دینی مدارس کی اسناد اور فرقہ وارانہ تعلیم

   
۲۰ اگست ۲۰۰۵ء

دینی مدارس کی اسناد کے بارے میں سپریم کورٹ کا فیصلہ اور رجسٹریشن کے حوالے سے صدارتی آرڈیننس بیک وقت سامنے آگئے ہیں اور دین کی تعلیم دینے والی درس گاہیں ایک بار پھر ملک بھر میں گفتگو اور تبصروں کا موضوع بن گئی ہیں۔

سپریم کورٹ آف پاکستان نے اس سے قبل عبوری فیصلے میں دینی مدارس کی اسناد رکھنے والوں کو بلدیاتی الیکشن میں حصہ لینے کی اجازت دے دی تھی مگر الیکشن کے پہلے مرحلے سے صرف دو روز قبل حتمی فیصلہ صادر کر کے یہ قرار دے دیا کہ دینی مدارس کے وفاقوں سے شہادۃ ثانیہ رکھنے والے افراد نے چونکہ مطالعہ پاکستان، انگلش اور اردو کے لازمی مضامین کا میٹرک کے درجہ میں امتحان نہیں دیا، اس لیے اس سند کو میٹرک کے مساوی تسلیم نہیں کیا جا سکتا اور اس سند کے حاملین بلدیاتی الیکشن میں حصہ لینے کے اہل نہیں ہیں۔ اگرچہ اس فیصلے کا فوری اطلاق ان حضرات پر ہوا ہے جو اس رٹ میں فریق تھے، لیکن اٹارنی جنرل کا یہ کہنا اہمیت رکھتا ہے کہ جن لوگوں نے دینی مدارس کی اسناد کی بنیاد پر بلدیاتی الیکشن میں حصہ لیا ہے، وہ کامیاب ہونے کے باوجود اس فیصلے کی رو سے نا اہل ہوجائیں گے، بلکہ یہ فیصلہ سینٹ، قومی اسمبلی اور صوبائی اسمبلیوں کے ان ارکان پر بھی اثر انداز ہو سکتا ہے جنہوں نے دینی مدارس کی اسناد کی بنیاد پر الیکشن میں حصہ لیا ہے اور منتخب ہوئے ہیں۔

ایک اخباری رپورٹ کے مطابق قومی اور صوبائی اسمبلیوں کے کم و بیش دو سو ارکان اس فیصلے کی زد میں آ سکتے ہیں۔ چنانچہ ایک معروف قانون دان محمد اسلم خاکی نے اپنی ایک سابقہ رٹ کو جلد از جلد زیربحث لانے کے لیے سپریم کورٹ آف پاکستان میں درخواست دے دی ہے۔ ان کی رٹ میں یہ موقف اختیار کیا گیا تھا کہ دینی مدارس کی اسناد کو یونیورسٹی گرانٹس کمیشن نے چونکہ صرف تعلیمی مقاصد کے لیے ایم اے اسلامیات اور ایم اے عربی کے برابر تسلیم کیا ہے، اس لیے تعلیمی مقاصد کے علاوہ کسی اور مقصد کے لیے ان اسناد کو تسلیم نہیں کیا جا سکتا اور چیف الیکشن کمشنر نے گزشتہ انتخابات میں شہادۃ العالمیہ کی سند کو ایم اے کے برابر تسلیم کرتے ہوئے اس کے حاملین کو قومی اور صوبائی اسمبلیوں کے انتخابات میں حصہ لینے کی جو اجازت دی تھی، وہ درست نہیں تھی، اس لیے عدالت عظمیٰ اس اجازت نامے کو منسوخ کرتے ہوئے دینی اسناد پر منتخب ہونے والے اسمبلیوں کے ارکان کو نااہل قرار دے۔ رٹ ابھی موجود ہے اور اس پر فیصلہ ہونا باقی ہے، اس لیے رٹ کے محرک نے دوبارہ درخواست دائر کر دی ہے کہ اس رٹ کو جلد از جلد زیر بحث لایا جائے اور اس پر فیصلہ صادر کیا جائے۔

دوسری طرف بعض سیاسی حلقوں کی طرف سے کہا جا رہا ہے کہ دینی مدارس کی اسناد کے بارے میں گومگو اور تذبذب کی فضا قائم رکھنا موجودہ حکومت کی طے شدہ پالیسی کا حصہ ہے تاکہ متحدہ مجلس عمل کو دباؤ میں رکھا جائے اور اسے حکومت کے خلاف کسی عملی تحریک کا حصہ بننے سے روکا جائے۔ ان سیاسی حلقوں کا کہنا ہے کہ چونکہ متحدہ مجلس عمل نے اے آر ڈی کے ساتھ مل کر حکومت کے خلاف گرینڈ الائنس قائم کرنے اور احتجاجی تحریک منظم کرنے کا حال ہی میں فیصلہ کر لیا ہے، اس لیے دینی مدارس کی اسناد کی قانونی حیثیت کا مسئلہ دوبارہ سامنے لایا گیا ہے تاکہ متحدہ مجلس عمل حکومت کے خلاف عملی تحریک کا حصہ نہ بنے، اور اگر وہ حکومت کے خلاف تحریک کے فیصلے میں سنجیدہ ہے تو اسمبلیوں میں اپنے کم و بیش دو سو ارکان کے نااہل قرار دیے جانے کے فیصلے کا سامنا کرنے کے لیے تیار رہے۔ اس طرح دینی مدارس کی اسناد کا مسئلہ فنی اور تعلیمی دائرے سے نکل کر سیاسی حیثیت اختیار کرتا جا رہا ہے جو بہرحال ایک توجہ طلب بات ہے اور اس پر دینی مدارس کے وفاقوں کی اعلیٰ قیادت اور اس کے ساتھ ہی متحدہ مجلس عمل کی ہائی کمان کو بھی سنجیدگی سے غور کرنا چاہیے۔

جہاں تک فنی مسئلہ کی بات ہے، ہمارے خیال میں جب دینی مدارس کے وفاقوں نے میٹرک کی سطح تک مطالعہ پاکستان، اردو اور انگلش کے مضامین کو اپنے نصاب میں شامل کر کے اس پر عملدرآمد شروع کر رکھا ہے تو اس تبدیلی کو سپریم کورٹ کے حالیہ فیصلے میں بالکل نظر انداز کیے جانے کی بات سمجھ میں نہیں آرہی۔ ہمارے خیال میں یہ بات سپریم کورٹ کے علم میں سرے سے لائی ہی نہیں گئی اور دینی مدارس کی اسناد کا دفاع کرنے والے وکلاء اس سلسلے میں پورے حقائق عدالت عظمیٰ کے سامنے نہیں رکھ سکے، ورنہ شاید فیصلے کی حتمی صورت یہ نہ ہوتی۔ اب بھی تمام وفاقوں کی قیادت سے ہماری گزارش یہ ہے کہ وہ عدالت عظمیٰ میں اس کیس کی خود پیروی کریں اور مذکورہ فیصلے پر نظر ثانی کی اپیل کے لیے ملک کے نامور وکلاء سے صلاح مشورہ کر کے دینی مدارس کی اسناد کے دفاع کے لیے پیشرفت کریں۔

جہاں تک رجسٹریشن کا تعلق ہے، ہمارے خیال میں یہ بات اطمینان بخش ہے کہ دینی مدارس کی رجسٹریشن سابقہ سوسائٹی ایکٹ کے تحت کرنے کا فیصلہ کیا گیا ہے جو خود دینی مدارس کا مطالبہ تھا، اور وہ اس ایکٹ کے تحت رجسٹریشن کے لیے نہ صرف تیار تھے بلکہ ہزاروں مدارس نے اس سے قبل سوسائٹی ایکٹ کے تحت رجسٹریشن کرا رکھی ہے۔ البتہ اس سلسلے میں ۱۸۶۰ء کے سوسائٹی ایکٹ میں ایک نئی شق کا اضافہ قابل غور ہے جس کے تحت دینی مدارس کے لیے رجسٹریشن کو لازمی قرار دیا گیا ہے اور سالانہ کارکردگی اور آڈٹ شدہ حسابات کی رپورٹ کی کاپی رجسٹریشن آفس میں جمع کرنے کا انہیں پابند کیا گیا ہے۔

ہمارے خیال میں ان تینوں امور میں بظاہر کوئی حرج کی بات نہیں اور یہ باتیں نتائج کے حوالے سے دینی مدارس کے لیے فائدہ کا باعث ہی ہوں گی۔ البتہ دینی مدارس میں فرقہ وارانہ تعلیم کی ممانعت کی شق مبہم ہے، اس لیے کہ:

  1. فرقہ وارانہ تعلیم کا ایک پہلو یہ ہے کہ ملک میں مختلف مذہبی فرقے آباد ہیں اور ان کے دینی مدارس کام کر رہے ہیں، اس لیے ان فرقوں کے درمیان منافرت پیدا کرنے، امن عامہ کے مسائل کھڑے کرنے اور قومی وحدت کو مجروح کرنے کی سرگرمیوں کی اجازت نہیں ہونی چاہیے اور ایسی سرگرمیوں پر نظر رکھنا اور ان کی روک تھام کرنا حکومت کی ذمہ داریوں میں شامل ہے۔
  2. لیکن اس کا دوسرا پہلو علمی و تحقیقی دائرہ سے متعلق ہے جس میں اپنے مسلک کی علمی وضاحت اور دلائل کی بنیاد پر اس کی ترجیح کی طرز اختیار کی جاتی ہے۔ یہ نہ صرف پاکستان کے دینی مدارس میں ہوتا ہے بلکہ دنیا بھر میں تمام مذاہب کی مذہبی درس گاہوں میں اس کا صدیوں سے اہتمام چلا آ رہا ہے۔ لہٰذا اس نئے آرڈیننس میں ان دونوں پہلوؤں کے درمیان فرق کی وضاحت ضروری ہے، ورنہ یہ مسئلہ بھی وہی صورت اختیار کر سکتا ہے جو دہشت گردی کے خلاف جنگ کی صورت میں اس وقت دنیا کو درپیش ہے کہ دہشت گردی کی کسی سطح پر کوئی تعریف متعین نہیں ہے اور اسے مکمل طور پر ابہام میں رکھا گیا ہے جبکہ دہشت گردی کے خلاف جنگ کرنے والے اس ابہام سے فائدہ اٹھاتے ہوئے اپنے جس مخالف کو چاہتے ہیں، دہشت گرد قرار دے کر اس کے خلاف جنگ کا محاذ کھول دیتے ہیں۔ اسی طرح فرقہ واریت اور فرقہ وارانہ سرگرمیوں کی حدود اگر واضح طور پر طے نہ کی گئیں تو نہ صرف یہ کہ علم و تحقیق کے راستے مسدود ہو جائیں گے بلکہ یہ بات مکمل طور پر حکومت اور متعلقہ افسران کی صوابدید پر ہوگی کہ وہ جس مدرسہ کو چاہیں فرقہ وارانہ سرگرمیوں میں ملوث قرار دے کر اسے بند کرنے کا حکم جاری کر دیں۔

ہمارے خیال میں وفاق المدارس العربیہ پاکستان اور دینی مدارس کے دیگر وفاقوں کی قیادتوں کو اس مسئلہ کے حوالے سے صورتحال کا ازسرنو جائزہ لینا چاہیے اور حکومت کے ساتھ مذاکرات اور مفاہمت کے ذریعے سے اس کا فوری طور پر حل نکالنے کی کوشش کرنی چاہیے، ورنہ یہ بیوروکریسی کے ہاتھ میں دینی مدارس کے خلاف ایک ایسا ہتھیار ثابت ہوگا جس سے ملک کی تمام دینی درس گاہیں مکمل طور پر متعلقہ محکموں اور افسروں کے رحم و کرم پر ہوں گی، اور دینی مدارس کی جس آزادی اور خود مختاری کے تحفظ کی ایک عرصہ سے جنگ لڑی جا رہی ہے، وہ فرقہ وارانہ تعلیم پر پابندی کی اس مبہم شق کے باعث بیوروکریسی کے ہاتھ میں گروی ہو کر رہ جائے گی۔

   
2016ء سے
Flag Counter