یاسر عرفات اور اسرائیل

   
جنوری ۲۰۰۲ء

روزنامہ جنگ لاہور ۱۴ دسمبر ۲۰۰۱ء کی خبر کے مطابق اسرائیل نے فلسطینیوں کے ایک فدائی حملہ میں متعدد اسرائیلیوں کی ہلاکت کے بعد غزہ میں فلسطینی صدر یاسر عرفات کے گھر اور ہیڈکوارٹر پر بمباری کر کے انہیں تباہ کر دیا ہے، اور فلسطین کے ساتھ تعلقات منقطع کرنے کا اعلان کر کے یاسر عرفات کو رملہ میں محصور کر دیا ہے۔ جبکہ جنگ لاہور ۱۵ دسمبر ۲۰۰۱ء کی ایک خبر کے مطابق امریکی صدر جارج ڈبلیو بش نے کہا ہے کہ اگر اسرائیلی وزیر اعظم ایریل شیرون کی جگہ میں ہوتا تو فلسطینیوں کے ساتھ وہی کچھ کرتا جو شیرون کر رہے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ یاسر عرفات ایک کمزور آدمی ہے اور اس کی حکومت جلد ختم ہو جائے گی۔ علاوہ ازیں اقوام متحدہ میں اسرائیل کے خلاف ایک اور قرارداد کو بھی امریکہ نے ویٹو کر دیا ہے جس کے بعد اسرائیل کی ریاستی دہشت گردی اور اس کے نتیجے میں فلسطینیوں کے قتل عام کو روکنے کا اب اور کوئی ذریعہ بظاہر باقی نہیں رہا۔

ہمیں صدر بش کی اس بات سے اتفاق ہے کہ یاسر عرفات ایک کمزور حکمران ہیں اور ان کی حکومت اب زیادہ دن چلتی نظر نہیں آتی۔ لیکن اس کے ساتھ ہم یہ عرض کرنا بھی ضروری سمجھتے ہیں کہ

  • یاسر عرفات کو اس مقام پر پہنچانے والا خود امریکہ ہے، جس نے یاسر عرفات کو اسرائیل کے خلاف فلسطینیوں کی مسلح مزاحمت کی قیادت سے ہٹا کر مذاکرات کی میز پر بٹھایا، اور پھر اسے فریب کارانہ ڈپلومیسی کا شکار کرتے ہوئے اس کمزوری اور بے بسی کے مقام پر پہنچا دیا۔
  • اور وہ عرب ممالک بھی اس کاروائی میں برابر کے شریک ہیں جنہوں نے امریکہ کی خوشنودی حاصل کرنے کے لیے فلسطینیوں کی مزاحمتی جدوجہد کو کمزور کیا، اور یاسر عرفات کو مذاکرات کے سراب کے پیچھے بھاگنے پر مجبور کرنے میں سرگرم کردار ادا کیا۔ یاسر عرفات اور ان کی حکومت کا کیا انجام ہوتا ہے، یہ وقت بتائے گا، مگر ہمیں ان مسلم حکمرانوں پر تعجب ہو رہا ہے جو سب کچھ دیکھتے ہوئے بھی یاسر عرفات بننے کے لیے بے تاب ہیں، اور مزاحمتی تحریکوں کو کمزور کرنے اور سیاسی مذاکرات کا دامِ فریب بچھانے کی امریکی کوششوں کے لیے آلۂ کار بنے ہوئے ہیں۔
   
2016ء سے
Flag Counter