جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ایک ارشاد گرامی کا مفہوم یہ ہے کہ فتنوں کے ہجوم اور یلغار کے دور میں دو آدمی اپنا ایمان بچانے میں کامیاب رہیں گے، ایک وہ شخص جو شہری آبادی اور سوسائٹی سے الگ تھلگ دور دراز علاقے میں بکریوں کے دودھ پر گزارہ کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ کی بندگی میں زندگی گزار دے، اور دوسرا وہ شخص جو گھوڑے کی لگام پکڑے دین کے دشمنوں کے خلاف مسلسل برسرِ پیکار رہے۔ چنانچہ فتنوں کے خلاف سرگرم عمل رہنا، ان کے مقابلہ اور سدّباب کے ساتھ اپنے ایمان کے تحفظ کے لیے بھی ضروری ہے۔ خوش قسمت ہیں وہ لوگ جو کسی نہ کسی محاذ پر دینی عقائد و روایات اور اسلامی ثقافت و تمدن کے تحفظ کے لیے مصروف عمل رہتے ہیں۔
دورِ حاضر کے فتنوں کا دائرہ بہت وسیع اور متنوع ہے اور اہلِ حق کو جن جن محاذوں پر محنت کرنا پڑ رہی ہے اس کے لیے اب ’’چومکھی لڑائی‘‘ کا محاورہ بھی کمزور پڑنے لگا ہے، مگر اللہ تعالیٰ کا قانون ہے کہ وہ ہر دور میں اس دور کی ضروریات کے مطابق لوگ پیدا کر کے انہیں کام پر لگا دیتے ہیں جو دین کے حوالہ سے جنم لینے والے فتنوں کا کھوج لگاتے ہیں، ان کی نشان دہی کرتے ہیں، لوگوں کو ان سے متعارف کراتے ہیں اور ان سے بچنے کے اسباب اور طریق کار کے بارے میں راہ نمائی کرتے ہیں۔
ان فتنوں میں ایک بڑا فتنہ عقیدۂ ختم نبوت سے انکار اور نبوت کے ٹائٹل کے ساتھ نئے مذہبی گروہ متعارف کرانے کا فتنہ ہے جس نے دورِ حاضر میں مختلف حوالوں سے عالمِ اسلام میں اپنا جال پھیلا رکھا ہے، جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا واضح ارشاد گرامی سینکڑوں روایات میں موجود ہے کہ وہ آخری نبی ہیں اور ان کے بعد قیامت تک کسی اور کو نبوت کا منصب نہیں ملے گا، اور قیامت تک کا زمانہ ان کی نبوت کا زمانہ ہے اس لیے کوئی اور نیا نبی اس منصب پر فائز نہیں ہوگا جس کی ایک وجہ علامہ اقبالؒ نے یہ بیان کی ہے کہ نبوت کا منصب چونکہ دین میں آخری اتھارٹی ہوتا ہے اور اس کے بدلنے سے مرکز وفاداری اور اتھارٹی دونوں تبدیل ہو جاتے ہیں اس لیے قیامت تک جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا دور نبوت جاری رہنے کا منطقی تقاضہ یہ ہے کہ کوئی اور نبی نہ آئے اور جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی حتمی اتھارٹی اور امت کے مرکز وفاداری میں کوئی شریک پیدا نہ ہو۔ مگر اس کے باوجود ہر دور میں نبوت کے جھوٹے دعویدار سامنے آتے رہے ہیں جنہیں امت مسلمہ نے قبول نہیں کیا اور وہ اپنے الگ گروہوں کے ساتھ کچھ وقت گزار کر تاریخ کا حصہ بن جاتے رہے ہیں۔
خود جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ کرامؓ کے دور میں مسیلمہ کذاب، اسود عنسی، طلیحہ بن خویلد اور سجاح جیسے مدّعیان نبوت پیدا ہوئے، انہوں نے اپنے اپنے گروہ بنائے اور مسلمانوں کے خلاف صف آراء ہوئے، مگر امت کے اجتماعی دھارے میں ضم نہیں ہو پائے اور رفتہ رفتہ ختم ہوگئے۔ موجودہ دور میں بھی دنیا کے مختلف حصوں میں مدعیان نبوت کے متعدد گروہ موجود ہیں اور ان کے حلقے بھی قائم ہیں جن سے امت کو آگاہ کرنے اور مسلمانوں کے عقائد کے تحفظ کے لیے دینی جماعتیں جدوجہد کر رہی ہیں۔
ایران کے بہائی مرزا بہاء اللہ شیرازی کی نبوت و رسالت کی بات کرتے ہیں، پاکستان میں بلوچستان کے ذکری ملا نور محمد مہدی کی نبوت پر ایمان رکھتے ہیں اور امریکہ کا گروہ ’’نیشن آف اسلام‘‘ آلیج محمد کی نبوت کا علمبردار ہے جو لوئیس فرخان کی قیادت میں کام کر رہا ہے، جبکہ مرزا غلام احمد قادیانی کی نبوت کے ٹائٹل کے ساتھ قادیانی امت مختلف ممالک میں سرگرم عمل ہے اور جنوبی ایشیا کے مسلمان ان کا بطور خاص ہدف ہیں۔
پاکستان بننے کے بعد سے ہی قادیانیوں کی معاشرتی حیثیت کے بارے میں مسلمانوں کے مختلف مکاتب فکر کی جدوجہد کا آغاز ہوگیا تھا اور تمام مکاتب فکر کے اکابر علماء کرام نے مفکر پاکستان علامہ محمد اقبالؒ کی تجویز کے مطابق یہ متفقہ موقف اختیار کیا تھا کہ مرزا غلام احمد قادیانی کے پیروکار چونکہ مسلّمہ اسلامی عقائد کی رو سے ملت اسلامیہ کا حصہ نہیں ہیں اس لیے انہیں دستوری طور پر غیر مسلم اقلیت قرار دے دیا جائے اور ملک کی دیگر غیر مسلم اقلیتوں کی طرح انہیں بنیادی شہری اور مذہبی حقوق کا تحفظ فراہم کیا جائے۔ مسلمانوں کی یہ جدوجہد ۱۹۷۴ء میں کامیاب ہوئی جب منتخب پارلیمنٹ نے وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹو مرحوم اور قائد حزب اختلاف مولانا مفتی محمودؒ کی قیادت میں قادیانیوں کو غیر مسلم اقلیتوں میں شمار کرنے کا تاریخی فیصلہ کیا، مگر اسے قبول کرنے سے قادیانیوں نے انکار کر دیا اور اس انکار پر ان کے اصرار نے اب تک یہ مسئلہ نہ صرف باقی رکھا ہوا ہے بلکہ اس کی شدت میں مسلسل اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔ حالانکہ یہ سیدھی سی بات ہے کہ پورا عالم اسلام قادیانیوں کو اپنے وجود کا حصہ تسلیم کرنے کے لیے تیار نہیں ہے اور پاکستان کی منتخب پارلیمنٹ نے متفقہ دستوری فیصلے کے ذریعہ انہیں غیر مسلم اقلیتوں میں شمار کر دیا ہے، اسے قبول نہ کرنے کا قادیانیوں کے پاس کوئی سیاسی، قانونی اور اخلاقی جواز موجود نہیں ہے، لیکن اس کے باوجود قادیانی گروہ نہ صرف اپنے انکار پر بضد ہے بلکہ پاکستان کے دستور و قانون اور مسلمانوں کے اجتماعی موقف کے خلاف عالمی سیکولر لابیوں کے ساتھ مل کر محاذ آرائی کو مسلسل جاری رکھے ہوئے ہے اور اس کے لیے کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دے رہا۔
اس پس منظر میں عقیدہ ختم نبوت کے تحفظ اور مسلمانوں کے ایمان و عقیدہ کے بچاؤ کے ساتھ ساتھ پاکستان کے نظریاتی تشخص اور دستوری فیصلوں کی بالادستی کے لیے مسلسل جدوجہد کی ضرورت ہے تاکہ عوام میں بیداری اور آگاہی کا ماحول تازہ رہے اور قادیانیوں کی حمایت میں عالمی سیکولر لابیاں کوئی شبخون مارنے میں کامیاب نہ ہونے پائیں۔
اس مقصد کے لیے عالمی مجلس تحفظ ختم نبوت گزشتہ چھ عشروں سے جدوجہد کے میدان میں ہے، مختلف شعبوں میں اس کی سرگرمیاں جاری ہیں اور وقتاً فوقتاً عالمی مجلس کے زیر اہتمام عوامی اجتماعات کا سلسلہ جاری رہتا ہے۔ اس سلسلہ میں ۲۷۔ اپریل ہفتہ کو نماز مغرب کے بعد منی اسٹیڈیم شیخوپورہ روڈ گوجرانوالہ میں ’’ختم نبوت کانفرنس‘‘ منعقد کی جا رہی ہے جس کے لیے گوجرانوالہ ڈویژن کے تمام اضلاع میں تیاریاں جاری ہیں اور توقع ہے کہ لاکھوں مسلمان اس موقع پر جمع ہو کر عقیدۂ ختم نبوت کے ساتھ اپنے بے لچک تعلق کا پرجوش مظاہرہ کریں گے اور مختلف مکاتب فکر کے اکابر علماء کرام اس میں خطاب کرکے اس مسئلہ کے بارے میں امت مسلمہ کے اجتماعی موقف کا ایک بار پھر اظہار کریں گے۔ ان شاء اللہ تعالیٰ۔
اسلامیان گوجرانوالہ سے گزارش ہے کہ وہ اپنی روایات کے مطابق اس کانفرنس کو کامیاب بنا کر تحریک ختم نبوت کے ساتھ اپنی وابستگی اور وفاداری کا بھرپور مظاہرہ کریں۔