۸ دسمبر کو دو روز کے لیے کراچی حاضری کا اتفاق ہوا، مولانا قاری محمد حنیف جالندھری نے ایک سیمینار کے لیے بطور خاص دعوت دی جو ’’عصرِ حاضر کے چیلنج اور ہماری ذمہ داریاں‘‘ کے موضوع پر آواری ٹاورز میں منعقد ہو رہا تھا۔ اس سیمینار کا اہتمام انٹرنیشنل اسلامک سنٹر جوہر ٹاؤن لاہور نے دارالعلم والتحقیق برائے اعلیٰ تعلیم و ٹیکنالوجی کراچی کے تعاون سے کیا۔ یہ سیمینار ۸ اور ۹ دسمبر دو دن جاری رہا۔
انٹرنیشنل اسلامک سنٹر کے نام سے جامعہ خیر المدارس ملتان نے جوہر ٹاؤن لاہور میں ایک ادارہ قائم کیا ہے جس میں دینی و عصری علوم کی معیاری تعلیم کے ساتھ آج کی ضرورت کے مطابق علمی و تحقیقی کام منظم کرنے کا پروگرام ہے۔ اور اس کے لیے مولانا قاری محمد حنیف جالندھری سرکردہ اہل علم و دانش کی مشاورت سے مستقبل کی منصوبہ بندی کر رہے ہیں جبکہ دارالعلم والتحقیق کراچی کے کرتا دھرتا مولانا ڈاکٹر سید عزیز الرحمان ہیں جو ہمارے مخدوم و محترم بزرگ مولانا سید زوار حسین شاہؒ کے پوتے ہیں اور اس نوجوانی میں ان کی علمی استعداد، صلاحیتیں اور جدوجہد دیکھ کر دل کو تسلی ہوتی ہے کہ دینی و علمی جدوجہد کے حوالے سے آنے والا دور مایوسی کا نہیں بلکہ ان شاء اللہ امیدوں کا دور ہوگا۔
مجھے گوجرانوالہ سے ہفتہ کے روز اسباق کے بعد کراچی کے لیے روانہ ہونا تھا اور ابھی روانگی کی تیاری کر رہا تھا کہ فون پر اچانک اطلاع ملی کہ لکھنو سے ہمارے فاضل دوست اور بزرگ مولانا سید سلمان الحسینی الندوی لاہور تشریف لائے ہوئے ہیں اور مخدوم المکرم مولانا سید نفیس شاہ مدظلہ العالی کی خانقاہ سید احمد شہید میں قیام پذیر ہیں۔ مولانا سلمان ندوی ورلڈ اسلاک فورم کے سرپرستوں میں سے ہیں اور علمی و فکری رہنمائی میں ہمیشہ سرگرم رہتے ہیں، مفکر اسلام مولانا سید ابوالحسن علی ندویؒ کے نواسے لگتے ہیں اور علمی دنیا بالخصوص عالمِ عرب میں بڑی خوبی کے ساتھ ندوہ کی نمائندگی کر رہے ہیں۔
والد محترم مولانا محمد سرفراز خان صفدر دامت برکاتہم کے معالج ڈاکٹر فضل الرحمان اور خادم خصوصی حاجی میر محمد لقمان اس روز حج کے لیے روانہ ہو رہے تھے اور لاہور سے کراچی کے لیے ان کی فلائٹ وہی تھی جس پر میں نے سفر کرنا تھا۔ اس لیے اس حسنِ اتفاق سے فائدہ اٹھاتے ہوئے ہم نے لاہور ایئرپورٹ تک اکٹھے جانے کا پروگرام بنا لیا اور پاکستان شریعت کونسل کے مرکزی ناظم مولانا محمد نواز بلوچ کے ساتھ ان کی گاڑی پر ہم لاہور کی طرف روانہ ہوئے۔ راستہ میں ان دوستوں کو میں نے مولانا سید سلمان ندوی کی تشریف آوری کے بارے میں بتایا اور اس خواہش کا اظہار کیا کہ جاتے ہوئے مولانا ندوی سے ملتے جائیں تو وہ بہت خوش ہوئے۔ چنانچہ ہم نے ظہر کی نماز خانقاہ سید احمد شہید لاہور میں ادا کی اور دوپہر کا کھانا مولانا سید سلمان ندوی کے ساتھ کھایا۔ مختلف امور پر باہمی گفتگو ہوئی اور میں نے انہیں الشریعہ اکادمی گوجرانوالہ میں تشریف آوری کی دعوت دی جو انہوں نے قبول فرمائی اور پھر ہم عازم کراچی ہوگئے۔
کراچی جاؤں تو مولانا فداء الرحمان درخواستی کے جامعہ انوار القرآن (آدم ٹاؤن نارتھ کراچی) میں حاضری ضروری ہوتی ہے کہ حضرت مولانا محمد عبد اللہ درخواستیؒ کے ساتھ محبت و عقیدت کی نسبت کے ساتھ ساتھ پاکستان شریعت کونسل کا ہیڈ آفس بھی وہی ہے۔ چنانچہ میں کراچی ایئرپورٹ سے سیدھا وہاں پہنچا تو مولانا عبد الرشید انصاری نے اپنے ماہنامہ ’’نور علیٰ نور‘‘ کے ’’دورۂ تفسیر نمبر‘‘ کی رونمائی کی تقریب کا اہتمام کر رکھا تھا اور مغرب کے بعد سے اس تقریب میں بیانات ہو رہے تھے۔ مولانا عبد الرشید انصاری بہت باذوق بزرگ ہیں، دینی صحافت کے پرانے کھلاڑیوں میں سے ہیں اور ایک دور میں ہفت روزہ خدام الدین لاہور کے مدیر رہے ہیں۔ یہ وہ دور تھا جب لاہور کی صحافتی دنیا میں جمعیۃ علماء اسلام پاکستان کی نمائندگی کرنے والوں میں راقم الحروف کے ساتھ ساتھ مولانا سعید الرحمان علوی، مولانا عبد الرشید انصاری اور مولانا اختر کاشمیری نمایاں ہوتے تھے۔ مولانا عبد الرشید انصاری اپنے اس ذوق کی تسکین کے لیے ہر دور میں کچھ نہ کچھ کرتے آرہے ہیں اور آج کل ’’نور علیٰ نور‘‘ کے نام سے ایک معیاری ماہنامہ شائع کرنے کے علاوہ جامعہ انوار القرآن کراچی کے جریدہ ماہنامہ ’’انوار القرآن‘‘ کی ادارت کے فرائض بھی سرانجام دے رہے ہیں۔ اس تقریب کی صدارت مولانا فداء الرحمان درخواستی نے کی جبکہ ملک کی معروف علمی شخصیت مولانا زرولی خان مدظلہ اور راقم الحروف نے خطاب کیا اور مولانا عبد الرشید انصاری نے اپنے ماہنامہ کے ضخیم ’’دورۂ تفسیر نمبر‘‘ کا تعارف کرایا۔
کراچی حاضری کے اس موقع سے میں نے ایک فائدہ اور بھی اٹھایا کہ وفاق المدارس العربیہ پاکستان کی مجلس عاملہ نے مختلف مضامین کے حوالے سے تخصصات کے نصابات کے بارے میں تجاویز اور سفارشات مرتب کرنے کی ذمہ داری مولانا سید نصیب علی شاہؒ کے سپرد کر رکھی تھی اور انہوں نے اس سلسلہ میں خاصا کام کر لیا تھا مگر ان کی اچانک وفات کے باعث یہ کام ادھورا رہ گیا اور وفاق کی مجلس عاملہ نے اس کی تکمیل میرے ذمہ لگا دی اور یہ ہدایت کی کہ میں یہ کام مولانا مفتی محمد تقی عثمانی اور مولانا منظور احمد مینگل (جامعہ فاروقیہ کراچی) کی رہنمائی اور مشاورت میں مکمل کروں۔ میں نے اس سلسلہ میں ملک کے بیسیوں اداروں سے ان کے نصابات اور تجاویز منگوائی ہیں اور ان کی روشنی میں رپورٹ مرتب کرنے کی تیاری کر رہا ہوں مگر اس کے لیے ضروری تھا کہ ان دونوں بزرگوں کے ساتھ ایک اجتماعی مشاورت کر کے کچھ رہنما خطوط طے کر لوں تاکہ کام اطمینان کے ساتھ آگے بڑھ سکے۔ چنانچہ مولانا مفتی محمد تقی عثمانی مدظلہ کے ساتھ ۹ دسمبر کو صبح دس بجے دارالعلوم کورنگی کراچی میں مشاورت کا اجلاس طے ہوگیا جس میں ہمارے ساتھ مولانا قاری محمد حنیف جالندھری، مولانا منظور احمد مینگل اور مولانا سمیع اللہ بھی شریک تھے۔ ہم نے اس حوالے سے اب تک کی پیش رفت کا جائزہ لیتے ہوئے آئندہ پیش رفت کے خطوط طے کیے۔
دارالعلوم کراچی میں اس سے قبل کئی بار حاضری ہوئی ہے اور ہر بار اس کی مسلسل تعمیری و تعلیمی ترقی دیکھ کر دل سے بے ساختہ اللھم زد فزد کی صدا بلند ہوتی رہی ہے مگر اس بار حاضری میں دو باتیں دیکھ کر دل کو بہت زیادہ خوشی ہوئی۔ ایک دارالعلوم کی نوتعمیر شدہ وسیع اور خوبصورت مسجد ہے جو اس مکمل صورت میں پہلی بار دیکھی ہے اور واقعتاً دارالعلوم جیسے مرکزی ادارے کے شایانِ شان ہے۔ جبکہ دوسری چیز علمِ حدیث پر ہونے والا وہ کام ہے جو نہ صرف دارالعلوم بلکہ ہم سب کے لیے ایک قابل فخر کارنامہ ہوگا۔ مولانا محمد تقی عثمانی کی نگرانی میں حدیثِ نبویؐ کی نوے کے لگ بھگ کتابوں سے احادیث نبویہؐ کے عظیم الشان ذخیرہ کو مکمل تخریج کے ساتھ یکجا مرتب کیا جا رہا ہے اور ان پر آج کے عالمی معیار اور اسلوب کے مطابق نمبر دیے جا رہے ہیں تاکہ کسی بھی حدیث کو اس نمبر کے حوالے سے پوری تخریج اور تحقیق کے ساتھ آسانی سے تلاش کیا جا سکے۔ اس طرح اس وقت دنیا میں میسر احادیث نبویہؐ کا کم و بیش پورا ذخیرہ ایک مجموعہ میں ترتیب کے ساتھ آجائے گا اور اس سے علمِ حدیث کے مدرسین، محققین اور دیگر مستفیدین کے لیے متعلقہ احادیث تک رسائی بہت آسان ہو جائے گی۔ یہ بلاشبہ علمِ حدیث نبویؐ کی بہت قابل قدر خدمت ہے اور میرے لیے سب سے زیادہ خوشی کی بات یہ ہے کہ اس سے آج کی بین الاقوامی تحقیقی اور علمی دنیا میں پاکستان اور علماء دیوبند کی نمائندگی کا گراف بحمد اللہ تعالیٰ بہت بلند بلکہ بلند تر ہو جائے گا۔ مولانا محمد تقی عثمانی نے ہمیں ان فضلاء سے ملایا جو ان کی نگرانی میں یہ کام کر رہے ہیں اور ہم نے انہیں اس علمی خدمت میں مصروف دیکھ کر ’’لیطمئن قلبی‘‘ کا لطف حاصل کیا۔ اس موقع پر دارالعلوم کراچی کے صدر مہتمم مولانا مفتی محمد رفیع عثمانی مدظلہ سے بھی ملاقات ہوئی اور متعدد امور پر باہمی گفتگو ہوئی۔
اس کے بعد جب آواری ہوٹل میں منعقد ہونے والے اس سیمینار میں پہنچا تو دو روزہ سیمینار کی پانچویں نشست جاری تھی جس سے معروف دانشور اور محقق ڈاکٹر محمود احمد غازی خطاب کر رہے تھے جبکہ اس سے قبل کی چار نشستوں سے مولانا قاری محمد حنیف جالندھری، پروفیسر عبد الجبار شاکر، مولانا مفتی منیب الرحمان، مولانا محمد اسماعیل آزاد، مولانا عزیز الرحمان، حافظ محمد نعمان عابد اور دیگر حضرات خطاب کر چکے تھے۔ اور ظہر کے بعد ہونے والی اختتامی نشست میں ’’عصرِ حاضر کے چیلنج اور علماء کی ذمہ داریاں‘‘ کے عنوان پر مجھے معروضات پیش کرنا تھیں۔
ڈاکٹر محمود احمد غازی کا موضوع تھا ’’مکالمہ بین المذاہب: اہداف، مقاصد اور اصول و ضوابط‘‘۔ ڈاکٹر صاحب نے تفصیل کے ساتھ اس پس منظر پر روشنی ڈالی جس میں مغرب کی طرف سے ’’مکالمہ بین المذاہب‘‘ پر مسلسل زور دیا جا رہا ہے اور ان اہداف کی نشاندہی کی جو اس مکالمہ سے مغرب حاصل کرنا چاہتا ہے۔ ڈاکٹر صاحب کا کہنا ہے کہ آج کی دنیا میں اس مکالمہ کی ضرورت سے انکار نہیں کیا جا سکتا مگر اس نام سے پھیلائے جانے والے جال سے بچنا بھی ضروری ہے۔ اس لیے اس بات کی شدت کے ساتھ ضرورت ہے کہ اس مکالمہ کی تحریک کے پس منظر، طریقِ کار اور اہداف سے پوری طرح آگاہی حاصل کی جائے اور مکالمہ کے لیے وہ لوگ آگے آئیں جو اس پر مکمل عبور رکھتے ہوں اور پوری طرح اس کے لیے تیار ہوں بلکہ اس مقصد کے لیے خاص طور پر لوگوں کو تیار کرنے کی ضرورت ہے جو پورے اعتماد کے ساتھ اس موضوع پر بات کر سکیں اور علمی اداروں کو اس طرف توجہ دینی چاہیے۔
راقم الحروف نے اپنے موضوع پر جو گزارشات پیش کیں ان کا خلاصہ یہ ہے کہ ہمیں آج کی عالمی سوسائٹی اور ماحول میں علماء کی ذمہ داریوں کے بارے میں صرف تحقیقات کے حوالے سے نہیں بلکہ ’’ضروریات‘‘ کے عنوان سے گفتگو کرنی چاہیے۔ اور ایک محلہ کی مسجد کے ماحول سے لے کر عالمی انسانی برادری کے وسیع تر دائرے تک پیش آنے والے تمام مراحل کو سامنے رکھتے ہوئے اپنے کردار اور ذمہ داریوں کا جائزہ لینا چاہیے اور اپنی کمزوریوں و کوتاہیوں کی نشاندہی کرتے ہوئے ان کی تلافی کا راستہ اختیار کرنا چاہیے۔
- میرے خیال میں اگر ہم ضروریات کے ان دائروں کا مرحلہ وار ادراک کرتے ہوئے اصلاحِ احوال کی طرف توجہ دیں تو اس کا آغاز ’’اصلاحِ نفس‘‘ سے ہوگا کہ ہم اپنے قلب و ذہن کا جائزہ لیں، نیتوں کو ٹٹولیں اور اپنے اہداف کا تعین کریں۔
- اس کے بعد دوسرا مرحلہ ترجیحات کے تعین کا ہے کہ ہم اپنی نیت کو صحیح کرتے ہوئے اور اس کے مطابق اپنے نفس کو عملی اور اخلاقی طور پر تیار کرتے ہوئے یہ دیکھیں کہ ہم دینی ضروریات کے کونسے شعبے میں اپنی صلاحیتوں اور مواقع کے لحاظ سے زیادہ بہتر کام کر سکتے ہیں۔ اور پوری دیانت داری کے ساتھ اپنے ذوق، استعداد اور مواقع کے حوالے سے خود کو جس شعبہ کے لیے موزوں سمجھتے ہوں اسی کو اپنی تگ و تاز کا مرکز بنائیں اور دوسرے شعبوں میں وقت ضائع کرنے کی بجائے ان شعبوں میں صحیح کام کرنے والوں کے ساتھ بوقت ضرورت تعاون کریں۔
- ترجیحات کے تعین کے بعد تیسرے نمبر پر ہمارے سامنے یہ مرحلہ ہے کہ جس شعبہ اور کام کو ہم نے اپنی جدوجہد کے لیے چنا ہے اس کے لیے ہماری تیاری بھی ہو۔ تیاری سے مراد مطلوبہ استعداد کی فراہمی اور مکمل معلومات حاصل کرنے کے ساتھ ساتھ اس کے علمی اور فکری و عملی تقاضوں سے آگاہی بھی ہے کیونکہ اس کے بغیر آج کے دور میں کوئی کام صحیح رخ پر آگے نہیں بڑھ سکتا۔
- چوتھے درجے میں آج کے اسلوب اور طریق کار کو سمجھنا ضروری ہے کیونکہ عام طور پر ایسا ہو رہا ہے کہ ہم کام تو آج کے دور میں کرنا چاہتے ہیں مگر ہماری زبان، اسلوب اور طریقِ کار ایک صدی پہلے والا ہے جس کی وجہ سے ہم نئی نسل کے ذہنوں تک رسائی حاصل کرنے میں ناکام رہتے ہیں۔ آج کا دور مناظرانہ زبان اور فتویٰ کے لہجے کا نہیں بلکہ مکالمہ، بریفنگ اور لابنگ کا دور ہے۔ ہمیں اس میں مہارت حاصل کرنا ہوگی اور اسی اسلوب میں نئی نسل سے بات کرنا ہوگی۔
- اس کے بعد ایک درجہ ابلاغ اور تبلیغ کے ذرائع کا بھی ہے جنہیں نظرانداز نہیں کیا جا سکتا۔ آج کی دنیا سے بات کرنے کے لیے ہمیں آج کے ذرائع ابلاغ سے استفادہ کرنا ہوگا اور تمام ممکنہ وسائل کو کام میں لانا ہوگا۔
اس سفر میں جامعہ انوار القرآن آدم ٹاؤن کراچی کے شعبہ تخصص فی الفقہ کے استاذ مولانا مفتی حماد اللہ وحید کی فرمائش پر نمازِ فجر کے بعد تخصص کے شرکاء کے ساتھ ’’انسانی حقوق‘‘ کے حوالے سے ایک خصوصی نشست ہوئی جس میں تخصص فی الفقہ کے طلبہ کو انسانی حقوق کے بارے میں اقوام متحدہ کے چارٹر کے پس منظر سے آگاہ کرتے ہوئے انہیں بتایا کہ اس چارٹر کی کون کونسی دفعات اسلامی احکام سے متصادم ہیں اور ان کے حوالے سے ہمیں علمی اور دینی طور پر کس انداز میں کام کرنا چاہیے۔ اور اس طرح کراچی میں دو روز گزار کر میں واپس گوجرانوالہ آگیا۔