حکومت نے الرشید ٹرسٹ اور الاختر ٹرسٹ کو خلاف قانون قرار دے کر ان کی سرگرمیوں پر پابندی لگا دی ہے اور ملک بھر میں ان کے دفاتر سربہ مہر کر دیے ہیں۔ اس اقدام کی وجہ یہ بتائی گئی ہے کہ اقوام متحدہ کی ایک قرار داد کی رو سے یہ ضروری ہوگیا تھا اس لیے یہ کاروائی عمل میں لائی گئی ہے۔
الرشید ٹرسٹ اور الاختر ٹرسٹ ہمارے ملک کی دو بڑی دینی شخصیات حضرت مولانا مفتی رشید احمد لدھیانویؒ اور حضرت مولانا حکیم محمد اخترؒ کے قائم کردہ رفاہی ادارے ہیں جو ایک عرصہ سے معاشرے کے نادار افراد کی کفالت اور معذور و بے سہارا لوگوں کی مدد کے لیے سرگرم عمل ہیں اور ان کی خدمات خصوصاً الرشید ٹرسٹ کی وسیع تر محنت کو نہ صرف عوامی حلقوں میں سراہا جا رہا ہے بلکہ سرکردہ حکومتی شخصیات اور بین الاقوامی ادارے بھی اس کا متعدد بار اعتراف کر چکے ہیں۔ گزشتہ سال آزاد کشمیر اور ہزارہ میں آنے والے زلزلہ کے بعد دیگر دینی رفاہی اداروں کے ساتھ ساتھ الرشید ٹرسٹ اور الاختر ٹرسٹ کی رفاہی جدوجہد اور متاثرین کی بحالی کے لیے ان کی محنت کو ساری دنیا نے کھلی آنکھوں سے دیکھا اور ہر سلیم الفطرت شخص نے اس کی تعریف کی۔ لیکن چونکہ یہ ادارے دین کے حوالہ سے کام کر رہے ہیں اور قرآن و سنت کے احکام و تعلیمات کے دائرہ میں مصروف عمل ہیں اس لیے سیکولر لابیوں، این جی اوز اور بین الاقوامی حلقوں کو ہمیشہ ان کی سرگرمیوں پر اعتراض رہتا ہے اور ہمارے خیال میں اس اعتراض کی سب سے بڑی بنیاد اسلام کا حوالہ ہے اور ان اداروں پر مذہبی چھاپ ہے، اور خاص طور پر ان کا یہ کردار ہے کہ ان کی موجودگی میں رفاہی خدمات کے نام پر پاکستانی معاشرہ میں فحاشی اور لادینیت پھیلانے کی کوشش کرنے والی سیکولر این جی اوز کو اپنے مقاصد میں مطلوبہ کامیابی حاصل نہیں ہو رہی،اس لیے ان کو راستہ سے ہٹانے کے لیے ان پر پابندی کو ضروری سمجھا گیا ہے۔
جہاں تک اقوام متحدہ کا تعلق ہے ہمیں اپنی حکومت کے اس ’’عذرلنگ‘‘ پر تعجب ہو رہا ہے کہ جس اقوام متحدہ کی درجنوں قراردادوں کو اسرائیل اور بھارت نے ردی کی ٹوکری میں پھینک رکھا ہے اور کشمیر کے حوالہ سے اقوام متحدہ کی قراردادوں سے پیچھا چھڑانے کے لیے خود ہماری روشن خیال حکومت راستے تلاش کر رہی ہے، اس اقوام متحدہ کی کسی قرار داد کی بنیاد پر الرشید ٹرسٹ اور الاختر ٹرسٹ جیسے دینی اور عوام دوست اداروں کی سرگرمیوں پر پابندی لگا دی گئی ہے، انا للہ و انا الیہ راجعون۔ ہم حکومت پاکستان کے اس اقدام پر شدید احتجاج کرتے ہوئے مطالبہ کرتے ہیں کہ ان اداروں پر لگائی جانے والی پابندی واپس لی جائے اور انہیں معاشرہ کے غریب، نادار، بے سہارا اور معذور افراد کی کفالت و خدمت کے دینی اور انسانی کام سے روکنے کی پالیسی پر نظرثانی کی جائے۔