چیف جسٹس جناب محمد افتخار چودھری اور دیگر معزز جج صاحبان کی بحالی سے صرف عدلیہ نہیں بلکہ ملک کی قومی تاریخ کے ایک نئے دور کا آغاز ہوا ہے اور اس کے اثرات تادیر محسوس کیے جاتے رہیں گے۔ اس سے جہاں ملک کی جمہوری اور عوامی قوتوں کو حوصلہ ہوا ہے کہ کوئی ڈکٹیٹر کتنا ہی طاقتور کیوں نہ ہو عوامی قوت کے ساتھ اس کے اقدامات کو رد کیا جا سکتا ہے، وہاں ان قوتوں کو بھی جو پاکستان کو کسی نہ کسی آمریت کے ذریعے اپنے جال میں جکڑے رکھنا چاہتی ہیں واضح پیغام ملا ہے کہ پاکستانی عوام کو مناسب قیادت مل جائے تو وہ قومی وحدت، ملکی وقار اور آزادی کے تحفظ کے لیے ہر ممکن قربانی دینے کے لیے تیار ہیں۔
پاکستان کی اصل سیاسی قوت اسٹریٹ پاور ہے، جب بھی عوام نے سڑکوں پر آکر اپنے جذبات کا اظہار کیا ہے اور کسی مقصد کے لیے قربانیاں دی ہیں وہ اپنے مقصد میں کامیاب رہے ہیں۔ یہ الگ بات ہے کہ عوام کی قربانیوں کے ثمرات سمیٹنے کے لیے ہمیشہ دوسری قوتیں آگے آجاتی ہیں اور عوامی تحریکوں کا ایجنڈا دھرے کا دھرا رہ جاتا ہے۔ لیکن یہ بات طے شدہ ہے کہ کسی عوامی تحریک کو اس کے منطقی نتائج تک پہنچنے سے روکنا کبھی کسی کے بس میں نہیں رہا اور حالیہ تحریک میں اس کا پوری طرح اظہار ہوا ہے۔ نوابزادہ نصر اللہ خان مرحوم عوامی تحریکوں کے امام تھے اور ہر دور میں عوام کو بیدار کرنے اور حکمرانوں کے خلاف منظم و متحرک کرنے کے لیے سرگرم عمل رہتے تھے۔ مجھے ان کے ساتھ سالہا سال تک کام کرنے کا موقع ملا ہے، خود مجھے اس بات سے الجھن ہوتی تھی کہ ہر تحریک کا نتیجہ تحریک چلانے والوں کے ہاتھ میں نہیں رہتا بلکہ بالادست قوتیں اسے سمیٹ کر آگے نکل جاتی ہیں۔ ایک بار میں نے نوابزادہ صاحب مرحوم سے عرض کیا کہ آخر ہم کب تک تحریکیں چلاتے رہیں گے اور قربانیاں دے کر دوسروں کے لیے راہ ہموار کرتے رہیں گے؟ نوابزادہ صاحب مرحوم نے کہا کہ یہ اعصابی جنگ ہے، اگر ہم اپنے اعصاب کو مضبوط رکھتے ہوئے مسلسل تحریکیں بپا کرتے رہے تو بالآخر یہ قوتیں تھک جائیں گی اور عوام اپنے مقصد میں کامیاب ہوں گے۔ یہ نوابزادہ مرحوم کا فلسفہ تھا جو معروضی حالات میں سمجھ بھی آتا تھا۔ ایک بار وہ ایک حکومت کے خلاف تحریک منظم کرنے کے لیے تگ و دو کر رہے تھے، ایک پریس کانفرنس میں کسی اخبار نویس نے ان سے سوال کیا کہ کیا اس حکومت کو گرا کر آپ کو کوئی بہتر حکومت آنے کی توقع ہے؟ جواب میں نوابزادہ صاحب نے اپنی مخصوص مسکراہٹ کے ساتھ یہ مصرع پڑھا:
کسی دور میں یہ اسٹریٹ پاور اور تحریکی قوت دینی جماعتوں کے پاس ہوتی تھی، کوئی بھی دینی مطالبہ ہوتا دینی جماعتیں اکٹھی ہوتیں، مشترکہ فورم وجود میں آتا، تحریک کا اعلان ہوتا، عوام سڑکوں پر آتے، کچھ دن ہلا گلا رہتا اور پھر حکومت ان کا مطالبہ منظور کرنے پر مجبور ہو جاتی۔ ۱۹۸۴ء کی تحریک ختم نبوت میں جب پورے ملک سے دینی کارکنوں کو اسلام آباد پہنچنے کی کال دی گئی تو وہ بھی لانگ مارچ ہی کی ایک شکل تھی لیکن اس میں سب کو براہ راست کسی نہ کسی طرح اسلام آباد پہنچنے کے لیے کہا گیا تھا۔ اسلام آباد اور راولپنڈی کی ناکہ بندی ہو چکی تھی بلکہ اردگرد اضلاع سے بھی داڑھی والوں کو اسلام آباد جانے سے روکا جا رہا تھا، راستہ میں جگہ جگہ چیک پوسٹیں تھیں، بسوں کو روک کر داڑھی والوں کو اتار دیا جاتا تھا۔ مجھے یاد ہے کہ گوجرانوالہ سے ہمارے چند ساتھی راولپنڈی کے لیے روانہ ہوئے تو انہیں جہلم سے پہلے ہی بسوں سے اتار دیا گیا، کوئی بس والا انہیں بٹھانے کے لیے تیار نہیں تھا مگر وہ راولپنڈی پہنچنے کا تہیہ کیے ہوئے تھے، ایک بس کے اوپر خالی بوریوں کے بنڈل لدے ہوئے تھے، انہوں نے بس کنڈیکٹر سے سودا کیا کہ انہیں چھت پر لدی بوریوں میں باندھ لیا جائے، وہ تیار ہوگیا اور انہیں بوریوں میں لپیٹ کر چھت پر ڈال دیا۔ اتفاق سے بوریاں مرچوں کی تھیں، راستے میں ان کا برا حال ہوا مگر وہ راولپنڈی پہنچنے میں کامیاب ہوگئے۔ ان میں عالمی مجلس تحفظ ختم نبوت گوجرانوالہ کے ناظم اعلیٰ قاری محمد یوسف عثمانی بھی تھے جن سے ان کے اس سفر کی کیفیات معلوم کی جا سکتی ہیں۔ میں خود ایک دن پہلے راولپنڈی پہنچا تھا مگر راولپنڈی سے اسلام آباد میں داخل ہونے میں کامیاب نہ ہو سکا۔ قدرے حلیہ بدل کر ایک غیر معروف اسٹاپ سے ویگن میں بیٹھا مگر اسلام آباد کی چیک پوسٹ پر مجھے اتار دیا گیا۔ میں نے اپنا تعارف نہیں کرایا تھا ورنہ کل جماعتی مرکزی مجلس عمل تحفظ ختم نبوت کے دیگر متعدد عہدیداروں کی طرح مجھے بھی کسی نہ کسی تھانے میں پہنچا دیا جاتا کیونکہ میں ان دنوں مرکزی مجلس عمل کا سیکرٹری اطلاعات تھا، مگر مجھے ایک عام طالب علم سمجھ کر راستہ میں صرف واپس کر دینے پر اکتفا کیا گیا جبکہ بہت سے بزرگوں نے تھانہ یاترا کی اور وقت گزر جانے پر ان کی گلو خلاصی ہوئی۔
یہ تفصیل بیان کرنے کی غرض یہ ہے کہ یہ اسٹریٹ پاور کسی زمانے میں ہمارے پاس ہوا کرتی تھی اور ہم بڑی مہارت اور کامیابی کے ساتھ اسے استعمال کیا کرتے تھے مگر کچھ عرصہ سے ہم نے پارلیمانی سیاست اور بالائی سطح کی لابنگ کو ہی اپنا واحد ہتھیار سمجھ لیا ہے، اسٹریٹ پاور ہماری مٹھی سے ریت کی طرح پھسلتے پھسلتے غائب ہو چکی ہے حتٰی کہ ہمارے حلقوں میں جب کسی دینی مقصد کے لیے عوامی جدوجہد اور تحریک کی بات کی جاتی ہے تو بات کرنے والوں کو بعض لوگ ایسے دیکھنے لگتے ہیں جیسے وہ کسی دوسری دنیا سے آگئے ہوں اور انہونی باتیں کر رہے ہوں۔
زیادہ دیر نہیں گزری، ہماری جوانی کے دور کی بات ہے کہ ایک تحریک میں جمعیۃ علماء اسلام کے کارکنوں نے سب سے زیادہ گرفتاریاں دیں اور سب سے زیادہ استقامت کا مظاہرہ کیا تو چودھری ظہور الٰہی مرحوم نے خود مجھ سے پوچھا کہ جمعیۃ علماء اسلام کے کارکن اتنے شوق سے جیلوں میں کیوں جاتے ہیں اور اطمینان کے ساتھ وہاں کیسے رہ لیتے ہیں؟ میں نے گزارش کی کہ اس کام کو یہ لوگ عبادت سمجھ کر کرتے ہیں اور اللہ کی بارگاہ سے اس کے صلہ اور جزا کی توقع رکھتے ہیں، یہ بات آپ کو شاید سمجھ میں نہ آئے لیکن یہ بات آپ ضرور سمجھ لیں گے کہ انہیں جیل جانے سے کوئی فرق نہیں پڑتا، عام طور پر غریب کارکن ہوتے ہیں وہ جیسا گھر میں کھاتے ہیں اس سے ملتا جلتا جیل میں مل جاتا ہے، جس طرح کی چٹائیوں پر مدرسوں میں بیٹھتے ہیں اسی طرح کی جیل میں بھی مل جاتی ہیں اور آرام الگ سے ہو جاتا ہے۔ چودھری صاحب میری بات سن کر مسکرائے اور کہا کہ ہاں یہ وجہ بھی ہو سکتی ہے۔ لیکن یہ بات میں آج کے دور میں نہیں کہہ سکتا اور نہ کوئی ماننے کے لیے تیار ہوگا کہ ہمارے معیار زندگی کے پلوں کے نیچے سے اس کے بعد بہت سا پانی بہہ چکا ہے اور ہماری دنیا ہر سطح پر بدلتی جا رہی ہے۔ جس روز وکلاء کا اسلام آباد کی طرف لانگ مارچ تھا میں اپنے کمرے میں اداسی کے عالم میں بیٹھا سوچ رہا تھا کہ ’’قلب مکانی‘‘ شاید اسی کو کہتے ہیں کہ دینی قیادت آرام سے اپنے گھروں میں بیٹھی ہے اور ہزاروں مسلم لیگی کارکن اور وکلاء سڑکوں پر پولیس کا سامنا کرنے کے لیے تیار کھڑے ہیں۔
بہرحال اسے بھی حسرت کا ہی ایک پہلو سمجھ لیں کہ عدلیہ کی بالادستی اور معزول ججوں کی بحالی کی اس تحریک کی کامیابی پر مبارکباد دیتے ہوئے تمہید کے طور پر کچھ کہنے کے لیے ہمارے پاس اس تحریک کے حوالے سے کوئی مواد نہیں ہے اور میں ماضی کی تحریکوں کو یاد کر کے اس خلا کو پر کرنے یا اپنے دل کو تسلی دینے کی کوشش کر رہا ہوں۔ چیف جسٹس جناب محمد افتخار چودھری اور ان کے ساتھ بحال ہونے والے دیگر معزز جج صاحبان مبارکباد کے مستحق ہیں کہ وہ ملک کی عدالتی تاریخ میں ایک نئے دور کے آغاز کا عنوان بنے۔ اس کے ساتھ ہی وکلاء برادری جس نے ایک متحد برادری کے طور پر یہ کیس لڑا ہے، میڈیا جس نے عوامی جذبات کی ہر سطح پر لمحہ بہ لمحہ ترجمانی کی ہے اور میاں محمد نواز شریف، عمران خان، قاضی حسین احمد اور پروفیسر ساجد میر سمیت وہ تمام سیاسی راہنما بھی مبارکباد کے مستحق ہیں جنہوں نے اس تحریک کو سپورٹ کیا ہے اور ایک آمر کی طرف سے عدالت عظمٰی کو زیر کرنے کی کوشش کو بالآخر ناکام بنا دیا ہے۔
ہم معزز جج صاحبان کو ان کے مناصب پر باوقار واپسی پر مبارکباد دیتے ہوئے توقع رکھتے ہیں کہ جن عوام کے جذبات اور توقعات نے ان کی عدالت عظمٰی میں واپسی کی راہ ہموار کی ہے وہ انہیں اپنے مستقبل کے فیصلوں میں ضرور یاد رکھیں گے، اللہ تعالیٰ انہیں اس کی توفیق سے نوازیں، آمین یا رب العالمین۔