شراب پر پابندی کا بل اور قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی

   
۱۶ مارچ ۲۰۱۹ء

گزشتہ روز قومی اسمبلی کے حوالہ سے ایک افسوسناک خبر قومی اخبارات میں نظر سے گزری کہ قانون سے متعلق قائمہ کمیٹی کے ایک غیر مسلم رکن ڈاکٹر رامیش کمار نے ملک میں شراب پر پابندی کے بارے میں بل پیش کیا جو مسترد کر دیا گیا۔ ڈاکٹر رامیش کمار کا تعلق ہندو مذہب سے ہے اور وہ ایک عرصہ سے شراب پر پابندی کے حوالہ سے مسلسل آواز اٹھاتے چلے رہے ہیں، ان کا کہنا ہے کہ شراب اسلام کی طرح ہندو مذہب میں بھی حرام ہے مگر پاکستان میں غیر مسلموں کے نام پر شراب کی خریدوفروخت کا سلسلہ جاری ہے جو درست نہیں ہے، اسے ختم ہونا چاہیے۔ اس سے قبل بہت سے مسیحی ارکان اسمبلی بالخصوص آنجہانی جوشوا فضل دین بھی یہ بات کہتے رہے ہیں کہ شراب کسی مذہب میں جائز نہیں ہے اس لیے پاکستان میں غیر مسلموں کے نام پر شراب نوشی اور شراب کی خرید و فروخت کی اجازت نہیں ہونی چاہیے۔

حیرت کی بات ہے کہ اسلامی جمہوریہ پاکستان میں غیر مسلم ارکان اسمبلی تو شراب پر پابندی کی بات کرتے ہیں مگر جن مسلمان ارکان اسمبلی نے دستور پاکستان کی وفاداری کا حلف اٹھا رکھا ہے اور قرآن کریم پر ایمان کا دعوٰی رکھتے ہیں وہ شراب پر پابندی کی راہ میں رکاوٹ بنے ہوئے ہیں۔ حالانکہ وہ اچھی طرح جانتے ہیں کہ قرآن کریم نے شراب کو حرام اور نجس قرار دیا ہے اور دستور پاکستان نے ارکان پارلیمنٹ کو قرآن و سنت کی پابندی کی تلقین کر رکھی ہے۔ دراصل ہماری رولنگ کلاس کے تمام طبقات ابھی تک نوآبادیاتی ماحول اور نفسیات کے ہی اسیر چلے آرہے ہیں جو نہ صرف یہ کہ خود اس ماحول سے باہر نکلنے کے لیے تیار نہیں ہیں بلکہ پوری قوم کو اسی حصار میں جکڑے رکھنے کے لیے اپنا پورا زور صرف کر رہے ہیں، جبکہ جدید نوآبادیاتی سسٹم کا عالمی نیٹ ورک اس سلسلہ میں ان کی بھرپور پشت پناہی کر رہا ہے اور نفاذ اسلام کو روکنے کے لیے ہر سطح پر سرگرم عمل ہے۔

قرآن و سنت کے احکام کے بارے میں ہماری رولنگ کلاس کا مزاج اور طرز عمل کیا ہے، اس پر چار عشرے قبل کا ایک واقعہ قارئین کے ذہنوں میں تازہ کرنا چاہوں گا کہ ۱۹۷۲ء میں جب صوبہ سرحد میں جمعیۃ علماء اسلام اور نیشنل عوامی پارٹی نے مخلوط حکومت بنائی اور مولانا مفتی محمودؒ نے صوبائی وزیر اعلٰی کا منصب سنبھالا تو حلف اٹھاتے ہی انہوں نے چند اہم اقدامات کا اعلان کیا جن میں شراب پر پابندی، اردو کو دفتری زبان قرار دینے، اور صوبائی حکومت کے دائرہ اختیار میں تقاوٰی قرضوں پر سود کے خاتمہ کے اقدامات شامل تھے۔ انہوں نے شراب کی تیاری، خرید و فروخت اور اس کے استعمال کو قانوناً جرم قرار دے کر اس پر سزا مقرر کی جس پر ملک کی رولنگ کلاس کے ردعمل کے بارے میں خود مولانا مفتی محمودؒ نے جمعیۃ علماء اسلام کی مرکزی مجلس شورٰی کے ایک اجلاس میں بتایا کہ صوبہ کی حدود میں شراب پر پابندی کے اس حکم کے بعد:

  1. وفاقی حکومت کی طرف سے انہیں خط موصول ہوا کہ اس قانون کے بعد شراب پر ٹیکس کی مد میں صوبائی حکومت کو جو آمدنی ہوتی تھی وہ ختم ہو جائے گی اور بجٹ میں خسارہ ہوگا۔ صوبائی حکومت نے جواب دیا کہ اس خسارے کو پورا کرنے کے لیے ہم مرکز کو زحمت نہیں دیں گے بلکہ اخراجات میں کمی کر کے اسے پورا کر لیں گے۔
  2. مرکز سے دوسرا خط آیا کہ صوبہ میں غیر مسلم بھی بڑی تعداد میں رہتے ہیں ان پر اس قانون کا اطلاق کیسے ہوگا؟ مناسب ہوگا کہ ان کے لیے شراب کی فروخت کی اجازت دی جائے۔ صوبائی حکومت نے جواب دیا کہ غیر مسلموں کو ہم یہ سہولت دے سکتے ہیں کہ ان پر اس قانون کا اطلاق نہ ہو اور انہیں اس جرم میں گرفتار نہ کیا جائے مگر ان کے لیے شراب کی فراہمی اور سپلائی کا کوئی بندوبست ہم نہیں کر سکتے اور نہ ہی ہم اس کے پابند ہیں۔
  3. اس کے بعد وفاق سے تیسرا خط آیا کہ شراب بعض بیماریوں کے علاج کے طور پر استعمال ہوتی ہے اور جان بچانے کے لیے حرام کا استعمال اسلام نے بھی روا رکھا ہے۔ اس پر صوبائی وزیر اعلٰی مولانا مفتی محمودؒ نے صوبائی ہیلتھ سیکرٹری کی سربراہی میں میڈیکل بورڈ قائم کر دیا کہ ایسی بیماریوں کی نشاندہی کی جائے جو جان لیوا ہوں اور شراب کے علاوہ ان کا کوئی متبادل علاج موجود نہ ہو۔ مفتی صاحبؒ کا کہنا تھا کہ قرآن کریم نے ’’اضطرار‘‘ کی حالت میں حرام کے استعمال کی اجازت دی ہے اور ’’اضطرار‘‘ اسے کہتے ہیں کہ جان کا خطرہ ہو اور حرام کے سوا کوئی متبادل علاج موجود نہ ہو۔ انہوں نے بتایا کہ اگر میڈیکل بورڈ ایسی کسی بیماری کی نشاندہی کر دیتا تو وہ اس کے لیے شراب کے استعمال کو قانون سے مستثنٰی کرنے کے لیے تیار تھے مگر میڈیکل بورڈ نے رپورٹ دی کہ ایسی کوئی بیماری دنیا میں موجود نہیں ہے جو جان لیوا ہو اور شراب کے علاوہ اس کا کوئی متبادل علاج نہ ہو سکتا ہو۔ مفتی صاحب مرحوم نے بتایا کہ انہوں نے میڈیکل بورڈ کی وہ رپورٹ وفاقی حکومت کے مذکورہ تیسرے خط کے جواب میں بھجوا دی۔

اس سے اندازہ کیا جا سکتا ہے کہ شرعی احکام و قوانین کے حوالہ سے ہماری رولنگ کلاس کا مزاج اور نفسیات کیا ہیں، اس لیے اصل ضرورت رولنگ کلاس کے نوآبادیاتی مزاج کو بدلنے کی ہے اس کے بغیر کسی بھی حوالہ سے ملکی نظام میں اصلاح کی کوئی کوشش کامیاب ہوتی دکھائی نہیں دیتی۔

   
2016ء سے
Flag Counter