ملک بھر میں بلدیاتی انتخابات ہو چکے ہیں اور اب اقلیتی سیٹوں اور مخصوص نشستوں کے انتخابات ہو رہے ہیں جن کے بعد ماہِ رواں کے اختتام تک بلدیاتی اداروں کے سربراہوں کے انتخابات منعقد ہوں گے۔
حکومت نے بلدیاتی انتخابات غیر جماعتی بنیادوں پر منعقد کرانے کا اعلان کیا تو ملک کی بیشتر سیاسی جماعتوں نے اسے غیر اصولی فیصلہ قرار دینے کے باوجود میدان کو خالی نہ چھوڑتے ہوئے ان میں حصہ لیا۔ جمعیۃ علماء اسلام پاکستان نے بھی اپنے کارکنوں کو بلدیاتی انتخابات میں حصہ لینے کی ہدایات جاری کر دیں جن کے بحمد اللہ تعالیٰ خاطر خواہ اثرات ظاہر ہوئے ہیں اور ملک کے مختلف حصوں میں جماعتی احباب نے بلدیاتی انتخابات میں کامیابی حاصل کر کے جماعتی زندگی کا ثبوت دیا۔ بالخصوص پنجاب میں حضرو، بھکر، چنیوٹ، شاہکوٹ، منچن آباد، چشتیاں، حاصل پور، فقیر والی، بہاولپور، خیرپور ٹامیوالی، میکلوڈ گنج اور دیگر مقامات میں جماعتی کارکنوں نے جو کامیابیاں حاصل کی ہیں وہ پنجاب کی سیاست میں جمعیۃ علماء اسلام پاکستان کی مثبت پیش رفت کی غماز ہیں۔
مگر غیر جماعتی انتخابات کے بعد اب بلدیاتی اداروں کے سربراہوں کے انتخابات کو جس طرح جماعتی بنانے اور دھونس اور جبر کے ذریعے مسلم لیگی سربراہان ان اداروں پر مسلط کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے وہ بے اصولی اور دھاندلی کی افسوسناک مثال ہے۔ خدا جانے کنونشن مسلم لیگ کا انجام ہمارے حکمرانوں کی نگاہوں سے کیوں اوجھل ہوگیا ہے کہ وہ ایک اور مصنوعی و درشنی مسلم لیگ کو اقتدار کے سہارے کھڑا کرنے کی کوشش میں لگے ہوئے ہیں۔ حکومت کو چاہیے کہ وہ اس سلسلہ میں اپنے طرز عمل پر نظر ثانی کرے اور بلدیاتی اداروں کے ارکان کو آزادانہ مرضی کے ساتھ اپنے سربراہ منتخب کرنے دے کیونکہ اسی صورت میں یہ ادارے عوام میں اپنا اعتماد اور بھرم قائم رکھ سکیں گے۔