اسلامائزیشن کو درپیش خطرات اور آل پارٹیز کانفرنسیں

   
یکم ستمبر ۲۰۱۷ء

ریاست آزاد جموں و کشمیر میں شرعی عدالتوں کو ختم یا غیر مؤثر کر دینے کی جو کاروائی موجودہ مسلم لیگی حکومت کے دور میں مسلسل آگے بڑھ رہی ہے اس کے بارے میں ہم اس کالم میں اپنی معروضات پیش کر چکے ہیں۔ اس سلسلہ میں جمعیۃ علماء اسلام آزاد جموں و کشمیر کے امیر مولانا سعید یوسف خان کی دعوت پر ۲۶ اگست کو اسلام آباد میں ایک کل جماعتی کانفرنس ہوئی جس کے شرکاء میں سردار عتیق احمد خان، جناب عبد الرشید ترابی، ڈاکٹر خالد محمود، محمد صغیر چغتائی، مولانا محمد نذیر فاروقی، مولانا محمد امتیاز عباسی، سردار محمد یعقوب، مولانا محمد اسحاق مدنی، مولانا سید غلام یاسین شاہ اور امتیاز صدیقی سرفہرست ہیں۔ کانفرنس کا مشترکہ اعلامیہ درج ذیل ہے۔

’’ریاست آزاد جموں و کشمیر اسلامی نظام کے نفاذ کے لیے قربانیاں دے کر حاصل کی گئی تھی، اس لیے آزادکشمیر کے سیاسی و دینی زعماء نے سال ۱۹۷۴ء میں اسلامی فوجداری ایکٹ کی شکل میں دو رکنی عدالتی نظام قائم کیا۔ ازاں بعد سال ۱۹۹۳ء میں شریعت کورٹ کا قیام عمل میں لایا گیا۔ قتل، قصاص و دیت، حدود و فیملی مقدمات کی اپیل اور نگرانی کے اختیارات شریعت کورٹ کو حاصل ہوئے۔ مئی ۲۰۱۷ء تک یہ نظام کامیابی سے چلتا رہا جبکہ مئی ۲۰۱۷ء میں حکومت وقت نے اس طرز کی قائم شدہ شریعت کورٹ کو ختم کرتے ہوئے ہائیکورٹ کو ایسے اختیارات تفویض کر دیے اور چار ججز شریعت کورٹ کی اسامیوں کو مع بجٹ ہائیکورٹ کو دے کر ان کی تعداد ۹ کر دی، جو شریعت کورٹ ایکٹ کی روح کے منافی اور سپریم کورٹ آف آزادکشمیر کے فیصلہ سال ۲۰۱۴ء بابت شریعت کورٹ کی توہین ہے۔ ایک عالم جج کو شریعت کورٹ میں لگائے جانے کا ترمیمی آرڈیننس مئی ۲۰۱۷ء ہی میں جاری کیا گیا جس عالم جج کے پاس اپیل اور نگرانی کے اختیارات نہ ہوں گے۔

آج کا یہ نمائندہ اجلاس ’’آل پارٹیز کانفرنس‘‘ شریعت کورٹ آزادکشمیر کی بابت اسلام آباد میں انعقاد پذیر ہوا جو بذیل قرارداد منظور کرتا ہے۔

  1. شریعت کورٹ آزادکشمیر کو ۱۶ مئی ۲۰۱۷ء سے پہلے والی پوزیشن پر بحال کرتے ہوئے ترمیمی آرڈیننس واپس لیا جائے اور قصاص و دیت، حدود و قوانین اور فیملی مقدمات کے خلاف اپیل و نگرانی کے اختیارات واپس شریعت کورٹ آزادکشمیر کو دیے جائیں۔ اینٹی نارکوٹیکس ایکٹ، جوینائیل جسٹس سسٹم ایکٹ، انسداد دہشت گردی ایکٹ کے تحت قائم ہونے والے مقدمات کو دو رکنی عدالتوں کے دائرہ اختیارِ سماعت ہی میں رکھا جائے، چونکہ دو رکنی عدالتیں خصوصی عدالتیں ہی ہیں۔
  2. شریعت کورٹ کی ججز کی آسامیوں کو ہائیکورٹ آزادکشمیر سے واپس لیا جائے اور شریعت کورٹ ایکٹ میں ترمیم کر کے ضلع قاضی صاحبان میں سے ججز شریعت کورٹ لگائے جائیں۔
  3. اسلامی فوجداری قوانین ایکٹ ۱۹۷۴ء کی دفعات ۲۳ و ۲۵ و ۳۱ میں کی گئی ترامیم کو واپس لیا جائے اور تمام متعلقہ قوانین میں شریعت کورٹ کے الفاظ، جو ختم کر کے ہائی کورٹ لکھا گیا تھا، شریعت کورٹ لکھے جائیں۔
  4. دو رکنی عدالتی نظام سال ۱۹۷۴ء سے کامیابی کے ساتھ چل رہا ہے اس لیے ضلعی عدالتوں میں کام کرنے والے قاضی صاحبان کو ججز کے ہم پلہ مراعات دی جائیں، جن میں سرفہرست اپ گریڈیشن آف گریڈز ہے۔
  5. تحریک آزادیٔ کشمیر کی تقویت کا بھی تقاضا ہے کہ بیس کیمپ میں شرعی قوانین کی روشنی میں حقیقی اسلامی اور فلاحی معاشرہ قائم ہو۔
  6. قاضی کورٹس، افتاء، اسلامی نظریاتی کونسل کے خلاف زیرغور کسی بھی تجویز کو واپس لیا جائے۔ اور ان اداروں کو اگر مضبوط نہیں کیا جا سکتا تو کسی صورت کمزور اور بے اثر نہ کیا جائے۔
  7. شرکائے کانفرنس امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی جانب سے دی جانے والی دھمکیوں کی پرزور مذمت کرتے ہوئے ان پر اپنی تشویش کا اظہار کرتے ہیں۔
  8. کانفرنس پاکستان آرمی چیف کی جانب سے امریکی سفیر کے ساتھ دوٹوک اور واضح موقف اختیار کرنے پر جنرل باجوہ کو خراج تحسین پیش کرتی ہے۔
  9. کانفرنس امریکہ کی جانب سے ہندوستان کو افغانستان میں مخصوص کردار تفویض کرنے کی کوششوں کو نہایت ہی تشویش سے دیکھتی ہے اور اس بات کا اعادہ کرتی ہے کہ افغانستان میں قیام امن کی کوششوں میں پاکستان کے کردار کی نفی سنگین نا انصافی اور ناقابل قبول ہے۔ جمعیۃ علماء اسلام جموں و کشمیر کی میزبانی میں منعقدہ کل جماعتی کانفرنس مطالبہ کرتی ہے کہ سیزفائر لائن کے متاثرین کی بہتر اور بروقت دیکھ بھال کرتے ہوئے مؤثر انتظامات کیے جائیں۔
  10. کانفرنس مقبوضہ جموں و کشمیر میں ہونے والے وحشیانہ قتل عام کی شدید مذمت کرتے ہوئے حکومت پاکستان سے مطالبہ کرتی ہے کہ ہندوستان کے جارحانہ موقف کا مؤثر اور بروقت جواب دیا جائے۔ کانفرنس کے شرکاء بالاتفاق حریت کانفرنس کی قیادت کے ساتھ کامل یکجہتی کا مظاہرہ کرتے ہیں اور مطالبہ کرتے ہیں کہ حریت کانفرنس کے قائدین کی کردارکشی کا سلسلہ بند کیا جائے۔ کانفرنس حریت قیادت پر ناروا پابندیوں کے خاتمے کا بھی مطالبہ کرتی ہے۔

حکومت آزادکشمیر اسلام دشمن قوتوں کی سازشوں کو سمجھے اور ایک اسلامی ریاست میں شریعت کے ساتھ ہونے والے مذاق کو بند کرے۔ اور بطور مسلمان حکمران اپنا فریضہ سرانجام دیتے ہوئے ریاستی، دینی اور شرعی اداروں کو ختم کرنے کی بجائے انہیں مضبوط کرے۔ اگر حکومت آزادکشمیر ہمارے مطالبات نہیں مانتی تو ملک گیر تحریک کی شکل میں یہ مطالبہ منوایا جائے گا۔ کانفرنس میں جناب عبد الرشید ترابی کی سربراہی میں ایک کمیٹی قائم کی گئی ہے جو مذکورہ بالا مطالبات پر حکومت کے ذمہ دار حضرات سے بات چیت کرے گی۔ اور یہ طے پایا ہے کہ اگر ان مطالبات پر توجہ نہ کی گئی تو حکومتی رویہ اور اقدامات کے خلاف عوامی تحریک منظم کی جائے گی۔ ‘‘

۲۷ اگست کو منصورہ لاہور میں ’’ملی مجلس شرعی پاکستان‘‘ کا ایک اہم اجلاس مولانا مفتی محمد خان قادری کی زیرصدارت منعقد ہوا جس میں جسٹس خلیل الرحمان خان، مولانا عبد المالک خان، پروفیسر ڈاکٹر محمد امین، مولانا عبد الرؤف ملک، مولانا عبد الرؤف فاروقی، علامہ خلیل الرحمان قادری، مولانا مفتی شاہد عبید، مولانا قاری محمد رمضان، مولانا عبد الغفار روپڑی، مولانا غضنفر عزیز اور دیگر علماء کرام کے علاوہ راقم الحروف اور ہائیکورٹ کے چند سرکردہ وکلاء بھی شریک ہوئے۔

  • اجلاس میں فیملی کورٹس میں اس وقت خلع کے کیسوں کے حوالہ سے جاری صورتحال کا جائزہ لیا گیا اور اس سلسلہ میں عدالتی نظم اور طریق کار پر عدم اطمینان کا اظہار کرتے ہوئے علماء کرام اور وکلاء کی کمیٹیاں قائم کی گئیں جو پوری صورتحال کا جائزہ لے کر آئندہ اجلاس میں رپورٹ اور سفارشات پیش کریں گی۔
  • اجلاس میں کرپشن کے بارے میں بحث و مباحثہ کا جائزہ لیا گیا اور اس رائے کا اظہار کیا گیا کہ کرپشن، بد دیانتی اور نااہلی کے بارے میں ملک میں موجود قوانین کا تمام طبقات اور افرد پر یکساں اطلاق اور اس کا عملی اظہار ہونا چاہیے۔ اور کسی طبقہ یا گروہ کے خلاف امتیازی رویہ کا تاثر قائم نہیں ہونا چاہیے۔
  • اجلاس میں دستور میں مجوزہ ترامیم کا بھی تذکرہ ہوا اور اس رائے کا اظہار کیا گیا کہ دفعہ ۶۲/۶۳ سمیت ملک کے دستور کی اسلامی دفعات میں کوئی ایسی ترمیم قبول نہیں کی جائے گی جس سے اسلامائزیشن کا عمل متاثر ہوتا ہو۔
  • اجلاس میں پاکستان میں طلاق و خلع کے مروجہ قوانین کا جائزہ لیا گیا اور ویسٹ پاکستان فیملی کورٹ ایکٹ ۱۹۶۴ء میں ۲۰۰۲ء میں ہونے والی ترامیم میں سے دفعہ ۱۰ (۵) پر گفتگو ہوئی۔ اس میں ’’مصالحتی کاروائی کی ناکامی کی صورت میں فوری طور پر اسپیشل فیملی جج کے اختیار کہ فوری طور پر تنسیخ نکاح کی ڈگری جاری کی جائے گی‘‘ کو خلع و طلاق کے شرعی قوانین کے خلاف محسوس کیا گیا۔ اس سلسلہ میں یہ طے پایا کہ علماء کرام اور وکلاء کے مختلف گروپ اس کا تفصیلی جائزہ لیں گے، جبکہ مندرجہ ذیل دفعات کا بطور خاص جائزہ لیا جائے گا اور درج ذیل سوالات پر آراء پیش کی جائیں گی: (۱) مسلم فیملی لاز آرڈیننس ۱۹۶۱ء دفعہ ۸۔ (۲) ڈسولوشن آف مسلم میرج ایکٹ ۱۹۳۹ء دفعہ ۲۔ (۳) ڈائیوورس ایکٹ ۱۸۶۹ء دفعہ ۱۰۔
  1. آیا جج کا یہ اختیار کہ بنا کوئی شہادت لیے خلع کی ڈگری جاری کرنے کا اختیار شرعی دائرہ کار میں آتا ہے؟
  2. کیا جج کا یہ اختیار کہ خاتون کے دعویٰ کے بعد دورانِ مصالحت اس کی جانب سے آبادی سے انکار پر تنسیخ نکاح کی ڈگری کا یکطرفہ اجراء درست اقدام ہے؟

۲۸ اگست کو اسلام آباد میں جمعیۃ علماء اسلام (س) پاکستان کے امیر مولانا سمیع الحق کی دعوت پر ایک بھرپور آل پارٹیز کانفرنس ’’تحفظ دستور پاکستان‘‘ کے عنوان پر منعقد ہوئی جس میں جناب سراج الحق، مولانا شاہ اویس نورانی، پیر اعجاز احمد ہاشمی، مولانا عبدالرؤف فاروقی، مولانا بشیر احمد شاد، مولانا حافظ زبیر احمد ظہیر، مولانا سید کفیل شاہ بخاری، مولانا حافظ عبد الرحمان مکی، مولانا حافظ عبد الغفار روپڑی، پیر سید ہارون گیلانی، پیر خواجہ جمال احمد گوریچہ، مولانا اللہ وسایا، مولانا قاضی محمد رویس خان ایوبی، جناب عبد اللہ گل، جناب حامد میر، علامہ ابتسام الہی ظہیر، علامہ سید ضیاء اللہ شاہ بخاری، مولانا زاہد محمود قاسمی، شیخ رشید احمد اور دیگر سرکردہ زعماء نے شرکت کی اور راقم الحروف نے بھی کچھ معروضات پیش کیں۔ کانفرنس میں درج ذیل ’’اعلامیہ‘‘ منظور کیا گیا۔

  1. آئینِ پاکستان ایک ایسی دستاویز ہے جو قومی وحدت، ملکی استحکام اور ملی وقار کی علامت ہے اور ملک کی تمام اکائیوں کے درمیان زنجیر کی حیثیت رکھتی ہے۔
  2. ۱۹۷۳ء کی پارلیمنٹ اور اس کے تمام معزز اراکین یہ متفقہ آئین دینے پر قوم کی طرف سے خراجِ تحسین کے مستحق ہیں۔
  3. دستور میں اب تک کی ترامیم کے ذریعے قوم کی امنگوں، امیدوں اور نظریات کی ترجمانی اور قانون سازی کے لیے بہترین بنیاد فراہم کی گئی ہے۔ صوبائی خودمختاری اور قوم کے حقوق کی پاسداری کی ضمانت آئین میں موجود ہے۔
  4. کرپشن، نا انصافی، لاقانونیت اور اداروں کی توہین آئینِ پاکستان سے انحراف ہے۔
  5. کسی کی ذات اور مخصوص جماعت کے سیاسی مستقبل کے لیے آئینِ پاکستان میں موجود اسلامی دفعات میں کسی طرح کی تبدیلی کی اجازت نہیں دی جا سکتی۔ اسلامی دفعات اور آئین پاکستان میں تبدیلی ملک دشمن قوموں کا ایجنڈہ ہے۔ نام نہاد عالمی برادری تحفظ ناموس رسالت، عقیدہ ختم نبوت، قرآن و سنت کی بالادستی، اور شریعت اسلامیہ کے مطابق قانون سازی کی دفعات کو آئین پاکستان سے نکالنے کے لیے مسلسل کوشش کر رہی ہے، ہم اس کو مسترد کرتے ہیں۔
  6. عدلیہ اور آئین پاکستان پر مسلم لیگ (ن) خودکش حملہ کرنے جا رہی ہے۔ ان دونوں کا تحفظ ہماری ذمہ داری ہے اور ہم ہر قیمت پر اس ذمہ داری کو پورا کریں گے۔ اس مقصد کے لیے قومی قائدین اور تمام مذہبی و سیاسی جماعتوں کے نمائندوں پر مشتمل کمیٹی تشکیل دی جائے گی جو قوم کی ذہن سازی کے لیے بروقت رہنما اصول پیش کرتی رہے گی، اور قومی جذبہ کے ساتھ آئین پاکستان پر پہرہ دیا جائے گا۔
  7. مسلم لیگ (ن) پانامہ کیس کے فیصلہ کے بعد اداروں کے درمیان تصادم، سیاسی بحران، ملکی عدم استحکام اور قوم کو خانہ جنگی کی طرف دھکیلنے کے راستے پر گامزن ہے، ہم اس طرز عمل کی مذمت کرتے ہیں۔
  8. امریکی صدر کی طرف سے پاکستان، افغانستان اور خطے کے لیے نئی پالیسی کا اعلان ملکی خودمختاری اور قومی وقار پر حملہ ہے اور پاکستانی قوم کے ساتھ اعلانِ جنگ ہے۔ امریکہ پاکستان کا ازلی دشمن ہے، وہ بھارت کو خطے میں بالادست حیثیت دے کر ہماری نظریاتی مملکت، ایٹمی قوت، آزادی، خودمختاری اور سالمیت کو نقصان پہنچانا چاہتا ہے۔ پوری قوم بشمول پاکستان کے عسکری ادارے اور محب وطن سیاسی و مذہبی قیادت امریکی پالیسی کو مسترد کرتی ہے اور واشگاف الفاظ میں واضح کرنا چاہتی ہے کہ ملکی سالمیت کا تحفظ اپنی جانوں پر کھیل کر کیا جائے گا۔ اگر امریکہ نے بھارت یا افغانستان کی کٹھ پتلی حکومت کے ذریعہ پاک سرزمین پر اپنے ناپاک قدم رکھنے کی حماقت کی تو اس کا جہادی جذبہ کے ساتھ مقابلہ کیا جائے گا اور امریکی رعونت کو خاک میں ملا کر اس کے وجود کو عبرتناک بنا دیا جائے گا۔ امریکی صدر کی طرف سے پاک فوج کو دہشت گردی کے خلاف جنگ میں امریکی امداد دینے کا بیان گمراہ کن ہے۔ پاکستان کی زمینی اور فضائی حدود کے استعمال پر عالمی قوانین کے مطابق کرایہ کی ادائیگی امداد نہیں ہے۔ پاکستانی قوم اپنے خون سے پاک فوج کی آبیاری کر رہی ہے اور اس کی ضروریات پوری کرنے کے لیے بڑی سے بڑی قربانی دینے کے لیے تیار ہے۔ مسلح افواج نے مملکت خداداد پاکستان کی سالمیت و تحفظ کے لیے جو پالیسی طے کر رکھی ہے ہم اس کی مکمل تائید کرتے ہیں۔ موجودہ حکومت کی خارجہ پالیسی بالعموم، اور امریکی دھمکیوں کے مقابلہ میں مجرمانہ خاموشی بالخصوص، قومی وقار کے منافی ہے۔ ایک آزاد خودمختار مملکت اور ایک غیرت مند قوم کی ترجمانی کے لیے حکومت کو امریکی بالادستی سے باہر نکال کر پالیسی ترتیب دینی چاہیے۔ چین، روس اور ایران کی طرف سے پاکستان کی غیر مشروط حمایت اور امریکہ کو منہ توڑ جواب دینے پر چینی حکومت کے شکر گزار ہیں، اور اقتصادی راہداری منصوبہ کی تکمیل کے لیے نیک خواہشات کا اظہار کرتے ہیں۔
  9. افغان مہاجرین کی مہمان نوازی کا اعزاز پاکستانی قوم کو حاصل ہے۔ ایک عرصہ پاکستان کی سرزمین پر گزارنے والے افغان مہاجرین اشرف غنی کے افغانستان میں اپنے آپ کو اعتقادی اور جسمانی طور پر غیر محفوظ سمجھتے ہیں۔ حکومت پاکستان اشرف غنی اور امریکہ کے ایماء پر افغان مہاجرین پر پاکستان کی سرزمین تنگ کرنے کی بجائے باوقار اور محفوظ واپسی کے لیے پالیسی مرتب کرے۔
  10. حافظ محمد سعید کی بے جا نظر بندی کو فی الفور ختم کیا جائے۔
  11. شریعت کورٹ آزاد کشمیر کو ختم کر کے ستر سالہ جدوجہد کو سبوتاژ کر دیا گیا ہے۔ کل جماعتی کانفرنس حکومت آزادکشمیر کے اس عمل کی شدید مذمت کے ساتھ شریعت کورٹ کو بحال کرنے اور آزادکشمیر کے دستور میں قادیانیوں کے حوالہ سے دستوری تقاضوں کو ملحوظ رکھ کر قادیانیوں کو مسلم فہرست سے الگ فہرستوں میں شامل کرنے کا مطالبہ کرتی ہے۔
  12. پنجاب میں مدارس اسلامیہ کے گرد گھیرا تنگ کرنے کے لیے پنجاب حکومت چیریٹی ایکٹ کے نام سے کالا قانون لانے کی کوشش کر رہی ہے، اسے مسترد کرتے ہوئے اس کا راستہ روکنے کے لیے پر امن آئینی جدوجہد کا اعلان کرتے ہیں۔
   
2016ء سے
Flag Counter