جناب وزیر اعظم! تشدد سے مسئلہ حل نہیں ہوگا

   
۹ اگست ۱۹۷۴ء

وزیراعظم جناب ذوالفقار علی بھٹو نے کوئٹہ میں پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے فرمایا ہے کہ قادیانی مسئلہ کے حل میں تاخیر ملک و قوم کے مفاد میں نہیں ہے اس لیے میں قومی اسمبلی کے ارکان سے کہوں گا کہ وہ سات ستمبر تک اس مسئلہ کا کوئی حل طے کر لیں۔

اس بات سے قطع نظر کہ ۷ ستمبر تک مہلت بھی تاخیر کے زمرے میں آتی ہے یا نہیں، ہمیں بھٹو صاحب کے اس ارشاد سے سو فیصد اتفاق ہے کہ اس مسئلہ کے حل میں تاخیر ملک و قوم کے مفاد میں نہیں ہے۔ اسی لیے مجلس عمل کے راہنما یہ مطالبہ کرتے چلے آرہے ہیں کہ قوم کے دینی و ملی جذبات سے گہری وابستگی رکھنے والا یہ نازک مسئلہ بلا تاخیر عوامی خواہشات کے مطابق حل کر دیا جائے۔ اور ملک و قوم کے اسی مفاد کے پیش نظر مجلس عمل کے قائدین اپنے آئینی و جمہوری مطالبات منوانے کے لیے پر امن جدوجہد جاری رکھے ہوئے ہیں۔

جہاں تک تحریک کو آئین و قانون کے دائرہ میں پرامن طور پر جاری رکھنے کا تعلق ہے، ہم مجلس عمل کے راہنماؤں کو خراج تحسین پیش کیے بغیر نہیں رہ سکتے کہ انہوں نے انتہائی اشتعال انگیز کاروائیوں کے جواب میں صبر و تحمل کا مظاہرہ کیا اور جدوجہد کو تشدد اور لاقانونیت کی راہ پر ڈالنے کی ہر سازش کو ناکام بنا دیا۔ لیکن اب یوں محسوس ہو رہا ہے کہ شاید صبر و تحمل کا یک طرفہ ٹریفک زیادہ دیر تک نہ چل سکے۔ پرامن جدوجہد کے قائدین اور کارکنوں کے خلاف تشدد کے مسلسل واقعات، اور ایک فریق کی طرف سے پے در پے اشتعال انگیز حرکات کا سلسلہ اس قدر وسیع ہو چکا ہے کہ اب مجلس عمل کے راہنماؤں کو شاید سنجیدگی کے ساتھ اس کا نوٹس لینا پڑے۔ صورتحال یہ ہے کہ:

  • ریڈیو، ٹی وی اور پریس سے تحریک کے خلاف مسلسل پروپیگنڈا جاری ہے۔
  • اخبارات پر سنسر لگا کر تحریک کی خبروں کو روک دیا گیا ہے۔
  • مساجد کے اندر مجلس عمل کے پر امن اجتماعات کو بھی قدغنوں کا نشانہ بنایا جا رہا ہے۔
  • علماء کرام، طلبہ اور کارکنوں کی گرفتاریوں کا سلسلہ دن بدن وسیع ہوتا جا رہا ہے۔
  • دفعہ ۱۴۴، ڈی پی آر اور تحفظ امن عامہ کے قوانین کا اندھادھند استعمال جاری ہے۔
  • سرگودھا، اوکاڑہ، شاہ کوٹ، کبیر والا، کھاریاں اور متعدد دیگر مقامات پر پولیس حکام کو تحریک کے کارکنوں پر وحشیانہ تشدد جلتی پر تیل کا کام کر رہا ہے۔
  • مجلس عمل میں شامل دینی و سیاسی جماعتوں اور قائدین کے خلاف وزیراعظم سمیت حکمران پارٹی کے بیشتر اعلیٰ ارکان غیر ذمہ دارانہ تقاریر کر رہے ہیں۔
  • سرگودھا، سانگلہ ہل اور کیمل پور وغیرہ میں مجلس عمل کے ارکان اور راہنماؤں کے مکانات اور اجتماعات میں شیل پھینکے گئے ہیں۔
  • ایک فاشسٹ گروہ تحریک کے کارکنوں کو دھمکی آمیز خطوط لکھ کر صورتحال کو خراب کر رہا ہے۔
  • اوکاڑہ، ترگڑی ضلع گوجرانوالہ، چنیوٹ اور بعض دیگر جگہوں میں مسلمانوں پر قاتلانہ حملے کیے گئے ہیں اور ان کی دکانیں نذر آتش کر دی گئی ہیں۔

ان حالات میں یہ کیسے توقع کی جا سکتی ہے کہ مجلس عمل کے راہنما اس تحریک کے گرد امن و امان کا حصار قائم رکھنے میں زیادہ دیر تک کامیاب رہ سکیں گے؟ اس لیے ہم حکومت سے یہی گزارش کریں گے کہ وہ ملک و قوم کے مفاد کے پیش نظر اس مسئلہ کو کسی تاخیر کے بغیر عوامی امنگوں کے مطابق حل کر دے اور اپنے وسائل اور توانائی کو تحریک کی راہ میں مزاحم بنا کر ملک کے حالات کو بے یقینی کے اندھے غار میں دھکیلنے کی بجائے تمام تر توجہات اس مسئلہ کو حل کرنے میں صرف کر دے، تاکہ یہ مسئلہ جلد حل ہو کر قوم کے اطمینان کا باعث بن سکے۔

   
2016ء سے
Flag Counter