نیا سرکاری جال اور دینی حلقوں کا ردعمل

   
۲۴ اگست ۲۰۱۷ء

دستور پاکستان ایک بار پھر زیربحث ہے اور ’’خود بدلتے نہیں آئین کو بدل دیتے ہیں‘‘ کے مصداق دستور کی وہ دفعات جو ہماری سیاسی قیادت کے گروہی مفادات میں رکاوٹ بن سکتی ہیں، انہیں بدل دینے کی تیاریاں جاری ہیں۔ جبکہ دستور میں ترمیم و تبدیلی کی جب بھی کسی حوالہ سے بات ہوتی ہے، وہ عالمی اور قومی سیکولر عناصر بھی متحرک ہو جاتے ہیں جو دستور کی اسلامی دفعات کو غیر مؤثر بنانے کے لیے ایک عرصہ سے سرگرم عمل ہیں۔ اس خطرہ کے پیش نظر دینی جماعتوں میں مشاورت جاری تھی اور تنظیم اسلامی پاکستان کے امیر حافظ عاکف سعید، متحدہ علماء کونسل پاکستان کے سیکرٹری جنرل مولانا عبد الرؤف ملک، جمعیۃ علماء اسلام (س) کے سیکرٹری جنرل مولانا عبد عبد الرؤف فاروقی، مجلس احرار اسلام پاکستان کے سیکرٹری جنرل حاجی عبد اللطیف چیمہ، ملی مجلس شرعی پاکستان کے سیکرٹری جنرل ڈاکٹر محمد امین اور راقم الحروف کے درمیان اس بات پر مشاورت جاری تھی کہ کسی وقت مل بیٹھ کر اس سلسلہ میں تازہ صورتحال کا جائزہ لینا چاہیے، اس دوران جمعیۃ علماء اسلام (س) پاکستان کے سربراہ مولانا سمیع الحق نے ’’تحفظ دستور پاکستان‘‘ کے عنوان پر آل پارٹیز کانفرنس طلب کرنے کا اعلان کر دیا ہے جو ۲۸ اگست کو اسلام آباد میں منعقد ہو رہی ہے۔ یہ اعلان بلاشبہ بروقت اور خوش آئند ہے اور ہم سب کی توقع ہے کہ اسے کامیاب اور بھرپور بنانے کے لیے تمام جماعتوں سے رابطہ کیا جائے گا اور سب جماعتیں اس میں شریک ہو کر دستور پاکستان کے تحفظ کے لیے کردار ادا کریں گی۔

تاہم اس سلسلہ میں گزشتہ روز گوجرانوالہ میں مقامی سطح پر منعقد ہونے والی دینی جماعتوں کی آل پارٹیز کانفرنس بھی ایک اہم پیش رفت ہے جو جمعیۃ علماء اسلام (ف) کی دعوت پر ہوئی اور جس کی رپورٹ جمعیۃ علماء اسلام کے پریس ریلیز کی صورت میں قارئین کی خدمت میں پیش کی جا رہی ہے۔ ہمارے خیال میں اس قسم کے مشترکہ اجتماعات کی ہر سطح پر اور ہر علاقہ میں ضرورت ہے اور اس میں تمام دینی حلقوں کو بھرپور دلچسپی لینی چاہیے۔

’’جمعیۃ علماء اسلام شہر گوجرانوالہ کی طرف سے طلب کردہ دینی جماعتوں کی آل پارٹیز کانفرنس نے حکومت پنجاب کے تجویز کردہ چیریٹی ایکٹ کو مسترد کرتے ہوئے اسے عبادات اور دینی معاملات میں مداخلت قرار دیا ہے اور اعلان کیا ہے کہ زکوٰۃ جیسی عبادت اور شرعی فریضہ کی ادائیگی میں اس قسم کی سرکاری مداخلت کو قبول نہیں کیا جائے گا۔ مقامی سطح پر آل پارٹیز کانفرنس ایک ہوٹل میں جمعیۃ علماء اسلام کے امیر ضلع حاجی محمد شاہ زمان اور امیر شہر حافظ فضل الرحمان کی دعوت پر پاکستان شریعت کونسل کے سیکرٹری جنرل مولانا زاہد الراشدی کی صدارت میں منعقد ہوئی جس میں مولانا حافظ محمد امین محمدی، مولانا حافظ سعید احمد کلیروی، مولانا عطاء الرحمان، مولانا خالد حسن مجددی، مولانا شاہ نواز فاروقی، مولانا عبید الرحمان اعظم، مولانا اظہر حسین فاروقی، محمد فرقان بٹ، مظہر اقبال رندھاوا، حکیم محمد افضل، محمد اصغر یزدانی، سید احمد حسین زید، فرقان عزیز بٹ، مولانا گلزار احمد آزاد، مولانا شوکت نصیر، ملک عبد الرحیم، محمد عثمان منصوری، مفتی خلیل احمدگجر، سید حفیظ الرحمان شاہ اور دیگر علماء کرام قائدین نے شرکت کی۔

اجلاس میں دینی مدارس کے خلاف انتظامیہ کے بڑھتے ہوئے دباؤ کو عالمی استعمار کے سیکولر ایجنڈے کا حصہ قرار دیتے ہوئے اس پر شدید احتجاج کیا گیا اور ایک اعلامیہ میں کہا گیا ہے کہ دینی مدارس پر بلاوجہ آئے روز چھاپوں اور دینی راہنماؤں کے خلاف فورتھ شیڈول کی ناروا کاروائیوں کے ساتھ ساتھ قربانی کی کھالیں جمع کرنے کے لیے سرکاری اجازت نامہ کو شرط قرار دیا گیا ہے۔ اور چمڑہ منڈیوں میں قبل از وقت منصوبہ بندی کر کے چرم ہائے قربانی کی قیمتوں کو نصف سے کم ریٹ پر گرا دیا ، جس کا مقصد دینی مدارس کو ان کی آمدنی کے ذرائع سے محروم کرنا اور انہیں دینی تعلیم کے فروغ سے روکنا ہے جسے کسی صورت قبول نہیں کیا جا سکتا۔ اسی طرح زکوٰۃ جیسی شرعی عبادت کی ادائیگی اور وصولی کے لیے سرکاری اجازت نامہ کے لیے جو بل لایا جا رہا ہے وہ مذہبی معاملات اور عبادات میں ناجائز مداخلت ہے جسے قبول نہیں کیا جا سکتا۔ اسی طرح مساجد میں لاؤڈ اسپیکر کے استعمال پر پابندیاں بھی ناروا ہیں جبکہ مساجد کے علاوہ بازاروں، گلیوں، منڈیوں، سیاسی جلسوں اور دیگر مقامات پر لاؤڈ اسپیکر کھلم کھلا استعمال ہو رہا ہے اور کسی سطح پر بھی انتظامیہ کوئی کاروائی نہیں کر رہی۔ اجلاس میں طے پایا کہ اس سلسلہ میں انتظامیہ کے رویہ کے خلاف بھرپور احتجاج کیا جائے گا جس میں اس ناجائز حکم نامے پر عملدرآمد کو ترک کر دینے کا اقدام بھی شامل ہوگا اور اس کا حتمی فیصلہ عید الاضحیٰ کے بعد ایک بھرپور مشترکہ اجلاس میں کیا جائے گا۔

اجلاس میں دستور پاکستان میں ترمیم و تبدیلی کے سلسلہ میں مختلف سیاسی حلقوں کی طرف سے سامنے آنے والی باتوں کو افسوسناک قرار دیا گیا اور ایک قرارداد میں کہا گیا ہے کہ بعض سیاستدان اپنے طرز عمل میں تبدیلی لانے کی بجائے گروہی سیاسی مفادات کے لیے ملک کا دستور تبدیل کرنے کی بات کر رہے ہیں جو ملک کی وحدت و استحکام کو داؤ پر لگانے کے مترادف ہے۔ ایک اور قرارداد میں کہا گیا ہے کہ دستور کے بنیادی ڈھانچے اور خاص طور پر اسلامی دفعات میں کسی تبدیلی کو قبول نہیں کیا جائے گا۔

اجلاس میں پنجاب کے نصاب تعلیم سے اسلامی اور ملی نوعیت کے مضامین کو خارج کرنے کی شدید مذمت کی گئی ہے اور وزیراعلیٰ پنجاب سے مطالبہ کیا گیا ہے کہ وہ خود اس سلسلہ میں وضاحت کر کے دینی حلقوں کو اعتماد میں لیں۔
اجلاس میں دینی جماعتوں کے مرکزی قائدین سے اپیل کی گئی ہے کہ وہ فوری طور پر ان معاملات کا نوٹس لیں اور اکٹھے ہو کر مشترکہ لائحہ عمل کا اعلان کریں۔ اجلاس میں طے پایا کہ آل پارٹیز کانفرنس کے فیصلوں اور موقف سے ڈویژنل اور ضلعی انتظامیہ کو آگاہ کرنے کے لیے چوہدری بابر رضوان باجوہ، مولانا جواد محمود قاسمی، مولانا کاظم علی ترابی، حافظ عمران عریف، فرقان عزیز بٹ اور مولانا اظہر فاروقی پر مشتمل وفد ایک دو روز میں ڈویژنل اور ضلعی حکام سے ملاقات کرے گا۔‘‘

   
2016ء سے
Flag Counter