نظامِ عدل ریگولیشن کا نفاذ ۔ عوامی نیشنل پارٹی کا کریڈٹ

   
۲۵ اپریل ۲۰۰۹ء

میں ۱۴ اپریل کو برطانیہ آیا تھا، ۲۶ اپریل کو سعودی عرب جانے کا ارادہ ہے جہاں سے ان شاء اللہ تعالیٰ یکم مئی کو گوجرانوالہ واپس پہنچ جاؤں گا۔ سوات کے معاہدۂ امن کی قومی اسمبلی سے منظوری، سوات کے ساتھ مالاکنڈ ڈویژن اور ضلع کوہستان میں نظام عدل ریگولیشن کے نفاذ، لال مسجد کے خطیب مولانا عبد العزیز کی رہائی اور ان کے خطبۂ جمعہ، اور بونیر میں طالبان کے ہتھیار ڈالنے کی خبریں میں نے یہیں سنی ہیں۔ اور آج ٹی وی پر وزیراعظم یوسف رضا گیلانی کی کراچی کی وہ پریس کانفرنس بھی دیکھی ہے جس میں انہوں نے فرمایا ہے کہ سوات میں نظامِ عدل ریگولیشن کا نفاذ اس خطہ کے عوام کی خواہش پر امن کے قیام کے لیے کیا گیا ہے، اگر امن قائم رہا تو معاہدہ بھی قائم رہے گا۔ اس کے ساتھ ہی انہوں نے دستور پاکستان کا حوالہ دیتے ہوئے کہا ہے کہ دستور میں اس بات کی ضمانت دی گئی ہے کہ قرآن و سنت کے خلاف کوئی قانون نافذ نہیں ہو سکتا اس لیے ہم وہی کریں گے جو دستور پاکستان کا تقاضا ہوگا۔

ان خبروں کے ساتھ ساتھ سیکولر حلقوں بالخصوص ایم کیو ایم کی طرف سے معاہدۂ امن کے خلاف شدید ردعمل دیکھنے میں آرہا ہے۔ ردعمل کی شدت کے ساتھ ساتھ اس کی سمت بھی واضح کر رہی ہے کہ ملک کے چند حصوں میں شرعی عدالتوں کے قیام پر اضطراب کی لہریں کہاں کہاں سے اٹھ رہی ہیں۔ آج ٹی وی پر ایک مذاکرہ دیکھنے میں آیا جس میں ایم کیو ایم کے ذمہ دار رہنماؤں نے اے این پی کو موردِ الزام ٹھہرایا ہے کہ اس نے باچا خان اور خان عبد الولی خان مرحوم کا راستہ چھوڑ دیا ہے اور وہ اصولی سیاست سے ہٹ گئی ہے۔

میں اس کے بارے میں کچھ عرض کرنا چاہتا ہوں لیکن اس سے پہلے بونیر میں ہتھیار ڈالنے والے اور مزار پیر بابا صاحب کا کنٹرول سرکاری اداروں کے حوالے کرنے والے طالبان کا شکریہ ادا کرنا ضروری سمجھتا ہوں کہ انہوں نے دانشمندی سے کام لیا ہے۔ یہ طالبان حضرت بابا پیر صاحبؒ کے مزار پر قبضہ ہی نہ کرتے تو بہتر تھا بلکہ ہمارا موقف یہ ہے کہ طالبان کے نام پر ملک کے کسی حصے میں شریعت کے نفاذ کے لیے ہتھیار اٹھانا ہی درست طرزعمل نہیں تھا۔ ہم نے ہر موقع پر اسے ملک و قوم بلکہ خود نفاذِ شریعت کی جدوجہد کے لیے نقصان دہ قرار دیا ہے۔ اس لیے ہتھیار اٹھانا درست نہیں تھا لیکن ہتھیار ڈال دینا اور پیر بابا صاحب کے مزار کا قبضہ چھوڑ دینا بہرحال ایک بہتر فیصلہ ہے جس کی تحسین کی جانی چاہیے۔ بالخصوص اس پس منظر میں کہ اس قبضے کی آڑ میں یار لوگوں نے پورے ملک میں فرقہ وارانہ تصادم کی آگ بھڑکانے کی تیاری کر لی تھی۔

ہم سرِدست اے این پی پر ایم کیو ایم کے اس الزام کے بارے میں کچھ عرض کرنا چاہتے ہیں کہ اے این پی نے شرعی عدالتوں کی حمایت کر کے باچاخان مرحوم اور خان عبد الولی خان مرحوم کا راستہ چھوڑ دیا ہے۔ ہمارے خیال میں اے این پی کی قیادت پر یہ الزام ایم کیو ایم کے رہنماؤں کی باچاخان مرحوم اور خان عبد الولی خان مرحوم کے ماضی اور ان کے تاریخی پس منظر سے عدم واقفیت کا نتیجہ ہے۔ ورنہ اگر وہ اس خاندان اور اس کی قیادت میں چلنے والے سرخ پوشوں کے ماضی سے صحیح طور پر آگاہ ہوتے تو وہ یہ الزام عائد کرنے سے پہلے سو بار سوچتے۔ اس لیے ایم کیو ایم کے قائدین کی خدمت میں کچھ تاریخی حقائق پیش کرنے کی جسارت کر رہا ہوں۔

خان عبد الغفار خان مرحوم، جنہیں باچا خان کے نام سے یاد کیا جاتا ہے، برطانوی استعمار سے برصغیر کی آزادی کی تحریک میں ایک بڑا نام ہے اور آزادی کی جدوجہد میں ان کا کردار تاریخ کا ایک مستقل باب ہے۔ انہوں نے آزادی کی جدوجہد کا آغاز تحریک آزادی کے عظیم قائد شیخ الہند مولانا محمود حسن دیوبندیؒ کی رفاقت میں کیا تھا اور وہ اس جنگ آزادی کا حصہ تھے جو جنوبی ایشیا کے اس خطے کو برطانوی استعمار سے آزادی دلانے کے لیے ’’ریشمی رومال‘‘ کے عنوان سے منظم ہوئی تھی اور جس کی منصوبہ بندی میں خلافتِ عثمانیہ، جرمنی اور جاپان بھی شامل تھے۔ یہ تحریک قبل از وقت مخبری کی وجہ سے ناکام ہوگئی تھی لیکن اس کا پورا ریکارڈ منظر عام پر آچکا ہے۔ میں ایم کیو ایم کے قائدین کو اس تاریخی ریکارڈ کے مطالعہ کا مشورہ دوں گا جس سے ان پر جہاں یہ بات واضح ہوگی کہ خان عبد الغفار خان مرحوم دراصل کس کیمپ کے بزرگ تھے وہاں انہیں اس بات کا علم بھی ہو جائے گا کہ جو لوگ آج جنوبی ایشیا پر امریکی استعمار کے تسلط کے خلاف نبرد آزما ہیں یہ انہی لوگوں کی روحانی اولاد ہیں جنہوں نے ایک صدی قبل برطانوی تسلط سے آزادی کے لیے قربانیاں پیش کی تھیں اور بحمد اللہ تاریخ کا یہ تسلسل آج بھی قائم ہے۔

وزیراعظم یوسف رضا گیلانی نے کراچی کی پریس کانفرنس میں دستور کا حوالہ دیا ہے کہ جس میں نہ صرف یہ کہ قرآن و سنت کے منافی کوئی قانون سازی نہ ہونے کی ضمانت دی گئی ہے بلکہ ملک کے تمام مروجہ قوانین کو قران و سنت کے مطابق ڈھالنے کا وعدہ بھی کیا گیا ہے، اور خود ایم کیو ایم سے تعلق رکھنے والے ارکان اسمبلی، وزراء اور گورنر سندھ ڈاکٹر عشرت العباد صاحب نے اسی دستور کے تحت ملک کی وفاداری کا حلف اٹھا رکھا ہے۔ اس دستور میں اسلامی دفعات شامل کرانے میں اے این پی کا بھی، جو اس دور میں این اے پی (نیشنل عوامی پارٹی) کہلاتی تھی، اہم کردار رہا ہے۔ ۱۹۷۳ء میں جب یہ دستور تشکیل دیا جا رہا تھا، صوبہ سرحد اور بلوچستان میں جمعیۃ علماء اسلام اور خان عبد الولی خان کی نیشنل عوامی پارٹی کے درمیان معاہدہ تھا جس کے تحت سرحد میں مولانا مفتی محمودؒ کی قیادت میں جبکہ بلوچستان میں سردار عطاء اللہ خان مینگل کی سربراہی میں کولیشن حکومتیں قائم ہوئی تھیں۔ اس معاہدے کا ایک حصہ یہ بھی تھا کہ نیشنل عوامی پارٹی دستور ساز اسمبلی میں دستور سازی کے دوران اسلامی دفعات اور تقاضوں کے حوالے سے جمعیۃ علماء اسلام کا ساتھ دے گی۔ چنانچہ دونوں پارٹیوں نے ایک دوسرے کے ساتھ اس معاہدے کو وفاداری کے ساتھ نبھایا۔

بلوچستان میں جب سردار عطاء اللہ مینگل کی وزارت کو برطرف کر دیا گیا تو صوبہ سرحد کے وزیراعلیٰ مولانا مفتی محمودؒ نے اس کے خلاف احتجاج کے طور پر استعفیٰ دے دیا۔ اور وفاقی حکومت کی طرف سے استعفیٰ واپس لینے اور وزارت اعلیٰ دوبارہ سنبھالنے کے بار بار اصرار کے باوجود مفتی صاحبؒ استعفیٰ واپس لینے کے لیے تیار نہ ہوئے۔ جبکہ نیشنل عوامی پارٹی کے ارکان اسمبلی نے دستور ساز اسمبلی میں اسلامی دفعات کے حوالے سے جمعیۃ علماء اسلام اور دیگر دینی جماعتوں کے ساتھ مکمل تعاون کیا۔ اس وقت بلوچستان سے قومی اسمبلی میں صرف نیشنل عوامی پارٹی اور جمعیۃ علماء اسلام کی نمائندگی موجود تھی، دوسری کسی جماعت کا وہاں سے قومی اسمبلی میں کوئی رکن منتخب نہیں ہوا تھا۔ اور ان دونوں جماعتوں کے دستور سازی کے عمل سے لاتعلق ہونے کا مطلب یہ تھا کہ ایک صوبہ مکمل طور پر دستور سازی سے باہر ہے جس کی وجہ سے دستور بن ہی نہیں سکتا تھا۔ مولانا مفتی محمودؒ نے حزب اختلاف کی قیادت کرتے ہوئے اس دباؤ کو انتہائی مہارت کے ساتھ استعمال کیا جس سے دستور میں اسلامی دفعات کی شمولیت کی راہ ہموار ہوئی۔ چنانچہ دستور پاکستان میں اسلامی دفعات شامل کرانے میں جتنا حصہ جمعیۃ علماء اسلام اور دسری دینی جماعتوں کا ہے میرے نزدیک اے این پی کا حصہ اس سے کم نہیں ہے۔ اس لیے آج اگر باچا خان اور خان عبد الولی خان کے فرزند جناب اسفند یار ولی کی قیادت میں اے این پی شرعی قوانین کے نفاذ کی بات کر رہی ہے تو یہ ان کے لیے کریڈٹ اور اعزاز کی بات ہے کہ وہ اپنے بزرگوں کی روایات کو زندہ رکھے ہوئے ہیں۔

   
2016ء سے
Flag Counter