کراچی ایک بار پھر علماء کی قتل گاہ بن گیا ہے اور مولانا سعید احمد جلال پوریؒ اور مولانا عبد الغفور ندیم کی اپنے بہت سے رفقاء سمیت المناک شہادت نے پرانے زخموں کو پھر سے تازہ کر دیا ہے۔ خدا جانے یہ سلسلہ کہاں جا کر رکے گا اور اس عفریت نے ابھی کتنے اور قیمتی لوگوں کی جان لینی ہے۔
مولانا سعید احمد جلال پوری شہیدؒ حضرت مولانا محمد یوسف لدھیانوی شہیدؒ کے قافلے کے فرد تھے، ان کے تربیت یافتہ تھے اور انہی کی مسند پر خدمات سرانجام دے رہے تھے۔ بڑی شخصیات کا خلا تو کبھی پورا نہیں ہوا کرتا لیکن اگر ان کے مشن کا تسلسل جاری رہے اور خود ان کے تربیت یافتہ لوگ ان کے کام کو جاری رکھے ہوئے ہوں تو دلوں کو تسلی رہتی ہے اور خلا کا احساس کسی قدر کم ہو جاتا ہے۔ مولانا سعید احمد جلال پوریؒ کو حضرت لدھیانویؒ کی مسند پر بیٹھا دیکھ کر کچھ اسی قسم کی کیفیت دل میں ابھرتی تھی اور خوشی کے ساتھ ان کے لیے دل سے دعائیں بھی اٹھتی تھیں۔ قادیانیت کے خلاف محاذ کو سرگرم رکھنے کے ساتھ نئے ابھرنے والے فکری اور اعتقادی فتنوں کی نشاندہی اور ان کا تعاقب ان کے ذوق و مشن کا اہم حصہ تھا۔ کراچی میں اس محاذ کو جس طرح حضرت لدھیانویؒ اور ان کی راہنمائی میں مولانا مفتی محمد جمیل خان شہیدؒ اور مولانا سعید احمد جلال پوری شہیدؒ نے منظم کر رکھا تھا اور ایک پورا حلقہ اپنے ساتھ جوڑا ہوا تھا اسے دیکھ کر تسلی ہوتی تھی کہ حضرت حذیفہ بن الیمانؓ کے ذوق کے لوگ ابھی موجود ہیں اور یہ محاذ خالی نہیں ہوا۔
مولانا عبد الغفور ندیم شہیدؒ کے ساتھ میرا کچھ زیادہ رابطہ نہیں تھا، شاید ایک آدھ دفعہ کہیں ملاقات ہوئی مگر اتنی بات کافی تھی کہ وہ مولانا حق نواز جھنگوی شہیدؒ کے قافلے کے رکن تھے اور ان کے مشن کو جاری رکھنے والے راہنماؤں میں سے تھے۔ اس قافلے نے قربانیوں کی ایک نئی تاریخ رقم کی ہے اور ناموس صحابہؓ کے تحفظ کے عنوان سے شہادتوں کی لائن لگا دی ہے۔ ان کے طریق کار سے اختلاف کے باوجود ان کا خلوص اور استقامت ہمیشہ مسلمہ رہی ہے۔
بہرحال مولانا سعید احمد جلال پوریؒ، مولانا عبد الغفور ندیمؒ اور ان کے رفقاء کی شہادت پورے اہل دین کے لیے باعث صدمہ ہے اور دینی جدوجہد کے کسی بھی شعبے میں کام کرنے والوں کو اس سے دکھ پہنچا ہے۔ اللہ تعالٰی ان سب کی قربانیاں قبول فرمائیں، جنت الفردوس میں اعلیٰ مقام سے نوازیں اور پس ماندگان کو صبرِ جمیل کی توفیق ارزانی فرمائیں، آمین یا رب العالمین۔