صدر جنرل پرویز مشرف نے ریڈیو اور ٹی وی پر قوم سے خطاب کرتے ہوئے جن اصلاحات کا اعلان کیا ہے وہ نئی نہیں ہیں بلکہ یہ اس دستوری آنکھ مچولی کا لازمی حصہ بن چکی ہیں جو قیام پاکستان سے لے کر اب تک مسلسل جاری ہے، اور جس میں ہمارے حکمران طبقات باری باری طاقت کو اپنے ہاتھ میں لینے اور پھر اسے کنٹرول میں رکھنے کا تجربہ کرتے آرہے ہیں۔ گورنر جنرل غلام محمد سے اس کھیل کا آغاز ہوا اور اسکندر مرزا، جنرل محمد ایوب خان، جنرل محمد یحییٰ خان، ذوالفقار علی بھٹو اور جنرل ضیاء الحق، بے نظیر بھٹو اور میاں محمد نواز شریف کے ادوار سے گزرتا ہوا اب یہ کھیل جنرل پرویز مشرف کی کپتانی میں ایک نئے دور کا آغاز کر رہا ہے۔ سیاستدان، بیوروکریٹس اور جنرل صاحبان اس کھیل کی اصل ٹیمیں ہیں اور جس ٹیم نے بھی وکٹ سنبھالی ہے، کھیل کے ضوابط اور اخلاقیات کی کوئی پروا کیے بغیر وکٹ پر قبضہ برقرار رکھنے کے لیے جو کچھ اس کے بس میں ہوا وہ کر گزری ہے۔ درمیان میں ۱۹۵۶ء اور ۱۹۷۳ء کے دساتیر کی منظوری کے دو مراحل ایسے آئے ہیں جن میں قوم کو یہ توقع ہو چلی تھی کہ شاید اب قومی سیاست کی گاڑی طاقت کی کشمکش سے نجات پا کر اصول اور ضوابط و قواعد کی پٹری پر چل پڑے گی مگر اصول، قانون، ضابطہ اور اخلاقیات کا دورانیہ بہت مختصر رہا اور قوت و طاقت کے حصول اور اس کے اندھادھند استعمال کی روش پھر قوم کو سیاسی دھینگامشتی کے دور میں واپس لے گئی۔
اختیارات کے ایک ہاتھ میں ارتکاز کا تصور بہت پرانا ہے:
- غلام محمد نے اسی فلسفہ کے تحت دستور ساز اسمبلی کا کریاکرم کیا تھا اور سپریم کورٹ آف پاکستان نے اسے سند جواز بھی فراہم کر دی تھی۔
- جنرل محمد ایوب خان نے بھی یہی فارمولا اپنایا اور عدالت عظمیٰ اس کی پشت پر رہی۔
- اس کے بعد جنرل محمد یحییٰ خان کے دور میں فرد واحد کے فیصلوں نے ملک کو دولخت کر دیا۔
- مشرقی پاکستان کی علیحدگی کے بعد باقی ماندہ پاکستان میں ۱۹۷۳ء کا دستور منظور ہوا تو محب وطن حلقوں نے اطمینان کا سانس لیا کہ اب ملک میں فرد واحد کے فیصلوں کی بجائے پارلیمنٹ اور اداروں کی حکمرانی کا دور شروع ہوگا اور طاقت کی بالادستی کے فلسفہ سے نجات ملے گی- مگر بدقسمتی سے ۱۹۷۳ء کے دستور کو منظور کرنے والے سیاستدان جناب ذوالفقار علی بھٹو کے دور میں ہی یکطرفہ دستوری ترامیم کے ذریعے اختیارات کو ایک ہاتھ میں مرتکز کرنے اور اختلاف کرنے والے نمائندوں کو اٹھا کر پارلیمنٹ ہاؤس سے باہر پھینک دینے کی کارروائی سامنے آئی تو اصول و قانون کی بالادستی اور اداروں کی حکمرانی کا خواب ایک بار پھر پریشان ہوگیا اور پاکستان دوبارہ غلام محمد کے دور میں واپس چلا گیا۔
- جنرل ضیاء الحق آئے اور انہوں نے دستور کی بساط لپیٹ کر تمام اختیارات اپنے ہاتھ میں لے لیے تو ان کے دلائل بھی وہی تھے جو آج نئی سیاسی اصلاحات کے حق میں پیش کیے جا رہے ہیں۔ یہ دلائل اس سے قبل جناب غلام محمد اور جنرل محمد ایوب خان کے کام آچکے تھے، چنانچہ انہی دلائل کی بنیاد پر عدالت عظمیٰ نے جنرل محمد ضیاء الحق کی شخصی حکومت کو بھی تحفظ فراہم کر دیا۔
- اس کے بعد بے نظیر بھٹو اور میاں محمد نواز شریف نے دو دو باریاں لیں مگر طرز وہی رہا کہ حکومت کی کرسی پر ہیں تو تمام اختیارات اور طاقت کو مٹھی میں رکھتے ہوئے مخالفین کو آزادانہ سیاسی زندگی اور کردار کے مواقع سے محروم کرنا، اور اقتدار سے باہر ہیں تو برسراقتدار گروہ کو ہر قیمت پر اقتدار سے ہٹانا اور کسی طرح بھی آرام سے حکومت نہ کرنے دینا ان دونوں سیاسی قوتوں کی اولین ترجیح رہی۔ اور بالآخر اسی کشمکش نے جنرل پرویز مشرف کی تشریف آوری کی راہ ہموار کی جس کے نتیجے میں پوری قوم اور خاص طور پر سیاسی قوتوں کو ان اصلاحات کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے، جن میں ایک طرف جنرل پرویز مشرف ہیں اور دوسری طرف اے آر ڈی اور متحدہ مجلس عمل کے دو پلیٹ فارموں کی صورت میں ملک کی کم و بیش تمام اہم دینی و سیاسی جماعتیں ہیں جو ان اصلاحات کو قبول کرنے کے لیے تیار نہیں ہیں، لیکن عدالت عظمیٰ کی فراہم کردہ چھتری نے ان اصلاحات کے نفاذ کو یقینی بنا دیا ہے۔
- جنرل پرویز مشرف کے سیاسی فارمولے، اصلاحات، قوم سے خطاب اور اقدامات میں کوئی ایسی نئی بات نظر نہیں آرہی جو اس سے قبل غلام محمد، جنرل محمد ایوب خان اور جنرل ضیاء الحق کے فارمولوں میں شامل نہ رہی ہو۔ صرف نیشنل سیکیورٹی کونسل کے بارے میں جنرل پرویز مشرف کہہ سکتے ہیں کہ نیا سیاسی اقدام ہے لیکن جب بات طاقت اور صرف طاقت کی بالادستی کے حوالے سے ہو رہی ہے اور ہر معاملہ میں طاقت ہی کو حرف آخر قرار دیا جا رہا ہے تو قومی سلامتی کونسل کے قیام سے بھی صورتحال میں کوئی فرق رونما نہیں ہوگا۔ جس کے ہاتھ میں طاقت ہوگی، سلامتی کونسل بھی اسی کے ہاتھ میں ہوگی۔ کسی مرحلہ میں اس قومی سلامتی کونسل نے ’’طاقتور‘‘ کے ہاتھ سے پھسلنے کی کوشش کی تو اس کے پاس طاقت کے اظہار کے اور ذرائع بھی موجود ہوں گے، اور بدقسمتی سے ہمارے ہاں یہ روایت بالاتر قانون کا درجہ اختیار کر چکی ہے کہ جب ’’طاقتور‘‘ اپنی طاقت کے اظہار اور استعمال کا فیصلہ کر لیتا ہے تو مذہب، سیاست، عدالت یا کسی بھی دوسرے فورم کے لیے اس بات کا کوئی امکان باقی نہیں رہ جاتا کہ وہ اس طاقت کو آگے بڑھنے سے روک سکے یا کم از کم اسے کہہ ہی سکے کہ جناب والا! آپ جو کچھ کر رہے ہیں، درست نہیں ہے۔
ہمیں مستقبل کا نقشہ بھی اسی طرح نظر آ رہا ہے کہ اگر جنرل پرویز مشرف کی اصلاحات کے مطابق اکتوبر کے انتخابات منعقد ہو جاتے ہیں تو اسمبلیاں وجود میں آئیں گی۔ وہ جنرل موصوف کے آئینی اقدامات کو آٹھویں دستوری ترمیم کی طرز پر تحفظ فراہم کریں گی، اس کے بعد سیاسی عمل آگے بڑھے گا اور ایک دو انتخابات کے بعد کسی بھی سیاسی جماعت نے پارلیمنٹ میں مضبوط پوزیشن اختیار کر لی تو جنرل پرویز مشرف کی سیاسی اصلاحات اور ان کے آئینی تحفظات کا تیاپانچہ اور اختیارات کی کشمکش ہوگی جو اس قدر طول پکڑے گی کہ پھر کسی جنرل کے انتظار میں لوگوں کی نگاہیں جی ایچ کیو کی طرف اٹھنے لگیں گی، اور اس کے بعد پردۂ غیب سے ایک اور جنرل محمد ایوب خان نمودار ہوں گے جو قوم کو سیاست دانوں کی بدعنوانیوں اور بے اصولیوں سے نجات دلانے کی پرانی گیم کا ازسرنو آغاز فرما دیں گے۔
اسلام کے سیاسی نظام میں اور آج کے سیاسی فلسفوں میں یہی فرق ہے کہ اسلام میں اصول و ضوابط پہلے سے طے شدہ ہیں جن میں ردوبدل کا کسی کو اختیار نہیں ہے۔ حکومت نے جس پٹڑی پر چلنا ہے، وہ متعین ہے اور اس کا کانٹا بدلنا کسی کے بس کی بات نہیں ہے۔ جبکہ جمہوریت سمیت آج کے تمام سیاسی نظاموں کی بنیاد اس پر ہے کہ انسانوں نے اصول بھی خود طے کرنے ہیں اور ان پر عملدرآمد کا اہتمام بھی خود کرنا ہے۔ یہ اصول و ضوابط اور اخلاق و قوانین فرد واحد طے کرے، کوئی گروہ یا طبقہ انہیں ترتیب دے یا کوئی منتخب پارلیمنٹ ان کا خاکہ مرتب کرے، بہرحال انسانوں نے ہی طے کرنے ہوتے ہیں اور جن کے ہاتھوں میں طے کرنے کا اختیار ہوتا ہے، ان کے ذہنی رجحانات، گروہی یا شخصی مفادات اور سیاسی ترجیحات کی چھاپ بہرحال ان اصولوں اور ضوابط پر نمایاں ہوتی ہے۔
خلافت راشدہ کا آغاز خلیفہ اول حضرت سیدنا صدیق اکبر ؓ کے اس خطبہ سے ہوتا ہے جب انہوں نے اقتدار سنبھالنے کے بعد مسجد نبوی میں کھلے بندوں قوم سے خطاب کیا اور اپنی پالیسیوں کا اعلان فرمایا، اس میں انہوں نے کوئی سیاسی فارمولا نہیں پیش کیا اور نہ ہی دستوری اصلاحات کے بکھیڑے میں پڑنے کی ضرورت محسوس کی، بلکہ یہ فرمایا کہ اصول و ضوابط اللہ تعالیٰ کے احکام اور رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت کی شکل میں طے شدہ ہیں، اگر میں ان کے مطابق چلوں تو میرا ساتھ دو اور اگر ٹیڑھا چلوں تو مجھے پکڑ کر سیدھا کر دو۔ خدا کرے کہ یہ فلسفہ پاکستانی حکمرانوں کی سمجھ میں بھی آجائے کیونکہ دستوری اکھاڑ پچھاڑ اور طاقت کی کشمکش سے نجات کا اس کے سوا کوئی راستہ نہیں۔