مغربی فلسفہ حیات کی مذاہب اور ثقافتوں کے ساتھ کشمکش

   
ستمبر ۲۰۱۲ء

روزنامہ ’’اردو نیوز‘‘ جدہ میں ۱۴ جولائی ۲۰۱۲ء کو شائع ہونے والی ایک خبر ملاحظہ فرمائیے:

’’بھارتی وزیر داخلہ پی چدمبرم نے کہا ہے کہ جمہوریت میں پنچایت یا فتوے کے ذریعے بندشوں کے نفاذ اور کسی کی نجی آزادی سلب کرنے کے اقدام کے لیے کوئی گنجائش نہیں ہے۔ یہ بات وزیر داخلہ نے جمعہ کے روز ایک پریس کانفرنس میں کہی، ان سے دہلی سے ملحق باغپت کی ایک پنچایت کے فیصلے کے بارے میں پوچھا گیا تھا۔ باغپت کی ۲۶ برادریوں کی ایک پنچایت نے علاقے کے مسلمانوں کو یہ ہدایت دی ہے کہ شام کے وقت ۴۰ سال سے کم عمر کی مسلم عورتیں یا لڑکیاں بازار میں نہ نکلیں اور اگر نکلیں تو ساتھ موبائل نہ رکھیں اور سر ڈھک کر چلیں۔‘‘

پی چدمبرم کے کہنے کا مقصد یہ ہے کہ اگر کسی علاقہ کی پنچایت یا کوئی مفتی صاحب مسلمان خواتین کو کوئی ایسی تلقین کریں جو مغربی جمہوریت یا اس کی پیدا کردہ مادرپدر آزادی کے منافی ہو تو یہ ان کی ’’نجی آزادی سلب‘‘ کرنے کے مترادف ہے جس کی اجازت نہیں دی جا سکتی۔ اس کا مطلب اس کے سوا کیا ہو سکتا ہے کہ آزادیوں اور بندشوں کی حدود طے کرنے اور اس سلسلہ میں کسی طرز عمل سے روکنے میں نہ علاقائی روایات کا کوئی حق باقی رہ گیا ہے اور نہ ہی مذہب کے عمل دخل کو کسی درجہ میں تسلیم کیا جا رہا ہے۔

بھارتی مسلمانوں کو درپیش مسائل میں ایک بڑا مسئلہ یہ بھی ہے کہ وہ اپنی معاشرتی اقدار اور تہذیبی روایات کے تحفظ کے لیے مذہب کا نام لیتے ہیں تو اسے فرقہ پرستی کا طعنہ دے کر دبانے کی کوشش کی جاتی ہے۔ اور صرف بھارت میں نہیں بلکہ دوسرے ممالک حتی کہ بہت سے مسلم ممالک میں بھی یہی کچھ ہو رہا ہے کہ جو لوگ دین اور مذہب کی بنیاد پر معاشرتی اقدار و روایات کا تحفظ چاہتے ہیں وہ بنیاد پرستی اور انتہا پسندی کے الزامات کا نشانہ بنتے ہیں اور نئی تہذیب کے مخالف قرار پاتے ہیں۔ لیکن نئی تہذیب کے علمبرداروں کا اپنا حال یہ ہے کہ وہ اپنی خود ساختہ روایات و اقدار کو ہر جگہ وہاں کی علاقائی ثقافت اور لوگوں کے عقیدہ و دین کے علی الرغم مسلط کرنے کی کوششوں میں آزادی پسندی اور ترقی پسندی کے عنوان سے مسلسل سرگرم ہیں۔

مغربی جمہوریت اور سیکولر ثقافت کے علمبردار ایک طرف تو ثقافتوں اور مذاہب کے احترام کی بات کرتے ہیں اور انہیں تحفظ فراہم کرنے کے دعوے کرتے ہیں جبکہ دوسری طرف لوگوں کو علاقائی دائروں میں بھی اپنی ثقافت اور مذاہب کی پاسداری کا حق دینے کے لیے تیار نہیں ہیں، کیا اسی کا نام آزادی ہے اور کیا یہی حقوق کا تحفظ ہے؟

   
2016ء سے
Flag Counter