مولانا فضل الرحمان اور مولانا سمیع الحق نے قومی مسائل پر یکجہتی کا اظہار کر کے ملک بھر کے دینی کارکنوں کے لیے مزید اطمینان کا سامان فراہم کر دیا ہے اور اس سے ۹، ۱۰، ۱۱ اپریل کو پشاور میں منعقد ہونے والی ’’خدمات دارالعلوم دیوبند کانفرنس‘‘ کے لیے دیوبندی جماعتوں اور کارکنوں کے جوش و خروش میں اضافہ ہوا ہے۔
کچھ عرصہ قبل جمعیۃ علماء پاکستان کے نورانی اور نیازی گروپوں میں اتحاد کا اعلان ہوا اور مولانا شاہ احمد نورانی اور مولانا عبد الستار خان نیازی متحدہ جمعیۃ کے پلیٹ فارم پر پھر سے یکجا ہوئے تو سنجیدہ دینی کارکنوں نے اس پر مسرت کا اظہار کرتے ہوئے یہ امید اپنے دلوں میں پھر سے زندہ کر لی تھی کہ ہو سکتا ہے جمعیۃ علماء اسلام میں یہ بھی صورتحال پیدا ہو جائے۔ پھر آزادکشمیر کی سب سے پرانی جماعت آل جموں و کشمیر مسلم کانفرنس کے دو دھڑے متحد ہوئے اور سردار محمد عبد القیوم خان نے سردار سکندر حیات خان کے والد مرحوم کی برسی پر اچانک ان کے ہاں پہنچ کر جس تدبر اور ایثار کا مظاہرہ کیا اس سے مسلم کانفرنس کے دونوں دھڑوں کے اکٹھا ہونے کی راہ ہموار ہوگئی چنانچہ سردار محمد عبد القیوم خان کی قیادت میں پھر سے یہ جماعت متحد ہو چکی ہے۔ آل جموں و کشمیر مسلم کانفرنس اگرچہ خطہ کشمیر میں مسلم لیگ ہی کا دوسرا نام ہے لیکن آزادیٔ کشمیر اور ریاست میں اسلامی قوانین کے نفاذ کے حوالہ سے اس کا کردار پاکستان کی مسلم لیگ سے قدرے مختلف دکھائی دیتا ہے اور اس میں اسلام کے عملی نفاذ سے دلچسپی رکھنے والے کارکنوں کا تناسب زیادہ ہے۔ اس لیے نفاذ اسلام کی جدوجہد کے ایک شعوری کارکن کی حیثیت سے مجھے مسلم کانفرنس کے دولخت ہونے پر دکھ ہوا تھا اور اب متحد ہونے پر اسی طرح خوشی بھی ہوئی ہے۔
اس فضا میں دیوبندی مکتب فکر کے کارکنوں کے لیے یہ بات پریشانی کا باعث بن رہی تھی کہ گزشتہ دنوں مولانا سمیع الحق نے افغانستان پر اقوام متحدہ کی پابندیوں کے خلاف اکوڑہ خٹک میں دینی جماعتوں کی کانفرنس طلب کی تو اس میں مولانا فضل الرحمان نے خود شریک ہونے کی بجائے نمائندہ بھیجنے پر اکتفا کیا تھا اور ان کے قریبی حلقوں نے اس کی توجیہ یہ کی تھی کہ اس مشترکہ اجتماع کے لیے مولانا فضل الرحمان کو براہ راست اعتماد میں نہیں لیا گیا تھا۔ چنانچہ ’’خدمات دیوبند کانفرنس‘‘ کے لیے جب مولانا فضل الرحمان نے عوامی رابطہ مہم کا آغاز کیا تو یہ تاثر عام ہونے لگا تھا اور اس کی ہلکی پھلکی جھلکیاں اخبارات میں بھی دکھائی دینے لگی تھیں کہ شاید اب کی بار مولانا سمیع الحق کی اس کانفرنس میں براہ راست شرکت یقینی نہ رہے مگر مولانا فضل الرحمان مبارکباد کے مستحق ہیں کہ انہوں نے حضرت مولانا امان اللہ خان اور مولانا گل نصیب خان کے ہمراہ خود مولانا سمیع الحق کے گھر جا کر انہیں کانفرنس میں شرکت کی دعوت دی اور اس طرح تمام منفی تاثرات اور خدشات کا خاتمہ کر دیا۔ اس سے صورتحال میں یہ تبدیلی آئی ہے کہ جمعیۃ علماء اسلام (ف) اور جمعیۃ علماء اسلام (س) کے کارکن یکساں جوش و خروش کے ساتھ پشاور کانفرنس میں شرکت کی تیاریاں کر رہے ہیں۔
مولانا فضل الرحمان گزشتہ روز گوجرانوالہ تشریف لائے اور والد محترم حضرت مولانا محمد سرفراز خان صفدر، حضرت مولانا صوفی عبد الحمید سواتی، حضرت مولانا حمید اللہ خان اور راقم الحروف کو کانفرنس میں شرکت کی دعوت دینے کے علاوہ مدرسہ نصرۃ العلوم میں اساتذہ و طلبہ کے اجتماع سے خطاب بھی کیا۔ اس موقع پر میں نے کانفرنس کے سلسلہ میں ان کی مسلسل محنت کا ذکر کرتے ہوئے کہ جس طرح ’’پکے پیریں‘‘ (دل جمعی اور سنجیدگی کے ساتھ) کانفرنس کے لیے تگ و دو کر رہے ہیں اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ وہ اور ان کے رفقاء اس کانفرنس کو دیوبندی مکتب فکر کی تمام جماعتوں اور مراکز کا نمائندہ اور بھرپور اجتماع بنانے میں کامیاب ہو جائیں گے۔ میں نے انہیں مولانا سمیع الحق کے گھر جا کر خود دعوت دینے پر بھی داد دی اور اس پر اطمینان کا اظہار کیا۔
میں تو جے یو پی اور مسلم کانفرنس کے حوالہ سے اس سے اگلی بات بھی عرض کرنا چاہتا تھا مگر وہ اس وقت بڑے خوشگوار موڈ میں تھے اس لیے میں نے منہ بند رکھنا مناسب سمجھا۔ یہ بات میں کچھ عرصہ پہلے تک مختلف مجالس اور مضامین میں عرض کرتا رہا ہوں مگر اس سے میرے یہ دونوں بھائی ناراض ہو جاتے ہیں جبکہ میں ان میں سے کسی کو بھی ناراض نہیں کرنا چاہتا اس لیے اب یہ بات لکھنا اور کہنا چھوڑ دی ہے۔ بہرحال اب تک کی صورتحال میں دو پہلو نمایاں ہیں اور دونوں خوشگوار اور حوصلہ افزا ہیں۔
- ایک یہ کہ مولانا سمیع الحق نے ’’خدمات دارالعلوم دیوبند کانفرنس‘‘ میں شرکت کی دعوت قبول کر لی ہے جس سے کارکنوں کی نچلی سطح پر دھیرے دھیرے رینگنے والی غلط فہمیوں کا خاتمہ ہوگیا ہے۔
- دوسرا یہ کہ مولانا فضل الرحمان نے ’’دفاع افغانستان کونسل‘‘ کے فورم پر افغان کاز کے لیے مشترکہ جدوجہد کے عزم کا اظہار کیا ہے اور پھر دونوں نے یک زبان ہو کر اعلان کیا ہے کہ ان کے درمیان بین الاقوامی مسائل اور نفاذ اسلام کی جدوجہد کے حوالہ سے کوئی اختلاف نہیں اور وہ ان مسائل کے لیے مشترکہ جدوجہد کریں گے۔
اس وقت امارت اسلامی افغانستان کی طالبان حکومت کو ناکام بنانے، پاکستان میں این جی اوز اور ملٹی نیشنل کمپنیوں کے ذریعے قومی معاملات پر بین الاقوامی کنٹرول مسلط کرنے اور دینی قوتوں کو بدنام اور بے اثر کرنے کے لیے عالمی سطح پر جس منصوبے اور ایجنڈے پر تیزی کے ساتھ کام ہو رہا ہے اس کی روک تھام کے لیے ملک کے تمام دینی حلقوں بالخصوص دیوبندی مکتب فکر کی جماعتوں اور اس سے بھی زیادہ جمعیۃ علماء اسلام کے دونوں دھڑوں کے رہنماؤں اور کارکنوں میں زیادہ سے زیادہ یکجہتی، ہم آہنگی اور اشتراک عمل کی ضرورت ہے۔ اور اگر ہم ’’خدمات دیوبند کانفرنس‘‘ کو اس ہم آہنگی اور اشتراک عمل کے اظہار کا ذریعہ بنانے میں کامیاب ہوگئے تو عالمی استعمار کے اس ایجنڈے کو بے اثر کرنے میں بھی ان شاء اللہ العزیز کامیاب رہیں گے۔