میری اس گزارش پر بعض دوستوں کو الجھن ہوتی ہے کہ کسی کے بارے میں یک طرفہ بات نہیں کرنی چاہیے اور اگر کسی فرد یا گروہ کے بارے میں کوئی شکایت یا اعتراض ہو تو اس سے بھی پوچھ لینا چاہیے کہ تمہارا موقف کیا ہے؟ اس کا موقف از خود طے کرنے کی بجائے اس سے دریافت کرنا چاہیے اور اگر وہ کوئی وضاحت پیش کرے تو اسے یکسر مسترد کر دینے کی بجائے اس کا سنجیدگی اور انصاف کے ساتھ جائزہ لینا چاہیے۔ ہمارے ساتھ گزشتہ ڈیڑھ صدی سے یہ معاملہ جاری ہے کہ اکابر علماء دیوبند پر گستاخ رسولؐ ہونے کا الزام مسلسل دہرایا جا رہا ہے۔ عبارات پیش کی جا رہی ہیں اور فتوؤں پر فتوے جاری ہو رہے ہیں۔ مگر اس حوالہ سے خود ان اصحابِ عبارات نے جو تحریری وضاحتیں پیش کی ہیں اور اکابر علماء دیوبند نے متنازعہ مسائل پر جو موقف بیان کیا ہے، اسے قبول نہیں کیا جا رہا اور یہ کہا جا رہا ہے کہ علماء دیوبند کا موقف وہ نہیں ہے جو وہ خود بیان کرتے ہیں، بلکہ وہ ہے جو معترضین نے ان کی عبارات سے سمجھ رکھا ہے۔
اس تناظر میں آج کا ایک اہم مقدمہ قارئین کی خدمت میں پیش کرنا چاہتا ہوں جو رفتہ رفتہ دنیا کا سب سے بڑا مقدمہ بنتا جا رہا ہے، اور وہ ہے اس نوجوان کا مقدمہ جو خود کو مجاہد کہتا ہے لیکن دنیا نے اسے دہشت گردی کا ٹائٹل دے رکھا ہے اور اسے صفحۂ ہستی سے مٹانے کے لیے دنیا میں ہر طرف نہ صرف طاقت کا بے دریغ استعمال ہو رہا ہے بلکہ عالمی سطح پر متحدہ محاذ قائم کر کے یہ عزم ظاہر کیا جا رہا ہے کہ اس کو دنیا میں کہیں بھی زندہ رہنے کا حق نہیں دیا جائے گا۔
آج جی چاہتا ہے کہ اس مجاہد یا دہشت گرد کا مقدمہ خود اس کی زبان میں پیش کروں، خاص طور پر اس لیے بھی کہ اسے اپنی پوزیشن واضح کرنے یا اپنا موقف اور جذبات پیش کرنے کے لیے ابلاغ اور لابنگ کا کوئی فورم میسر نہیں ہے اور میڈیا کے تمام مؤثر ذرائع کے دروازے اس کے لیے شجر ممنوعہ کا درجہ اختیار کر چکے ہیں۔ البتہ یہ وضاحت ضروری سمجھتا ہوں کہ اس موقف سے یا اس میں سے کسی بات سے میرا متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔ میں اپنا موقف متعدد تحریروں میں بیان کر چکا ہوں اور ضرورت محسوس ہونے پر پھر بھی کسی موقع پر بیان کر سکتا ہوں۔ اس لیے آج صرف اس نوجوان کی بات کرنا چاہتا ہوں جو ہتھیار بکف ہے اور اپنے زعم میں اللہ تعالیٰ کے دین کی سربلندی، اسلام کے غلبہ، کفر و طاغوت کے خاتمہ اور قرآن و سنت کی روشنی میں عدل و انصاف کے قیام کے لیے اپنی جان کو ہتھیلی پر رکھے ہوئے دنیا کے مختلف محاذوں پر صف آرا ہے۔ وہ فلسطین میں بھی ہے، عراق و شام میں بھی ہے، افغانستان میں بھی ہے، کشمیر میں بھی ہے، نائجیریا اور صومالیہ میں بھی ہے، شیشان و ترکستان میں بھی ہے، اور فلپائن و اراکان میں بھی ہے۔ اسے مجاہد کی فریاد کا عنوان دیں یا دہشت گرد کا مقدمہ کہہ لیں آپ کی مرضی ہے۔ لیکن اس کی بات ضرور سنیں اور اس پر غور بھی کریں کہ جس صورت حال سے وہ دوچار ہے اس کے اسباب و عوامل کیا ہیں اور وہ کون سے حالات ہیں جنہوں نے اسے اس مقام پر لا کھڑا کیا ہے۔
اس کا کہنا ہے کہ:
- میں ایک مسلمان ہوں اور قرآن و سنت پر ایمان رکھتا ہوں۔ مجھے قرآن و سنت میں بتایا گیا ہے کہ ایک مسلمان معاشرے میں اللہ تعالیٰ اور اس کے آخری رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے احکامات و فرامین کی عملداری قائم ہونی چاہیے اور ایک مسلمان حکومت کو اس کا اہتمام کرنا چاہیے۔ میں قرآن و حدیث کو کسی دینی مدرسہ میں پڑھوں، کالج اور یونیورسٹی میں اس کی سہولت میسر آجائے، یا قرآن و سنت کی تعلیمات تک رسائی کا کوئی اور ذریعہ مل جائے، احکام و قوانین اور نظام کے حوالہ سے قرآن و سنت کی تصریحات میں مجھے کوئی فرق محسوس نہیں ہوتا اور دنیا میں کہیں بھی چلا جاؤں ان کے معنی و مفہوم میں یکسانیت ہی دکھائی دیتی ہے۔ لیکن جب عملاً دیکھتا ہوں تو مجھے یہ عملداری کسی مسلمان معاشرے میں نظر نہیں آتی اور کوئی مسلمان حکومت اس کے لیے تیار دکھائی نہیں دیتی۔ مجھے بتایا جاتا ہے کہ مسلمان حکومتیں اس وجہ سے اس کے لیے تیار نہیں ہیں کہ آج کا عالمی نظام ان کو اس کی اجازت نہیں دیتا۔ اور مروجہ بین الاقوامی سسٹم اور معاہدات میں اس کی گنجائش موجود نہیں ہے۔
- میں یہ منظر دیکھ رہا ہوں کہ دنیا کے ہر ملک میں عوام کو یہ حق دیا گیا ہے کہ ان کی اکثریت اپنے وطن کے لیے جس نظام کو پسند کرے اور جن احکام و قوانین کو نافذ کرنا چاہے، انہیں اس کا حق حاصل ہے۔ لیکن کسی مسلمان ملک کا یہ حق تسلیم نہیں کیا جا رہا کہ اس کے عوام کی اکثریت خود اپنے ملک میں اپنے دین و مذہب کے احکام و قوانین کا نفاذ کر سکے۔ دنیا نے دیکھا ہے کہ الجزائر اور مصر میں عوام کے اکثریتی فیصلوں کو مسترد کر کے ان پر آمریت مسلط کر دی گئی ہے اور پاکستان کے عوام کی اکثریت اپنے منتخب نمائندوں کے ذریعے نفاذ اسلام کا دستوری حق حاصل کرنے کے باوجود اس سے محروم ہے، بلکہ سیکولر عالمی فورمز پاکستانی عوام کے منتخب نمائندوں کے طے کردہ اس دستور کو ختم کرانے کے درپے ہیں۔
- یہ منظر میری آنکھوں کے سامنے ہے کہ دو مسلمان ملکوں انڈونیشیا اور سوڈان کی تقسیم ہوئی ہے اور غیر مسلم مسیحی آبادی کو اکثریتی مسلم آبادی سے الگ کرنے کے لیے اقوام متحدہ کے ذریعہ ریفرنڈم کروا کر ان کی الگ ریاستیں قائم کر دی گئی ہیں، لیکن کشمیر میں اقوام متحدہ کے باضابطہ فیصلہ کے باوجود اس ریفرنڈم سے عمداً گریز کیا جا رہا ہے اور اس سلسلہ میں بین الاقوامی معاہدات اور جنرل اسمبلی کی قراردادیں عالمی استعمار کے سامنے بے بسی کی تصویر بنی ہوئی ہیں۔
- فلسطین میں وہاں کی قدیمی آبادی کے ساتھ جو کچھ ہوا ہے میں اسے نہیں بھول سکتا۔ اسرائیل گزشتہ نصف صدی سے امریکہ اور یورپ کی سرپرستی بلکہ پشت پناہی سے مظلوم فلسطینیوں پر ظلم و ستم کا جو بازار گرم رکھے ہوئے ہے، اس سے عالمی امن کے چودھریوں نے آنکھیں بند کر رکھی ہیں۔ اور خاموشی کے ساتھ یہ انتظار جاری ہے کہ آہستہ آہستہ فلسطینیوں کی قوت مزاحمت بلکہ ان کا وجود بھی ختم ہو جائے تاکہ پورے مشرق وسطیٰ پر اسرائیل کی چودھراہٹ مسلط کرنے اور مسلمانوں کے قبلہ اول مسجد اقصیٰ کے بارے میں عالمی استعمار کے ایجنڈے کو مکمل کرنے کی راہ ہموار ہو۔
- مجھے یہ کہا جا رہا ہے کہ فلسطین ہزاروں سال قبل یہودیوں کا وطن تھا اس لیے اس زمین پر ان کا حق ہے، لیکن کوئی یہ بتانے کے لیے تیار نہیں ہے کہ اندلس پر مسلمانوں نے کئی صدیاں حکومت کی ہے، وہاں ان کا حق کیوں نہیں ہے۔ اور بنگلہ دیش کے پڑوس میں اراکان پر صدیوں مسلمانوں کی حکومت رہی ہے، آج بھی اس پٹی میں مسلم آبادی اکثریت میں ہے، لیکن انہیں وہاں کا باشندہ تسلیم نہیں کیا جا رہا، اور انہیں بے وطن کرنے کے لیے قتل و غارت اور ریاستی دہشت گردی کا عذاب ان پر مسلط کیا گیا ہے، اس پر اقوام متحدہ زبان جمع خرچ سے آگے کیوں نہیں بڑھ رہی؟
- افغانستان میں روسی استعمار کے تسلط کے خلاف جہاد شروع ہوا تو اس میں میری شرکت کو سراہا گیا۔ مجھے مجاہد قرار دیا گیا، میری حمایت و امداد کے لیے پوری دنیا ایک طرف ہوگئی اور مجھے حریت پسند اور فریڈم فائٹر کے خطابات سے نوازا گیا، لیکن میں نے اسی افغانستان میں امریکی فوجوں کی آمد اور تسلط کے خلاف ہتھیار اٹھائے تو مجھے دہشت گرد قرار دے دیا گیا ہے اور میں دنیا کا سب سے بڑا مجرم قرار پا گیا ہوں۔
- مجھے بتایا گیا کہ افغانستان میں روسی افواج کی آمد جارحیت تھی اور اس کے خلاف مسلح مزاحمت جہاد تھا۔ لیکن مشرق وسطیٰ میں، تیل کے چشموں پر اور اسرائیل کے جبر و تشدد کے تحفظ و دفاع میں امریکہ اور اس کے اتحادیوں کی فوجوں کی موجودگی جارحیت کیوں نہیں ہے؟ مجھے اس سوال کا جواب نہیں دیا جا رہا، صرف یہ کہہ دیا جاتا ہے کہ یہ فوجیں اس خطہ کی حکومتوں کی دعوت پر آئی ہیں، جبکہ تاریخ بتاتی ہے کہ افغانستان میں روسی افواج کی آمد بھی اس وقت کے افغان حکمران حفیظ اللہ امین کی باقاعدہ دعوت پر معاہدہ کے تحت ہوئی تھی۔
- مجھے یہ کہا جاتا ہے کہ بین الاقوامی نظام کے خلاف ہتھیار اٹھانا جرم ہے اور یہ بھی کہا جاتا ہے کہ مسلمان ملکوں میں مسلمان حکومتوں کے خلاف ہتھیار اٹھانا جائز نہیں ہے، لیکن اس سوال کا کوئی بھی جواب نہیں دے رہا کہ بین الاقوامی نظام یک طرفہ جارحیت کا سب سے بڑا ہتھیار بن جائے تو پھر بے بس اور مظلوم قوموں کے پاس ہتھیار اٹھانے کے سوا کیا چارۂ کار باقی رہ جاتا ہے؟ اور اس عقدہ کا حل بھی کوئی پیش نہیں کر رہا کہ مسلمان ملکوں میں مسلمان عوام کے منتخب نمائندوں کے جمہوری فیصلوں کو طاقت کے زور پر مسترد کر دیا جائے تو وہ عوام اپنے فیصلوں کی بحالی کے لیے کیا راستہ اختیار کریں؟
- میرا عقیدہ ہے اور صرف میرا عقیدہ نہیں بلکہ مسلمانوں کے تمام فقہی مذاہب کا متفقہ فیصلہ ہے کہ ’’خلافت اسلامیہ‘‘ کا قیام ملت اسلامیہ کا اجتماعی دینی فریضہ ہے، جبکہ عملی صورت حال یہ ہے کہ دنیا کے کسی بھی خطہ میں اسلامی خلافت یا امارت کے قیام کو برداشت نہیں کیا جا رہا۔ بلکہ اوباما اور ٹونی بلیئر جیسے عالمی لیڈر برملا کہتے ہیں کہ وہ مسلمانوں کو خلافت قائم نہیں کرنے دیں گے۔
- میرا مقدمہ سادہ سا ہے کہ:
- مسلمان ممالک میں غیر ملکی مداخلت کا سلسلہ بند کر کے ان کے عوام کو اپنے نظام و قوانین کے بارے میں خود فیصلہ کرنے کا حق دیا جائے اور ان کے اجتماعی فیصلوں کو مسترد کرنے کا مکروہ سلسلہ ختم کیا جائے۔
- عالمی لیڈر اور حکومتیں اسلام اور اسلامی تعلیمات کے خلاف بین الاقوامی معاہدات کی آڑ میں محاذ آرائی ختم کر کے مسلمانوں کے دین اور ثقافت کا احترام کریں اور طاقت کے زور پر مسلم ممالک میں مغربی فلسفہ و تہذیب کو مسلط کرنے سے باز آجائیں۔
- فلسطین، کشمیر، اراکان اور دیگر ایسے مظلوم خطوں کے مسلمانوں کو ان کے مسلمہ حقوق دلوانے کا اہتمام کیا جائے اور منافقت کا سلسلہ ترک کر کے انہیں عملاً انصاف مہیا کیا جائے۔
- عراق اور افغانستان سے غیر ملکی فوجیں واپس بلائی جائیں اور مشرق وسطیٰ کے عوام و ممالک کو آپس میں لڑانے کی مذموم اور شرمناک سازش سے باز رہا جائے۔
- مسلمان حکومتیں مغربی استعمار کی کاسہ لیسی ترک کر کے ملت اسلامیہ کے اجتماعی ضمیر اور جذبات کے مطابق اپنی خود مختاری بحال کریں اور ملی حمیت و غیرت کا مظاہرہ کریں۔
- خلافت اسلامیہ کا قیام ملت اسلامیہ کا اجتماعی دینی فریضہ ہے ور اس وقت پوری امت اس شرعی فریضہ کی تارک اور گنہ گار ہے۔ اس پر توبہ و استغفار کا اہتمام کیا جائے اور خلافت اسلامیہ کے عملی قیام کی طرف موجودہ حالات کی روشنی میں پیش رفت کی جائے۔
مسلمان حکومتیں اور سیاسی قیادتیں اگر اس ایجنڈے پر سنجیدہ ہو جائیں اور عملاً بھی کچھ کریں تو مجھے ہتھیار اٹھانے کی کیا ضرورت ہے؟ لیکن اگر مسلمان حکومتیں بھی کچھ نہ کریں، مسلم ممالک کے عوام کے جمہوری فیصلوں کو بھی قوت کے بل پر سبوتاژ کیا جاتا رہے، اسلام اور اسلامی عقائد و روایات کے خلاف ثقافتی یلغار بھی دن بدن بڑھتی رہے، اور مسلمانوں کی سیاسی قیادتیں بھی ’’اسٹیٹس کو‘‘ پر قناعت کر کے ہاتھ پر ہاتھ دھرے بیٹھی رہیں، تو پھر مجھے بتایا جائے کہ کیا میں بھی اس موقف اور ایجنڈے سے دست بردار ہو جاؤں ؟ ؟ ؟