ہفت روزہ ضرب مومن کراچی نے ۲ تا ۸ مئی ۲۰۰۳ء کی اشاعت میں یہ رپورٹ شائع کی ہے کہ امریکہ نے امید کا اظہار کیا ہے کہ وہ پاکستان کی نئی نسل کو ان دینی مدارس میں جانے سے روک سکے گا جہاں سے مجاہدین اپنی تنظیموں میں نوجوانوں کو بھرتی کرتے ہیں۔ یو ایس ایڈ ایجنسی نے پاکستان میں اسکولوں کی تعمیر نو اور تعلیمی نظام کے استحکام کے لیے پانچ سال کا پروگرام ترتیب دیا ہے جس کے تحت ایک ارب ڈالر کی امداد دی جائے گی۔ ذرائع کے مطابق یہ رقم بہترین پرائمری تعلیم، صحت اور تیزی سے بڑھتی ہوئی غربت دور کرنے میں استعمال کی جائے گی۔ ادھر یو ایس ایڈ کے پاکستانی ڈائریکٹر مارک وارڈ نے کہا ہے کہ اس قسم کی سرگرمیوں سے القاعدہ کی طرف رجحان اور جہاد کے لیے بھرتی کے ذرائع کو کم کرنے میں مدد ملے گی۔
اس سے قبل بھی اس نوعیت کی خبریں آچکی ہیں کہ امریکہ نہ صرف پاکستان بلکہ عرب ممالک میں بھی دینی تعلیم کی طرف عام مسلمانوں کے رجحان کو کم کرنے کے لیے خطیر رقم خرچ کرنے پر آمادہ ہے اور اس کے لیے منصوبہ بندی کی جا رہی ہے۔ یہ دراصل امریکی دانشوروں کے اس خیال کا نتیجہ ہے کہ مسلم معاشرہ میں دینی تعلیم کا رجحان صرف غربت کی وجہ سے ہے اور چونکہ لوگوں کو سکول کی تعلیم کے لیے مواقع اور وسائل میسر نہیں آتے اس لیے وہ مجبورًا اپنے بچوں کو دینی مدارس کی طرف بھیج دیتے ہیں جہاں سے جہادی تحریکیں انہیں ورغلا کر دہشت گردی کا خوگر بنا دیتی ہیں۔
ہمارے خیال میں امریکہ اور دیگر مغربی ملکوں کے دانشوروں کا یہ تجزیہ درست نہیں ہے اور انہیں اس میں سخت مغالطہ لگا ہے:
- دینی تعلیم کا عمومی رجحان غربت کی وجہ سے نہیں بلکہ قرآن کریم اور سنت رسولؐ پر عام مسلمانوں کے بے لچک عقیدہ کی وجہ سے ہے اور یہ بات کھلے بندوں مشاہدہ کی جا سکتی ہے کہ جوں جوں دینی تعلیم کی مخالفت میں اضافہ ہو رہا ہے اس سے کہیں زیادہ تناسب کے ساتھ غریب، متوسط اور امیر سب طبقات میں دینی تعلیم کے حصول کا ذوق اور رجحان بڑھتا جا رہا ہے۔
- اسی طرح جہاد کی طرف نوجوانوں کی رغبت کی وجہ بھی وہ نہیں جو امریکی دانشوروں نے سمجھ رکھی ہے بلکہ اس کا اصل سبب مسلمانوں کے خلاف مغربی ممالک کا معاندانہ رویہ ہے جس کے ردعمل میں فطری طور پر مسلمان نوجوانوں میں جہاد کا جذبہ دن بدن شدت پکڑتا جا رہا ہے۔
اس لیے ہمارے خیال میں امریکی دانشوروں اور حکام کو ایک اور ناکام تجربہ میں وقت اور رقم ضائع کرنے کی بجائے صورتحال کا حقیقت پسندانہ جائزہ لینا چاہیے اور دینی تعلیم اور جذبہ جہاد کو بلاوجہ طعن و اعتراض کا ہدف بنانے کی بجائے ان اسباب کو دور کرنے کی کوشش کرنی چاہیے جن کی وجہ سے دینی تعلیم اور جہاد کا رخ خودبخود مغربی حکمرانوں کی طرف مڑ جاتا ہے، اس لیے کہ یہ بات وہ بھی اچھی طرح سمجھتے ہیں کہ اصل اسباب و عوامل کو دور کیے بغیر کسی عمل یا اس کے ردعمل کو کم کرنے کی کوئی کوشش کامیاب نہیں ہوا کرتی۔