یمن کا تنازعہ اور عالمِ اسلام کی ذمہ داری

   
مئی ۲۰۱۵ء

یمن کا تنازعہ رفتہ رفتہ مشرق وسطیٰ کی صورتحال کو اس خاص رُخ کی طرف لے جا رہا ہے جس کی نشاندہی ہم ایک عرصہ سے کرتے آ رہے ہیں کہ اس خطہ میں ایران اور سعودی عرب کی کشمکش نے سنی شیعہ کشیدگی کو خانہ جنگی کا مستقل محاذ بنا دیا ہے اور دن بدن اس کے دائرے میں وسعت دکھائی دے رہی ہے۔ اس صورتحال کے پیچھے اصلاً تو امریکی استعمار، اسرائیل اور ان کے ہمنوا عالمی حلقے ہیں جن کی دلچسپی شروع سے اس بات میں ہے کہ مشرق وسطیٰ میں عرب اور مسلمان ممالک کے درمیان کوئی ایسی وحدت اور اشتراکِ عمل وجود میں نہ آ سکے جو اسرائیل کے لیے خطرہ کا باعث بن جائے۔ چنانچہ اس کے لیے وقتاً فوقتاً مختلف تنازعات کو ابھارا جاتا ہے اور عرب ممالک میں باہمی اختلافات کے ساتھ ساتھ عدم استحکام کا ماحول قائم کرنے کی کوشش کی جاتی ہے۔ جبکہ عرب لیگ اور مسلم حکمرانوں کی عالمی تنظیم (او آئی سی) کی مسلسل غفلت اور بے پرواہی بھی حالات کو یہاں تک لے جانے کا ایک بڑا ذریعہ بنی ہوئی ہے۔ ایسے اختلافی معاملات میں استعماری قوتوں کے ہاتھ میں سب سے بڑا ہتھیار ’’سنی شیعہ تنازعہ‘‘ ثابت ہو رہا ہے، اس لیے اب ان قوتوں کی ساری توجہ اسے پروان چڑھانے اور اس کے ذریعے اپنے مقاصد حاصل کرنے پر مرکوز ہو کر رہ گئی ہے۔

سنی شیعہ کشمکش اس خطہ میں پہلے بھی موجود تھی اور صدیوں سے چلی آرہی تھی لیکن اس کی علاقائی سطح پر باہمی محاذ آرائی اور مورچہ بندی کا موجودہ رُخ ایران کے مذہبی انقلاب کے بعد سامنے آیا، اور اس کی وجہ یہ بنی کہ ایران کی انقلابی مذہبی قیادت نے اپنے کامیاب مذہبی انقلاب کو پڑوسی ممالک تک پھیلانے اور مسلکی بنیاد پر پورے خطے میں اپنے اثر و رسوخ کا دائرہ وسیع کرنے کو مستقل پالیسی کا حصہ بنا لیا اور اس رُخ پر ایران کی مسلسل محنت آج اپنا رنگ دکھا رہی ہے۔ ایران کی انقلابی قیادت اگر مذہبی تعصبات سے بالاتر ہو کر اردگرد ممالک کی دینی تحریکات کا حریف بن جانے کی بجائے حلیف و معاون کا کردار اختیار کرتی تو:

  • پڑوسی ممالک کی دینی تحریکات کو تقویت حاصل ہوتی،
  • مشرق وسطیٰ میں اسرائیل کے تسلط کو مستحکم کرنے کی استعماری پالیسی پر کاری ضرب لگتی،
  • عالمی استعمار کی اس خطہ میں موجودگی کا جواز باقی نہ رہتا،
  • اور مسلم ممالک کے درمیان ہم آہنگی اور وحدت کو فروغ حاصل ہوتا۔

مگر ایران کی انقلابی قیادت کی مسلکی ترجیحات نے عراق، شام، کویت، لبنان اور بحرین کے بعد یمن میں بھی سنی اور شیعہ آبادیوں کو ایک دوسرے کے مقابل کھڑا کر دیا جس سے ہر جگہ خانہ جنگی کا ماحول پیدا ہو گیا اور پورا مشرق وسطیٰ سنی شیعہ خانہ جنگی کی آماجگاہ بن کر رہ گیا ہے۔

ہمارے ہاں پاکستان میں بھی ایرانی انقلاب کے بعد ’’تحریک نفاذ فقہ جعفریہ‘‘ کے قیام اور تحریک نے قومی اور مشترکہ دینی مقاصد کے لیے قیام پاکستان کے بعد سے چلی آنے والی سنی شیعہ مفاہمت کو سبوتاژ کر کے رکھ دیا ہے اور ہم نفاذِ اسلام کے حوالہ سے ملک میں پیش قدمی کی صلاحیت سے محروم ہو کر دفاع کی پوزیشن میں آگئے ہیں۔

ان حالات میں او آئی سی کی سب سے زیادہ یہ ذمہ داری تھی کہ وہ مسلم حکومتوں کو اس صورتحال کی طرف متوجہ کرتی اور عالمِ اسلام کے حکمران آپس میں مل بیٹھ کر مشرق وسطیٰ کو اس خانہ جنگی سے نجات دلانے کے لیے کوئی واضح رُخ اختیار کرتے مگر مسلم حکمرانوں کو گویا سانپ سونگھ گیا ہے اور وہ ’’ٹک ٹک دیدم دم نہ کشیدم‘‘ کا مصداق بن کر رہ گئے ہیں۔ جبکہ مشرق وسطیٰ کے مختلف ممالک میں ایران کی یہ دلچسپی بلکہ عملی کردار بڑھتے بڑھتے سعودی عرب کے گرد گھیراؤ کا منظر پیش کرنے لگا ہے اور کہا جا رہا ہے کہ یہ ساری کاوش سعودی عرب کے ارد گرد گھیرا تنگ کرنے اور ’’حرمین شریفین‘‘ کو اپنے اثر و رسوخ کے دائرہ میں لانے کے لیے کی جا رہی ہے جس پر پورے عالمِ اسلام میں عوامی سطح پر بے چینی اور اضطراب دیکھنے میں آرہا ہے۔

یمن میں حوثی قبائل اور زیدی فرقہ سے تعلق رکھنے والے اہل تشیع کی ملک کی منتخب حکومت کے خلاف مسلح بغاوت نے گزشتہ دنوں عدن کی طرف بڑھنا شروع کیا تو اہل فکر کے اضطراب میں اضافہ ہونا شروع ہو گیا، اس لیے کہ عدن پر ایران کی سرپرستی میں حوثیوں کے قبضہ کا مطلب خود سعودی عرب کا براہ راست اس کی زد میں آجانا ہے جس سے سعودی عرب کی سرحدات کے ساتھ ساتھ حرمین شریفین کا ماحول بھی خطرات و خدشات کے حصار میں محسوس ہونے لگا۔ اسی خدشہ کے پیش نظر سعودی حکومت نے پاکستان سے عملی تعاون کی درخواست کی جس کا جواب پارلیمنٹ کی قرارداد کی صورت میں یہ دیا گیا کہ حرمین شریفین کے تحفظ اور سعودی عرب کی داخلی سلامتی کے دفاع میں تو ہم سعودی عرب کے شانہ بشانہ کھڑے ہوں گے مگر یمن کے تنازعہ میں فریق بننے کے لیے تیار نہیں ہیں۔ پارلیمنٹ کی یہ قرارداد اصولی طور پر سعودی عرب کے حق میں ہونے کے باوجود یمن کے تنازعہ میں غیر جانبداری کا تاثر دینے کے باعث مستقل موضوع بحث بن گئی اور مختلف حوالوں سے اس کی وضاحتوں کا سلسلہ جاری ہے۔

میرے خیال میں یہ کنفیوژن اس لیے پیدا ہوا ہے کہ یمن کے تنازعہ کو مشرق وسطیٰ کی عمومی صورتحال سے الگ سمجھ کر اسے یمن کا داخلی جھگڑا یا زیادہ سے زیادہ سعودی عرب کے ساتھ تنازعہ تصور کر لیا گیا، ورنہ اگر اس مسئلہ کو مشرق وسطیٰ کے عمومی تناظر میں دیکھا جائے اور اس کے پس منظر میں گزشتہ چار عشروں سے جاری علاقائی کشمکش پر نظر ڈالی جائے تو اسے صرف یمن اور سعودی عرب کا تنازعہ قرار دینا محض ایک مغالطہ کے سوا کچھ نہیں ہے۔

ہم سمجھتے ہیں کہ موجودہ معروضی صورتحال میں سب سے پہلے مسلم حکمرانوں پر یہ ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ فوری طور پر مل بیٹھیں اور اس مسئلہ کا کوئی باوقار اور سب کے لیے قابل قبول حل نکالیں، اس کے ساتھ ہی حرمین شریفین کے تقدس اور سعودی عرب کی سالمیت کے حوالہ سے عالم اسلام میں پیدا ہونے والے اضطراب کو دور کرنے کے لیے عالمی سطح پر کوشش کا اہتمام کریں۔ اس کے بعد حکومت پاکستان کی ذمہ داری ہے کہ وہ ہر مسئلہ میں اور ہر مرحلہ پر پاکستان کا غیر مشروط ساتھ دینے والے برادر ملک سعودی عرب کو ’’اسلامی جمہوریہ پاکستان‘‘ کے بارے میں بے اعتمادی کا شکار نہ ہونے دے بلکہ اس نازک مرحلہ میں مکمل حمایت و تعاون کا ماحول پیدا کر کے اپنی ملی اور اخلاقی ذمہ داریوں کی ادائیگی کے ساتھ ساتھ پاکستان کے کروڑوں عوام کے دلی جذبات کی صحیح ترجمانی کا اہتمام کرے۔

   
2016ء سے
Flag Counter