نیویارک سے اردو میں شائع ہونے والے جریدہ ہفت روزہ ’’ایشیا ٹربیون‘‘ کے ۲۴ نومبر کے شمارہ میں خبر شائع ہوئی ہے کہ:
’’سوئیٹزرلینڈ میں مساجد اور ان کے میناروں کے خلاف مہم چلانے والے معروف سیاستدان نے قبول اسلام کے بعد اب سوئیٹزرلینڈ میں یورپ کی سب سے بڑی مسجد بنانے کا اعلان کر دیا ہے جس کے مینار سوئیٹزرلینڈ میں واقع کسی بھی مسجد سے بلند ہوں گے۔ سوئس پیپلز پارٹی ایس وی پی سے وابستہ ڈینئیل اسٹریج کی جانب سے قبول اسلام پر مقامی تنظیموں نے تحفظات کا اظہار کیا تھا لیکن غیر مسلم ماہرین کا اس موقع پر خیال تھا کہ چند ماہ بعد اسٹریج خودبخود خاموش ہو جائے گا اور اس کی جانب سے محض برائے نام اسلام قبول کرنے کی حد تک اس پر عمل کیا جائے گا۔ لیکن حال ہی میں اسٹریج کی جانب سے یورپ کی سب سے بڑی مسجد کی تعمیر کے لیے جگہ کی تلاش کے اعلان نے حکومتی و غیر حکومتی حلقوں میں ایک بار پھر کھلبلی مچا دی ہے۔
مقامی مسلمان حلقوں کی جانب سے ڈینیئل کے اس اعلان کو اسلام کی سر بلندی اور سوئیٹزرلینڈ میں اس کی فتح قرار دیا جا رہا ہے جبکہ اسلام مخالفین حلقے ڈینئیل کو اس اقدام سے باز رکھنے کے لیے تراکیب لڑانے میں مصروف ہیں۔ اسلامی دنیا اور مسلمانوں کے حوالہ سے خبریں ارسال کرنے والی عرب ویب سائٹ ’’اسلام آن لائن‘‘ کا مقامی ذرائع کے حوالے سے کہنا ہے کہ ڈینئیل اور اس کے ساتھ کام کرنے والی دیگر مسلمان تنظیموں کی جانب سے اگلے چند روز میں مذکورہ مسجد کے مقام کا تعین کیا جائے گا جس کے بعد جلد ہی اس کے دیگر لوازمات پورے کرتے ہوئے اس کا تعمیری کام شروع کر دیا جائے گا۔
واضح رہے کہ اس وقت پورے سوئٹزرلینڈ میں صرف چار مساجد ہیں جبکہ ڈینیئل کی جانب سے پانچویں مرکزی مسجد کا سنگ بنیاد رکھنے کے حوالے سے کام شروع کیا جا رہا ہے۔سوئٹزرلینڈ کے مسلمان حلقوں کے مطابق اسٹریج کا کہنا ہے کہ جب اس کی جانب سے دو سال قبل مساجد اور ان کے میناروں کے خلاف مہم کا آغاز کیا گیا تھا تو وہ اس وقت بھی اپنے دل میں کچھ عجیب سا محسوس کرتے تھے لیکن اپنے ساتھیوں اور پارٹی کے دباؤ کے باعث وہ اس مہم کو چلانے پر مجبور تھے۔‘‘
اگر مذکورہ اخبار ’’ایشیا ٹربیون‘‘ کی یہ رپورٹ اپنی تفصیلات کے ساتھ صحیح ہے تو یہ بلاشبہ آج کے دور میں اسلام کی صداقت اور مسجد کی عظمت کے اظہار کی ایک واضح صورت ہے جو مسلمانوں کے لیے یقیناً حوصلہ افزا اور ایمان افروز ہے لیکن اس کے ساتھ ساتھ اہل کفر کے لیے بھی دعوتِ فکر ہے کہ اگر وہ وجدان اور فطرت سے کلیۃً محروم نہیں ہو چکے تو مسجد اور اس میں ہونے والی عبادات کی وساطت سے وہ بھی اپنے دل کا رشتہ فطرت کی حقیقی تعلیمات کے ساتھ جوڑ سکتے ہیں۔
دارالعلوم نیویارک میں حاضری
راقم الحروف ابھی رمضان المبارک میں امریکہ کے تبلیغی، تعلیمی اور مطالعاتی دورہ سے واپس آیا تھا مگر دار العلوم نیویارک کے احباب مولانا محمد یامین، بھائی برکت اللہ اور مولانا حافظ اعجاز احمد کا اصرار تھا کہ میں عیدالاضحی کی تعطیلات بھی ان کے ساتھ گزاروں۔ چنانچہ جامعہ نصرۃ العلوم کی جامع مسجد نور میں عید الاضحی کی نماز پڑھانے کے فوراً بعد (جامعہ کے مہتمم صاحب حج پر گئے ہوئے تھے) میں نیویارک روانہ ہو کر وہاں دس دن کے قیام کے بعد ۲۱ نومبر کو دوبارہ اسباق شروع ہونے کے موقع پر واپس پہنچ گیا ہوں۔ دار العلوم نیویارک کی مسلسل ترقی دیکھ کر بے حد خوشی ہوئی کہ اس وقت وہاں حفظ و ناظرہ کی نو کلاسوں میں ایک سو کے لگ بھگ، اور درس نظامی میں موقوف علیہ تک کے تین درجات میں بھی ایک سو کے لگ بھگ طالب علم تعلیم حاصل کرنے میں مصروف ہیں، کرائے کی بلڈنگ میں مسلسل چودہ سال تک کام کرنے کے بعد اب دار العلوم نے ایک بڑی بلڈنگ خرید لی ہے جہاں اگلے سال سے درس نظامی کے شعبہ کو منتقل کر دیا جائے گا۔ اس کے علاوہ نیویارک کے چار اور علاقوں میں بھی دارالعلوم کی شاخیں کام کر رہی ہیں۔ نیویارک جیسے شہر میں یہ تعلیمی کام بہت حوصلہ بخش اور مسرت افزا ہے جس میں جامعہ نصرۃ العلوم کا بھی حصہ ہے کہ مولانا حافظ اعجاز احمد کا تعلق گوجرانوالہ سے ہے اور نصرۃ العلوم کے فیض یافتہ ہیں، اللہ تعالیٰ نظر بد سے محفوظ رکھیں اور مسلسل ترقیات و ثمرات سے نوازیں، آمین یا رب العالمین۔