وفاق اور صوبوں کے درمیان کشمکش جس انتہا کو چھو رہی ہے اس نے ملک کے ہر باشعور شہری کو اضطراب سے دوچار کر دیا ہے۔ اور نہ صرف ملک کا نظام اس کشمکش کے ہاتھوں تعطل کا شکار ہے بلکہ جمہوری عمل اور ملکی سالمیت کے لیے خطرات کا اظہار بھی اب سنجیدہ زبانوں سے ہو رہا ہے۔ اس افسوسناک کشمکش کا آغاز گزشتہ انتخابات کے بعد اس وقت ہوا جب پیپلز پارٹی کی وفاقی حکومت نے برسرِ اقتدار آتے ہی صوبوں میں برسرِ اقتدار آنے والی مخالف حکومتوں کے خلاف کارروائیوں کا آغاز کر دیا۔ بلوچستان اسمبلی توڑ دی گئی، پنجاب میں آئی جے آئی کی حکومت کی حلف برداری میں رکاوٹیں ڈالنے کی کوشش کی گئی اور وفاقی حکمرانوں نے پنجاب اور بلوچستان کی حکومتوں کے خلاف مسلسل محاذ آرائی کا بازار گرم کر دیا۔ اس کا جواب ان حکومتوں نے بھی اسی زبان میں دیا اور پھر جواب اور جواب در جواب کا سلسلہ اس حد تک دراز ہوتا چلا گیا کہ آج اس کے نتائج کا تصور بھی ملک کے شریف شہریوں کے لیے کربناک ہوگیا ہے۔
محاذ آرائی کے دونوں فریق شاید اپنی اپنی جگہ اس بات پر خوش ہوں کہ وہ ایک دوسرے کے خلاف اپنے داؤ پیچ کامیابی کے ساتھ آزما رہے ہیں لیکن صورتحال کا یہ پہلو غالباً ان میں سے کسی کی نظر میں نہیں ہے کہ ان کا یہ طرزِ عمل سیاست او رجمہوری عمل کے مستقبل کو تاریک کر رہا ہے اور اس پر عوام کے اعتماد کو کمزور کرنے کا باعث بن رہا ہے جس کے نتائج ملکی سالمیت اور قومی وحدت کے لیے خطرناک ہو سکتے ہیں۔ اے کاش کہ حالات کا یہ رخ بھی ان ’’پہلوانوں‘‘ کی نگاہوں کے سامنے آجائے۔