جنیوا معاہدہ ‒ کویت پر ایران کا حملہ

   
۲۹ اپریل ۱۹۸۸ء

وزیراعظم جناب محمد خان جونیجو نے گزشتہ روز پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے جنیوا معاہدہ پر اپنی حکومت کے موقف کی وضاحت کی ہے اور کہا ہے کہ

’’جنیوا معاہدہ نہ تو بہترین ہے اور نہ ہی جامع۔ تاہم موجودہ حالات کے تحت اس سے بہتر سمجھوتہ نہیں ہو سکتا تھا۔‘‘

اسی موقع پر وزیر مملکت برائے امور خارجہ مسٹر زین نورانی نے پارلیمنٹ سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ

’’دنیا کی کوئی طاقت نئی افغان حکومت میں مجاہدین اور ان کے رفقاء کی بھرپور شرکت کو نہیں روک سکے گی۔‘‘ (بحوالہ روزنامہ جنگ لاہور ۔ ۲۱ اپریل ۱۹۸۸ء)

اصل مسئلہ یہ ہے کہ امریکہ، حکومتِ پاکستان اور جنیوا مذاکرات میں شریک دوسری قوتوں کے پیشِ نظر مذاکرات اور سمجھوتے کا سب سے اہم مقصد اور بنیادی ہدف یہ رہا ہے کہ افغانستان میں کمیونسٹ حکومت اور مجاہدین کو کسی ایک فارمولے پر جمع کر کے مل جل کر افغانستان کا نظام چلانے پر آمادہ کر لیا جائے۔ اور موجودہ جنیوا معاہدہ اسی فکر کا آئینہ دار ہے۔ جبکہ افغان مجاہدین اور ان کی پشت پر پورے عالم اسلام کی دینی و نظریاتی قوتوں کا ہدف اور مقصد افغانستان میں کمیونسٹ نظام کا مکمل خاتمہ اور اس کے کھنڈرات پر ایک مکمل اسلامی حکومت کی بلند و بالا عمارت کا قیام ہے۔ اسی لیے افغان مجاہدین نے جنیوا معاہدے کو مسترد کر دیا ہے اور عالم اسلام کی دینی و نظریاتی قوتیں اس مسئلہ میں ان کے ساتھ ہیں۔

جمعیۃ علماء اسلام پاکستان ملت اسلامیہ کے اسی نظریاتی اور دینی موقف کے منظم اظہار کے لیے ۲۹ اپریل کو پورے ملک میں جنیوا معاہدہ کے خلاف ’’یوم سیاہ‘‘ منا رہی ہے ۔افغان مجاہدین کا یہ کہنا بھی درست ہے کہ اقتدار میں شرکت کی پیشکش تو اس سے قبل بھی ڈاکٹر نجیب اللہ کی طرف سے کئی بار ہو چکی ہے جسے انہوں نے قبول نہیں کیا۔

اس لیے مسئلہ افغانستان کا واحد حل آج بھی یہ ہے کہ کمیونسٹ حکمران جس طرح روسی ٹینکوں پر بیٹھ کر کابل آئے تھے اسی طرح روسی ٹینکوں پر واپس چلے جائیں اور کابل پر مجاہدین کی نظریاتی اسلامی حکومت کے قیام کی راہ ہموار کی جائے۔ اس کے بغیر یہ مسئلہ حل نہیں ہوگا اور نہ ہی اس کے شعلوں کی تپش سے اردگرد کے ممالک خود کو محفوظ کرنے کی خواہش کو عملی جامہ پہنا سکیں گے۔

کویت پر ایران کا حملہ

ایرانی ٹھکانوں پر امریکی بحریہ کے حملوں کے بعد ایران نے کویت پر روسی ساخت کے سکڈ بی میزائلوں سے حملہ کر دیا ہے جس کے جواب میں کویت نے بھی جوابی کارروائی کا اعلان کر دیا ہے۔ ایران عراق جنگ، ایرانی قیادت کی ہٹ دھرمی کی وجہ سے جس طرح اردگرد کے ممالک کو اپنی لپیٹ میں لے رہی ہے وہ ساری دنیا کے لیے پریشان کن ہے۔ بالخصوص اس خطہ میں امریکہ اور دوسری عالمی طاقتوں کی مداخلت نے علاقہ کے امن کے لیے ہمہ گیر خطرات کی فضا قائم کر دی ہے۔ ہمارے نزدیک ایرانی ٹھکانوں پر امریکی بحریہ کا حملہ اور کویت پر ایران کا حملہ دونوں مذموم کارروائیاں ہیں لیکن ان تمام کارروائیوں کا بنیادی سبب ایرانی قیادت کی وہ ہٹ دھرمی ہے جو اس نے عراق کے ساتھ جنگ کو ختم نہ کرنے کے لیے اختیار کر رکھی ہے۔ خلیج اور جنوبی ایشیا کے امن و استحکام کا تقاضہ ہے کہ ایرانی لیڈر اپنے طرزِ عمل پر نظرثانی کریں اور علاقہ کے امن کو اپنی ضد کی بھینٹ چڑھانے سے بچائیں۔

   
2016ء سے
Flag Counter