ملی یکجہتی کونسل کی اپیل پر ملک گیر ہڑتال

   
جولائی ۱۹۹۵ء

ملی یکجہتی کونسل پاکستان کی اپیل پر ۲۷ مئی کو ملک بھر میں مکمل ہڑتال ہوئی اور اخبارات کی رپورٹ کے مطابق اس روز پورے ملک میں کاروبار زندگی معطل رہا۔ راقم الحروف کو جنگ کراچی کے اقراء میگزین کے انچارج مفتی محمد جمیل خان کے ہمراہ راہوالی، گکھڑ، کامونکی، مریدکے اور لاہور میں شاہدرہ، ماڈل ٹاؤن، گلبرگ، قصور روڈ اور دیگر مقامات پر جانے اور ہڑتال کی صورتحال کا جائزہ لینے کا موقع ملا اور یہ دیکھ کر اطمینان ہوا کہ کم و بیش ہر طبقہ کے لوگوں نے ہڑتال کی اپیل پر لبیک کہا ہے۔ نہ صرف کاروبار بلکہ ٹریفک بھی بند تھی اور ہر اہم مقام پر ملی یکجہتی کونسل کے کارکن اکا دکا چلنے والی گاڑیوں کو ہڑتال کی پابندی کی تلقین کے لیے کھڑے تھے۔ خود ہمیں بھی بعض مقامات پر روکا گیا مگر ہم یہ کہہ کر آگے بڑھ گئے کہ ہمارا تعلق صحافت سے ہے اور ہم ہڑتال کا جائزہ لے رہے ہیں۔

ہڑتال کی اس طرح کامیابی کے اسباب میں سب سے بڑا سبب تو یہ تھا کہ ملی یکجہتی کونسل کی صورت میں پاکستان کے عوام کو اپنی اس پرانی اور دلی خواہش کی تکمیل کی جھلک نظر آرہی تھی کہ دینی مکاتب فکر کے قائدین متحد ہو کر قومی معاملات میں راہنمائی کا فریضہ سرانجام دیں۔ اور دوسری بڑی وجہ پاکستان کے قومی و دینی معاملات میں امریکہ اور دیگر مغربی ممالک کی بڑھتی ہوئی مداخلت سے ملک کے عوام ازحد پریشان ہیں اور اس کے خلاف کسی مضبوط ردعمل کا اظہار چاہتے ہیں۔ چنانچہ ناموس رسالتؐ کے تحفظ کے قانون میں حکومت کی طرف سے مجوزہ ترامیم کے خلاف ملی یکجہتی کونسل کی ہڑتال کی اپیل پر عوام نے متفقہ طور پر لبیک کہہ کر اس ردعمل کے اظہار کا آغاز کر دیا ہے۔

توہین رسالتؐ پر موت کی سزا کا قانون ان مسائل میں سے ایک ہے جو امریکہ اور دیگر مغربی حکومتوں کی مسلسل مداخلت کا شکار ہیں۔ جب سے پاکستان میں شانِ رسالتؐ میں گستاخی پر موت کی سزا کا قانون نافذ ہوا ہے مغربی حکومتوں اور لابیوں کا اضطراب و احتجاج بڑھتا جا رہا ہے اور حکومت پاکستان پر دباؤ ڈالا جا رہا ہے کہ اس قانون کو منسوخ کیا جائے۔ جبکہ پاکستان کی رائے عامہ کو سامنے رکھتے ہوئے ایسا کسی بھی حکومت کے لیے ممکن نہیں ہے۔ اسی لیے حکومت پاکستان نے مغربی حکومتوں کو مطمئن کرنے کے لیے ایک درمیانی راستہ نکالنے کی کوشش کی کہ گستاخی رسولؐ پر موت کی سزا کو تو برقرار رکھا جائے لیکن مقدمہ کے اندراج کا طریق کار ایسا مشکل بنا دیا جائے کہ کسی گستاخ رسولؐ کو موت کی سزا تک پہنچانا عملاً ممکن نہ رہے۔ چنانچہ وفاقی کابینہ کے فیصلے کے حوالے سے یہ خبر سامنے آئی ہے کہ شانِ رسالتؐ میں گستاخی کے ارتکاب پر مقدمہ کا اندراج ڈپٹی کمشنر کی انکوائری کے ساتھ مشروط کر دیا جائے گا اور کسی پر توہین رسالتؐ کا غلط الزام لگانے والے شخص، یا اس شخص کو جس کا الزام پایہ ثبوت تک نہ پہنچ سکے، دس سال کی سزا دی جائے گی۔

یہ ترامیم اس قانون کو عملاً معطل کر دینے والی ترامیم ہیں اور اسی طرح کا حیلہ ہے جیسا تاریخ کی کتابوں میں عباسی خلیفہ منصورؒ کے حوالے سے مذکور ہے۔ مشہور مؤرخ عسکریؒ نے ’’اوائل میں لکھا ہے کہ منصور کے ایک شرابی دوست ابن شبرمہ کو شراب پینے پر بار بار کوڑے پڑنے لگے تو اس نے خلیفہ منصور سے مداخلت کی درخواست کی۔ منصور نے کہا کہ میں شراب نوشی کی شرعی سزا ۸۰ کوڑوں میں تو کوئی ترمیم نہیں کر سکتا، البتہ یہ حکم جاری کر دیتا ہوں کہ اگر کوئی شخص ابن شبرمہ کو شراب پینے کی حالت میں پکڑ کر حاکم کے پاس لائے تو ابن شبرمہ کو شریعت کے مطابق ۸۰ کوڑے ضرور لگائے جائیں مگر پکڑ کر لانے والے کو بھی سو کوڑے مارے جائیں۔ اس طرح خلیفہ منصور شرعی قانون میں مداخلت کے الزام سے بچ گیا مگر اس کے بعد کسی شخص کو ابن شبرمہ پر شراب نوشی کا الزام عائد کرنے کی جرأت نہ ہوئی۔

گستاخ رسولؐ کے لیے موت کی سزا کے قانون کے اندراج کے طریق کار میں وفاقی کابینہ کی تجویز کردہ ان ترامیم کو تحریک تحفظ ناموس رسالتؐ اور ملی یکجہتی کونسل نے مسترد کر دیا اور قوم نے ۲۷ مئی کو ہڑتال کی اپیل کی جس پر ملک بھر میں کاروبار زندگی معطل کر کے پاکستان کے عوام نے یہ ثابت کر دیا کہ وہ اس مسئلہ پر دینی جماعتوں کے ساتھ ہیں۔ اس ہڑتال سے جہاں دینی جماعتوں کو یہ حوصلہ ملا ہے کہ اگر آج بھی وہ متحد ہو کر دینی معاملات میں قوم کی راہنمائی کے لیے میدان عمل میں نکلیں تو قوم انہیں مایوس نہیں کرے گی، وہاں پاکستان کے عوام نے مغربی حکومتوں اور لابیوں کو بھی یہ الارم دے دیا ہے کہ مغربی لابیاں اور ورلڈ میڈیا اسلامی احکام و قوانین کے خلاف جس قدر چاہیں پراپیگنڈا کر لیں اور دینی جماعتوں کی کردار کشی کی جو صورت بھی چاہیں اختیار کر لیں پاکستانی قوم دینی معاملات میں بہرحال اپنی دینی قیادت کے ساتھ ہے۔

البتہ اس ہڑتال کے حوالہ سے دو حلقوں کا ردعمل جو ہڑتال کے بعد سامنے آیا ہے، قابل توجہ ہے۔ ایک اقلیتی محاذ برائے مساوی حقوق کا جس کے چیئرمین ضیاء کھوکھر صاحب کا بیان جنگ لاہور میں ۲۸ مئی کو شائع ہوا ہے۔ اس بیان میں انہوں نے ۲۷ مئی کی کامیاب ہڑتال پر مذہبی و دینی جماعتوں کے راہ نماؤں کو مبارک باد پیش کی ہے اور ساتھ ہی تعزیرات پاکستان کی دفعہ سی ۲۹۵ کو فوری طور پر ختم کرنے کا مطالبہ کرتے ہوئے دھمکی دی ہے کہ اگر اس دفعہ کو ختم نہ کیا گیا تو ملک بھر کی مسیحی تنظیمیں ایک دن کی مکمل ہڑتال کریں گی۔ اب معلوم نہیں کہ کھوکھر صاحب ان دونوں متضاد باتوں میں سے سنجیدہ کس بات پر ہیں؟ کیونکہ دفعہ سی ۲۹۵ اسی قانون کا عنوان ہے جس میں توہین رسالتؐ پر موت کی سزا مقرر کی گئی ہے اور ملی یکجہتی کونسل کی ۲۷ مئی کی ہڑتال اسی قانون کے تحفظ بلکہ اس کے طریق کار تک میں تبدیلی کے امکانات کو مسترد کرنے کے لیے ہوئی ہے۔ مگر ضیاء کھوکھر صاحب اس دفعہ کے تحفظ کے لیے کی جانے والی ہڑتال کی کامیابی پر مبارکباد دیتے ہوئے اسی قانون کے خاتمہ کے لیے ہڑتال کی دھمکی دے رہے ہیں۔ اب یا تو کھوکھر صاحب سی ۲۹۵ سے واقف نہیں ہیں یا انہیں ہڑتال کے مقاصد کا علم نہیں ہے، اگر وہ دونوں باتوں کو جانتے ہیں تو معلوم نہیں کہ اس بیان کے ذریعے وہ کس کو بے وقوف بنانے کی کوشش کر رہے ہیں؟

دوسرا ردعمل بعض مذہبی جماعتوں کے راہ نماؤں کی طرف سے سامنے آیا ہے جو کھوکھر صاحب موصوف کے بیان سے بھی زیادہ مضحکہ خیز ہے۔ روزنامہ جنگ لاہور ۲۹ مئی میں شائع شدہ ایک خبر کے مطابق لاہور میں بعض مذہبی تنظیموں کا اجلاس ہوا جس کے شرکاء میں قاضی عبد القدیر خاموش، منیر حسین گیلانی، علامہ ریاض الرحمان یزدانی، مولانا محمد اصغر فاروق، سید حیدر فاروق مودودی، صاحبزادہ سید سعید شاہ گجراتی اور علامہ سعید الرشید عباسی کے نام نمایاں ہیں۔ اس اجلاس میں منظور کی جانے والی قرارداد میں کہا گیا ہے کہ

’’ملی یکجہتی کونسل کی سرگرمیوں کا مقصد ملک میں سیاسی عدم استحکام پیدا کرنا ہے تاکہ حکومت اطمینان سے اقوام عالم کے ساتھ معاہدات کر کے ملک کو ایک فلاحی ریاست بنانے کا خواب شرمندۂ تعبیر نہ کر سکے۔‘‘

اجلاس میں ان ’’علمائے کرام‘‘ نے یہ بھی مطالبہ کیا ہے کہ ’’اسلام کو مولویت کی اجارہ داری سے نجات دلائی جائے‘‘۔ ہمارے خیال میں یہ علماء کرام اتنی بات کو صحیح سمجھے ہیں کہ ۲۷ مئی کی ہڑتال اقوام عالم کے ساتھ حکومت پاکستان کے ہونے والے معاہدات میں اطمینان کا عنصر غائب کرنے میں بہرحال کامیاب ثابت ہوئی ہے۔ لیکن اقوام عالم کے ساتھ مجوزہ معاہدات سے شاید یہ بزرگ خود بھی واقف نہیں ہیں ورنہ اتنے شرح صدر کے ساتھ ہڑتال کے کریڈٹ کو ڈس کریڈٹ میں تبدیل کرنے کا اہتمام نہ فرماتے- ان حضرات کو شاید یہ خبر نہیں کہ اقوام عالم ہم اہل پاکستان سے جن امور پر معاہدات چاہتی ہیں اور جن کے لیے میڈیا اور لابنگ کی پوری صلاحیتیں صرف کی جا رہی ہیں ان کا تعلق دو دستاویزات سے ہے۔ ایک دستاویز اقوام متحدہ کے انسانی حقوق کے چارٹر پر مشتمل ہے جس کو من و عن قبول کرنے کا ہم سے مطالبہ کیا جا رہا ہے اور یہ کہا جا رہا ہے کہ ہم اپنے وہ تمام قوانین منسوخ یا تبدیل کر دیں جو انسانی حقوق کے اس چارٹر سے مطابقت نہیں رکھتے۔ اس چارٹر کی اب تک مغربی حلقوں کی طرف سے کی جانے والی تشریح کے مطابق :

  1. توہین رسالتؐ پر موت کی سزا کا قانون،
  2. ہاتھ کاٹنے، کوڑے مارنے، سنگسار کرنے، سولی دینے اور مجرم کو کھلے بندوں سزا دینے کے قوانین،
  3. قادیانیوں کو غیر مسلم اقلیت قرار دینے اور اسلام کا نام استعمال کرنے سے روکنے کے قوانین،
  4. اقلیتوں کو ان کی آبادی کے تناسب سے جداگانہ الیکشن کے ذریعہ نمائندگی دینے کا قانون، اور دیگر بہت سے اسلامی احکام و قوانین انسانی حقوق کے منافی ہیں اور اقوام عالم کی خوشنودی حاصل کرنے کے لیے ان قوانین کا خاتمہ ضروری ہے۔

دوسری دستاویز گزشتہ سال قاہرہ میں اقوام متحدہ کے زیراہتمام منعقد ہونے والی عالمی بہبود آبادی کانفرنس کی قراردادیں اور فیصلے ہیں جن میں دنیا بھر کی حکومتوں سے کہا گیا ہے کہ وہ

  1. شادی کے بغیر جنسی تعلقات اور ناجائز بچے کے ساتھ ساتھ کنواری ماں کو بھی سماجی اور قانونی تحفظ فراہم کریں،
  2. ہم جنس پرستی (لواطت) کو قانونی تحفظ دیں،
  3. اور آزادانہ جنسی اختلاط اور مانع حمل اشیاء کی کھلے بندوں فراہمی کی ضمانت دیں۔

اس کے ساتھ ان علماء کرام کی اطلاع کے لیے عرض ہے کہ آج کل اقوام عالم کی طرف سے ہم پر شادی اور طلاق کے قوانین کو بین الاقوامی معیار کے مطابق تبدیل کرنے کے لیے بھی مسلسل دباؤ ڈالا جا رہا ہے۔ اور نکاح و طلاق کا بین الاقوامی معیار اقوام متحدہ کے چارٹر کے مطابق یہ ہے کہ

’’پوری عمر کے مردوں اور عورتوں کو نسل، قومیت یا مذہب کی کسی تحدید کے بغیر باہم شادی کرنے اور خاندان کی بنیاد رکھنے کا حق حاصل ہے۔ شادی، دوران شادی اور اس کی تنسیخ کے سلسلہ میں وہ مساوی حقوق رکھتے ہیں۔‘‘ (دفعہ ۱۶ چارٹر انسانی حقوق اقوام متحدہ)

اس لیے یہ بات درست ہے کہ موجودہ حکومت ’’اقوام عالم‘‘ کی ان خواہشات اور تقاضوں کو پورا کرنے میں دلچسپی رکھتی ہے اور ایسے معاہدات کے لیے بے چین ہے جو پاکستان کو اقوام عالم کے مزعومہ معیار کے مطابق ڈھالنے میں مفید ثابت ہو سکیں۔ لیکن ملی یکجہتی کونسل کی سنجیدہ جدوجہد اور اس کی اپیل پر ۲۷ مئی کو پاکستانی قوم کی طرف سے ملک گیر مکمل ہڑتال نے بہرحال اس پیش رفت میں رکاوٹ ڈال دی ہے۔ اور اب اس سمت آگے بڑھنے سے قبل حکومت اور اقوام عالم دونوں کو اپنی حکمت عملی اور ترجیحات کا ازسرنو جائزہ لینا ہوگا کیونکہ رائے عامہ کی قوت کو نظر انداز کرنا آج کے دور میں کسی کے بس کی بات نہیں رہی۔ یہ قومی اور دینی مقاصد کی طرف ایک مثبت اور مؤثر پیش رفت ہے جس پر ملی یکجہتی کونسل کے قائدین بجا طور پر مبارکباد اور تحسین کے مستحق ہیں۔

   
2016ء سے
Flag Counter