امت مسلمہ اور اقوام متحدہ ۔ چند ضروری گزارشات

   
نومبر ۲۰۱۵ء

روزنامہ نوائے وقت لاہور میں ۱۷ اکتوبر ۲۰۱۵ء کو شائع ہونے والی ایک خبر کے مطابق:

’’پاکستان نے اقوام متحدہ پر زور دیا ہے کہ اسلام کی غلط اور غیر معقول عکاسی کرنے والوں کے خلاف کاروائی اور دہشت گردی کی روک تھام کے لیے حکمت عملی بنائی جائے اور اسلام کے خلاف متعصبانہ رویے اور دہشت گردی کے خلاف جنگ کے تناظر میں اسلامی عقائد کی تعصب پر مبنی کردارکشی کی روک تھام پر بھرپور توجہ دی جائے- اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کی لیگل کمیٹی سے خطاب کرتے ہوئے عالمی ادارہ میں پاکستان کی مستقل مندوب ملیحہ لودھی نے کہا کہ مسلمانوں کے خلاف نفرت انگیز تقاریر اور اشتعال انگیز کاروائیاں ناقابل برداشت ہیں جو کہ نہ صرف رویوں میں دوریوں کا باعث بنتی ہیں بلکہ اس سے مغرب اور مسلمانوں کے مابین غلط فہمیاں پیدا ہوتی ہیں۔ بین الاقوامی دہشت گردی کے خاتمہ کے لیے اقدامات کے موضوع پر بحث میں حصہ لیتے ہوئے ملیحہ لودھی نے کہا کہ پاکستان ۲۰۰۶ء میں دہشت گردی کی روک تھام کے لیے بنائی گئی اقوام متحدہ کی حکمت عملی کا حامی ہے۔‘‘

محترمہ ملیحہ لودھی نے اقوام متحدہ کی لیگل کمیٹی سے خطاب کرتے ہوئے ایک ایسے مسئلہ کی طرف عالمی برادری کو توجہ دلانے کی کوشش کی ہے جس نے پورے عالم اسلام کو اضطراب سے دوچار کر رکھا ہے اور جس کی سنگینی میں دن بدن اضافہ ہو رہا ہے۔

اقوام متحدہ جب سے قائم ہوئی ہے اس کی پالیسیوں اور رویوں کی بنیاد مذہب کے معاشرتی کردار کی نفی بلکہ مذاہب بالخصوص اسلام کی مخالفت، مسلمانوں کے مذہبی تشخص کو تسلیم نہ کرنے، اور بنیادی اسلامی احکام و عقائد کا مذاق اڑانے کی روایت پر قائم چلی آرہی ہے۔ مغربی اقوام نے مذہب کے معاشرتی کردار سے دستبردار ہو جانے کے بعد عالمِ اسلام سے یہ بے جا توقع وابستہ کر لی تھی کہ وہ بھی معاشرتی زندگی میں اپنے مذہبی عقائد و احکام کی عملداری سے دست کش ہو جائے گا اور مسلمان مجموعی طور پر سیکولرزم کو قبول کر کے مغرب کے فلسفہ و ثقافت کے سامنے سپر انداز ہو جائیں گے، مگر ایسا نہیں ہو سکا۔ اور مغربی طاقتوں کی تمام تر کوششوں کے ساتھ ساتھ مسلم ممالک میں ان کی ہمنوا رولنگ کلاس اور مغرب سے مرعوب دانشوروں کی مسلسل کاوشوں کے باوجود دنیا بھر کا عام مسلمان ابھی تک اپنے عقائد و روایات اور احکام و قوانین کے ساتھ بے لچک وابستگی قائم رکھے ہوئے ہے، اور عمومی مسلم سوسائٹی کو اسلامی عقائد و احکام سے دستبردار کرانے بلکہ دانشوروں کی وسیع تر یلغار کے ذریعے شکوک و شبہات سے دوچار کرانے کا کوئی حربہ کامیاب نہیں ہو رہا۔

اس لیے سیکولر مغربی قوتوں کے غیظ و غضب میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے اور وہ اقوام متحدہ کی چھتری تلے اپنے اس غصے کے اظہار کا کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دے رہیں، جس کی ایک مثال یہ ہے کہ دنیا میں کسی جگہ بھی مسلم سوسائٹی میں اسلامی احکام و قوانین کے نفاذ کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ اقوام متحدہ اور اس کے ادارے ہوتے ہیں، جس کا مطلب اس کے سوا کیا ہے کہ مسلمانوں کو خود ان کے داخلی ماحول میں بھی قرآن و سنت کے احکام و قوانین کی عملداری کا موقع دینے سے انکار کیا جا رہا ہے، اور نہ صرف مسلمانوں بلکہ اسلام کے عقائد و روایات کو بھی طعن و تشنیع کا نشانہ بنایا جا رہا ہے جس کی شکایت اقوام متحدہ میں پاکستان کی مستقل نمائندہ محترمہ ملیحہ لودھی کو جنرل اسمبلی کی لیگل کمیٹی کے سامنے کرنا پڑی ہے۔ ہم محترمہ ملیحہ لودھی کے اس بیان کی مکمل تائید کرتے ہیں مگر ہمارے نزدیک اس کی اصل وجہ اقوام متحدہ سے زیادہ خود مسلمان حکومتیں ہیں جنہوں نے:

  • آج تک اس مسئلہ کو سنجیدگی کے ساتھ نہیں لیا،
  • اقوام متحدہ کے نام پر یا اس کے اداروں اور بین الاقوامی معاہدات کے ذریعے اسلامی عقائد و قوانین کی مسلسل مخالفت کے حوالہ سے کوئی واضح موقف اختیار نہیں کیا،
  • اقوام متحدہ کے انسانی حقوق کے چارٹر، اقوام متحدہ کے ذریعے طے پانے والے بین الاقوامی معاہدات اور اقوام متحدہ کے اداروں کی عالمِ اسلام میں کارکردگی پر مسلم حکومتوں نے کبھی غور کرنے کی زحمت ہی گوارا نہیں کی،
  • حتیٰ کہ مسلم حکومتوں کی مشترکہ تنظیم او آئی سی بھی اس سلسلہ میں منقار زیر پر ہے۔

مسلم حکومتوں کی یہ ذمہ داری ہے کہ وہ اقوام متحدہ کے نظام، پالیسیوں، فیصلوں، معاہدات اور اقوام متحدہ کے ذیلی اداروں کی کارکردگی کا جائزہ لینے کے لیے ماہرین اور دانشوروں کا ایک اعلیٰ سطحی گروپ تشکیل دیں اور اپنی شکایات و تحفظات کو باقاعدہ مرتب کر کے اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی اور سلامتی کونسل میں زیر بحث لانے کے لیے اجتماعی اثر و رسوخ استعمال کریں، ورنہ محض شکوہ و شکایت کر دینے سے کوئی فائدہ نہیں ہوگا اور ’’ مرض بڑھتا گیا جوں جوں دوا کی ‘‘ کی کیفیت سے نجات حاصل نہیں ہو سکے گی۔

جبکہ ہمارے نزدیک اس سے بھی زیادہ ضروری ہے کہ عالم اسلام کے علمی ادارے، فکری مراکز، جامعات، دینی مدارس اور ارباب فکر و دانش اس حوالہ سے متحرک ہوں اور صورتحال کا گہرائی کے ساتھ جائزہ لے کر ایک جامع رپورٹ دنیا کے سامنے لانے کا اہتمام کریں تاکہ عالمی رائے عامہ کے ساتھ ساتھ مسلم امہ کے عمومی ماحول کو بھی اس بات سے آگاہ کیا جا سکے کہ اقوام متحدہ کو اسلام اور عالم اسلام کے خلاف کس طرح بے دردی کے ساتھ استعمال کیا جا رہا ہے۔

   
2016ء سے
Flag Counter