دینی تعلیم کے مختصر کورسز ۔ ضرورت و اہمیت

   
۲۰ جون ۲۰۰۶ء

گزشتہ روز تھوڑی دیر کے لیے فیصل آباد جانا ہوا، ملت ٹاؤن میں واقع جامعہ دارالارشاد والاصلاح میں ’’فہم دین کورس‘‘ کے آغاز کی تقریب تھی۔ مولانا محمد اشرف ہمدانی کا شمار ایک دور میں ملک کے معروف خطباء میں رہا ہے۔ جس دور میں وہ گوجرانوالہ کی جامع مسجد پل لکڑ والا میں خطیب تھے، میرا طالب علمی کا آخری دور تھا۔ اس کے بعد وہ جناح کالونی فیصل آباد کی مرکزی جامع مسجد میں خاصا عرصہ خطیب رہے اور اب ملت ٹاؤن فیصل آباد میں مذکورہ بالا عنوان سے ادارہ قائم کر کے سرگرم عمل ہیں۔ عالمی مجلس تحفظ ختم نبوت کے سرگرم رہنماؤں میں شمار ہوتے ہیں، اب کچھ عرصہ سے صاحب فراش ہیں اور ان کے فرزند مولانا کفایت اللہ ہمدانی جامعہ میں ان کی نیابت و معاونت کر رہے ہیں۔ انہوں نے اسکولوں اور کالجوں میں موسم گرما کی تعطیلات کے دوران چالیس روزہ ’’فہم دین کورس‘‘ کا اہتمام کیا ہے جس کی افتتاحی تقریب میں حاضر ہو کر میں نے جمعرات کو مغرب کے بعد کچھ گزارشات پیش کیں۔

کچھ عرصہ سے مختلف شہروں میں اسکولوں اور کالجوں کی سالانہ تعطیلات سے فائدہ اٹھانے کا خوش آئند رجحان بڑھ رہا ہے اور بہت سے ادارے ان چھٹیوں میں اس طرح کے تعلیمی پروگرام کر رہے ہیں۔ الشریعہ اکادمی گوجرانوالہ میں بھی اکادمی کے ناظم مولانا حافظ محمد یوسف نے اس سال ایک نئے تجربے کا آغاز کیا ہے۔ وہ اسکولوں اور کالجوں کے طلبہ میں درس نظامی کی تعلیم کا خصوصی ذوق رکھتے ہیں اور اس حوالہ سے کچھ نہ کچھ کرتے رہتے ہیں۔ بہت سے طلبہ نے ان کے اس ذوق سے استفادہ کیا ہے اور ایف اے، بی اے کے امتحانات کے ساتھ درس نظامی میں وفاق المدارس کے امتحانات میں بھی نمایاں کامیابی حاصل کی ہے۔ اس سال انہوں نے اڑھائی ماہ کے دورانیہ کی ایک کلاس شروع کی ہے جس کا افتتاح راقم الحروف نے ۱۰ جون کو کیا ہے اور یہ ۲۵ اگست تک جاری رہے گی۔ مولانا حافظ محمد یوسف کا ارادہ ہے کہ وہ اس کلاس کے طلبہ کو اڑھائی ماہ میں وفاق المدارس العربیہ کا درجہ اولیٰ کا پورا نصاب پڑھا دیں گے اور طلباء اس کا باقاعدہ امتحان دے سکیں گے۔ اس کلاس میں انہیں مڈل، میٹرک اور بی اے سطح کے طلبہ میسر آئے ہیں اور انہیں اطمینان ہے کہ وہ ان شاء اللہ آسانی کے ساتھ مقررہ مدت کے دوران اپنا ہدف پورا کر لیں گے۔ اگر ایسا ہو جاتا ہے تو میرے خیال میں یہ ایک نیا انقلابی تجربہ ہوگا اور اس سے ملک بھر کے دینی مدارس کو راستہ ملے گا کہ وہ اپنے معمول کی تعلیمی سرگرمیوں کے ساتھ ساتھ سرکاری اسکولوں اور کالجوں کے طلبہ کو موسم گرما کی تعطیلات میں درس نظامی کا نصاب پڑھا کر اپنے طلبہ اور فضلاء کی تعداد میں معقول اضافہ کر سکتے ہیں۔

۱۷ جون کو گوجرانوالہ شہر میں مجھے اسی طرح کے ایک کورس کے افتتاح کا موقع ملا جو ہمارے پرانے ساتھی مولانا حافظ گلزار احمد آزاد نے مسجد ختم نبوت (ابوبکر ٹاؤن، سیالکوٹ روڈ، گوجرانوالہ) میں ’’فہم قرآن کورس،، کے نام سے شروع کیا ہے اور اس پچیس روزہ کورس میں وہ شرکاء کو قرآن کریم کی تعلیمات کے حوالے سے ضروریات دین کی تعلیم دینے کا ارادہ رکھتے ہیں۔ اس سے ملتا جلتا ایک کورس ضلع نارووال میں ظفروال کے قریب اونچہ کلاں میں مولانا افتخار اللہ شاکر نے شروع کیا ہے جو ۱۵ جون سے شروع ہو کر ۲۹ جون تک جاری رہے گا اور اس کورس کا موضوع قادیانیت، انکار حدیث اور دیگر فتنوں کے خلاف نوجوانوں کو تیار کرنا ہے۔ یہ کورس انہی دنوں میں ہر سال ہوتا ہے اور اس میں مولانا منظور احمد چنیوٹیؒ اور حضرت مولانا سید عبد القادر آزادؒ اہتمام کے ساتھ شریک ہوتے رہے ہیں۔ مجھے بھی کم و بیش ہر سال حاضری کا موقع ملتا ہے اور اس سال میں نے ۲۲ جون جمعرات کو ظہر سے عشاء تک کا وقت کورس کے شرکاء کے ساتھ گزارنے کا وعدہ کیا ہے۔

ما شاء اللہ اس طرح کے کورسز ملک کے مختلف شہروں میں اب بڑی تعداد میں ہونے لگے ہیں اور مختلف مکاتب فکر کے ادارے ان کا انتظام کر رہے ہیں۔ گزشتہ روز میں نے ایک بینر عربی زبان کے ایک کورس کا بھی دیکھا جو ہمارے محترم دوست مولانا محمد بشیر سیالکوٹی کے مرکز کی طرف سے تھا۔ مولانا موصوف مسلکاً اہل حدیث ہیں اور معتدل مزاج بزرگ ہیں اور مشترکہ دینی کاموں میں دلچسپی کے ساتھ شریک ہونے کے علاوہ مسلک کے اظہار و بیان میں بھی اعتدال کا دامن تھامے رہتے ہیں۔ انہیں دیکھ کر مجھے مولانا حکیم عبد الرحیم اشرفؒ یاد آجاتے ہیں جو میرے بزرگ دوستوں میں سے تھے اور ہمیشہ شفقت فرماتے تھے، ساری زندگی ملی مسائل کے لیے جدوجہد میں گزاری، ذاکر و شاغل بزرگ تھے اور وحدت امت کے لیے مسلسل سرگرم عمل رہتے تھے۔ مولانا بشیر سیالکوٹی کو عربی زبان کے فروغ سے بطور خاص دلچسپی ہے اور مختلف سطحوں پر عربی زبان کے مختصر کورسز کراتے رہتے ہیں۔ ان کا مرکز اسلام آباد میں ہے لیکن اس مرکز کے تحت دوسرے شہروں میں بھی کورسز کا اہتمام کرتے ہیں۔

یہ مختصر کورسز عربی زبان کے حوالے سے ہوں، قرآن فہمی کے حوالے سے ہوں، ضروریات دین کی تعلیم کے لیے ہوں یا عقائد کے تحفظ کے نقطۂ نظر سے ہوں، وقت کی اہم ضرورت ہیں اور ان کی طرف دینی اداروں اور مراکز کا بڑھتا ہوا رجحان یقیناً خوش آئند امر ہے۔ لیکن اس کے لیے چند امور کی طرف بروقت توجہ دینا ضروری ہوگیا ہے۔ پہلی بات یہ ہے کہ ان مختصر کورسز میں پڑھایا جانے والا مواد کیا ہے؟ کیونکہ یہ مواد اگر باہمی مشاورت سے طے ہوگا تو اس سلسلہ کی ضروریات کی تکمیل کا ذریعہ ہوگا اور ہم آہنگی کا دائرہ بھی قائم رہے گا۔ لیکن اگر کیف ما اتفق ہر جگہ الگ الگ نصاب زیر تعلیم ہوگا تو ترجیحات میں تفاوت اور اہداف و مقاصد کا تنوع مزید فکری و ذہنی انتشار کا باعث بن سکتا ہے۔ ہمارے خیال میں اس سطح پر جو امور سب سے زیادہ ضروری ہیں انہیں درج ذیل ترتیب کے ساتھ ذکر کیا جا سکتا ہے:

  • قرآن کریم صحیح تلفظ کے ساتھ اور تجوید کے بنیادی قواعد کے مطابق پڑھنا ہر مسلمان کے لیے ضروری ہے اور عوامی سطح پر اس کا اہتمام کم ہوتا ہے۔ اس لیے یہ کوشش کی جائے کہ ان کورسز کے شرکاء کو صحیح تلفظ اور لہجے کے ساتھ قرآن کریم پڑھنے کی اس حد تک مشق کروائی جائے کہ وہ خود محنت کر کے قرآن کریم کی صحیح تلاوت کر سکیں۔
  • نماز کے ضروری احکام و مسائل اور طریقہ و آداب کے علاوہ نماز میں پڑھے جانے والے وظائف، تسبیحات اور دعاؤں کا تلفظ صحیح کرانے کے ساتھ ساتھ ان کا ترجمہ بھی سکھایا جائے۔ تاکہ نماز پڑھتے ہوئے نمازی ذہنی طور پر محسوس کر رہا ہو کہ وہ کیا پڑھ رہا ہے اور کیوں پڑھ رہا ہے؟ اسی طرح زکوٰۃ، روزہ اور حج کے ضروری مسائل سے واقف کرایا جائے۔
  • قرآن کریم کی چند سورتیں و آیات اور ان کے ساتھ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی کچھ احادیث ترجمہ کے ساتھ یاد کرا دی جائیں۔ اور روز مرہ معمولات کے حوالے سے مختصر دعائیں بھی ترجمہ کے ساتھ یاد کرائی جائیں۔
  • معاشرتی زندگی کے مسائل، خاندانی نظام کی اہمیت، باہمی میل جول کے شرعی آداب، چھوٹے بڑے کے حقوق و آداب، اور انسانی حقوق کے اسلامی تصور و احکام سے متعارف کرایا جائے۔
  • حلال و حرام کے مسائل اور ضروری احکام بتائے جائیں۔ اور زندگی کے مختلف شعبوں کے حوالے سے حلال و حرام اور جائز و ناجائز کے احکام و مسائل ذہن نشین کرائے جائیں۔
  • وجود باری تعالیٰ، توحید، رسالت، قیامت، ختم نبوت، حجیت حدیث، مقام صحابہ کرامؓ اور دیگر ضروریات کے حوالے سے عقائد سے روشناس کرایا جائے۔ اور اہل السنۃ والجماعۃ کے متفقہ عقائد مناسب ترتیب کے ساتھ اہتمام سے پڑھائے جائیں۔
  • فکر و تہذیب کی موجودہ عالمی کشمکش سے انہیں آگاہ کیا جائے اور فکری و تہذیبی مسائل کے حوالے سے اہل دین کے موقف اور جدوجہد سے انہیں روشناس کرایا جائے۔

ہمارا خیال ہے کہ اگر موسم گرما کی تعطیلات میں چالیس روزہ یا دو ماہ کے لگ بھگ دورانیہ کے ایسے کورسز کا اہتمام کر کے اسکولوں اور کالجوں کے طلبہ و طالبات کو ان میں شرکت کی ترغیب دی جائے تو ملک بھر میں دینی تعلیم کے فروغ اور دینی ماحول کے استحکام کی فضا قائم ہو سکتی ہے۔ جو اسلام اور اہل دین کے خلاف عالمی میڈیا اور لابیوں کی ہمہ گیر یلغار کے ماحول میں دن بدن زیادہ ضروری ہوتی جا رہی ہے۔ میڈیا اور ذرائع ابلاغ جو کچھ کر رہے ہیں اس کا علاج ہمارے پاس اس کے سوا کوئی نہیں ہے کہ ہم زیادہ سے زیادہ لوگوں کو دین کی تعلیم کے نظام سے وابستہ کر لیں اور معاشرہ میں قرآن و سنت کی تعلیم کو فروغ دینے کی کوشش کریں۔ عام مسلمانوں اور خاص طور پر اسکولوں اور کالجوں کے طلبہ و طالبات میں دینی تعلیم کے فروغ اور مسائل و احکام سے واقفیت کا ذوق بیدار کرنے سے بڑی حد تک اس زہر کا تریاق ہو جائے گا جو عالمی میڈیا اور لابیاں مغربی تہذیب و فلسفہ اور ثقافت کے فروغ کے لیے مسلسل پھیلا رہی ہیں۔

ضروریات دین کی حد تک بنیادی تعلیم تو بہرحال ہر سطح پر ضروری ہے اور اس کے لیے ہر دینی ادارہ اور مرکز کو کوئی نہ کوئی پروگرام ان تعطیلات میں ضرور بنانا چاہیے۔ باقی رہی بات درس نظامی کے پورے کورس کی تعلیم کی تو اگر الشریعہ اکادمی گوجرانوالہ کا ابتدائی تجربہ کامیاب ہو جائے تو یہ بہت خوشی اور پیشرفت کی بات ہوگی اور اس سے مستقبل کے بہت سے وسیع امکانات کا دروازہ کھلے گا۔ البتہ اس موقع پر دینی مدارس کے وفاقوں بالخصوص وفاق المدارس العربیہ پاکستان سے یہ گزارش کرنے کو جی چاہتا ہے کہ وہ ملک بھر میں مختلف موسموں میں اسکولوں اور کالجوں کی سالانہ تعطیلات کے دوران ان کے طلبہ کو کسی نہ کسی درجہ میں دینی تعلیم سے آراستہ کرنے کا کوئی نظم ضرور قائم کریں۔ اور وفاق کی طرف سے دینی مدارس کو ایسے مختصر کورسز کا ٹاسک دیں جن سے عام لوگوں کے دینی تعلیم کے ساتھ تعلق میں اضافہ ہو اور زیادہ سے زیادہ لوگوں کو قرآن و سنت کی تعلیم کے دائرہ میں شامل کیا جا سکے۔ انفرادی طور پر تو یہ رجحان ملک کے مختلف حصوں میں بڑھ ہی رہا ہے لیکن یہی کام اگر وفاق المدارس العربیہ اور دیگر دینی وفاقوں کی سطح پر ہوگا تو اس کی افادیت اور ثمرات میں کئی گنا اضافہ ہوگا اور وفاقوں کی تعلیمی جدوجہد میں یہ اہم پیشرفت ہوگی۔

   
2016ء سے
Flag Counter