دور جدید میں اجتہاد کی ضرورت اور دائرۂ کار

   
پنجاب یونیورسٹی، لاہور
۱۸ مارچ ۲۰۰۳ء

(۱۸ مارچ ۲۰۰۳ء کو شیخ زید اسلامک سنٹر، پنجاب یونیورسٹی، لاہور میں ’’اجتہاد‘‘ کے موضوع پر منعقد ہونے والے سیمینار میں پڑھا گیا۔)

بعد الحمد والصلٰوۃ۔ شیخ زید اسلامک سنٹر جامعہ پنجاب کی ڈائریکٹر محترمہ ڈاکٹر شوکت جمیلہ صاحبہ کا شکر گزار ہوں کہ آج کی اس محفل میں حاضری اور اظہار خیال کا موقع فراہم کیا۔ اللہ تعالیٰ انہیں جزائے خیر دیں اور ہمیں مقصد کی باتیں کہنے اور سننے کی توفیق سے نوازیں، آمین۔

  1. اجتہاد کا مفہوم اور اس کی ضرورت
  2. عمل اجتہاد کا تاریخی ارتقا
  3. علما، دور جدید اور اجتہاد
  4. دینی حلقوں کے لیے چند توجہ طلب پہلو


۱- اجتہاد کا مفہوم اور اس کی ضرورت

جب ہم یہ کہتے ہیں کہ کہ جناب سرور کائنات حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اللہ تعالیٰ کے آخری پیغمبر ہیں اور ان کے ساتھ ہی آسمان سے نازل ہونے والی وحی کا سلسلہ مکمل ہو گیا ہے، اب قیامت تک کوئی نبی نہیں پیدا ہوگا اور نہ ہی کوئی وحی نازل ہوگی اور اس کے ساتھ اس عقیدہ کا اظہار بھی کرتے ہیں کہ قیامت تک نسل انسانی کی ہدایت، راہ نمائی، فلاح اور نجات قرآن کریم اور جناب نبی اکرمؐ کی تعلیمات میں منحصر ہے تو منطقی طور پر یہ سوال ذہن میں ابھرتا ہے کہ زمانہ اور وقت تو ایک جگہ اور ایک کیفیت پر ٹھہرنے والی چیز نہیں ہے، اس میں مسلسل تغیر رونما ہوتا رہتا ہے، انسانی سوسائٹی تغیر اور ارتقا کے مراحل سے پیہم گزر رہی ہے اور دنیا کے احوال وظروف میں تبدیلیاں انسانی زندگی کا لازمی حصہ ہیں، پھر اس مسلسل اور پیہم تغیر پذیر دنیا اور سوسائٹی میں نئے احوال وظروف سے عہدہ برآ ہونے کے لیے انسانی معاشرہ کی راہ نمائی کا نظام کیا ہے؟ اور سلسلہ وحی مکمل ہو جانے کے بعد قیامت تک آنے والے انسانوں کا آسمانی تعلیمات کے ساتھ رشتہ کیسے قائم رہے گا؟ مغرب نے تو یہ کہہ کر اس سارے قضیے سے پیچھا چھڑا لیا ہے کہ انسانی سوسائٹی اب بالغ ہو گئی ہے اور اپنا برا بھلا خود سمجھنے لگی ہے اس لیے اسے آسمانی تعلیمات اور وحی الٰہی کی ڈکٹیشن کی سرے سے ضرورت ہی نہیں رہی، اب اس کے فیصلے خود اس کے ہاتھ میں ہیں۔ انسانی سوسائٹی کی اکثریت جو چاہے اور انسان کی اجتماعی عقل وخرد جو سمجھے، وہی حرف آخر ہے اور اسے مزید کسی نگرانی اور چیک کی حاجت نہیں ہے لیکن مسلمانوں کے لیے یہ بات کہنا اور اسے قبول کرنا ممکن نہیں ہے کیونکہ وہ یہ ایمان رکھتے ہیں کہ انسانی سوسائٹی کسی مرحلہ میں بھی آسمانی تعلیمات سے بے نیاز نہیں رہ سکتی اور انسانی معاشرہ کو شخصی، طبقاتی یا اجتماعی طور پر کبھی بھی یہ مقام حاصل نہیں ہو سکتا کہ وہ وحی الٰہی سے لا تعلق ہو کر اپنے فیصلوں میں غیر مشروط طور پر آزاد ہو اس لیے قیامت تک انسانی سوسائٹی کی راہ نمائی کے لیے آسمانی تعلیمات کا تسلسل ضروری ہے۔

قرآن کریم اور جناب نبی اکرمؐ کی سنت وتعلیمات دونوں تاریخ کے ریکارڈ پر محفوظ حالت میں موجود ہیں اور دنیا بھر میں شب وروز ان کی تعلیم وتدریس اور تبلیغ واشاعت کا سلسلہ جاری ہے لیکن ظاہر ہے کہ ان میں انسانی زندگی کو قیامت تک پیش آنے والے حالات ومسائل کی تفصیلات موجود نہیں ہیں اور نہ ہی موجود ہو سکتی ہیں اس لیے اسلام نے بعد میں رونما ہونے والے حالات وواقعات اور مشکلات ومسائل کے حوالہ سے انسانی معاشرہ کو قرآن وسنت کے دائرہ کا پابند رکھتے ہوئے جزئیات وفروعات میں حالات ومواقع کی مناسبت سے قرآن وسنت کی اصولی راہ نمائی کی روشنی میں عقل وقیاس کے ساتھ فیصلے کرنے کا اختیار دے دیا ہے اور اسی اختیار کو شریعت کی اصطلاح میں ’’اجتہاد‘‘ کہتے ہیں۔

جن مسائل میں قرآن وسنت کی واضح راہ نمائی موجود نہیں ہے، ان میں قرآن وسنت کی روشنی میں رائے اور اجتہاد کے ساتھ فیصلہ کرنے کا یہ عمل صحابہ کرامؓ میں خود جناب نبی اکرمؐ کے دور میں بھی جاری تھا۔ احادیث کے ذخیرے میں بیسیوں ایسے واقعات ملتے ہیں کہ صحابہ کرامؓ میں سے کسی کو کوئی معاملہ درپیش ہوا، قرآن کریم کا کوئی واضح حکم سامنے نہیں تھا، جناب نبی اکرمؐ تک فوری رسائی بھی ممکن نہیں تھی تو متعلقہ حضرات نے اپنی رائے سے ایک فیصلہ کر لیا اور اس پر عمل کر گزرے۔ بعد میں جناب نبی اکرمؐ کی خدمت میں بات پیش کی گئی تو آنحضرتؐ نے یہ تو کیا کہ کسی کے عمل کی توثیق کر کے اسے سند جواز عطا فرما دی اور کسی کے عمل کو خطا قرار دے دیا لیکن کبھی بھی نبی اکرمؐ نے اس ’’اختیار‘‘ کی نفی نہیں فرمائی کہ قرآن وسنت کی واضح راہ نمائی موجود نہ ہونے کی صورت میں وہ اپنی رائے اور اجتہاد سے فیصلہ کرنے کے مجاز ہیں۔

اس حوالے سے حضرت معاذ بن جبلؓ کی مشہور روایت کی ترتیب بھی یہی ہے کہ انہیں یمن کا عامل وقاضی بناتے ہوئے نبی اکرمؐ نے پوچھا کہ کسی مسئلہ میں قرآن کریم اور سنت نبوی سے راہ نمائی نہ ملی تو وہ کیا کریں گے؟ انہوں نے فرمایا کہ اجتہد برایی، میں اپنی رائے سے اجتہاد کروں گا تو جناب نبی اکرمؐ نے ان کے اس جواب پر خوشی کا اظہار کر کے اس بات کی توثیق وتصدیق فرما دی۔

۲- عمل اجتہاد کا تاریخی ارتقا

جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے وصال کے بعد صحابہ کرامؓ کے پورے دور میں اسی اصول کے مطابق نئے پیش آمدہ مسائل کے فیصلے ہوتے رہے اور اس کے لیے باقاعدہ اصول وضوابط طے کرنے کا کام بھی انہی کے دور میں شروع ہو گیا جیسا کہ حضرت عمرؓ، حضرت علیؓ، حضرت عبد اللہ بن مسعودؓ اور بعض دیگر اکابر صحابہ کرامؓ کے متعدد ارشادات سے اس کی نشان دہی ہوتی ہے۔ صحابہ کرامؓ چونکہ براہ راست چشمہ نبوت سے فیض یاب تھے اور جناب نبی اکرمؐ کے مزاج اور سنت کو اچھی طرح سمجھتے تھے اس لیے اجتہاد کے حوالہ سے کسی واضح درجہ بندی، اصول وضوابط اور دائرہ کار کے تعین کی زیادہ ضرورت محسوس نہیں کی گئی البتہ بعد کے ادوار میں ’’اجتہاد‘‘ کے اس عمل کو ہرکس وناکس کی جولان گاہ بننے سے بچانے کے لیے یہ ضرورت محسوس ہوئی کہ اس کے اصول وقوانین طے کیے جائیں، دائرہ کار کی وضاحت کی جائے، درجہ بندی اور ترجیحات کا تعین کیا جائے اور اہلیت وصلاحیت کا معیار بھی طے کر لیا جائے تاکہ قرآن وسنت کی تعبیر وتشریح اور نئے پیش آمدہ مسائل کے شرعی حل کا یہ مقدس عمل بازیچہ اطفال بننے کے بجائے صحیح رخ پر منظم ہو اور امت کی فکری وعملی راہ نمائی کا موثر ذریعہ ثابت ہو، چنانچہ بیسیوں مجتہدین اور ائمہ کرامؒ نے اس کے لیے انفرادی واجتماعی محنت کی اور کم وبیش تین سو برس تک عالم اسلام کے مختلف حصوں اور امت کے مختلف گروہوں میں جاری رہنے والے متنوع علمی مباحث کے نتیجے میں وہ منظم فقہی مکاتب فکر وجود میں آئے جنہیں آج حنفی، مالکی، شافعی ، حنبلی اور دوسرے عنوانات کے ساتھ یاد کیا جاتا ہے اور جو بعد کی صدیوں میں کم وبیش ساری امت کو اپنے دائروں میں سمیٹتے چلے آ رہے ہیں۔

البتہ یہ فرق ضرور سامنے آیا کہ ابتدائی صدیوں میں اجتہاد کا عمل ان فقہی مکاتب فکر کی طرز کے متعین اصول وضوابط کے دائروں کا پابند نہیں تھا اور آزادانہ اجتہاد کے ذریعہ مجتہدین اپنے اپنے علاقوں میں امت کی راہ نمائی کا فریضہ سرانجام دیتے تھے مگر ان فقہی مکاتب فکر کے منظم ہونے کے بعد اجتہاد کے اصول وضوابط طے کرنے کا کام جاری نہ رہا اور انہی کے واضح کردہ اصول وقوانین کی پابندی کرتے ہوئے عملی دائروں میں اجتہاد کا سلسلہ بدستور چلتا رہا۔ یہ ایک فطری عمل ہے کہ کسی بھی علم کے بنیادی اصول وضوابط کے تعین کا ایک خاص وقت ہوتا ہے، یہ وہی وقت ہوتا ہے جب وہ تشکیل وتدوین کے مراحل سے گزر رہا ہو۔ اور جب وہ تشکیل وتدوین کے ایک خاص مرحلہ تک پہنچتا ہے تو بنیادی اصول وضوابط کے وضع کرنے کا عمل ضرورت پوری ہو جانے کی وجہ سے خود بخود رک جاتا ہے اور اس کے بعد اس علم نے ہمیشہ انہی بنیادی اصولوں کے دائرے میں آگے بڑھنا ہوتا ہے جو اس کے لیے ابتدا میں طے کر دیے جاتے ہیں۔ ان اصول کے دائرہ میں اس علم کا ارتقا جاری رہتا ہے لیکن اس کے بنیادی اصولوں کو نہ کبھی چیلنج کیا جاتا ہے اور نہ ہی انہیں جامد قرار دے کر تبدیل کرنے کی ضرورت محسوس کی جاتی ہے۔ مثال کے طور پر علم صرف کو سامنے رکھا جا سکتا ہے کہ اس کے اصول اور بنیادی قوانین انسانوں نے ہی وضع کیے ہیں اور ماضی، مضارع، فاعل، امر، نہی اور ظرف وغیرہ کے صیغوں کی تشکیل اور دیگر ضوابط ایک دور میں صرف کے اماموں نے طے کیے ہیں، ان میں جزوی ترمیمات وتوضیحات ہر دور میں ہوتی رہی ہیں لیکن بنیادی قواعد کا ڈھانچہ وہی چلا آ رہا ہے جو اس کے ابتدائی ائمہ نے طے کر دیا تھا۔ اسے نہ تو کسی بھی دور میں چیلنج کرنے کا کوئی جواز ہے اور نہ ہی یہ سوال اٹھانا عقل مندی کی بات ہوگی کہ ڈیڑھ ہزار سال قبل کے لوگوں کو قواعد وضوابط بنانے کا حق تھا تو آج کے ترقی یافتہ دور میں یہ حق ہمیں کیوں حاصل نہیں ہے؟ ہم ان قواعد وضوابط میں اضافہ کر سکتے ہیں، ان کی ضرورت کے مطابق نئی تشریحات کر سکتے ہیں لیکن اس کے بنیادی ڈھانچہ کی نفی نہیں کر سکتے اور نہ ہی اس کی نسبت تبدیل کر سکتے ہیں کہ یہ اعزاز تقدیر وتاریخ میں جن کے لیے طے تھا، ان کو مل چکا ہے اور اب قیامت تک ان سے یہ کریڈٹ چھینا نہیں جا سکتا۔

۳- علما، دور جدید اور اجتہاد

آج کل عام طور پر ایک بات تسلسل کے ساتھ کہی جا رہی ہے کہ علماء کرام نے ’’اجتہاد‘‘ کا دروازہ بند کر دیا ہے اور جمود کو امت پر مسلسل مسلط کر رکھا ہے جس کی وجہ سے امت پر ترقی کے دروازے مسدود ہیں۔ ہمارا خیال ہے کہ اس مرحلہ پر اس سوال کا سنجیدگی کے ساتھ جائزہ لے لیا جائے تو مناسب بات ہوگی۔

جہاں تک اجتہاد کے بنیادی اصول وضوابط کے تعین کی بات ہے، اس کا دروازہ تو ابتدائی تین صدیوں کے بعد سے اس لحاظ سے بند ہے کہ اس کے بعد اجتہاد کا عمل انہی دائروں میں ہوتا آ رہا ہے جو مسلمہ فقہی مکاتب فکر نے طے کر دیے تھے اور یہ دروازہ کسی کے بند کرنے سے بند نہیں ہوا بلکہ ضرورت پوری ہو جانے کے بعد فطری طور پر خود بخود بند ہو گیا ہے جیسا کہ کسی بھی علم کا فطری پراسیس ہوتا ہے، البتہ مسلمہ فقہی مکاتب فکر کے متعین کردہ اصولوں کے دائرہ میں اجتہاد کا معاملہ قدرے تفصیل طلب ہے۔ ہمارے خیال میں جو فقہ جس دور میں بھی کسی اسلامی مملکت کا قانون رہی ہے، اس میں وقت کی رفتار اور ضرورت کے مطابق اجتہاد کا عمل بھی جاری رہا ہے۔ اس اجتہاد میں نئے پیش آمدہ مسائل کا حل تلاش کرنے کے ساتھ ساتھ پرانے فقہی فتاویٰ پر نظر ثانی کا عمل بھی شامل ہے۔ خلافت عثمانیہ اور جنوبی ایشیا کی مغل حکومت دونوں کا قانون فقہ حنفی پر مبنی تھا۔ خلافت عثمانیہ میں ’’مجلۃ الاحکام العدلیہ‘‘ کی تدوین اور مغل حکومت میں ’’فتاویٰ عالم گیری‘‘ کی ترتیب کے کام پر نظر ڈال لیجیے، آپ کو سابقہ فقہی فتاویٰ پر نظر ثانی اور نئے مسائل کے حل کی اجتہادی کاوشیں دونوں جگہ یکساں دکھائی دیں گی۔ موجودہ دور میں سعودی عرب میں حنبلی فقہ کی عمل داری ہے، آپ اس کا جائزہ لیں گے تو سعودی قضاۃ کے فیصلوں میں آپ کو حنبلی فقہ اب سے دو سو برس قبل کی جزئیات کی شکل میں نہیں بلکہ آج کی ضروریات اور تقاضوں کے حوالے سے جدید اجتہادات کی روشنی میں آگے بڑھتی نظر آئے گی۔ اسی طرح اہل تشیع نے ایران میں فقہ جعفری کو ملکی قانون کا درجہ دیا ہے تو یقیناًانہوں نے صدیوں پہلی کتابیں اٹھا کر انہیں عدالتی قانون کی حیثیت نہیں دے دی بلکہ آج کے حالات اور تقاضوں کے مطابق انہیں جدید اجتہادات کے ساتھ جدید قانونی زبان اور اصطلاحات کے ذریعہ نافذ العمل بنایا ہے۔

یہ فقہی مذاہب کے اس کردار کی بات ہے جو انہوں نے مختلف ممالک میں سرکاری مذاہب کے طور پر ادا کیا ہے اور اب بھی کر رہے ہیں۔ اس سے ہٹ کر پرائیویٹ سیکٹر میں دیکھ لیجیے۔ ہمارے ہاں جنوبی ایشیا میں مغل اقتدار کے خاتمہ کے بعد اجتہاد اور افتا کا یہ عمل عدالت اور سرکار کے دائرہ سے نکل کر عوامی حلقوں میں آ گیا تھا۔ اس خطے میں گزشتہ دو صدیوں کے دوران سینکڑوں دار الافتا قائم ہوئے ہیں جو اب بھی کام کر رہے ہیں اور ان میں سے بیسیوں کو علمی وعوامی حلقوں میں اس درجہ کا اعتماد حاصل ہے کہ دینی معاملات میں ان کی بات کو حرف آخر سمجھا جاتا ہے۔ انہوں نے بلا مبالغہ لاکھوں فتاویٰ جاری کیے ہیں جو کئی ضخیم کتابوں کی صورت میں مارکیٹ میں موجود ہیں۔ اگر اہل علم کی کوئی ٹیم اس کام کے لیے مقرر کی جائے کہ وہ ان فتاویٰ کا جائزہ لے کر یہ تجزیہ کرے کہ ان میں کتنے فتوے ایسے ہیں جن میں ان مفتیان کرام نے اجتہادی صلاحیت سے کام لیتے ہوئے قرآن وسنت کی روشنی میں جدید مسائل کے نئے حل پیش کیے ہیں تو ہمارے محتاط اندازے کے مطابق ان کا تناسب مجموعی فتاویٰ کے بیس فی صد سے کسی طرح کم نہیں ہوگا۔ آپ ان کے فتاویٰ سے اختلاف کر سکتے ہیں لیکن اس بات سے اختلاف کی کوئی گنجائش نہیں ہے کہ انہوں نے نئے مسائل کا سامنا کیا، ان کے حل کے لیے اجتہاد کا عمل اختیار کیا اور جدید مسائل میں مسلمانوں کی راہ نمائی کی ہے۔

ہم تھوڑا سا اور آگے بڑھ کر ایک دو حوالے اور دینا چاہیں گے۔ ایک یہ کہ پاکستان بننے کے بعد جب یہ سوال اٹھا کہ اسلامی نظام کا نفاذ کس مذہبی فرقہ کی تشریحات کے مطابق ہوگا تو تمام مذہبی مکاتب فکر کے ۳۱ سرکردہ علماء کرام جمع ہوئے۔ علامہ سید سلیما ن ندویؒ کی سربراہی میں انہوں نے ۲۲ متفقہ دستوری نکات طے کر کے واضح کر دیا کہ اسلامی نظام کے نفاذ کے حوالہ سے مذہبی مکاتب فکر میں کوئی اختلاف نہیں ہے۔ ان دستوری نکات کو مذہبی مکاتب فکر کے اتحاد اور اتفاق کے مظہر کے طور پر پیش کیا جاتا ہے ۔ یہ بات درست ہے، لیکن ہمارے نزدیک تمام مکاتب فکر کے ۳۱ سرکردہ علماء کرام کے ۲۲ متفقہ دستوری نکات اتحاد امت کا مظہر ہونے کے ساتھ ساتھ بلکہ اس سے کہیں زیادہ اہم اور حساس ملی معاملات میں اجتہادی عمل کے آئینہ دار بھی ہیں۔ ان میں سے ایک ایک نکتہ اجتہادی عمل کی عکاسی کرتا ہے اور ان سرکردہ علماء کرام کی اجتہادی صلاحیتوں کی علامت ہے۔ مثال کے طور پر ان علماء کرام نے متفقہ طور پر طے کیا کہ ایک اسلامی ریاست میں حکومت کی تشکیل عوام کے ووٹوں سے ہوگی اور منتخب قیادت ہی ملک پر حکمرانی کی اہل ہوگی۔ ہمارے خیال میں یہ اتنا بڑا اجتہادی فیصلہ ہے جسے خلافت عثمانیہ اور مغل حکومت کے صدیوں سے چلے آنے والے خاندانی سیاسی ڈھانچوں کے تناظر میں گزشتہ صدی کے دوران علماء کرام کا سب سے بڑا اجتہادی فیصلہ قرار دیا جا سکتا ہے۔

اس ضمن میں ایک اور بات پر غور کر لیا جائے کہ قیام پاکستان کے فوراً بعد علماء کرام نے ۲۲ دستوری نکات میں وحدانی طرز حکومت کو ملک کے لیے موزوں قرار دیا تھا لیکن جب ۷۳ء کے دستور کی تشکیل کے دوران انہوں نے حالات کا تقاضا دیکھا تو وحدانی طرز حکومت کے بجائے وفاقی پارلیمانی نظام کی طرف منتقل ہوتے ہوئے کوئی سوال اور اشکال کھڑا نہیں کیا بلکہ اسلام کو ملک کا ریاستی مذہب قرار دلواتے ہوئے وفاقی پارلیمانی نظام کو اس کے سسٹم کے طور پر قبول کر لیا۔ اسے اگر اجتہادی عمل تسلیم نہ کیا جائے تو یہ نہ صرف ان علماء کرام کے ساتھ ناانصافی ہوگی بلکہ خود اجتہاد کے مفہوم ومعنی سے بھی ناواقفیت کا اظہار ہوگا۔

تھوڑا سا اور آگے بڑھیں تو ایک اور منظر آپ کے سامنے آپ کی توجہ کا طلب گار ہے اور وہ ۷۳ء کے دستور کے تحت قائم ہونے والی اسلامی نظریاتی کونسل کی رپورٹ ہے جو اس نے ملکی قوانین کا جائزہ لے کر قرآن وسنت کی روشنی میں ان میں ضروری ترامیم کے لیے مرتب کی ہے۔ اسلامی نظریاتی کونسل نے ملکی قوانین کا جائزہ لیا ہے، ان پر نظر ثانی کی ہے، قرآن وسنت کے اصولوں کو دیکھا ہے، حالات کے تقاضوں اور ضروریات کو جانچا ہے اور ملکی اور عالمی سطح پر سرکردہ ارباب دانش کی مشاورت سے تمام مروجہ قوانین کے حوالے سے اپنی سفارشات ترتیب دی ہیں۔ میرا ملک بھر کے اہل دانش سے سوال ہے کہ کیا یہ اجتہادی عمل نہیں ہے؟ اس اجتہادی عمل کو تو علماء کرام نے صرف اپنے دائرہ تک محدود رکھنے پر بھی اصرار نہیں کیا۔ اس میں نہ صرف جدید قانون اور دیگر مختلف شعبوں کے ماہرین شامل چلے آ رہے ہیں بلکہ اس کی سربراہی بھی کبھی روایتی حلقہ کے کسی عالم دین کے پاس نہیں رہی۔ اس میں ہر مکتب فکر کے سرکردہ اور معتمد علماء کرام مختلف اوقات میں شریک رہے ہیں۔ علماء کرام نے پوری دل جمعی اور شرح صدر کے ساتھ اس اجتہادی عمل کو آگے بڑھایا ہے اور آج اس کونسل کی سفارشات کو ملک میں بطور قانون نافذ کرانے کے لیے بھی سب سے زیادہ علماء کرام کی جماعتیں سرگرم عمل ہیں اس لیے یہ کہنا کہ عملی اجتہاد کا دروازہ صدیوں سے مکمل طور پر بند چلا آ رہا ہے اور علماء کرام نے کسی دور میں بھی کسی درجہ کے اجتہاد سے کام نہیں لیا، تاریخی حقائق اور تسلسل کے منافی ہے۔

ہماری ان معروضات کا مطلب یہ نہیں ہے کہ جو کچھ ہونا چاہیے تھا اور بدلتے ہوئے حالات جن امور کا تقاضا کرتے ہیں، وہ سب کچھ ہو رہا ہے اور علماء کرام اور دینی حلقے ہر قسم کے اعتراض اور سوال سے بری الذمہ ہیں۔ ایسا ہرگز نہیں ہے اور خود ہمیں اس سلسلے میں بہت سے اشکالات ہیں جن کا تذکرہ ہم اس کے بعد کرنا چاہتے ہیں لیکن اس سے قبل اتنی بات ضرور عرض کرنا چاہتے ہیں کہ کسی بھی طبقہ کے کردار کی کلی نفی کرتے ہوئے اگر آپ اس سے اپنی شکایات پر بات کرنا چاہیں گے تو آپ کی جائز شکایات بھی قابل توجہ نہیں سمجھی جائیں گی۔ اس لیے صحیح طریق کار یہ ہے کہ جتنا کام ہو رہا ہے، اس کا اعتراف کیا جائے اور کام کرنے والوں کو اس کا کریڈٹ دیا جائے۔ اس کے بعد جو کام نہیں ہو رہا، اس کی نشان دہی کرتے ہوئے اس کی طرف توجہ دلائی جائے اور اسے رو بہ عمل لانے کے لیے قابل قبول تجاویز دی جائیں۔

۴- دینی حلقوں کے لیے چند توجہ طلب پہلو

اس کے بعد ہم ان ضروریات اور تقاضوں کی طرف آتے ہیں جو آج کے روز افزوں تغیر پذیر حالات میں اجتہاد کے حوالے سے علماء کرام اور دینی حلقوں کو اپنی طرف متوجہ کرنے کی کوشش کررہے ہیں لیکن ہمارے علمی مراکز اور دینی ادارے اپنی ترجیحات اور دائرہ کار سے ہٹ کر کوئی بات سننے کو تیار دکھائی نہیں دیتے۔

  • پہلی بات یہ ہے کہ ہمارے دینی مراکز اور علمی اداروں نے اپنی علمی سرگرمیوں کو روز مرہ ضروریات کے دائرے میں محدود کر رکھا ہے اور وہ بھی اپنے الگ الگ ماحول میں جس سے ان کے کام کی افادیت اور تاثیر یقیناًمجروح ہو رہی ہے۔ انہیں جس بات کی طرف توجہ دلائی جاتی ہے اور جس کے لیے ان پر دباؤ ہوتا ہے، اس کے لیے وہ کچھ نہ کچھ کر گزرتے ہیں لیکن خود اپنی ذمہ داری پر ملی ضروریات کا جائزہ لینے اور امکانات کی بنیاد پر مسائل کے تعین اور ان کے حل کا کوئی نظام کسی مکتب فکر کے کسی علمی ادارے کے پاس موجود نہیں ہے۔ دوسرے لفظوں میں ’’فقہ تقدیری‘‘کا وہ عظیم الشان علمی کام جو کسی دور میں ہمارے فقہا اور ائمہ کا طرۂ امتیاز ہوتا تھا، وہ تقریباً نہ ہونے کے برابر ہے۔
  • ملی ضروریات کے حوالے سے اجتماعی علمی کاوش پرائیویٹ سیکٹر میں ۳۱ علماء کرام کے ۲۲ دستوری نکات کے بعد اب تک تعطل کا شکار ہے اور یہ بات سمجھ سے بالاتر ہے کہ پارلیمنٹ، وفاقی شرعی عدالت اور اسلامی نظریاتی کونسل کے سرکاری فورم پر دینی وملی مقاصد کے لیے مشترکہ علمی خدمات سرانجام دینے والے علماء کرام کو غیر سرکاری سطح پر انہی مقاصد کے لیے مل بیٹھنے اور دینی وعلمی مسائل مشترکہ طور پر طے کرنے میں حجاب کیوں ہے؟
  • قرآن وسنت کی نئی تعبیر وتشریح اور جدید فقہ اسلامی کی تدوین کے نعرہ سے تو ہمیں اتفاق نہیں ہے کہ اس سے چودہ سو سالہ اجماعی تعامل سے کٹ جانے کا تصور اجاگر ہوتا ہے مگر فقہ اسلامی پر اجتماعی نظر ثانی کو ہم وقت کی ناگزیر ضرورت سمجھتے ہیں۔ اسی طرح کی ضرورت جس طرح سلطان اورنگ زیب عالم گیرؒ کے دور میں محسوس کی گئی تھی اور جس کے نتیجے میں فتاویٰ عالم گیری وجود میں آیا تھا۔ اگر گیارہویں صدی ہجری میں فقہ کے سابقہ ذخیرہ پر نظر ثانی اور اس وقت کے جدید مسائل کے حل کے لیے مشترکہ علمی کاوش فقہی تسلسل کے منافی نہیں تھی تو آج بھی اس کی ضرورت سے انکار نہیں کیا جا سکتا۔ چونکہ آج کوئی اورنگ زیب عالم گیرؒ طرز کا مسلم حکمران موجود نہیں جو نظام شریعت کے نفاذ کو اپنی ذمہ داری محسوس کرے، اس لیے یہ دینی اداروں اور علمی مراکز کے ذمہ امت کا قرض ہے کہ وہ کوئی ایسا اجتماعی نظام وضع کریں کہ قدیم فقہی ذخیرہ پر موجودہ حالات کی روشنی میں نظر ثانی کر کے عرف وعادات، تعامل اور دیگر احوال وظروف کے تغیر کی وجہ سے جن مسائل کی ازسرنو وضاحت ضروری ہے، اسے سرانجام دینے کی کوئی معقول اور قابل قبول صورت نکل آئے۔
  • اجتہاد کے لیے علمی ماخذ یعنی قرآن وسنت اور ان سے متعلقہ علوم کی مہارت کے ساتھ ساتھ یہ بھی ضروری ہے کہ جن حالات اور محل پر اس کا اطلاق کیا جانا ہے، اس سے بھی کماحقہ واقفیت حاصل کی جائے یعنی اجتہاد کے ماخذ اور محل دونوں سے یکساں آگاہی اجتہاد کے عمل کے صحیح ہونے کا ناگزیر تقاضا ہے مگر ہمارے دینی اداروں میں دوسرے پہلو کو یکسر نظر انداز کیا جا رہا ہے۔ اس کی ایک چھوٹی سی مثال عرض کروں گا کہ ایک دینی مدرسہ کے دار الافتا میں مفتی صاحب ایک استفتا پر غور کر رہے تھے جو بینک کے کسی معاملہ کے حوالے سے تھا۔ میں بھی اتفاق سے وہاں موجود تھا۔ انہوں نے اس پر مجھ سے رائے چاہی۔ میں نے استفتا دیکھ کر کہا کہ میں بینکنگ کے سسٹم سے واقف نہیں ہوں اور اس کے جس شعبہ کے بارے میں یہ مسئلہ پوچھا گیا ہے، مجھے اس کے مبادیات کا علم بھی نہیں ہے اس لیے میں اس کے بارے میں کوئی رائے دینے کی پوزیشن میں نہیں ہوں۔ انہوں نے بتایا کہ یہ باتیں تو میں بھی نہیں جانتا۔ میں نے عرض کیا کہ پھر آپ فتویٰ کیسے دیں گے؟ وہ میرے اس سوال پر پریشان تو ہوئے لیکن میرا خیال ہے کہ فتویٰ انہوں نے کوئی نہ کوئی ضرور صادر کر دیا ہوگا۔
  • بد قسمتی سے ہم نے ایک بات کم وبیش حتمی سمجھ رکھی ہے کہ ہمارے روایتی حلقوں سے ہٹ کر کوئی بھی شخص یا ادارہ کوئی علمی یا دینی بات کرتا ہے تو وہ یقیناًگمراہی پھیلاتا ہے اور ہم نے اسے بہرحال مخالف کیمپ میں ہی دھکیلنا ہے۔ اگر تو ہم نئے پیش آمدہ مسائل پر غور وخوض اور ان کے حل کے لیے کوئی مربوط نظام رکھتے ہیں اور کوئی بھی مسئلہ پیش آنے پر خود کار نظام کی طرح ہمارا کوئی نہ کوئی حلقہ یا مرکز اس پر غور وفکر اور بحث وتمحیص کے لیے سرگرم عمل ہو جاتا ہے تو پھر کسی حد تک یہ بات سمجھ میں آتی ہے کہ اس سسٹم سے ہٹ کر بات کرنے والے کی حوصلہ شکنی کی جائے لیکن کسی بھی مسئلہ پر ہمارے ہاں اس وقت تحریک ہوتی ہے جب دو چار حلقوں سے بات آ چکتی ہے اور ہم کوئی خطرہ محسوس کرتے ہیں تو دفاعی ضروریات کے تحت متحرک ہو جاتے ہیں۔ اس کے بعد ہمارا سارا عمل دفاع اور تحفظات کے گرد گھومنے لگتا ہے اور اصل کرنے کا کام اسی میں گم ہو کر رہ جاتا ہے۔ یہ انتہائی پریشان کن صورت حال ہے۔ ہمارا خیال ہے کہ ہمیں اس پر نظر ثانی کرنی چاہیے، غیر روایتی علمی حلقوں کے حوالے سے ترجیحات قائم کرنی چاہییں اور جہاں افہام وتفہیم سے کام لینا ممکن ہو، اسے موہوم گمراہی کی نذر کر دینے کے بجائے قابل قبول غیر روایتی حلقوں سے استفادہ کی صورتیں نکالنی چاہییں۔
  • میں ایک متصلب اور شعوری حنفی ہوں اور اپنے دائرۂ کار میں اپنے فقہی اصولوں کی پابندی ضروری سمجھتا ہوں لیکن اس حقیقت کو نظر انداز کرنا بھی میرے لیے مشکل ہے کہ جس طرح گلوبلائزیشن کے بڑھتے ہوئے عمل نے مختلف ادیان کے حوالے سے مشترکہ عالمی سوسائٹی کی تشکیل کی راہ ہموار کر دی ہے، اسی طرح مسلم ممالک کے درمیان آبادی کے روز افزوں تبادلہ نے فقہی مذاہب کے حوالے سے بھی مشترکہ سوسائٹیاں قائم کر دی ہیں اور دنیا کے مختلف حصوں میں سینکڑوں جگہ ایسا ماحول موجود ہے جہاں حنفی، شافعی، مالکی، حنبلی اور ظاہری مکاتب فکر کے حضرات مشترکہ طور پر رہتے ہیں، اکٹھے نمازیں پڑھتے ہیں اور مل جل کر دینی تقاضے پورے کرتے ہیں۔ انہیں فقہی اختلافات کے حوالہ سے آپس میں ایک دوسرے کے ساتھ کیسے چلنا ہے؟ اس کی وضاحت آج کی ایک مستقل ضرورت ہے۔ ہمارے فقہا نے اس کی حدود بیان کی ہیں لیکن ہماری اس طرف توجہ نہیں ہے جس سے مسائل پیدا ہو رہے ہیں۔ دینی اداروں کی ذمہ داری ہے کہ وہ مذکورہ بالا دونوں حوالوں یعنی مختلف ادیان ومذاہب اور داخلی فقہی مکاتب فکر کے پس منظر میں اس ضرورت کا احساس کریں اور اس کو پورا کرنے کے لیے کردار ادا کریں۔
  • اجتہاد کے حوالے سے جو کام اس وقت ہمارے خیال میں سب سے زیادہ ضروری ہے، بد قسمتی سے وہی سب سے زیادہ نظر انداز ہو رہا ہے اور وہ ہے اقوام متحدہ کا انسانی حقوق کا چارٹر اور اقوام متحدہ کے مختلف اداروں کے وہ فیصلے اور ضوابط جنہیں بین الاقوامی قوانین کا درجہ حاصل ہے اور جن کی بنیاد پر متعدد اسلامی احکام وقوانین کی عالمی سطح پر نہ صرف مخالفت ہو رہی ہے بلکہ عالمی ادارے مسلم حکومتوں پر ان اسلامی احکام قوانین کی مخالفت میں مسلسل دباؤ ڈالتے رہتے ہیں مگر ان بین الاقوامی قوانین کے بارے میں ہمارے علمی حلقوں اور دینی اداروں کا کوئی مشترکہ موقف ابھی تک سامنے نہیں آیا۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ جس طرح ہمارے ۳۱ سرکردہ علماء کرام نے ۲۲ دستوری نکات طے کیے تھے، اسی طرز پر اقوام متحدہ کے چارٹر اور دیگر بین الاقوامی قوانین کا جائزہ لے کر قابل اعتراض حصوں کی نشان دہی کی جائے اور دلائل کے ساتھ قانونی زبان میں اس سلسلہ میں اسلامی موقف کی وضاحت کے ساتھ ساتھ انسانی حقوق کا متبادل چارٹر بھی پیش کیا جائے۔
  • ہمارے ہاں دینی مراکز اور علمی اداروں میں مقامی ضروریات کے حوالے سے محدود مقاصد کے لیے رجال کار کی تیاری تو ہو رہی ہے مثلا امام، خطیب، مدرس، مفتی، قاری وغیرہ۔ اگرچہ اس میں بھی بہت سے امور قابل توجہ ہیں لیکن پھر بھی بنیادی کام بحمد اللہ تعالیٰ ہو رہا ہے مگر اجتماعی نظام کو سمجھنے اور اس کے مسائل پر رائے دینے نیز عالمی ماحول کے ادراک اور فلسفہ وتہذیب کی بین الاقوامی کشمکش سے واقفیت اور اس پر منطق واستدلال کے جدید اسلوب میں اظہار خیال کے لیے رجال کار کی تیاری کا کام سرے سے مفقود ہے اور بین الاقوامی مسائل پر علمی ودینی نقطہ نظر سے موقف کے اظہار کے لیے بھی کوئی فورم موجود نہیں ہے۔
  • ایک بات اور قابل توجہ ہے کہ ہمارے علمی ودینی حلقوں کا موجودہ اور مروجہ طرز گفتگو اور استدلال کا اسلوب خود ہمارے داخلی ماحول کے لیے تو کسی حد تک قابل اطمینان ہو سکتا ہے لیکن جدید علمی حلقوں خاص طور پر مغربی فکر وفلسفہ کے حاملین اور ان کے متاثرین سے مکالمہ کے لیے وہ قطعی طور پر اجنبی ہے جس کی وجہ سے ہم علمی ودینی مسائل پر ایک معقول اور جائز موقف کا بھی صحیح طور پر اظہار نہیں کر پاتے۔ اس کے ساتھ ابلاغ کے جدید ذرائع تک رسائی اور ان کے استعمال کی صورت حال کو بھی شامل کر لیا جائے تو معاملہ اور زیادہ پریشان کن ہو جاتا ہے۔

ان گزارشات کے بعد ہم آخر میں خلاصہ کلام کے طور پر یہ عرض کرنا چاہیں گے کہ ہمارے نزدیک اصل ضرورت ا س حوالے سے اس امر کی ہے کہ ۲۲ دستوری نکات والے ۳۱ علماء کرام کی طرز اورسطح پر غیر سرکاری طور پر ایک فورم وجود میں آئے جو متعلقہ ضروری امور کا جائزہ لے اور آج کی ضروریات اور تقاضوں کی تکمیل کے لیے کوئی قابل عمل نظام کار طے کرے۔ ہمارے خیال میں دینی مدارس کے پانچوں وفاق جو تمام دینی مکاتب فکر کی نمائندگی کرتے ہیں اور جن کا ایک مشترکہ رابطہ بورڈ بھی موجود ہے، اس کام کے آغاز کے لیے بہترین فورم ثابت ہو سکتا ہے بشرطیکہ ان وفاقوں کے ذمہ دار بزرگ ان ضروریات کو محسوس کریں اور ان کی تکمیل کے لیے کوئی کردار ادا کرنے کے لیے تیار ہوں۔

مجھے احساس ہے کہ میں نے موضوع کی مناسبت سے کوئی مربوط علمی گفتگو کرنے کے بجائے ا س کے حوالے سے اپنے جذبات واحساسات کو ہی آپ حضرات کے سامنے پیش کر دیا ہے جن میں بہت سی باتیں شاید غیر متعلق محسوس ہوں مگر امید ہے کہ آپ سب بزرگ میری اس فروگزاشت سے درگزر کرتے ہوئے ایک کارکن کے جذبات واحساسات پر مناسب توجہ دیں گے اور دعا بھی فرمائیں گے کہ اللہ تعالیٰ ہم سب کو اس سلسلہ میں صحیح سمت میں پیش رفت کرنے کی توفیق عطا فرمائیں، آمین یا رب العالمین۔ وآخر دعوانا ان الحمد للہ رب العالمین۔

(ماہنامہ الشریعہ، گوجرانوالہ ۔ اپریل ۲۰۰۳ء)
2016ء سے
Flag Counter