عراق پر امریکی حملے کا مقصد

   
اپریل ۲۰۰۳ء

امریکہ اور اس کے اتحادیوں نے بالآخر عراق پر حملہ کردیا ہے، تادم تحریر جنگ جاری ہے اور اس میں شدت پیدا ہو رہی ہے، ممکن ہے ان سطور کی اشاعت تک جنگ کا کوئی واضح رخ سامنے آچکا ہو مگر ابھی تک عراقی فوج مختلف محاذوں پر مزاحمت کر رہی ہے اور عراقی حکمرانوں کا کہنا ہے کہ امریکہ اس جنگ میں عراق پر قبضے کا ہدف حاصل نہیں کر پائے گا۔ یہ حملہ دراصل اسی عسکری کاروائی کا تسلسل ہے جس کا آغاز کویت پر عراق کے قبضے کے بعد خلیج عرب میں امریکی اتحاد کی فوجوں کی آمد سے ہوا تھا اور اس وقت ہی یہ بات واضح ہوگئی تھی کہ یہ فوجیں واپس جانے کے لیے نہیں آئیں اور اب امریکہ اس خطہ میں اپنی عسکری موجودگی کو مستقل حیثیت دینے کے لیے اقدامات کرے گا، چنانچہ اس کے بعد سے مسلسل یہ بات سامنے آتی رہی ہے کہ امریکہ نے عراق پر قبضے کا پروگرام بنا لیا ہے اور اس کے لیے تیاریاں جاری ہیں۔ امریکہ نے پہلے یہ بہانہ بنا کر کہ عراق وہ ممنوعہ اسلحہ اور ہتھیار تیار کر رہا ہے جن پر اقوام متحدہ نے پابندی لگا رکھی ہے اور اس سے پڑوسی ممالک کی سالمیت کو خطرہ ہے اس لیے اسے نہتا کرنے کے لیے فوجی کاروائی ضروری ہے، لیکن جب اقوام متحدہ کے معائنہ کاروں کی ٹیم نے عراق کے تفصیلی دورے کے بعد ممنوعہ ہتھیاروں کی تیاری اور موجودگی کی نفی کردی اور اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل میں عراق پر حملے کے لیے امریکی گروپ کی قرار داد کی منظوری مشکل ہوگئی تو امریکہ نے یہ قرارداد واپس لے کر عراق پر حملے کا عنوان بدل دیا اور کہا کہ عراقی عوام کو ایک ظالم اور ڈکٹیٹر حکمران سے نجات دلانے کے لیے امریکہ اور اس کے اتحادی عراق پر عسکری یلغار کر رہے ہیں، حالانکہ صدر صدام حسین گزشتہ ربع صدی سے اسی کیفیت اور لوازمات کے ساتھ عراق کے حکمران چلے آرہے ہیں اور وہ اس دور میں بھی اسی طرح کے حکمران تھے جب خود امریکہ ایران کے خلاف جنگ میں صدر صدام حسین کو مسلسل سپورٹ کر رہا تھا۔ یہی وجہ ہے کہ عالمی رائے عامہ نے امریکہ کے اس دعوے کو قبول کرنے سے انکار کردیا ہے اور عالمی سطح پر اس امریکی دعوے کو مسترد کرتے ہوئے عراق پر امریکی اتحاد کے حملے کی مسلسل مذمت کی جا رہی ہے۔

عراق پر امریکہ کے حملے کا اصل مقصد کیا ہے ؟ ہمارے خیال میں اس کو حملے سے دو ہفتے قبل اسرائیلی وزیر دفاع جنرل موفاذ نے زیادہ واضح انداز میں بیان کردیا تھا۔ روزنامہ نوائے وقت لاہور ۵ مارچ کی خبر کے مطابق جنرل موخاذ نے ایک اسرائیلی اخبار کو انٹرویو دیتے ہوئے کہا تھا کہ کچھ دنوں کے بعد عراق پر ہمارا قبضہ ہوگا۔ جنرل موخاذ نے کہا کہ عراق نے اسرائیل سے دشمنی مول لی تھی، اس کا حشر دنیا دیکھ رہی ہے، جس نے اسرائیل سے دشمنی کی اس کو تباہ کردیا گیا اور اب چند دنوں بعد بغداد پر اسرائیل کا قبضہ ہوگا۔

ہم سمجھتے ہیں کہ جنرل موخاذ کے اس انٹرویو کے بعد اب یہ بات سمجھنے میں کوئی رکاوٹ باقی نہیں رہی کہ امریکہ اور اس کے اتحادی اس جنگ کے ذریعہ تیل کے چشموں پر براہ راست قبضہ اور اسرائیل کی سرحدوں میں صہیونی عزائم کے مطابق مسلسل توسیع کے پروگرام کی تکمیل چاہتے ہیں اور انہوں نے اس سلسلہ میں اپنی عملی کاروائی کے فیصلہ کن مرحلہ کا آغاز کردیا ہے۔سوال یہ ہے کہ جو مسلم ممالک اور خاص طور پر عرب ممالک ابھی تک امریکہ کی دوستی کے فریب کا شکار ہیں اور اس کی دوستی کا بھرم قائم رکھنے کی ناکام کوشش میں اپنے ہزاروں بے گناہ مسلمان بھائیوں کے خون کے ساتھ ساتھ دینی حمیت اور ملی غیرت کی ہی مسلسل قربانی دیتے چلے آرہے ہیں ان کی آنکھیں کب کھلیں گی اور وہ اسلام اور عالم اسلام کے خلاف امریکی استعمار اور صہیونی سازشوں کے بڑھتے ہوئے قدموں کو روکنے کے لیے کسی عملی اقدام کی ضرورت کب محسوس کریں گے ؟ ہماری دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ ہمارے حکمرانوں کو حمیت، حوصلہ اور بصیرت عطا فرمائیں اور عراق سمیت دنیا بھر کے ان مظلوم مسلمانوں کی دستگیری فرمائیں جو صرف اس لیے امریکی استعمار کے مظالم اور جبر و تشدد کا نشانہ بن رہے ہیں کہ ان کے اپنے حکمرانوں اور لیڈروں نے اپنے اقتدار اور عیاشی کی خاطر امریکہ کی چیرہ دستیوں سے آنکھیں بند کر رکھی ہیں۔

   
2016ء سے
Flag Counter