صدر جنرل محمد ضیاء الحق نے ایک صدارتی حکم کے ذریعے ۱۹۷۳ء کے آئین سے ۳۳۴ دفعات کے حذف کیے جانے سے متعلق صدارتی آرڈیننس سے قادیانیوں کے متعلقہ دفعہ کو مستثنیٰ قرار دے دیا ہے۔ اور قائم مقام وفاقی وزیر قانون راجہ ظفر الحق نے وفاقی کونسل میں ایک سوال کے جواب میں کہا ہے کہ اس نئے حکم کے ذریعے اس سلسلہ میں پیدا ہونے والے شکوک و شبہات کا ازالہ کر دیا گیا ہے اور اب ۱۹۷۳ء کے آئین کے تحت قادیانی بدستور غیر مسلم رہیں گے۔ مجلس تحفظ ختم نبوت پاکستان کے سربراہ حضرت مولانا خان محمد دامت برکاتہم نے نئے صدارتی حکم پر تبصرہ کرتے ہوئے ایک بیان میں فرمایا ہے کہ مجلس اس سلسلہ میں ماہرینِ آئین و قانون سے مشورہ کر رہی ہے اور اس کے تمام پہلوؤں کا جائزہ لینے کے بعد اپنے ردِ عمل کا اظہار کرے گی۔
اس ضمن میں صحیح ردعمل اور موقف تو وہی ہوگا جس کا اظہار مجلس تحفظ ختم نبوت کی طرف سے غوروفکر کے بعد سامنے آئے گا اس لیے کہ مجلس نے ہی مختلف ادوار میں ملت اسلامیہ کی عملی رہنمائی کی ہے اور اب بھی اس مسئلہ کے حل کے لیے مسلمانوں کے مختلف طبقات کی جدوجہد میں مجلس کے کردار کو کلیدی حیثیت حاصل ہے۔ تاہم نئے صدارتی حکم کے سامنے آنے کے بعد اتنی بات ضرور محسوس ہوتی ہے کہ حکومت نے اس نازک مسئلہ کے بارے میں عوام کے جذبات کا احساس کر لیا ہے اور اسے حل کرنے کی طرف پیش رفت کر کے بالواسطہ ان عناصر و طبقات کے موقف کو تسلیم کر لیا ہے جو اس بات پر مسلسل زور دیتے رہے ہیں کہ ۳۳۴ دفعات کو حذف کرنے کے حکم کے دائرہ میں قادیانیوں سے متعلقہ دفعہ بھی شامل ہوگئی ہے اور اس حکم میں ترمیم کیے بغیر اس مسئلہ کا کوئی حل نہیں ہے۔
اس ضمن میں ہم حکومت سے یہ عرض کرنا چاہیں گے کہ قادیانیوں کے بارے میں آئینی فیصلہ کے تحفظ کے بعد اس کے عملی تقاضوں کی تکمیل کے لیے بھی اقدامات کی ضرورت ہے کیونکہ گزشتہ حکومت نے اس فیصلہ کے قانونی اور عملی تقاضوں کو پورا کرنے سے مسلسل گریز کیا اور آئین کی ان دفعات کو عملاً معطل رکھا۔ جبکہ بد قسمتی سے اس کا تسلسل تا دمِ تحریر قائم ہے جس کا نتیجہ یہ ہے کہ:
- قادیانی امت آئینی فیصلہ کے علی الرغم اپنے لیے بدستور ’’مسلم‘‘ کی اصطلاح استعمال کر رہی ہے۔
- اسلامی اصطلاحات مثلاً مسجد، خلیفۃ المسلمین، ام المؤمنین وغیر ذلک کو قادیانی گروہ بے دھڑک استعمال کر رہا ہے۔
- ملتِ اسلامیہ کے مسلمہ عقائد کے خلاف اور انبیاء کرامؑ و صحابہ کرامؓ کی توہین پر مشتمل قادیانی لٹریچر دھڑادھڑ چھپ رہا ہے۔
- حتیٰ کہ مردم شماری کے کاغذات میں بھی قادیانیوں نے آئینی فیصلہ کی خلاف ورزی کی ہے اور اپنے عمل و کردار سے مسلسل یہ ثابت کرنے میں مصروف ہیں کہ انہیں پاکستانی عوام اور پارلیمنٹ کا قادیانیوں کو غیر مسلم قرار دینے کا فیصلہ کسی بھی لحاظ سے قبول نہیں ہے۔
اس لیے ہم حکومت سے یہ گزارش کریں گے کہ آئینی فیصلہ کے ساتھ ساتھ اس کے منطقی تقاضوں کی تکمیل کے لیے بھی قانونی اقدامات کی ضرورت ہے۔
یہ ظلم کب تک ہوگا؟
گزشتہ ماہ اخبارات کے ذریعے پسرور تھانے کے اہلکاروں کے ’’انسانیت سوز کارنامے‘‘ پڑھنے میں آئے تھے، ابھی پسرور تھانے کے اس واقعہ کی مکمل تحقیقات اور مقدمہ بھی سامنے نہیں آیا کہ تھانہ باغبانپورہ لاہور کے اے ایس آئی کے متعلق تازہ خبر میں بتایا گیا ہے کہ اس نے ایک نوجوان کو گرفتار کر کے غائب کر دیا ہے۔ نوجوان کے والد نے شبہ ظاہر کیا ہے کہ اس کے بیٹے کو قتل کر کے لاش مرحوم عمران کی لاش کی طرح چھپا دی گئی ہے۔
اس قسم کے واقعات مارشل لاء کی موجودگی میں کم ہونے کی بجائے استحکام پکڑتے جا رہے ہیں۔ افسوس تو اس بات کا ہے کہ بہیمانہ سلوک کرنے والے ’’قوم کے محافظ‘‘ آخر کن مراعات کا فائدہ اٹھا کر اپنا دامن بچا لیتے ہیں؟ بعض اوقات قانونی سقم کے باعث عدالتیں بھی ان کھلے مجرموں کے حق میں فیصلہ کرنے پر مجبور ہوتی ہیں، اس کے لیے قانونی اسقام دور کرنا بھی ضروری ہیں۔ عوام کی نظروں میں بدقماش اور ناپسندیدہ افراد کے خلاف قوم کے ان محافظوں کے پاس کوئی اختیارات نہیں ہیں، شاید اس لیے کہ ناپسندیدہ افراد خود بااختیار ہوتے ہیں اور بسا اوقات ان بدقماش با اختیار لوگوں کے ساتھ مل کر ’’محافظ‘‘ بھی شریف شہریوں کو غیر محفوظ صورتحال سے دوچار کرنے کا کوئی لمحہ ہاتھ سے جانے نہیں دیتے۔ درج بالا ہر دو واقعات پولیس کے کرتا دھرتا حضرات کے لیے لمحۂ فکریہ ہیں، اس آئینہ میں اپنے چہرے دیکھ لیں، ہو سکے تو اپنے ماتحتوں کو انسانیت کا سبق سکھائیں اور اگر یہ ناممکن ہو تو اہل لوگوں کے لیے جگہ چھوڑ دیں۔