حقوقِ انسانی اور امریکہ

   
اگست ۲۰۱۲ء

دوبئی سے شائع ہونے والے اردو اخبار ہفت روزہ ’’سمندر پار‘‘ نے ۶ تا ۱۲ جولائی ۲۰۱۲ء کے شمارہ میں یہ رپورٹ شائع کی ہے کہ:

’’امریکی شہر نیویارک میں ایک معروف نیلام گھر کے تحت سابق امریکی صدر کا دستخط شدہ امریکہ میں غلاموں کی آزادی کے قانون کا نایاب و تاریخی مسودہ ۲۰ لاکھ (۲ ملین ڈالر) سے زائد رقم میں نیلام ہو گیا ہے۔ ۱۸۶۴ء میں پیش کیے جانے والے Emancipation Proclamation نامی اس قانونی مسودہ کو اس وقت کے امریکی صدر ابراہام لنکن نے منظور کیا تھا اور ان کی ۴۸ کاپیوں پر دستخط کیے تھے، اس قانون کے تحت ۴۰ سے ۵۰ ہزار غلاموں کو اپنے آقاؤں کی جبری غلامی سے آزادی ملی تھی۔ یہ تاریخی مسودہ بارہ لاکھ ڈالر کی ابتدائی بولی کے ساتھ فروخت کے لیے پیش کیا گیا تھا جو کچھ ہی دیر میں ۲۰ لاکھ ۸۵ ہزار کی قیمت پر نیلام ہو گیا۔‘‘

امریکہ میں غلامی کی تاریخ بہت پرانی ہے، مبینہ طور پر کولمبس کے ہاتھوں امریکہ کی دریافت کے بعد جب یورپی ممالک سے آنے والے آباد کاروں نے اسے اپنا مسکن بنایا تو سب سے پہلے انہوں نے امریکہ کی اصل آبادی کو، جسے ریڈ انڈینز کے نام سے یاد کیا جاتا ہے، بزور اور بتدریج ان کے علاقوں سے نکال کر کناروں کی طرف دھکیل دیا، اور پھر افریقہ سے سیاہ فام باشندوں کو لا کر امریکہ کی زمینوں کو آباد کرنے اور دیگر ضروریات کے لیے غلام بنا لیا۔افریقہ سے جہاز بھر بھر کر لوگوں کو یہاں لایا جاتا تھا اور زمینوں کی آباد کاری کے علاوہ بلڈنگوں اور سڑکوں کی تعمیر کے لیے ان سے غلاموں کی طرح کام لیا جاتا تھا، بڑے شہروں میں غلاموں کی خرید و فروخت کی باقاعدہ منڈیاں لگتی تھیں اور ان سیاہ فام غلاموں کو جانوروں کی طرح بلکہ بعض مقامات پر اس سے بھی بدتر حالت میں رکھا جاتا تھا۔

۱۸۶۴ء میں امریکی صدر ابراہام لنکن نے ایک قانون کے تحت غلامی کو ممنوع قرار دیا لیکن اس کے بعد بھی ایک صدی تک ان سیاہ فاموں کو امریکہ کے بنیادی شہری حقوق اور ملک کے سفید فام باشندوں کے برابر درجہ حاصل نہ ہو سکا۔ اس عرصہ میں کالوں کی آبادیاں الگ اور گوروں کی آبادیاں الگ رہیں، کالوں کو گوروں کے سکولوں میں پڑھنے کا حق نہیں تھا، بسوں میں سیاہ فاموں کے لیے الگ سیٹیں مخصوص ہوتی تھیں، انہیں گوروں کے ہوٹلوں میں کھانا کھانے کی اجازت نہیں ہوتی تھی اور نہ ہی ہسپتالوں میں انہیں داخل کیا جاتا تھا، انہیں ووٹ کا حق حاصل نہیں تھا اور ان کے لیے گرجاگھر بھی گوروں سے الگ ہوتے تھے۔ اس طرح امریکی سیاہ فام غلامی کے خاتمہ کے قانونی اعلان کے بعد بھی ایک صدی تک غلاموں کی طرح زندگی گزرنے پر مجبور رہے، حتٰی کہ ایک سیاہ فام راہنما مارٹن لوتھر کنگ نے اس سلوک کے خلاف احتجاجی تحریک منظم کی اور اس تحریک کے نتیجے میں ۱۹۶۴ء کے دوران اس وقت کے امریکی صدر جان ایف کینیڈی نے سیاہ فاموں کے شہری حقوق کے قانون پر دستخط کر کے انہیں دیگر شہریوں کے برابر درجہ دینے کا اعلان کیا۔

’’سمندر پار‘‘ میں مذکورہ رپورٹ پڑھ کر یہ سارا پس منظر ذہن میں آگیا اور قارئین کو اس سے اس لیے آگاہ کرنا مناسب سمجھا کہ آج امریکہ دنیا بھر میں انسانی حقوق کا سب سے بڑا علمبردار بنا ہوا ہے، مگر غریب ممالک و اقوام کے پیچھے لٹھ لیے پھرتا ہے، جبکہ اس کا ماضی یہ ہے کہ اب سے صرف نصف صدی قبل تک اس کے اپنے ملک کے باشندوں کی ایک بڑی تعداد کو بنیادی شہری حقوق میسر نہیں تھے۔ اب بھی کہنے کو تو امریکہ انسانی حقوق کا سب سے بڑا چیمپئن ہے لیکن بین الاقوامی اداروں کی رپورٹ کے مطابق خود امریکہ میں انسانی حقوق کی پامالی کا سلسلہ جاری ہے۔جبکہ ہمارے خیال میں ذہن اور مزاج نہیں بدلا، صرف رخ تبدیل ہوا ہے، کیونکہ امریکہ نے اب افراد اور طبقات کی بجائے ممالک و اقوام کو غلام بنانے کی مشق شروع کر رکھی ہے۔

کچھ عرصہ قبل نیویارک میں ہی راقم الحروف سے ایک امریکی دوست نے سوال کیا تھا کہ امریکہ میں شہریوں کو حاصل حقوق و تحفظات کے بارے میں آپ کا کیا خیال ہے ؟ میں نے جواب میں عرض کیا کہ امریکہ میں اندرونی طور پر شہریوں کے حقوق کے حوالہ سے موجودہ صورتحال پر میں مطمئن اور خوش ہوں لیکن سوال یہ ہے کہ کیا حقوق صرف افراد اور طبقات کے ہوتے ہیں، یا ممالک و اقوام کے بھی کچھ حقوق ہوتے ہیں ؟ گزشتہ پون صدی میں ویت نام، کمبوڈیا، کوریا، عراق، فلسطین، افغانستان اور امریکی مہر بانیوں کا شکار دیگر ممالک کے ساتھ جو کچھ ہوا ہے، اور اب پاکستان کے ساتھ جو کچھ ہونے کا پروگرام دکھائی دے رہا ہے، اور ان ممالک و اقوام کی خود مختاری اور سالمیت کو جس بے دردی کے ساتھ پامال کیا گیا ہے، کیا وہ انسانی حقوق کے دائرے میں نہیں آتا اور آخر اس کا کیا جواز ہے؟

   
2016ء سے
Flag Counter