روزنامہ دنیا گوجرانوالہ میں ۱۷ جولائی ۲۰۱۶ء کو شائع ہونے والی ایک خبر ملاحظہ فرمائیں:
’’واشنگٹن (مانیٹرنگ ڈیسک) امریکی ایوان نمائندگان کے سابق اسپیکر نیوٹ کنگرچ نے کہا ہے کہ جو مسلمان شریعت پر یقین رکھتے ہیں انہیں امریکہ سے نکال دیا جائے۔ اس سے قبل امریکی صدارتی امیدوار ڈونلڈ ٹرمپ بھی مسلمانوں کے امریکہ میں داخلے پابندی کا مطالبہ کر چکے ہیں، جبکہ ایوان نمائندگان (کانگریس) کے سابق اسپیکر نیوٹ کنگرچ نے ایک انٹرویو میں کہا ہے کہ مغربی تہذیب حالت جنگ میں ہے، شریعت مغربی تہذیب سے مطابقت نہیں رکھتی، ایسے روشن خیال مسلمان جو شریعت کے قوانین پر یقین نہیں رکھتے ان کو ہم بخوشی قبول کریں گے۔ نیوٹ کنگرچ نے امریکہ میں مسجدوں کی نگرانی کے ساتھ ساتھ شدت پسند تنظیموں کی ویب سائٹس پر جانے والے افراد کو جیل بھیجنے کی تجویز بھی دی ہے۔‘‘
امریکی کانگریس کے سابق اسپیکر کا بیان اس حوالہ سے کسی مغربی لیڈر کا پہلا بیان نہیں ہے بلکہ اس سے قبل اس نوعیت کے بیانات متعدد امریکی اور یورپی راہنماؤں کی طرف سے سامنے آچکے ہیں، البتہ نیوٹ کنگرچ کے اس بیان کی خصوصیت یہ ہے کہ اس میں کسی ڈپلومیسی کا لحاظ کیے بغیر اور کوئی لگی لپٹی رکھے بغیر دو تین چار باتیں واضح طور پر کہہ دی گئی ہیں:
- ایک یہ کہ مغربی تہذیب کو اس وقت حالت جنگ کا سامنا ہے،
- دوسری یہ کہ اسلامی شریعت مغربی تہذیب سے مطابقت نہیں رکھتی،
- تیسری یہ کہ شریعت کے قوانین پر یقین رکھنے والے مسلمان مغرب کے لیے قابل قبول نہیں ہیں،
- اور چوتھی بات یہ کہ مغرب جس روشن خیالی کی بات کرتا ہے اس کا مطلب شریعت کے احکام و قوانین سے دستبرداری ہے اور اس سے کم پر مغرب راضی نہیں ہے۔
ہمارے بعض دانشور ابھی تک مغرب اور مسلمانوں کے درمیان پائی جانے والی موجودہ کشمکش کو تہذیبی اور ثقافتی جنگ تسلیم کرنے کے لیے تیار نہیں ہیں اور ان کا کہنا ہے کہ یہ کوئی تہذیبی کشمکش نہیں ہے بلکہ یہ مفادات کی جنگ ہے، اور ترقی یافتہ اور ترقی پذیر ممالک کے درمیان کشمکش ہے جس میں مسلم ممالک و اقوام ترقی میں پیچھے رہ جانے کی وجہ سے مغلوب ہیں اور وہ سائنسی و معاشی ارتقا میں مغربی سوسائٹی کا ساتھ نہ دینے کے باعث پیچھے رہ گئے ہیں۔ لیکن نیوٹ کنگرچ نے یہ بات دو ٹوک انداز میں واضح کر دی ہے کہ یہ تہذیبی جنگ اور سولائزیشن وار ہے جس میں ایک طرف مغربی تہذیب و ثقافت ہے جو سائنسی ترقی، عسکری بالادستی، معاشی تسلط اور میڈیا پر اجارہ داری کی وجہ سے دنیا کے بیشتر علاقوں اور معاشروں کو اپنی لپیٹ میں لے چکی ہے، جبکہ دوسری طرف اسلامی تہذیب ہے جو پوری قوت کے ساتھ اپنی بقا بلکہ فروغ کی جنگ لڑ رہی ہے۔ امر واقعہ یہ ہے کہ یہ جنگ اب دو ٹوک انداز میں واضح ہوتی جا رہی ہے اور یہ بات نوشتہ دیوار بن چکی ہے کہ مستقبل میں ان میں سے وہی تہذیب انسانی سوسائٹی کی قیادت کرے گی جو زیادہ سخت جان ہو گی اور جو انسانی سوسائٹی کو درپیش مسائل کو حل کرنے کی زیادہ صلاحیت رکھتی ہو گی، یہ صرف ہمارا دعویٰ نہیں بلکہ فطرت کا اصول اور تاریخی عمل کا تقاضہ بھی یہی ہے۔
امریکی کانگریس کے سابق اسپیکر کی یہ بات بھی بطور خاص قابل توجہ ہے کہ اسلامی شریعت اور مغربی تہذیب میں مطابقت موجود نہیں ہے، جو ہمارے ان دانشوروں کے لیے لمحۂ فکریہ ہے جو گزشتہ دو صدیوں سے اس کوشش میں مصروف ہیں کہ اسلام کو مغربی تہذیب کے مطابق ڈھالا جائے اور اسلامی احکام و قوانین کی ایسی تعبیرات تلاش کی جائیں جو انہیں مغربی تہذیب کے احکام و قوانین کے ساتھ ہم آہنگ دکھا سکیں۔ ہمارے ان دانشوروں کو یہ سادہ سی بات بھی سمجھ نہیں آرہی کہ اسلامی تہذیب و تمدن اور معاشرت کی بنیاد وحی آسمانی اور قرآن و سنت کی تعلیمات پر ہے، جبکہ مغربی تہذیب کی بنیاد آسمانی تعلیمات کے معاشرتی کردار کی نفی پر ہے۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے کہ ’’کتاب انزلناہ الیک لتخرج الناس من الظلمات الی النور‘‘ یہ کتاب ہم نے آپ پر اس لیے اتاری ہے تاکہ آپ لوگوں کو ظلمات سے نکال کر روشنی اور نور کی طرف لے آئیں۔
گویا اسلام کے نزدیک آسمانی تعلیمات کی طرف رجوع روشنی اور روشن خیالی کہلاتا ہے، جبکہ مغرب کے نزدیک احکام شریعت سے انحراف اور دستبرداری کا کام روشن خیالی ہے۔ یعنی جو چیز اسلام کے نزدیک نور ہے وہ مغرب کے ہاں ظلمت کہلاتی ہے، اور جس چیز کو مغرب روشنی کہتا ہے وہ اسلام کے نزدیک جہالت اور تاریکی سے عبارت ہے۔ اس لیے ان دونوں کے درمیان مفاہمت و مطابقت کی کوئی راہ تلاش کرنا خام خیالی اور کارِ لاحاصل کے سوا کچھ نہیں ہے، یہی وجہ ہے کہ خود مغرب اسلامی شریعت کو کسی بھی درجہ میں برداشت کرنے اور شرعی احکام و قوانین کو خود مسلم ممالک کے داخلی ماحول میں عملداری کا موقع دینے کے لیے بھی کسی صورت میں تیار نہیں ہے، اور اس کا طرز عمل اس حوالہ سے ہٹ دھرمی کی حد تک بے لچک ہے جس کا اظہار ڈونلڈ ٹرمپ اور نیوٹ کنگرچ جیسے لیڈروں کی زبانوں سے وقتاً فوقتاً ہوتا رہتا ہے۔اس صورتحال کا اصل تقاضہ یہ ہے کہ ڈونلڈ ٹرمپ اور نیوٹ کنگرچ کے بیانات کی مذمت میں وقت ضائع کرنے کی بجائے انہیں ایک زمینی حقیقت کے طور پر تسلیم کر کے مسلمانوں کے لیے صحیح سمت راہنمائی کا راستہ تلاش کیا جائے۔
ہم ایک عرصہ سے مسلمانوں کے فکری حلقوں اور علمی مراکز سے یہ گزارش کر رہے ہیں کہ مغربی تہذیب اور اسلامی تہذیب کے درمیان موجود عالمی کشمکش کو علمی و فکری طور پر واضح کرنے کی ضرورت بڑھتی جا رہی ہے، اور خاص طور پر مغربی تہذیب کی بنیاد پر تشکیل پانے والے مروجہ عالمی نظام اور اس کے احکام و قوانین کا حقیقت پسندانہ تجزیہ کر کے یہ بات دو ٹوک انداز میں واضح کرنا ضروری ہو گیا ہے کہ قرآن و سنت کی تعلیمات کے دائرے میں کون سی بات قابل قبول ہے اور کس بات کو قبول کرنے کی گنجائش نہیں ہے۔ مغرب کا موقف تو بالکل واضح ہے کہ وہ شریعت کی عملداری کو کسی درجہ میں قبول کرنے کے لیے تیار نہیں ہے، اس کے جواب میں ہماری ذمہ داری یہ بنتی ہے کہ:
- آسمانی تعلیمات اور انسانی سوسائٹی کے اجتماعی مفاد کی بنیاد پر ہم مغربی تہذیب کی غلطیوں کی نشاندہی کریں،
- مغربی تہذیب سے انسانی سوسائٹی کو پہنچنے والے نقصانات کو واضح کریں،
- اور اس کے مقابلہ میں اسلامی شریعت کی ضرورت و افادیت کو دلیل اور منطق کے ساتھ سامنے لائیں۔
خدا کرے کہ ہمارے فکری حلقے، دینی مراکز اور علمی مراجع اس ضرورت کا ادراک کرتے ہوئے کسی عملی پیشرفت کا اہتمام کر سکیں، آمین یا رب العالمین۔