گزشتہ روز اسلام آباد میں پارلیمنٹ ہاؤس کے سامنے تیس کے لگ بھگ این جی اوز سے تعلق رکھنے والی خواتین نے حدود آرڈیننس کے خلاف مظاہرہ کیا۔ اخباری رپورٹ کے مطابق مظاہرہ کی قیادت کرنے والیوں میں دیگر سرکردہ خواتین کے علاوہ ہیومن رائٹس کمیشن آف پاکستان کی محترمہ حنا جیلانی بھی شامل تھیں۔ انہوں نے خواتین کمیشن کی سربراہ جسٹس ماجدہ رضوی کی طرف سے حدود آرڈیننس کو منسوخ کرنے کی سفارش کی حمایت کی اور حدود آرڈیننس کو ختم کرنے کے مطالبہ کے ساتھ ساتھ یہ مطالبہ بھی کیا کہ عورتوں کے بارے میں تمام امتیازی قوانین کو ختم کر دیا جائے۔ اخباری رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ وزیر اعظم میر ظفر اللہ جمالی پارلیمنٹ ہاؤس جاتے ہوئے مظاہرہ کرنے والی خواتین کے پاس سے گزرے تو انہیں دیکھ کر گاڑی روک لی اور مظاہرین سے ملاقات کر کے انہیں یقین دلایا کہ وہ ان کے مطالبہ کا جائزہ لیں گے۔
حدود آرڈیننس چند معاشرتی جرائم مثلاً چوری، ڈکیتی، زنا، قذف اور شراب نوشی وغیرہ کی ان شرعی سزاؤں پر مشتمل ہے جو قرآن و سنت میں حتمی طور پر طے شدہ ہیں۔ قیام پاکستان کے ساتھ ہی اسلامی نظام کے دیگر حصوں کے ساتھ ساتھ ملک میں ان شرعی سزاؤں کے نفاذ کا مطالبہ شروع ہو گیا تھا اور بالآخر جنرل محمد ضیاء الحق کے دور میں ایک آرڈیننس کی صورت میں ملک میں انہیں نافذ کیا گیا تھا۔ یہ آرڈیننس اسلامی نظریاتی کونسل کی سفارشات کی بنیاد پر ترتیب پایا تھا اور اس کے نفاذ کے لیے سب سے زیادہ کوشش اس وقت جنرل محمد ضیاء الحق مرحوم کی حکومت میں شامل ’’پاکستان قومی اتحاد‘‘ کی طرف سے کی گئی تھی۔ چنانچہ پاکستان قومی اتحاد نے اس کے نفاذ پر اس کی حمایت میں لاہور میں حضرت مولانا مفتی محمود رحمہ اللہ کی زیر قیادت ایک عوامی مظاہرہ کا اہتمام بھی کیا تھا۔
اگرچہ عملی صورتحال یہ ہے کہ حدود آرڈیننس کے نفاذ کے بعد سے اب تک ان میں سے کسی سزا پر عمل نہیں ہو سکا اور مروجہ قانونی نظام کی بالا دستی کا ایک ایسا حصار حدود آرڈیننس کے گرد قائم کر دیا گیا ہے کہ اصولی طور پر نافذ ہونے کے باوجود اب بھی کسی شرعی سزا پر عملدرآمد عملاً ممکن نہیں ہے، لیکن اس کی مخالفت عالمی حلقوں اور ملک کے بعض حلقوں بالخصوص این جی اوز کی طرف سے مسلسل جاری ہے۔ اور ایمنسٹی انٹرنیشنل سے لے کر ہیومن رائٹس کمیشن آف پاکستان تک بیسیوں ادارے اور لابیاں حدود آرڈیننس کی منسوخی کے لیے ایک عرصہ سے مصروف عمل ہیں۔ جسٹس ماجدہ رضوی کی سربراہی میں قائم خواتین کمیشن کی طرف سے حدود آرڈیننس کی منسوخی کی سفارش کی پشت پر یہی دباؤ کار فرما ہے اور انہیں مروجہ بین الاقوامی اور اقوام متحدہ کے انسانی حقوق کے چارٹر کے منافی قرار دیتے ہوئے ان کے خاتمے پر زور دیا جا رہا ہے۔
حدود آرڈیننس پر سب سے بڑا اعتراض یہ ہے کہ وہ انسانی حقوق کے مغربی فلسفہ و نظام سے متصادم ہے، اور دوسرا اعتراض یہ ہے کہ پاکستان میں اس قانون کا غلط استعمال ہو رہا ہے اور خاندانی جھگڑوں اور گروہی عصبیتوں کے ماحول میں بہت سے جھوٹے مقدمات درج کرا دیے جاتے ہیں جس سے سینکڑوں خواتین کو اذیتوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ جہاں تک انسانی حقوق کے مغربی فلسفہ و نظام سے متصادم ہونے کا تعلق ہے ہمیں اس سے انکار نہیں، لیکن سوال یہ ہے کہ اگر ہم نے مغرب کے فلسفہ و نظام ہی کو اپنانا ہے اور اس کی خاطر قرآن و سنت کے احکام و قوانین تک سے دستبرداری (نعوذ باللہ) اختیار کرنے کے لیے بھی ہم تیار ہیں، تو پھر اسلام کے نام پر ایک الگ ملک کے قیام، اس ملک کے دستور میں اسلام کو سرکاری مذہب قرار دینے، اور قرآن و سنت کے احکام و قوانین کے نفاذ کی ضمانت دینے کا کوئی مطلب باقی نہیں رہ جاتا۔ اور مغربی فلسفہ و نظام کی خاطر اسلامی احکام و قوانین سے دستبرداری کا مطالبہ خود پاکستان کے وجود اور جواز کی نفی قرار پاتا ہے۔
البتہ قانون کے غلط استعمال کی بات کسی حد تک قابل توجہ ہے اور ہمیں اس سے بھی انکار نہیں ہے کہ دیگر قوانین کی طرح اس قانون کا بھی بہت جگہ غلط استعمال ہو رہا ہے۔ لیکن یہ صرف اس قانون کے ساتھ مخصوص نہیں ہے بلکہ حدود آرڈیننس کی طرح ملک میں رائج دیگر قوانین کا بھی اکثر و بیشتر غلط استعمال ہو رہا ہے۔ صرف قتل کے مقدمات کا جائزہ لے لیا جائے تو ان کی صورتحال بھی اس سے مختلف نہیں ہوگی کہ خاندانی جھگڑوں اور گروہی عصبیتوں کے ماحول میں بہت سے بے گناہ جیلوں میں نظر آئیں گے اور بہت سے گنہگار آزاد فضا میں دندناتے پھر رہے ہوں گے۔ اس لیے اس معاشرتی طرز عمل اور خرابی کو تبدیل کرنے کی کوشش کرنے کی بجائے سرے سے قانون ختم کر دینے کا مطالبہ کسی طرح بھی انصاف کا تقاضا نہیں ہے۔ بلکہ اس مہم کا اصل مقصد قانونی نظام کی صورتحال کی اصلاح نہیں، بلکہ مغرب کے ایجنڈے کی تکمیل ہے۔
اس کے ساتھ ہی اس مطالبہ کا بھی ایک نظر جائزہ لے لیا جائے کہ ’’خواتین کے بارے میں امتیازی قوانین کو ختم کیا جائے‘‘۔ یہ مطالبہ اقوام متحدہ کے انسانی حقوق کے چارٹر کی ایک دفعہ کے پس منظر میں ہے، جس میں کہا گیا ہے کہ ’’جنس کی بنیاد پر کوئی امتیاز نہیں برتا جائے گا‘‘۔ اس مختصر جملے کو اگر قانونی تعبیرات کے دائرہ میں دیکھا جائے تو ہمارے بیشتر قوانین و احکام اس کی زد میں آتے ہیں اور جنس کی بنیاد پر امتیاز قرار پاتے ہیں، مثلاً:
- اسلام میں حکمرانی کا منصب مرد کے لیے مخصوص ہے اور عورت حاکم نہیں بن سکتی، جو آج کے عالمی عرف اور قانون کی نظر میں جنس کی بنیاد پر امتیاز ہے۔
- خاندانی نظام میں قرآن کریم کی رو سے خاوند کو خاندان کے سربراہ کی حیثیت حاصل ہے، یہ بھی جنس کی بنیاد پر امتیاز ہے۔
- مرد کو طلاق کا حق براہ راست ہے، جبکہ عورت براہ راست طلاق دینے کا حق نہیں رکھتی، یہ بھی جنس کی بنیاد پر امتیاز ہے۔
- معاملات کے مقدمات میں دو عورتوں کی گواہی ایک مرد کی گواہی کے برابر ہے، یہ بھی جنس کی بنیاد پر امتیاز ہے۔
- وراثت میں خواتین کا حصہ بہت سی صورتوں میں مردوں سے کم ہے، جو جنس کی بنیاد پر امتیاز ہے۔
- عورتوں کو مردوں کی طرح کھلے بندوں باہر جانے، بازاروں میں گھومنے پھرنے، اور آزادانہ طور پر مجالس و محافل میں شرکت، حتیٰ کہ مساجد میں نماز وغیرہ کے لیے بھی مردوں کی طرح آزادانہ طور پر شریک ہونے کی اجازت نہیں ہے، جو جنس کی بنیاد پر امتیاز ہے۔
- ملازمتوں میں عورتوں کو مردوں کی طرح ہر قسم کی ملازمت کرنے کا حق نہیں ہے، جو جنس کی بنیاد پر امتیاز ہے۔
اسی طرح زندگی کے کسی شعبہ میں اسلام نے عورت اور مرد کی خلقت، فطری صلاحیتوں اور معاشرتی ذمہ داریوں کو ملحوظ رکھتے ہوئے جو الگ الگ احکام و ضوابط بیان کیے ہیں، وہ سب کے سب جنس کی بنیاد پر امتیاز کے فلسفہ کی روشنی میں آج کے مروجہ عالمی نظام اور اقوام متحدہ کے انسانی حقوق کے چارٹر کے منافی قرار پاتے ہیں۔ اور جب کوئی این جی او اور تنظیم عورتوں کے بارے میں امتیازی قوانین کے خاتمے کا مطالبہ کرتی ہے تو اس کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ اس قسم کے تمام قوانین و احکام کو منسوخ کر کے ملک میں وہی نظام مکمل طور پر نافذ کر دیا جائے جو اس وقت مغربی ممالک میں رائج ہے۔
جسٹس ماجدہ رضوی کے خواتین کمیشن کی طرف سے حدود آرڈیننس کی منسوخی کی سفارش کے بعد اسلامی احکام و قوانین اور اقدار و روایات کے خلاف این جی اوز کی مہم ایک بار پھر منظم ہو رہی ہے، اور اسلام آباد میں پارلیمنٹ ہاؤس کے سامنے تیس کے قریب این جی اوز پر مشتمل جوائنٹ ایکشن کمیٹی کا یہ مظاہرہ ملک کے دینی حلقوں کے لیے لمحہ فکریہ ہے۔ ’’متحدہ مجلس عمل‘‘ کی ارکان اسمبلی نے اس سلسلہ میں اسلام آباد میں اسلامی قوانین کی حمایت میں جو مظاہرہ کیا تھا، اس کو آگے بڑھانے کی ضرورت ہے۔ دینی جماعتوں کو اس بارے میں سنجیدگی کے ساتھ غور کرنا چاہیے اور رائے عامہ کو بیدار کرنے کے لیے مہم کو منظم کرنا چاہیے۔ ہمارے خیال میں عوام کی بے خبری کو دور کرنا ہی اس مسئلہ کا واحد حل ہے۔ اگر دینی حلقوں کی طرف سے عوام کو ان مطالبات کے پس منظر اور ان کے اصل مقاصد سے باخبر کرنے کا ہی اہتمام ہو جائے تو اگلا کام ان شاء اللہ مقامی پاکستان کے غیور عوام خود کر لیں گے۔