چھ سال کے وقفہ کے بعد آج پھر مدینہ منورہ میں ہوں اور جناب سرور کائنات صلی اللہ علیہ وسلم کے روضۂ اطہر پر حاضری کی سعادت حاصل کر چکا ہوں۔ پہلی بار ۱۹۸۴ء میں یہاں حاضری ہوئی تھی اس کے بعد وقتاً فوقتاً اس شرف باریابی سے بہرہ ور ہوتا رہا مگر گزشتہ چند سالوں میں سعودی حکومت کی نئی عمرہ پالیسی کی وجہ سے بریک لگ گئی۔ اور اصل بات تو بلاوے کی ہے، اللہ تعالیٰ اور ان کے آخری رسولؐ کی بارگاہ میں یہ حاضری بلاوے پر ہی ہوتی ہے اور بحمد اللہ یہ بلاوا آگیا۔
گزشتہ ہفتہ اسلام آباد میں پاکستان شریعت کونسل کے اجلاس کے موقع پر ایک دوست کے پوچھنے پر میں نے اپنا پروگرام بتایا اور عرض کیا کہ ۱۳ ستمبر کو جدہ جا رہا ہوں وہاں سے پہلے مدینہ منورہ جاؤں گا اور پھر عمرہ کے لیے مکہ مکرمہ حاضری دوں گا۔ میرا معمول زیادہ تر یہی ہوتا ہے اس پر ایک دوست چونکے اور کہا کہ آپ احرام باندھے بغیر جدہ جائیں گے؟ میں نے عرض کیا کہ ارادہ تو یہی ہے اور معمول بھی یہی ہے۔ انہوں نے احرام کے بغیر میقات عبور کرنے پر اعتراض کیا۔ میں نے گزارش کی کہ اپنے بزرگوں میں سے کسی کے مضمون میں پڑھا تھا کہ اگر پہلے مدینہ منورہ جانے کی نیت ہو تو احرام باندھے بغیر جدہ پہنچنے کی گنجائش ہے۔ انہوں نے حوالہ طلب کیا جو اس وقت میرے ذہن میں نہیں تھا۔ گوجرانوالہ واپس پہنچا تو مدرسہ نصرۃ العلوم کے مہتمم حاجی فیاض خان سواتی سلمہ کا عمرہ کے مسائل پر رسالہ دیکھا جو خاصا معلوماتی ہے، اس میں لکھا ہے کہ احرام کے بغیر میقات عبور کرنے پر دم واجب ہوتا ہے۔ میں نے مصنف سے اس پر بحث کی کہ دم ہے یا صدقہ؟ انہوں نے کہا کہ دم، لیکن اگر احرام کے بغیر میقات عبور کرنے کے بعد عمرہ ادا کیے بغیر میقات کی حدود سے نکل جائے تو یہ دم ساقط ہو جاتا ہے۔ اس پر مجھے اپنے سابقہ معمول پر اطمینان ہو گیا کہ کوئی شخص احرام باندھے بغیر جدہ جا کر وہاں سے مدینہ منورہ چلا جائے تو وہ میقات کی حدود سے نکل جاتا ہے اور مدینہ منورہ سے مکہ مکرمہ جاتے ہوئے ذوالحلیفہ سے احرام باندھ کر عمرہ ادا کر سکتا ہے۔
بہرحال جدہ پہنچا تو میرے ہم زلف قاری محمد اسلم شہزاد اور میرے چھوٹے بھائی قاری عزیز الرحمن خان شاہد ایئر پورٹ پر موجود تھے۔ دونوں جدہ میں رہتے ہیں اور مختلف مساجد میں امامت اور تعلیم قرآن کریم کی خدمات سرانجام دیتے ہیں۔ دونوں کی فیملیاں بھی ساتھ ہیں ان کے بچوں کے ساتھ طویل عرصہ کے بعد ملاقات ہوئی وہ بھی بہت خوش تھے۔ رات کو قاری محمد اسلم شہزاد صاحب نے چند احباب کو کھانے پر بلا رکھا تھا۔ صاحبزادہ قاری عبد الباسط صاحب سے ملاقات ہوئی جو ایک عرصہ سے جدہ میں دینی خدمات میں مصروف ہیں، تحریر اور تقریر کا عمدہ ذوق رکھتے ہیں، درس قرآن کریم کا مستقل حلقہ ہے اور خاصے لوگ ان سے استفادہ کرتے ہیں، جدہ سے شائع ہونے والے اردو روزنامہ ’’اردو نیوز‘‘ میں حضرت مولانا محمد یوسف لدھیانوی شہیدؒ کی طرز پر مستقل کالم کی صورت میں لوگوں کے دینی سوالات کے جوابات تحریر کرتے رہے ہیں جو اب چار جلدوں میں دیوبند سے شائع ہو چکے ہیں اور اکابر علماء کرام نے ان کی تحسین کی ہے۔ ان کے علاوہ قاری محمد رفیق صاحب بھی تشریف لائے وہ ایک عرصہ سے جدہ میں قرآن کریم کی تعلیم و تدریس میں مگن ہیں اور اب ان کے باذوق بیٹے بھی اس کار خیر میں شریک ہیں۔ کھانے میں اور دوست بھی تھے۔ پاکستان کے حالات بطور خاص زیر بحث رہے اور مختلف حوالوں سے یہ حضرات دیر تک سوال و جواب کرتے رہے۔
۱۴ ستمبر کو جدہ سے ’’النقل الجماعی‘‘ کی بس پر مدینہ منورہ پہنچا، جنرل بس اسٹینڈ پر اترتے ہی ایک بنگالی نوجوان نے گھیر لیا اور اس کے ذریعے شارع ستین پر مسجد امیرہ منیرہ کے ساتھ ایک بلڈنگ میں دو دن کے لیے کمرہ لے لیا۔ عشاء کے بعد مسجد نبویؐ میں استاذ محترم قاری محمد انور صاحب مدظلہ سے ملاقات ہوئی، وہ میرے حفظ قرآن کریم کے استاذ ہیں، میں نے ۱۹۶۰ء میں ان سے قرآن کریم حفظ مکمل کیا تھا، وہ کم و بیش بیس سال سے مکہ مکرمہ میں ہیں اور تحفیظ القرآن کے ایک مدرسہ میں پڑھاتے ہیں۔ جب بھی حاضری ہوتی ہے بڑی محبت اور شفقت سے نوازتے ہیں اور میں ان کی دعاؤں سے فیضیاب ہوتا ہوں۔ آج فجر کی نماز کے بعد ایک پرانے پاکستانی عالم دین مولانا محمد الیاس فیصل سے ملاقات ہوئی اور مسجد نبویؐ کے صحن میں کافی دیر تک امت مسلمہ کے مسائل اور موجودہ صورت حال پر ان سے بات چیت ہوتی رہی۔ مسجد نبویؐ کے پرانے آثار اور مدینہ منورہ کے تاریخی مقامات کے بارے میں ان سے خاصی معلومات حاصل ہوئیں۔ مدینہ کی تاریخی مساجد اور مسجد نبویؐ کے گرد حضرات صحابہ کرامؓ کے مکانات کے بارے میں ان کی دو معلوماتی کتابیں شائع ہو چکی ہیں جو انہوں نے مجھے مرحمت فرمائیں۔ اس کے بعد گھر لے گئے وہاں ناشتہ کیا اور گفتگو مسلسل جاری رہی۔
مدینہ منورہ کے تاریخی مقامات کی سیر اس سے قبل متعدد بار کر چکا ہوں اور خاص طور پر ۱۹۸۵ ء میں حج کے لیے حاضری کے موقع پر حضرت مولانا منظور احمد چنیوٹیؒ نے جو سیر کرائی تھی اس کے نقوش ابھی تک ذہن میں تازہ ہیں۔ انہوں نے مجھے سقیفہ بنی ساعدہ کا باغیچہ اور حضرت ابو ایوب انصاریؓ کا مکان بھی دکھایا تھا جو اس وقت تک باقی تھا جہاں جناب نبی اکرمؐ نے ہجرت کے بعد کچھ عرصہ اس میں قیام فرمایا تھا۔ میں نے مولانا محمد الیاس فیصل سے دریافت کیا تو انہوں نے بتایا کہ سقیفہ بنی ساعدہ کا کچھ حصہ تو باغیچہ کی صورت میں اب بھی موجود ہے مگر حضرت ابو ایوب انصاریؓ کا مکان مسجد نبویؐ کی توسیع کی نذر ہو چکا ہے۔ مولانا محمد الیاس فیصل سے زیادہ تر تعلیمی مسائل پر گفتگو ہوئی، وہ پاکستان کے دور دراز کے دیہاتی علاقوں میں دینی تعلیم اور معلومات کی فراہمی میں گہری دلچسپی رکھتے ہیں، مسیحی مشنریوں اور دوسرے باطل مذاہب اور فرقوں کی روز افزوں سرگرمیوں سے پریشان ہیں اور اس سلسلے میں ایک پروگرام کا خاکہ ذہن میں رکھتے ہیں۔ خدا کرے کہ وہ اپنے اس کار خیر کے پروگرام کو بہتر انداز میں شروع کر سکیں اور کامیابی سے ہمکنار ہوں، آمین یا رب العالمین۔
مدینہ منورہ میں جب بھی حاضری ہوتی ہے تبدیلیوں کی کوئی نہ کوئی نئی لہر دکھائی دیتی ہے۔ مسجد نبویؐ کی توسیع کے بعد اس کے اردگرد بڑے بڑے تجارتی مراکز اور ہوٹلوں کی تعمیر کا سلسلہ جاری ہے۔ نیچے مارکیٹیں اور اوپر بڑے بڑے ہوٹل تعمیر ہو رہے ہیں جو ظاہر ہے حجاج اور زائرین کے لیے سہولتوں کا باعث ہوں گے لیکن اس کے ساتھ ساتھ یہ ایک بڑی تجارت بھی ہے جس میں شاہی خاندان کے افراد اور بڑے بڑے تجارتی گروپ آگے بڑھنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ آج ابہا سے ہمارے ایک عزیز شاگرد قاری عبید الرحمان ضیاء اور قاری مہدی حسن کا فون آیا ان کا اصرار ہے کہ ان کے ہاں بھی ضرور حاضری دوں مگر نہ تو شیڈول میں گنجائش ہے اور نہ ہی ویزے میں تحمل ہے۔ وہاں پہلے ایک بار جا چکا ہوں، ہمارے دوستوں اور ساتھیوں کا ایک بڑا حلقہ ہے جو وہاں مختلف مساجد اور مدارس میں قرآن کریم کی تعلیم و تدریس میں مصروف ہیں اور اس طرح پاکستان کے دینی مدارس کا فیض سعودی عرب کے طول و عرض میں پھیلا ہوا ہے، فالحمد للہ علیٰ ذلک۔
میرا پروگرام کل جمعرات کو مدینہ منورہ سے مکہ مکرمہ جانے کا ہے، عمرہ کی ادائیگی کے ساتھ ساتھ جمعۃ المبارک کی نماز مسجد حرام میں ادا کروں گا، مختلف دوستوں سے ملاقات ہو گی، اس کے بعد ہفتہ کا دن جدہ میں گزاروں گا جہاں صاحبزادہ قاری محمد عبد الباسط نے درس قرآن کریم اور قاری محمد رفیق صاحب نے علماء کے ساتھ ایک نشست کا اہتمام کر رکھا ہے، اس کے بعد اتوار کو ان شاء اللہ تعالیٰ لندن روانہ ہو جاؤں گا۔