شریعہ بورڈ آف امریکہ

   
۲۵ اگست ۲۰۰۸ء

گزشتہ روز شریعہ بورڈ آف نیویارک کے سالانہ اجلاس میں شرکت کا موقع ملا۔ شریعہ بورڈ نیویارک کے دفتر میں اس سے قبل بھی متعدد بار حاضری اور دوستوں کو اس حوالہ سے کام کرتے ہوئے دیکھنے کا موقع مل چکا ہے۔ بنگلہ دیش سے تعلق رکھنے والے مولانا مفتی جمال الدین اور مولانا مفتی روح الامین جبکہ انڈیا سے تعلق رکھنے والے مولانا مفتی محمد نعمان اس سلسلہ میں زیادہ سرگرم عمل ہیں اور پاکستان کے علماء کرام میں سے مولانا عبد الرزاق عزیز اور مولانا قاری مطیع الرحمان آف آزاد کشمیر بھی ان کے ساتھ شریک کار ہیں۔

مولانا مفتی محمد نعمان کو میری نیویارک آمد کا پتہ چلا تو فون پر رابطہ کر کے بتایا کہ ۹ اگست کو شریعہ بورڈ نیویارک کا سالانہ اجلاس ہو رہا ہے اگر آپ اس میں شریک ہو سکیں تو ہم آپ کو مہمانان خصوصی میں شامل کرنا چاہتے ہیں۔ میں تو اس عنوان سے ہونے والے کسی بھی کام میں شمولیت کے بہانے تلاش کرتا ہوں جبکہ اس روز اس وقت اتفاق سے میں فارغ تھا، اگر کوئی اور مصروفیت ہوتی تو بھی میں اس اجلاس میں شرکت کے لیے اسے آگے پیچھے کرنے کی کوئی صورت نکال لیتا۔ یہ اجلاس ۹ اگست کو نماز عصر کے بعد سے نماز عشاء تک جامع مسجد سیدنا ابوبکر صدیقؓ میں منعقد ہوا اوراس میں شکاگو سے شریعہ بورڈ کے راہنما مولانا مفتی غلام صمدانی بھی اپنے ایک رفیق کار کے ہمراہ بطور مہمان خصوصی شریک ہوئے۔ عصر سے مغرب تک شریعہ بورڈ کی سالانہ کارکردگی کی رپورٹیں پیش ہوئیں جبکہ مغرب سے عشاء تک بیانات کا سلسلہ رہا اور مجھے بھی کچھ معروضات پیش کرنے کا موقع ملا۔

کارگزاری کی رپورٹوں میں بتایا گیا کہ اس سلسلہ میں گزشتہ صدی کے آخری عشرہ کے دوران مولانا مفتی محمد تقی عثمانی صاحب نے اپنے مختلف دوروں میں یہاں کے علماء کرام کو اس طرف توجہ دلائی کہ وہ یہاں کے مسلمانوں کی دینی راہنمائی اور خاص طور پر خاندانی تنازعات اور حلال و حرام کے معاملات میں ان کی معاونت کا کوئی نظام قائم کریں۔ کیونکہ بہت سے مسلمان اس قسم کے معاملات میں ہم سے رجوع کرتے ہیں، جب ہم سفر پر آتے ہیں تو زیادہ تر اس قسم کے مسائل کے بارے میں پوچھا جاتا ہے اور اس کے علاوہ وہاں بھی ہم سے ان مسائل کے حوالہ سے مسلسل دریافت کیا جاتا ہے۔ جبکہ ہم یہ سمجھتے ہیں کہ یہاں رہنے والے علماء کرام مقامی حالات سے واقف ہونے کے باعث اس سلسلہ میں زیادہ بہتر راہ نمائی کر سکتے ہیں۔ چنانچہ مولانا مفتی محمد تقی عثمانی کے بار بار توجہ دلانے پر شکاگو کے مولانا مفتی نوال الرحمان صاحب اور دیگر علماء کرام نے اس کے لیے محنت کی اور شکاگو میں شریعہ بورڈ آف امریکہ کے نام سے ایک ادارے کی بنیاد رکھی جس کا مقصد یہ قرار پایا کہ امریکہ میں رہنے والے مسلمانوں کو نکاح، طلاق، وراثت، کفالت، حلال و حرام اور دیگر ضروری معاملات میں شریعت اسلامیہ کی روشنی میں راہنمائی فراہم کی جائے اور ان کے باہمی تنازعات کو آپس میں طے کرنے کے سلسلہ میں ان کی معاونت کا کوئی نظم قائم کیا جائے۔

شکاگو میں یہ نظام کامیابی کے ساتھ کئی سالوں سے آگے بڑھ رہا ہے جس کے ثمرات و نتائج کے تذکرہ میں اجلاس کے شرکاء کو بتایا گیا کہ شکاگو میں حکومت کی طرف سے یہ قانون نافذ کر دیا گیا ہے کہ گوشت کی جس دکان پر ’’حلال گوشت‘‘ کا سائن بورڈ لگایا گیا ہے اسے شریعہ بورڈ کے علماء کرام کے اطمینان کے مطابق اس بات کا ثبوت فراہم کرنا ہوگا کہ اس دکان میں شریعت اسلامیہ کے قواعد کے مطابق ذبح کیے ہوئے جانوروں کا گوشت فروخت ہوتا ہے ورنہ بصورت دیگر اس دکان کا لائسنس منسوخ کر کے اسے بند کیا جا سکتا ہے۔ اسی طرح مسلمانوں کے باہمی تنازعات کے مقدمات میں بھی شریعہ بورڈ کی طرف رجوع کا رجحان بڑھ رہا ہے اور امریکہ کا عدالتی نظام بھی اسے تسلیم کرنے لگا ہے۔ اجلاس میں بتایا گیا کہ دو مسلمانوں کے کاروباری شراکت میں جھگڑے کا ایک مقدمہ جو مقامی عدالتوں میں چھ سات سال تک چلتا رہا اور کسی نتیجے تک نہ پہنچ سکا ایک عدالت نے اسے شریعہ بورڈ کو بھجوا دیا جس نے گیارہ روز کے اندر اس کیس کا فیصلہ کر دیا اور فریقین میں سے کسی کا اس پر ایک ڈالر بھی خرچ نہیں ہوا۔

شکاگو میں حوصلہ افزا پیش رفت کو دیکھتے ہوئے نیویارک میں بھی مولانا مفتی روح الامین اور ان کے رفقاء نے شکاگو کے شریعہ بورڈ کی شاخ کے طور پر ’’شریعہ بورڈ نیویارک‘‘ کی داغ بیل ڈالی اور وہ انہی لائنوں پر کئی برسوں سے مصروف عمل ہے۔ اجلاس میں بتایا گیا کہ نیویارک کے مسلمانوں کو شریعہ بورڈ جن شعبوں میں راہنمائی اور معاونت فراہم کرتا ہے ان میں

(۱) دارالافتاء

(۲) دارالقضاء

(۳) اسلامک بینکنگ اینڈ فنانسنگ

(۴) حلال فوڈ اور ذبیحہ کے معاملات

(۵) رؤیت ہلال کے مسائل

(۶) اور نکاح و طلاق اور وراثت و وصیت سے متعلقہ امور شامل ہیں۔

اس کا طریق کار یہ ہے کہ مولانا مفتی روح الامین اور مولانا مفتی محمد نعمان متعینہ اوقات میں شریعہ بورڈ کے دفتر میں موجود ہوتے ہیں، لوگ فون پر رابطہ کر کے اپنے مسائل سے انہیں آگاہ کرتے ہیں، ان میں سے جن کو بلانے کی ضرورت محسوس ہوتی ہے انہیں بلا لیا جاتا ہے جبکہ دوسرے لوگوں کو فون وغیرہ کے ذریعے راہنمائی فراہم کر دی جاتی ہے۔ زیادہ تر مسائل میاں بیوی کے تنازعات اور طلاق وغیرہ سے متعلق ہوتے ہیں، شریعہ بورڈ کی ہر ممکن کوشش ہوتی ہے کہ طلاق تک نوبت نہ پہنچے۔ میاں بیوی کو بلا کر سمجھایا جاتا ہے انہیں شرعی احکام و مسائل سے آگاہ کیا جاتا ہے، صلح کی اہمیت و افادیت بتائی جاتی ہے اور باہمی جھگڑوں کو آپس میں طے کر لینے کی ترغیب دی جاتی ہے۔ اس میں اکثر کامیابی حاصل ہوتی ہے اور بہت سے میاں بیوی عدالتوں میں جانے سے بچ جاتے ہیں۔ بتایا جاتا ہے کہ اس سلسلہ میں اوسطاً سات آٹھ کالیں یومیہ موصول ہوتی ہیں۔

راقم الحروف نے اپنے خطاب میں عرض کیا کہ مولانا مفتی محمد تقی عثمانی صاحب، مولانا مفتی نوال الرحمان صاحب اور دیگر وہ تمام بزرگ مبارکباد اور شکریہ کے مستحق ہیں جن کی توجہ اور کوشش سے اس کار خیر کا آغاز ہوا ہے۔ لیکن میں تحدیث نعمت کے طور پر اس میں اپنے تھوڑے سے حصے کا ذکر بھی کرنا چاہتا ہوں کہ دسمبر ۱۹۹۰ء کے دوران میری شکاگو آمد کے موقع پر مسلم کمیونٹی سنٹر شکاگو کی ایک نشست میں مجھے پاکستان میں ’’نفاذ شریعت کی جدوجہد کا جائزہ‘‘ کے عنوان پر گفتگو کی دعوت دی گئی اور میں نے ۲ دسمبر کو اس نشست میں اپنے خطاب کے دوران اسلامی جمہوریہ پاکستان میں نفاذ شریعت کی مرحلہ وار جدوجہد اور اس کے ثمرات و نتائج پر تفصیل سے گفتگو کی اور اس موقع پر پاکستان کے قومی و دینی حلقوں میں زیربحث ’’شریعت بل‘‘ کا جائزہ پیش کیا۔ اس گفتگو کے آخر میں امریکہ میں مقیم علماء کرام اور دانشوروں سے میں نے گزارش کی کہ میری معلومات کے مطابق امریکہ کے دستور میں اس امر کی گنجائش موجود ہے کہ مسلمان اگر نکاح و طلاق اور دیگر خاندانی امور کے ساتھ ساتھ مالیاتی معاملات میں بھی اپنے تنازعات شریعت اسلامیہ کے مطابق طے کرنے کا کوئی نظام قائم کرنا چاہیں تو وہ ایسا کر سکتے ہیں۔ اصلاً یہ گنجائش امریکہ میں مقیم یہودیوں نے اپنے لیے حاصل کر رکھی ہے اور اس حوالہ سے ان کا باقاعدہ نظام موجود ہے۔ ان کے اس نوعیت کے مقدمات کے فیصلے ان کی اپنی عدالتیں کرتی ہیں اور ان کے فیصلوں کو امریکی عدالتی نظام بھی تسلیم کرتا ہے۔ ظاہر بات ہے کہ جب یہودیوں کو یہ سہولت حاصل ہے تو مسلمانوں کے لیے بھی یہ سہولت امریکی دستور میں موجود ہے اور امریکہ میں مقیم مسلمانوں کو اس سہولت سے ضرور فائدہ اٹھانا چاہیے۔ میں نے اس موقع پر عرض کیا تھا کہ مسلمان علماء کرام اور دانشوروں کو اس کے تمام دستوری اور قانونی امکانات کا سنجیدگی کے ساتھ جائزہ لے کر امریکی دستور کے مطابق سپریم کورٹ سے باقاعدہ طور پر ایک ’’بورڈ آف آربٹریشن‘‘ کی منظوری لینی چاہیے اور مسلمانوں کو ان کے خاندانی اور مالی معاملات میں راہنمائی اور معاونت فراہم کرنے کا اہتمام کرنا چاہیے۔ اس لیے میں سمجھتا ہوں کہ ’’شریعہ بورڈ آف امریکہ‘‘ کا قیام اور پیش رفت مذکورہ بالا بزرگوں کی جدوجہد اور توجہات کا ثمرہ ہونے کے ساتھ ساتھ میرے ایک پرانے خواب کی تعبیر بھی ہے اور آج شریعہ بورڈ نیویارک کے سالانہ اجلاس میں شریک ہو کر مجھے دوہری خوشی ہو رہی ہے۔

میں نے نیویارک کے علماء کرام سے گزارش کی کہ اس سلسلہ میں کسی گبھراہٹ کا شکار ہونے کی ضرورت نہیں ہے اس لیے کہ خاندانی اور مالی معاملات میں شریعت اسلامیہ کے احکام و قوانین کی افادیت و ضرورت پر اب مغربی ممالک میں بھی کھلے بندوں بحث ہونے لگی ہے جیسا کہ برطانیہ میں مسیحیوں کے پروٹسٹنٹ فرقہ کے سربراہ آرچ بشپ آف کنٹربری ڈاکٹر روون ولیمز نے چند ماہ قبل اعلانیہ طور پر یہ کہا ہے کہ برطانیہ میں مقیم لاکھوں مسلمانوں کو اپنے خاندانی اور مالیاتی تنازعات شریعت اسلامیہ کے مطابق طے کرنے کا حق حاصل ہے اور برطانوی عدالتی نظام میں اس کے لیے گنجائش دی جانی چاہیے۔ ان کے اس بیان پر خاصی لے دے ہوئی ہے لیکن انہوں نے اس کا پوری طرح دفاع کیا ہے اور ایک تازہ رپورٹ کے مطابق برطانیہ کے چیف جسٹس نے بھی کہہ دیا ہے کہ مسلمانوں کو اپنے شرعی قوانین پر عمل کا حق ملنا چاہیے۔ اس لیے میں یہ سمجھتا ہوں کہ مغربی ممالک میں مقیم مسلمانوں بالخصوص علماء کرام اور دانشوروں کو اس سلسلہ میں پورے حوصلہ اور اعتماد کے ساتھ پیش رفت کرنی چاہیے اور مغربی ملکوں کے دستوروں اور نظاموں میں جو گنجائش اور سہولتیں موجود ہیں ان سے فائدہ اٹھانے کی بھرپور کوشش کرنی چاہیے۔

میں نے شریعہ بورڈ آف امریکہ کو اپنے اس خطاب میں مشورہ دیا ہے کہ وہ مسلمانوں کے عملی مسائل و مشکلات میں شرعی قوانین کے مطابق ان کی راہنمائی اور معاونت کے ساتھ ساتھ آج کے عالمی تناظر میں اسلامی شریعت اور اس کے احکام و قوانین کے بارے میں ہونے والی فکری و علمی بحث اور کشمکش کو بھی اپنے ایجنڈے میں شامل کرے۔ کیونکہ مسائل کے عملی حل کے ساتھ ساتھ ان کے بارے میں فکری اور نظری اعتماد اور اطمینان کا ماحول قائم کرنا بھی ضروری ہے اس لیے کہ جب تک ذہن و فکر مطمئن نہیں ہوں گے عملی فیصلوں پر اعتماد اور ان پر خوش دلی کے ساتھ عمل کی فضا پیدا نہیں ہوگی۔ اس وجہ سے میں اس بات کو شریعہ بورڈ کی ذمہ داری سمجھتا ہوں کہ وہ اسلامی شریعت کی افادیت و ضرورت اور شرعی احکام و قوانین پر آج کے عالمی فلسفہ و ثقافت کی بنیاد پر کیے جانے والے اعتراضات کی بحث میں شریک ہو اور اس میں مؤثر کردار ادا کرے۔ مسلمانوں اور مغرب کے درمیان اسلامی احکام و قوانین کے حوالہ سے ہونے والی تہذیبی و ثقافتی کشمکش کے فکری اور نظریاتی تناظر کو نظر انداز کر کے کوئی عملی پیش رفت آج کے دور میں مؤثر ثابت نہیں ہوگی اس لیے شریعہ بورڈ آف امریکہ کو اپنے ایجنڈے میں توسیع کر کے اسے بھی اپنے اہداف میں شامل کرنا چاہیے۔

میں نے عرض کیا کہ شریعہ بورڈ کو اس بات کی طرف بھی توجہ دینی چاہیے کہ مسلمانوں کی نئی نسل کا ذریعۂ معلومات یہاں کے تعلیمی ادارے، ٹی وی چینلز، انٹرنیٹ اور ابلاغ کے دیگر جدید ذرائع ہیں۔ اسلام کے خلاف ان مراکز سے ہونے والے مخالفانہ پراپیگنڈے سے نوجوان مسلمان بالخصوص طلبہ اور طالبات کے ذہنوں میں جو شکوک و شبہات جنم لیتے ہیں اور یکطرفہ اعتراضات اور منفی باتوں سے انہیں جو ذہنی اور فکری الجھنیں درپیش ہوتی ہیں اس پر انہیں ڈانٹ ڈپٹ کرنے اور ان پر کوئی فتویٰ صادر کرنے کی بجائے علمی، فکری اور منطقی طور پر مطمئن کرنے اور شکوک و اعتراضات کی دلدل سے انہیں حکمت عملی کے ساتھ باہر لانے کی کوشش کی جائے کیونکہ یہ بھی ہماری دینی ذمہ داریوں میں شامل ہے۔ دعا گو ہوں کہ اللہ رب العزت شریعہ بورڈ آف امریکہ کو ان اہداف و مقاصد کی طرف مؤثر پیش رفت کی توفیق اور اس کے ثمرات و نتائج سے بہرہ ور فرمائیں، آمین یا رب العالمین۔

   
2016ء سے
Flag Counter