاروی ہمارے بزرگ ہیں اور ہمیں ان کی بزرگی اور پیرانہ سالی کا لحاظ ہے ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر

۱۷ اگست ۱۹۷۳ء

امام ذہبیؒ کی کتاب الکبائر (۱۰) : ماں باپ کی نافرمانی

حضرت عبد اللہ بن عباسؓ سے سوال کیا گیا کہ اعراف کیا ہے اور وہاں کون سے لوگ جائیں گے؟ آپؓ نے فرمایا، اعراف جنت اور جہنم کے درمیان ایک پہاڑ ہے، اس پر درخت ہیں، نہریں ہیں، چشمے ہیں اور پھل بھی ہیں، اور اس جگہ وہ لوگ ہوں گے جو ماں باپ کی اجازت کے بغیر جہاد پر چلے گئے اور وہاں اللہ کی راہ میں شہادت پائی ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر

۱۰ اگست ۱۹۷۳ء

جمہوری حکومت کی ’’ایک سالہ کارگزاری‘‘

یہ ہے ایک جھلک اس پارٹی کے کارناموں کی جو عوامی جمہوریت کے نام پر انتخابات لڑ کے برسرِ اقتدار آئی ہے اور جس کے منشور کے سرورق پر یہ درج ہے کہ ’’جمہوریت ہماری سیاست ہے‘‘۔ صدر مملکت نے گزشتہ روز قومی اسمبلی میں وفاقی حکومت کی ایک سالہ کارگزاری کی رپورٹ پیش کی ہے۔ کیا ہی اچھا ہوتا کہ صدر صاحب اس میں یہ تفصیل بھی عوام کو بتاتے کہ اس سال پولیس کے تشدد سے کتنے شہری ہلاک ہوئے، کتنے سیاسی کارکنوں کے خلاف مقدمات قائم کیے گئے، کتنے لیڈر گرفتار ہوئے، متحدہ جمہوری محاذ کے کتنے جلسوں کو درہم برہم کیا گیا ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر

۱۰ اگست ۱۹۷۳ء

صوبوں کو لڑانے کی سازش

اخبارات نے ایک خبر رساں ایجنسی کے حوالہ سے بلوچستان نیشنل عوامی پارٹی کے سربراہ جناب خیر بخش مری سے منسوب یہ خبر بڑے اہتمام کے ساتھ شائع کی ہے کہ انہوں نے ہفتۂ جمہوریت کے دوران بلوچستان میں مختلف اجتماعات سے خطاب کرتے ہوئے پنجاب کے عوام کے خلاف سخت زبان استعمال کی ہے اور انہیں ڈاکو اور غاصب قرار دیا ہے۔ اس خبر سے ٹرسٹ کے اخبارات نے نیشنل عوامی پارٹی کے خلاف پراپیگنڈہ کے لیے خوب فائدہ اٹھایا ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر

۱۰ اگست ۱۹۷۳ء

امام ذہبیؒ کی کتاب الکبائر (۹) : ماں باپ کی نافرمانی

آٹھواں کبیرہ گناہ ماں باپ کی نافرمانی ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے: وقضیٰ ربک الا تعبدوا الا ایاہ و بالوالدین احسانا اما یبلغن عندک الکبر احدھما او کلاھما فلا تقل لھما اف ولا تنھرھما وقل لھما قولا کریما۔ واخفض لھما جناح الذل من الرحمۃ وقل رب ارحمھما کما ربیانی صغیرا۔ (الاسراء ۲۳، ۲۴) ’’اور تیرے رب نے حکم کر دیا کہ بجز اس کے کسی کی عبادت نہ کرو اور اپنے ماں باپ کے ساتھ حسنِ سلوک کیا کرو ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر

۳ اگست ۱۹۷۳ء

بلوچستان کی صورتحال اور قادیانیوں کی سرگرمیاں

بلوچستان اپنے جغرافیائی محل وقوع اور دیگر گوناگوں خصوصیات کے باعث کافی عرصہ سے اندرونی و بیرونی سازشوں کی مذموم مساعی کی آماجگاہ بنا ہوا ہے اور آج بھی سازشی قوتیں تمام وسائل کے ساتھ بلوچستان کے امن کو اپنے مقصد کی بھینٹ چڑھانے کے لیے سرگرم عمل ہیں۔ ۱۹۵۲ء کی بات ہے، قادیانی گروہ کے سربراہ مرزا بشیر الدین محمود نے بلوچستان کو قادیانی علاقہ قرار دینے کے منصوبے کا اعلان کیا تھا اور ۱۹۵۳ء کی تحریک ختم نبوت کے محرکات میں یہ منصوبہ بھی شامل تھا ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر

۲۷ جولائی ۱۹۷۳ء

پارٹی وفاداری کا مسئلہ

وفاقی وزیر سیاسی امور جناب غلام مصطفیٰ جتوئی نے ایک بیان میں ان حضرات کی صفائی پیش کرنے کی سعی فرمائی ہے جنہیں لیلائے اقتدار سے ہمکنار ہونے کی ہوس نے اپنی پارٹیوں کے دستور و منشور اور ووٹروں کی طرف سے عائد شدہ ذمہ داریوں کا پابند نہیں رہنے دیا۔ چنانچہ انہوں نے فرمایا ہے کہ ہر شخص کو پارٹی بدلنے کا حق ہے اور اگر کوئی شخص پارٹی کی پالیسی سے متفق نہ ہو اور دوسری پارٹی میں چلا جائے تو یہ کوئی معیوب بات نہیں۔ جتوئی صاحب کے اس بیان کا حاصل مغالطہ آفرینی کے سوا کچھ نہیں ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر

۲۷ جولائی ۱۹۷۳ء

امام ذہبیؒ کی کتاب الکبائر (۷) : پانچواں کبیرہ گناہ منعِ زکوٰۃ ہے

اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: لا یحسبن الذین یبخلون بما آتاہم اللہ من فضلہ ھو خیرا لہم بل ہو شر لہم سیطوقون ما بخلوا بہ یوم القیامۃ۔ (آل عمران ۱۸۰) ’’اور ہر گز خیال نہ کریں ایسے لوگ جو ایسی چیز میں بخل کرتے ہیں جو اللہ تعالیٰ نے ان کو اپنے فضل سے دی ہے کہ یہ بات کچھ ان کے لیے اچھی ہو گی ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر

۲۰ جولائی ۱۹۷۳ء

اور اب بناسپتی گھی!

اشیاء خوردنی کی کمر توڑ گرانی انتہائی تشویشناک صورت اختیار کر چکی ہے۔ غریب عوام بلکہ متوسط طبقہ بھی اس مہنگائی کے سامنے بے بس ہو چکا ہے اور اس سے نجات کی کوئی صورت دکھائی نہیں دے رہی۔ بازار سے جس چیز کا بھاؤ پوچھو اس کا نرخ آسمان سے باتیں کر رہا ہے اور ہر شخص پریشان ہے کہ آخر گرانی کا یہ ڈنڈا کب تک قوم کی پیٹھ پر برستا رہے گا۔ پہلے چینی غریب عوام کے اعصاب پر سوار رہی اور ابھی تک یہ مسئلہ طے نہیں ہو سکا۔ ستم ظریفی کی انتہا دیکھیے کہ جب ہم باہر سے چینی منگواتے تھے تو سستی تھی ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر

۱۳ جولائی ۱۹۷۳ء

ریڈ کراس کی بجائے ہلال احمر

صدارتی کابینہ نے ایک اجلاس میں ریڈ کراس سوسائٹی کا نام تبدیل کر کے انجمن ہلال احمر رکھنے کا فیصلہ کیا ہے اور قومی حلقوں میں اس مناسب فیصلہ کو سراہا جا رہا ہے۔ عوامی حلقوں کی طرف سے قیام پاکستان کے بعد ہی سے یہ مطالبہ کیا جا رہا تھا کہ ملک میں فرنگی ا قتدار و تسلط کے دور کی تمام یادگاروں اور نشانات کو مٹا دیا جائے اور اسلامی قانون و سیاست، اخلاق و معاشرت، اقتصاد و معیشت، تہذیب و تمدن اور روایات و اقدار کو فروغ دیا جائے۔ آزادی کی جنگ لڑنے والوں کا مطمح نظر بھی یہی تھا اور قیام پاکستان کا بنیادی محرک بھی یہی سوال بنا ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر

۱۳ جولائی ۱۹۷۳ء

امام ذہبیؒ کی کتاب الکبائر (۵) : ادھوری نماز پڑھنے والے کی سزا

ادھوری نماز پڑھنے کا مطلب یہ ہے کہ نمازی رکوع، سجود اور دیگر ارکانِ نماز کو اطمینان سے ادا نہ کرے اور جلدی جلدی پڑھ لے۔ اس سے قبل ’’فویل للمصلین۔ الذین ھم عن صلاتھم ساھون‘‘ کی تفسیر میں گزر چکا ہے کہ نماز میں سہو سے مراد ہے کہ رکوع اور سجود پورے نہ کیے جائیں۔ صحیحین میں حضرت ابو ہریرہؓ سے روایت ہے کہ ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر

۶ جولائی ۱۹۷۳ء

بلوچستان کا ’’تاریخی میزانیہ‘‘

گورنر بلوچستان جناب نواب محمد اکبر خان بگٹی اپنے تمام تر دعاوی کے باوجود صوبائی اسمبلی کا بجٹ اجلاس بلانے کی ہمت نہیں کر سکے اور گورنر کو براہ راست بجٹ کی منظوری کا اختیار دینے کے لیے صدر محترم کو عبوری آئین میں ترمیم کرنا پڑی۔ اس طرح نواب صاحب نے ’’خود کوزہ خود کوزہ گر و خود گلِ کوزہ‘‘ کے مصداق اسے ’’تاریخی میزانیہ‘‘ کا خطاب بھی مرحمت فرما دیا ہے۔ اس لحاظ سے یہ میزانیہ یقیناً ’’تاریخی‘‘ ہے کہ صوبائی اسمبلی کی موجودگی میں اس کا اجلاس بلائے بغیر گورنر صاحب نے از خود بجٹ پیش کیا اور از خود اس کی منظوری بھی دے دی ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر

۶ جولائی ۱۹۷۳ء

مری میں صدر بھٹو کے ساتھ جاری مذاکرات

ملک کے اہم قومی مسائل کو حکومت اور اپوزیشن کے درمیان محاذ آرائی کی بنیاد نہیں بننا چاہیے اور نہ ہی اس وقت ملک کسی قسم کی محاذ آرائی کا متحمل ہے۔ بلکہ حکومت کا فرض ہے کہ وہ اہم مسائل طے کرتے وقت جمہوری اصولوں کا دامن نہ چھوڑے، اپوزیشن کو اعتماد میں لے کر افہام و تفہیم کے ساتھ قومی مسائل کا حل تلاش کرے، اور سیاسی مسائل کو سیاسی بنیادوں پر طے کیا جائے۔ کیونکہ اگر سیاسی مسائل کے حل کے لیے غیر جمہوری ذرائع اختیار کیے جائیں تو نتیجہ انتشار، باہمی بد اعتمادی اور بے یقینی کے سوا کچھ نہیں نکلتا ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر

۶ جولائی ۱۹۷۳ء

جمعیۃ علماء اسلام پاکستان کی تنظیم نو اور اس کے تقاضے

قائد جمعیۃ حضرت مولانا مفتی محمود صاحب مدظلہ نے جمعیۃ علماء اسلام پنجاب کے ضلعی عہدہ داروں کے اجلاس اور بعد ازاں کارکنوں کے اجتماع سے خطاب کرتے ہوئے جمعیۃ کی تنظیم نو کی اہمیت پر روشنی ڈالی اور فرمایا کہ آج کے دور میں دین اسلام کی سربلندی اور معاشرہ کی اصلاح کے لیے سیاسی قوت کا حصول ضروری ہے۔ حضرت مفتی صاحب کا یہ ارشاد بالکل بجا ہے اس لیے کہ آج کی دنیا سیاست کی دنیا ہے اور سیاسی قوت ہی آج دنیا سے اپنی بات منوا سکتی ہے ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر

۲۹ جون ۱۹۷۳ء

اشتراکیت نہیں، اسلام

پنجاب کے وزیر خزانہ جناب محمد حنیف رامے نے صوبائی اسمبلی میں سمال انڈسٹریز کارپوریشن بل پر بحث کرتے ہوئے فرمایا ہے کہ پاکستان کے حالات کا اولین تقاضا ہے کہ ہم سودی نظام سے نجات حاصل کریں۔ اور حکومت سود سے پاک اقتصادی نظام رائج کرنے کا ارادہ رکھتی ہے مگر موجودہ سرمایہ دارانہ و جاگیردارانہ نظام میں سود سے چھٹکارا ممکن نہیں، اس کے لیے ضروری ہے کہ موجودہ معاشی نظام سے گلوخلاصی کرا کے اشتراکی نظام رائج کیا جائے۔ حنیف رامے صاحب نے اس سلسلہ میں کارل مارکس فریڈرک، اینگلز اور لینن کے حوالہ سے اشتراکیت کا ذکر کرتے ہوئے ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر

۲۲ جون ۱۹۷۳ء

امام ذہبیؒ کی کتاب الکبائر (۳) : چوتھا کبیرہ گناہ نماز کا چھوڑنا ہے

اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتے ہیں: فخلف من بعدھم خلف اضاعوا الصلوٰۃ واتبعوا الشھوات فسوف یلقون غیا۔ الا من تاب و آمن و عمل صالحا۔ (مریم ۵۹، ۶۰) ’’پھر ان کے بعد ایسے نا خلف پیدا ہوئے جنہوں نے نماز کو برباد کیا اور خواہشوں کی پیروی کی، سو یہ لوگ عنقریب خرابی دیکھیں گے۔ ہاں مگر جس نے توبہ کی اور ایمان لے آیا اور نیک کام کرنے لگا۔‘‘ ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر

۲۲ جون ۱۹۷۳ء

حالات و واقعات

صوابی سے صوبائی اسمبلی کی سیٹ کے ضمنی الیکشن میں مرکزی اور صوبائی حکومتوں کی دلچسپی کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں۔ مرکزی اور صوبائی وزراء کی ایک بڑی کھیپ نے الیکشن پر اثر انداز ہونے کے لیے صوابی میں ڈیرہ جمائے رکھا، اور گزشتہ دو ہفتوں سے تو مرکزی وزیر داخلہ عبد القیوم خاں کے داخلی امور بھی صوابی کے حلقہ میں مرکوز ہو کر رہ گئے تھے، اور الیکشن سے ایک روز قبل خان موصوف نے اس الیکشن کو ریفرنڈم قرار دیا تھا ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر

۲۲ جون ۱۹۷۳ء

امام ذہبیؒ کی کتاب الکبائر (۲) : دوسرا کبیرہ گناہ قتلِ ناحق ہے

اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتے ہیں: ومن یقتل مومنا متعمدا فجزاءہ جھنم خالدا فیھا وغضب اللہ علیہ ولعنہ واعدلہ عذاب عظیما۔ (النساء ۹۳) ’’اور جو شخص کسی مسلمان کو قصداً قتل کر ڈالے تو اس کی سزا جہنم ہے کہ ہمیشہ ہمیشہ کو اس میں رہنا، اور اس پر اللہ تعالیٰ غضبناک ہوں گے اور اس کو اپنی رحمت سے دور کر دیں گے اور اس کے لیے بڑی سزا کا سامان کر لیا ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر

۱۵ جون ۱۹۷۳ء

انتظامیہ کو سیاسی جنگ میں فریق نہ بنائیے!

انتظامیہ کا کام ہوتا ہے کہ ملک میں قانون و آئین کی بالادستی کا تحفظ کرے، امن و امان بحال رکھے اور غیرجانبداری کے ساتھ نظم و نسق چلائے۔ اس فرض کی صحیح ادائیگی کے لیے ضروری ہے کہ انتظامیہ ملک میں سیاسی وفاداریوں سے لاتعلق ہو کر اپنے کام سے کام رکھے اور جہاں کوئی بات اسے قانون کے خلاف نظر آئے، اس کے خلاف بلاجھجھک کاروائی کرے۔ جن جمہوری ممالک میں انتظامیہ اپنے فرائض کو سیاسی عمل سے الگ تھلگ رکھتی ہے وہاں سیاسی عمل بھی جمہوری اقدار کا حامل ہے اور انتظامیہ کو فرائض کی کماحقہ ادائیگی میں کوئی رکاوٹ پیش نہیں آتی ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر

۱۵ جون ۱۹۷۳ء

لاٹھی گولی کی سرکار نہیں چلے گی

ملتان اور لاہور میں متحدہ جمہوری محاذ کے عام جلسوں کو ناکام بنانے کے لیے جو حربے اختیار کیے گئے وہ تشدد اور فسطائیت کی دنیا میں نئے نہیں۔ قافلۂ جمہوریت کو اس سے قبل بھی امتحان و آزمائش کے اس موڑ سے بارہا گزرنا پڑا اور اب بھی یہ راہ متحدہ جمہوری محاذ کے رہنماؤں کے لیے جانی پہچانی گزرگاہ ہے۔ دراصل لیاقت باغ کے خونی المیہ کے بعد سے ہی یہ بات واضح ہو گئی تھی کہ حکمران طبقہ نے اصول، شرافت اور جمہوری عمل کی بساط لپیٹ دی ہے اور اب وہ اپنے اقتدار کے تحفظ کے لیے عوام کو اعتماد میں لے کر سیاسی جنگ لڑنے کی بجائے بندوق کی نالی پر بھروسہ کرے گا ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر

۸ جون ۱۹۷۳ء

خان عبد القیوم خان کا طرزِ سیاست

یوں محسوس ہوتا ہے کہ صدر ذوالفقار علی بھٹو نے خان عبد القیوم خان کو وزیرداخلہ بنایا ہی اس لیے ہے کہ وہ ملک کی جمہوری قوتوں اور عوامی صوبائی حکومتوں کو سبوتاژ کرنے کے لیے مسلسل سازشیں کرتے رہیں۔ حتیٰ کہ جب سندھ کے لسانی فسادات پورے عروج پر تھے، لسانی عصبیت کا جنون مسلمان کے ہاتھوں مسلمان کا گلا کٹوانے میں مصروف تھا اور پورا سندھ خون میں نہایا ہوا تھا، خان موصوف سندھ میں وزیرداخلہ کی حیثیت سے اپنی ذمہ داریاں پوری کرنے کی بجائے سرحد کی جمہوری حکومت کے خلاف تقریروں اور الزام تراشی میں مصروف تھے ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر

یکم جون ۱۹۷۳ء

سیاسی مسائل کو سیاسی بنیادوں پر طے کیجئے

یہ ہمارے ملک کی بد نصیبی ہے کہ حکمرانوں نے ہمیشہ سیاسی مسائل اور عوام کے جائز تقاضوں کو جمہوری اور سیاسی بنیادوں پر طے کرنے کی بجائے تشدد کے استعمال کو ترجیح دی ہے۔ وہ بزعم خویش یہ سمجھتے رہے ہیں کہ اقتدار کی قوت اور کرسی کا دبدبہ آج کے جمہوری دور میں بھی سیاسی استحکام کی ضمانت دے سکتا ہے۔ مگر ربع صدی کے تجربہ نے یہ بات واضح کر دی ہے کہ تشدد کے ذریعہ سیاسی اور جمہوری مسائل کو حل کرنے کی کوشش کبھی کامیاب نہیں ہو سکتی۔ پاکستان میں سب سے پہلے جس جمہوری، عوامی اور دینی تحریک کو تشدد کے ذریعہ دبایا گیا وہ ۱۹۵۳ء کی تحریک ختم نبوت تھی ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر

۲۵ مئی ۱۹۷۳ء

نظریہ پاکستان کے محافظ ‒ جامع مسجدچنیوٹ پر پولیس یلغار ‒ اشیاء صرف کی گرانی

صوبہ سرحد میں غیر جمہوری طور پر اقلیتی گروپ کو اقتدار کی کرسی پر بٹھا دیا گیا تو یار لوگوں نے کہا کہ اب صوبہ میں نظریہ پاکستان کے علمبرداروں کی حکومت قائم ہوگئی ہے، ملک اور نظریہ پاکستان کو اب کوئی خطرہ نہیں رہا۔ مگر نظریہ پاکستان کے ان علمبرداروں نے کرسی پر بیٹھتے ہی جو احکامات جاری کیے ان میں: قومی لباس کو سرکاری لباس قرار دینے کے بارہ میں مولانا مفتی محمود کے تاریخی فیصلہ کی تنسیخ، سکولوں میں قرآن کریم کی تعلیم کے لیے اساتذہ مقرر کرنے کے فیصلہ کی واپسی، اور ہوٹلوں میں شراب کے پرمٹ جاری کرنے اور شراب کے بار کھولنے کے فیصلے نمایاں حیثیت رکھتے ہیں ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر

۲۵ مئی ۱۹۷۳ء

مسئلہ ارتداد اور الحاج ممتاز احمد فاروقی کا موقف

قائد جمعیۃ علماء اسلام حضرت مولانا مفتی محمود صاحب نے ۲ فروری ۱۹۷۳ء کو ریڈیو اور ٹیلی ویژن پر اپنی نشری تقریر اور انٹرویو میں مستقل آئین کے مسودہ کے مختلف پہلوؤں پر روشنی ڈالتے ہوئے اس امر کی طرف بھی توجہ دلائی تھی کہ مسودہ آئین میں مسلمان کو مرتد ہونے کی اجازت دی گئی ہے، حالانکہ اسلام میں کسی بھی مسلمان کو اسلام چھوڑنے کا حق نہیں ہے اور مرتد کی شرعی سزا قتل ہے۔ اس پر محترم الحاج ممتاز احمد فاروقی نے نوائے وقت (۱۳ فروری) میں مطبوعہ ایک مضمون میں مفتی صاحب کے اس موقف پر اعتراض کیا ہے ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر

یکم مارچ ۱۹۷۳ء

حالات و واقعات

صوبائی وزیر اعلیٰ ملک معراج خالد نے قلعہ سوبھاسنگھ ضلع سیالکوٹ میں ایک جلسہ عام سے خطاب کرتے ہوئے انکشاف کیا ہے کہ واپڈا کے ریکارڈ میں ستائیس کروڑ روپے کے غبن کا انکشاف ہوا ہے، یہ رقم قومی کاموں پر لگانے کی بجائے خردبرد کر لی گئی ہے اور اس سلسلہ میں تحقیقات جاری ہیں۔ یہ انکشاف کوئی نیا نہیں، اس سے قبل بھی واپڈا اور دیگر قومی اداروں میں اس قسم کے غبن ظاہر ہوتے رہے ہیں اور ہر بار بڑے شدومد کے ساتھ تحقیقات کا بھی اعلان کیا جاتا رہا ہے مگر اس کے بعد کچھ بھی نہیں ہوا ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر

۱۸ دسمبر ۱۹۷۲ء

علماء آزاد کشمیر اور عملی سیاست

جمعیۃ علماء آزاد کشمیر کی طرف سے شائع شدہ ایک اشتہار کے مطابق ۵ و ۶ اگست ۱۹۷۱ء کو راولاکوٹ آزاد کشمیر میں کشمیری علماء کا ایک نمائندہ کنونشن منعقد ہوگا جس میں جمعیۃ علماء آزاد کشمیر کی تنظیم نو کی جائے گی۔ علماء کشمیر کا یہ اقدام بروقت، مستحسن اور ناگزیر ہے۔ اور ہم اس موقع پر علماء کرام کو ہدیۂ تبریک پیش کرتے ہوئے چند ضروری گزارشات پیش خدمت کر رہے ہیں جو ہمارے نقطۂ نظر سے کنونشن میں شرکت کرنے والے علماء کرام کے پیش نظر رہنی ضروری ہیں۔ امید ہے کہ علماء آزاد کشمیر ان معروضات پر ٹھنڈے دل سے غور فرمائیں گے ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر

۶ جولائی ۱۹۷۱ء

حالات و واقعات

ایک اخباری اطلاع کے مطابق گورنر پنجاب کی ہدایت پر صوبائی محکمہ تعلیم نے تعلیمی اداروں میں ہیپی فیشن بال رکھنے اور نامناسب لباس پہننے پر پابندی لگا دی ہے اور اعلان کیا ہے کہ اس ہدایت کی پابندی نہ کرنے والے طلباء کو جرمانوں کی سزا دی جائے گی۔ بدقسمتی سے مغرب کی تقلید کا رجحان ہم پر اس قدر جم چکا ہے کہ وہاں کسی کونے میں کوئی نئی بات شروع ہو، خواہ اس سے انسانی اقدار و روایات ہی کیوں نہ پامال ہوتی ہوں، ہمارا معاشرہ اسے قبول کرنے میں حد سے زیادہ فراخدلی سے کام لیتا ہے ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر

۲۵ جون ۱۹۷۱ء

مزارعین سے انتقام ‒ سامان تعیش ‒ غیر منصفانہ نظام ‒ پولیس تشدد ‒ اساتذہ کی آسامیاں

حالیہ انتخابات میں ناکامی کے بعد بڑے بڑے جاگیرداروں اور زمینداروں نے مزارعین کے خلاف انتقامی کارروائیوں کا وسیع سلسلہ شروع کر دیا تھا۔ اس ظلم و ستم کو روکنے کے لیے پنجاب کی حکومت نے اور غالباً سندھ کی حکومت نے بھی کچھ اقدامات کیے ہیں، لیکن صوبہ سرحد میں غریب مزارعین کو ظالم خوانین کے پنجہ سے نجات دلانے اور ان شکست خوردہ خوانین کے انتقام سے بچانے کا کوئی انتظام نہیں کیا گیا جن کا سلسلہ ظلم و ستم اور جابرانہ تسلط بہت سخت اور ناقابل برداشت ہے ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر

۲۸ مئی ۱۹۷۱ء

حالات و واقعات

پنجاب ٹیچرز ایسوسی ایشن کی ضلع میانوالی شاخ نے ایک قرارداد میں انکشاف کیا ہے کہ حالیہ انتخابات میں جن محکموں کے ملازمین کو ڈیوٹی پر لگایا گیا ہے ان میں سب کو ان کی ڈیوٹیوں کے معاوضے وصول ہو چکے ہیں لیکن اساتذہ ابھی تک اس حق سے محروم ہیں۔ یہ بات انتہائی نامناسب اور افسوسناک ہے، اساتذہ کو ان کی تدریسی خدمات کے پہلے ہی کون سے لمبے چوڑے معاوضے ملتے ہیں جو ان کی اضافی ڈیوٹیز کے معاوضوں کو بھی روک لیا گیا ہے ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر

۱۴ مئی ۱۹۷۱ء

مرزا مظفر احمد کی ’’خدمات‘‘

مرزا غلام احمد قادیانی کے پوتے ایم ایم احمد کے بارے میں عوامی حلقہ میں کبھی اس بات میں شک نہیں رہا کہ وہ انہی خطوط پر کام کر رہے ہیں جو مرزائی گروہ کے لیے برطانوی سامراج نے وضع کیے تھے۔ نہ صرف ایم ایم احمد بلکہ اس ٹولہ سے متعلق دوسرے افسران بھی انہی کے نقش قدم پر چل کر برطانوی سامراج کے خودکاشتہ پودے قادیانیت کے بانی مرزا غلام احمد کے مشن کی تکمیل میں سرگرم ہیں۔ قیام پاکستان کے بعد ۱۹۵۳ء میں عوامی تحریک کا مقصد یہی تھا کہ کسی طرح قوم ان ’’پیران تسمہ پا‘‘ سے نجات حاصل کر لے ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر

۱۲ مارچ ۱۹۷۱ء

پاکستان میں امریکی سفیر جوزف ایس فارلینڈ کی سرگرمیاں

پاکستان میں پہلے عام انتخابات کی تیاریاں شروع ہوتے ہی امریکہ بہادر نے جب سی آئی اے کے مشہور و معروف کارندے اور انڈونیشیا میں خانہ جنگی کرانے والے سورما مسٹر جوزف ایس فارلینڈ کو پاکستان میں اپنا سفیر مقرر کیا تو تاڑنے والی نگاہوں نے اسی وقت دیکھ لیا تھا کہ یہ حضرت آگے چل کر کیا گل کھلائیں گے۔ اسی لیے جمعیۃ علماء اسلام کے راہنماؤں نے مسلسل یہ مطالبہ کیا کہ مسٹر فارلینڈ کو واپس بھیج دیا جائے ورنہ یہ صاحب ملک و ملت کے لیے خطرہ بن جائیں گے ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر

۱۲ مارچ ۱۹۷۱ء

آئین شریعت کے لیے تئیس سالہ جدوجہد کا جائزہ

یہ بات اتنی مرتبہ دہرائی جا چکی ہے کہ رفتہ رفتہ مفہوم و مطلب کے لباس سے عاری ہو کر روز مرہ کے تکیہ کلام کی حیثیت اختیار کرتی جا رہی ہے۔ اگر شریعت کے نفاذ کا تعلق اس حقیقت کے لفظی تکرار کے ساتھ ہوتا تو پاکستان اس وقت دنیا کی مثالی اور معیاری اسلامی سلطنت کا روپ دھار چکا ہوتا۔ لیکن کہیں نعروں اور جملوں کے بار بار تکرار سے بھی کسی قوم کی تقدیر بدلتی ہے؟ بدقسمتی سے ہمارے یہاں تئیس سالوں سے نعروں اور لفظوں کے بے مقصد تکرار کا یہ کھیل پوری منصوبہ بندی کے ساتھ کھیلا جا رہا ہے ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر

۲۱ اگست ۱۹۷۰ء

حضرت مولانا غلام غوث صاحب ہزاروی کا دورۂ گوجرانوالہ

اخبارات میں اعلان ہو چکا تھا کہ حضرت مولانا ہزاروی مدظلہ ۱۹ جنوری ۱۹۷۰ء کو بذریعہ کوئٹہ ایکسپریس گوجرانوالہ کے چار روزہ دورہ پر تشریف لا رہے ہیں۔ گاڑی کے وقت پر کافی تعداد میں جماعتی کارکن، کالج سٹوڈنٹس اور اخباری رپورٹرز اسٹیشن پر پہنچے۔ مگر مولانا مدظلہ کسی وجہ سے اس گاڑی پر نہ پہنچ سکے اور بعد میں تیزگام پر تشریف لائے ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر

۶ فروری ۱۹۷۰ء

امام ذہبیؒ کی کتاب الکبائر : رشتہ داروں سے قطع تعلق

سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ ایک مجلس میں بیٹھے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی احادیث بیان کر رہے تھے۔ دورانِ گفتگو آپؓ نے فرمایا کہ میں ہر ’’قاطع رحم‘‘ سے حرج محسوس کرتا ہوں، اس لیے ہماری مجلس میں جو قاطع رحم ہو وہ اٹھ جائے۔ ایک نوجوان مجلس سے اٹھ گیا اور اپنی پھوپھی کے پاس گیا جس سے اس نے کئی سالوں سے لاتعلقی اختیار کر رکھی تھی ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر

۔

حالات و واقعات

کسی اخبار میں ضلع ہزارہ کی کسی ماتحت جمعیۃ علماء اسلام کا یہ مطالبہ نظر سے گزرا ہے کہ ضلع کے وسیع جنگلات کی آمدنی میں سے خوانین کو لاکھوں روپے کے حساب سے جو سالانہ حصہ بلا استحقاق ملتا ہے، وہ ان مفت خوروں کو دینے کی بجائے سرکاری خزانہ میں جمع رکھا جائے۔ یہ مطالبہ جائز اور معقول ہے مگر کسی حد تک ادھورا ہے۔ یہ بات بالکل درست ہے کہ ان خوانین کو لاکھوں روپیہ سالانہ ملتا ہے ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر

۔

قصہ ۱۹۵۶ء کے دستور کا

جمعیۃ علماء اسلام اور اس کے حق پرست اکابر شروع سے ہی اس دستور کو غیر اسلامی سمجھتے اور قرار دیتے چلے آرہے ہیں اور ان کا جو آج موقف ہے وہی ۱۹۵۸ء کے مارشل لاء سے قبل تھا۔ چنانچہ جمعیۃ کے آرگن سہ روزہ ترجمان اسلام کے مارشل لاء ۱۹۵۸ء سے قبل کے چند پرچوں سے بعض اقتباسات پیش کیے جاتے ہیں جن سے واضح ہوتا ہے کہ جمعیۃ علماء اسلام نہ صرف یہ کہ ۱۹۵۶ء کے دستور کو غیر اسلامی سمجھتی تھی بلکہ جمعیۃ کی جدوجہد کا محور ہی اس دستور کو تبدیل کر کے خالص شرعی آئین نافذ کرنا تھا ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر

۱۷ اکتوبر ۱۹۶۹ء

’’اسلام کا اقتصادی نظام‘‘ (۱۰)

اجارہ داری کی کمپنیاں: معدنیات سے متعلق اجارہ داری کا معاملہ عموماً کمپنی کی شکل میں نمودار ہوتا ہے۔ اور ملک کا وہ بہترین سرمایہ جو زیادہ سے زیادہ انسانوں بلکہ حکومت کی تمام آبادی کے لیے مفید اور نفع بخش ہو سکتا ہے، اس طرح افراد کے اندر محدود ہو جاتا اور آخر کار عام بدحالی کا پیش خیمہ بن جاتا ہے۔ اسلام ایسی کمپنیوں کی حوصلہ افزائی کے لیے تیار نہیں ہے ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر

۲ مئی ۱۹۶۹ء

اسلام کے اقتصادی نظام میں صنعتی مزدوروں کی حیثیت کیا ہے؟

صنعتی مزدور کو پیش آمدہ مسائل اور معاشی تحفظ کے فقدان کو دور کرنے کے لیے مختلف حضرات اور پارٹیاں اپنے اپنے پروگرام پیش کر رہی ہیں، اور صنعتی مزدور کے لیے مختلف مراعات اور سہولتوں کا اعلان کر رہی ہیں۔ دین پسند عوام اور علماء حق کی نمائندہ تنظیم ’’جمعیۃ علماء اسلام‘‘ کے مرکزی قائدین بھی اس سلسلہ میں کسی نتیجہ پر پہنچنے کے لیے سوچ بچار کر رہے ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر

۱۸ اپریل ۱۹۶۹ء

’’اسلام کا اقتصادی نظام‘‘ (۸)

(۵) وہ معاملہ جس میں دھوکا اور فریب مضمر ہو۔ مثلاً ایک شے کی خرید یا فروخت منظور ہے مگر خاص غرض کے ماتحت معاملہ میں اس کا ذکر نہیں کیا گیا اور ایک دوسری شے کے ضمن میں اس کو لے لیا گیا ہے۔ اس طرح اگر ضمنی شے جو بہت ناقص ہے یا سب سے بہتر ہے اس معاملہ کے اندر شامل ہو گئی تو معاملہ کر لیا، ورنہ معاملہ کی تمام شرائط مکمل ہو جانے کے بعد معاملہ سے انکار کر دیا ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر

۱۸ اپریل ۱۹۶۹ء

’’اسلام کا اقتصادی نظام‘‘ (۷)

(۱) تالاب، کھیتیاں، جوہڑ، کنوئیں اور چشمے اگر شخصی ملکیت نہیں ہیں تو ان میں تمام پبلک کا یکساں حقِ انتفاع ہے اور وہ کسی بھی حال میں شخصی ملکیت نہیں بن سکتے۔ (۲) اگر یہ ’’پانی‘‘ شخصی ملکیت میں بھی ہو تب بھی عام حالات میں پینے اور استعمال کرنے کے لیے دوسروں کو اس سے یکساں فائدہ اٹھانے کا حق ہے ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر

۱۱ اپریل ۱۹۶۹ء

’’اسلام کا اقتصادی نظام‘‘ (۵)

اسلام کے دستوری نظام میں خراج، جزیہ، عشر، زکوٰۃ، فئی، عشور خمس، وقف اور اس قسم کے محاصل اسی غرض سے مقرر کیے گئے ہیں کہ وہ ملک کی انفرادی اور اجتماعی ضروریات کے کام آئیں، اس لیے وہ عام طور پر مزید ٹیکس عائد کرنے کو جائز نہیں سمجھتا۔ البتہ اگر بیت المال کے یہ مسطورہ بالا محاصل ان ضروریات کو کافی نہ ہوں ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر

۲۸ مارچ ۱۹۶۹ء

’’اسلام کا اقتصادی نظام‘‘ (۳)

قرآنی نصوص اور ان کی مؤید احادیثِ رسول اور ان سے مستنبط فقہی احکام یہ واضح کرتے ہیں کہ ’’حقِ معیشت کی مساوات‘‘ کا یہ نظریہ منشاء الٰہی کے خلاف نہیں بلکہ عین منشائے الٰہی کے مطابق ہے۔ اور یہ جدید نظریہ نہیں ہے کہ مارکسزم کی حمایت اس سے مرعوبیت کی بنا پر احکامِ اسلامی کی انوکھی تعبیر کے ذریعہ وجود میں آیا ہو ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر

۱۴ مارچ ۱۹۶۹ء

’’اسلام کا اقتصادی نظام‘‘ (۲)

کیونکہ وہ ’’معاشی نظام‘‘ کے جس ماحول میں جدوجہد کر رہا ہے اس کی بنیاد زیادہ سے زیادہ نفع کمانے اور سودے بازی پر قائم ہے، اور یہ صرف اربابِ دولت و ثروت ہی کو اور زیادہ بلند کرتا اور باقی تمام انسانی آبادی کو افلاس و احتیاج سے دوچار بناتا ہے۔ یہاں رفعِ حاجات و تکمیلِ ضروریات کے محرکات کام نہیں کرتے جو عام رفاہیت کا پیغام لائیں اور خوشحالی کو بحال کریں ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر

۲۸ فروری ۱۹۶۹ء

اہل علم کو ایک اللہ والے کی نصیحت

امام دارمیؒ نے اپنی سند کے ساتھ حضرت زید العمٰیؒ سے روایت بیان کی ہے کہ انہوں نے بعض فقہاء کرام کو یہ نصیحت فرمائی کہ اے صاحب علم! اپنے علم پر عمل کرو اور اپنی ضرورت سے زائد جو مال ہو وہ اللہ کی راہ میں دے دو۔ لیکن ضرورت سے زائد بات کو اپنے پاس روک رکھو، بات وہی کرو جو تمہیں تمہارے رب کے پاس نفع دے۔ اے صاحب علم! جو کچھ تم جانتے ہو اگر اس پر عمل نہیں کرو گے تو جب تم اپنے رب سے ملو گے تو تمہارے لیے کوئی عذر اور حجت نہیں ہوگی۔ تمہارا علم کے مطابق عمل نہ کرنا تمہارے اوپر عذر اور حجت کو قطع کر دے گا ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر

۲۵ اکتوبر ۱۹۶۸ء

گوجرانوالہ کے اخبار نویس دوستوں سے

اخبار نویسی اور رپورٹنگ کا بنیادی تقاضا یہ ہے کہ عوام کے احساسات و جذبات کی ترجمانی کی جائے اور ملک کی تمام سیاسی جماعتوں کے نظریات و خیالات کو بلاکم و کاس عوام کے سامنے پیش کیا جائے۔ لیکن معلوم نہیں ہمارے ہاں اخبار نویسی کا معیار کیا سمجھ لیا گیا ہے کہ جو چیز مخصوص گروہی اغراض کے مطابق ہو اسے قومی پریس میں جگہ دے دی جاتی ہے اور جس چیز کو اخبار نویسوں کی گروہی اغراض گوارا نہ کرتی ہوں وہ خود کتنی ہی اہمیت کی حامل ہو، ردی کی ٹوکری میں پھینک دی جاتی ہے ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر

۴ اکتوبر ۱۹۶۸ء

صحابہ کرامؓ کے باہمی تنازعات کے بارے میں ائمہ اہل سنتؒ کے ارشادات

مشاجراتِ صحابہؓ کا موضوع اس قدر نازک اور پیچیدہ ہے کہ اسے زیر بحث لاتے ہوئے ڈر لگتا ہے۔ ایک طرف صحابہ کرامؓ کا وہ مقدس گروہ ہے جس کی عدالت و دیانت، صداقت و امانت، اور شجاعت و استقامت بحث و تمحیص سے بالاتر ہے، اور بارگاہِ رسالتؐ سے اس قدوسی گروہ کا تعلق کچھ اس نوعیت کا ہے کہ مجموعی حیثیت سے پورے گروہ یا اس میں کسی خاص طبقہ کی، یا انفرادی طور پر کسی ایک فرد کی عدالت و دیانت اور صداقت و شجاعت کو ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر

۳ و ۲۴ مئی ۱۹۶۸ء

توراۃ اور انجیل میں آقائے نامدار ﷺ کا تذکرہ (۱)

یہ بات پایۂ ثبوت کو پہنچ چکی ہے کہ سابقہ کتبِ سماویہ خصوصاً تورات، انجیل اور زبور میں حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی تشریف آوری کی خوشخبری اور ان کا ذکرِ خیر موجود تھا۔ جیسا کہ قرآن مقدس کا فرمان ہے کہ ’’یجدونہ مکتوبا عندھم فی التوراۃ والانجیل‘‘ (الاعراف رکوع ۱۹) اہلِ کتاب حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو تورات اور انجیل میں لکھا ہوا پاتے ہیں ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر

۱۹ اپریل ۱۹۶۸ء

صحابۂ رسولؓ پر سب و شتم کرنے والوں کا حکم

ذیل کا مضمون شیخ الاسلام ابن تیمیہؒ کی معرکۃ الآراء کتاب ’’الصارم المسلول علی شاتم الرسول‘‘ کے آخری باب ’’سب الصحابۃ‘‘ کا ترجمہ ہے۔ جس میں امام موصوفؒ نے صحابۂ رسول رضوان اللہ علیہم اجمعین کے بارے میں ناجائز باتیں کہنے والوں اور ان پر سب و شتم کرنے والوں کا شرعی حکم بیان فرمایا ہے۔ زمانہ حال کی ضروریات کے پیش نظر اس باب کا ترجمہ قارئین ترجمانِ اسلام کی خدمت میں پیش کیا جا رہا ہے ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر

۲۹ مارچ ۱۹۶۸ء

حضرت مولانا غلام غوث صاحب ہزاروی مدظلہ کا انٹرویو

(حافظ آباد) جمعیۃ علماء اسلام مغربی پاکستان کے ناظم اعلیٰ حضرت مولانا غلام غوث صاحب ہزاروی نے آج یہاں ایک اخباری نمایندے کو انٹرویو دیتے ہوئے ملکی و ملی مسائل پر جمعیۃ کے موقف کی وضاحت کی۔ حضرت مولانا نے فرمایا کہ جب تک صدر پاکستان کی صحت بحال نہیں ہو جاتی، قائم مقام صدر یعنی قومی اسمبلی کے اسپیکر کا ملک سے باہر جانا صحیح نہیں معلوم ہوتا ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر

۸ مارچ ۱۹۶۸ء
2016ء سے
Flag Counter