روزنامہ پاکستان لاہور نے ۲۱ اکتوبر کو آئی این پی کے حوالہ سے خبر شائع کی ہے کہ:
’’ملک کے ممتاز عالم دین مفتی محمد تقی عثمانی نے افغانستان پر غیر ملکی تسلط میں سرکاری اور ہر طرح کی مدد کو غیر شرعی قرار دیتے ہوئے فتویٰ جاری کیا ہے کہ شرعی نقطۂ نظر سے حکومت پاکستان اس امر کی مجاز نہیں ہے کہ وہ پڑوسی مسلمان ملک پر غیر مسلموں کے قبضے کو مستحکم کرنے میں غیر ملکی جارح قوت کی مدد کرے۔ فتویٰ میں کہا گیا ہے کہ معاشی تنگدستی کا خدشہ بھی پاکستان کی کسی حکومت کو اس مفاد پرست پالیسی کے لیے شرعی حجت فراہم نہیں کرتا۔‘‘
فتویٰ کا پورا متن اس وقت ہمارے سامنے نہیں ہے لیکن اخبار کی یہ خبر اس بات کو سمجھنے کے لیے کافی ہے کہ افغانستان پر امریکی اتحاد کی عسکری یلغار، جس کے نتیجے میں امارت اسلامیہ افغانستان کو ختم کر کے اپنی مرضی کی حکومت وہاں مسلط کر دی گئی ہے اور تب سے افغانستان میں جارح قوت کی عسکری کاروائیاں مسلسل جاری ہیں جس کے باعث ہزاروں افغان باشندے جام شہادت نوش کر چکے ہیں، اس کے بارے میں پاکستان کے دینی حلقوں کے جذبات اور موقف کیا ہے۔ اس سلسلہ میں ہمارے نزدیک حضرت مولانا مفتی محمد تقی عثمانی مدظلہ کا یہ فتویٰ صرف ان کی ذاتی رائے نہیں بلکہ پاکستان کے جمہور علماء کرام اور دینی حلقوں کے جذبات اور موقف کی نمائندگی کرتا ہے۔
ہم سمجھتے ہیں کہ جس طرح سوویت یونین کی عسکری یلغار کے مقابلہ میں افغان عوام کی مسلح جنگ شرعی جہاد تھا اسی طرح امریکی اتحاد کی عسکری جارحیت کے مقابلہ میں افغان عوام کی جدوجہد شرعاً جہاد کا درجہ رکھتی ہے اور اسلامی جمہوریہ پاکستان کی حکومت، ریاستی اداروں اور عوام کو جابر و ظالم قوتوں کا ساتھی بننے کی بجائے مظلوم افغان عوام کا ساتھ دینا چاہیے۔
سعودی حکومت کا جرأتمندانہ فیصلہ
سعودی عرب کی حکومت نے اقوام متحدہ میں سلامتی کونسل کی غیر مستقل نشست ووٹوں کے ذریعے جیتنے کے بعد اس نشست کو یہ کہہ کر مسترد کر دیا ہے کہ چونکہ سلامتی کونسل فلسطین کا مسئلہ حل کرنے میں ناکام رہی ہے اس لیے سعودی نمائندہ اس نشست پر نہیں بیٹھے گا۔ اس سلسلہ میں سعودی حکومت کی طرف سے جو اعلان جاری ہوا ہے اس میں کہا گیا ہے کہ:
’’گزشتہ ۶۵ برس سے مسئلہ فلسطین کا کوئی مستقل حل دریافت نہیں کیا جا سکا، اس مسئلہ نے مشرق وسطیٰ میں کئی جنگوں کو جنم دیا اور دنیا بھر کے امن اور سلامتی کے لیے یہ مسئلہ ایک خطرہ بنا رہا، سلامتی کونسل اب تک اس کا کوئی ایسا حل نہیں نکال سکی جو عدل و انصاف پر مبنی ہوتا، اس کا مطلب یہ ہے کہ کونسل اپنے فرائض کی ادائیگی میں ناکام رہی ہے، اسی طرح سلامتی کونسل میں جس طرح کام ہوتا ہے اور اس کے دوہرے معیار جس طرح کے ہیں وہ اس ادارے کو اپنے فرائض ادا کرنے سے روکتے ہیں اور دنیا میں امن قائم رکھنے کی ذمہ داریاں نبھانے نہیں دیتے، اس بنا پر ہمارے پاس کوئی اور آپشن نہیں ہے کہ ہم سلامتی کونسل کی اس نشست کو قبول کرنے سے انکار کر دیں اور اس وقت تک اس نشست کو قبول نہ کریں جب تک اس روش کو بدلا نہیں جاتا اور جب تک سلامتی کونسل عالمی امن کے لیے اپنی ذمہ داریاں ادا کرنے کے قابل نہیں ہوجاتی۔‘‘
ہم اس جرأتمندانہ موقف اور حق گوئی پر سعودی حکومت کو مبارک باد پیش کرتے ہوئے اس کی استقامت کے لیے دعا گو ہیں، آمین یا رب العالمین۔