قندھار حاضری کا ایک مقصد اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی طرف سے افغانستان پر عائد کی جانے والی پابندیوں کے اثرات کا جائزہ لینا بھی تھا۔ چنانچہ اس سلسلہ میں متعدد حکام سے گفتگو کے علاوہ ہم نے بازاروں میں گھوم پھر کر اشیا صرف کی دستیابی اور ان کی قیمتوں کے بارے میں معلومات حاصل کیں۔
ہمارے میزبان ملا اختر محمد عثمانی نے، جو قندھار کے کور کمانڈر ہیں، سلامتی کونسل کی پابندیوں کے اثرات و نتائج کے بارے میں سوال کے جواب میں کہا کہ ان پابندیوں کی وجہ سے مسلمان بھائیوں کی توجہات اور خاص طور پر پاکستان کے اہل دین اور اہل خیر کی حمایت و تعاون میں اضافہ ہوا ہے۔ اور دنیا بھر کے دیندار حلقے ہمارے لیے دعاؤں کے ساتھ ساتھ حمایت و معاونت کا بھی اہتمام کر رہے ہیں جس پر ہم خوش ہیں۔ اس سے ہمارا حوصلہ و اعتماد بڑھا ہے اور یہ ہمارے لیے ایک قیمتی اثاثہ ہے۔
کراچی میں امارت اسلامی افغانستان کے قونصل جنرل ملا رحمت اللہ کاکا زادہ بھی ان دنوں قندھار میں تھے بلکہ امیر المومنین ملا محمد عمر سے ملاقات میں ہماری ترجمانی بھی انہوں نے کی۔ ان سے اس سلسلہ میں تفصیلی بات چیت ہوئی، انہوں نے کہا کہ سلامتی کونسل کی پابندیوں کے بعد ہمیں تین طرح کی تبدیلیوں اور تغیرات کا سامنا کرنا پڑا ہے۔ ایک یہ کہ بین الاقوامی پابندیوں کی وجہ سے افغانستان کرنسی کی قیمت تقریباً چالیس فیصد تک مزید گر گئی ہے جس سے عام آدمی کی قوت خرید بری طرح متاثر ہوئی ہے اور اشیا صرف پہلے سے زیادہ مہنگی ہو گئی ہیں۔ یہ بات ہم نے بھی محسوس کی اس لیے کہ تقریباً آٹھ ماہ قبل جب میں کابل گیا تھا تو ایک سو دس یا ایک سو پندرہ روپے پاکستانی کے عوض ایک لاکھ افغانی ملتا تھا مگر اب کرنسی کا ریٹ پوچھا تو اسی روپے پاکستانی کے عوض ایک لاکھ افغانی ملتے ہیں اور اشیا صرف کی قیمتوں میں بھی اسی تناسب سے اضافہ ہوا ہے۔
حضرت مولانا فداء الرحمن درخواستی نے قندھار سے ایک چپل خریدا جو کراچی کا بنا ہوا تھا مگر قندھار کی نسبت سے خریدا گیا۔ جبکہ میں نے ایک کتب خانہ سے دو کتابیں خریدیں۔ ایک عبد الحئی مرحوم کی فارسی میں ’’تاریخ مختصر افغانستان‘‘ ہے اور دوسری ایک اطالوی دانشور ڈاکٹر پیو کارلو ترینزیو (Dr. Pio-Carlo Toranzio) کی کتاب کا فارسی ترجمہ ہے جس میں انہوں نے ایران اور افغانستان کے خطہ میں روس اور برطانیہ کی رقابت و کشمکش کا تاریخی جائزہ لیا ہے۔ یہ کتابیں مجھے سوا سو روپے پاکستانی یعنی تقریباً ڈیڑھ لاکھ افغانی میں ملیں۔ مولانا درخواستی نے ایک دکان سے ہمیں آئس کریم کھلائی جو دراصل فریزر میں لگی ہوئی کسٹرڈ کھیر تھی اور پندرہ ہزار افغانی میں ایک پلیٹ (تقریباً تیرہ روپے پاکستانی) میں مل رہی تھی۔ بہرحال افغان کرنسی کی قیمت میں واضح کمی اور اشیا صرف کی قیمتوں میں اسی تناسب سے اضافہ ہم نے دیکھا جو افغانستان کے خلاف بین الاقوامی اقتصادی پابندیوں کا لازمی نتیجہ ہے اور اس سے بلاشبہ افغان عوام کی مشکلات میں اضافہ ہوا ہے۔
ملا رحمت اللہ کاکازادہ نے کہا کہ سلامتی کونسل کی پابندیوں کا دوسرا اثر عملی طور پر یہ ہوا ہے کہ امارت اسلامی افغانستان کے خلاف عالمی پریس اور بین الاقوامی سیکولر حلقوں کے مسلسل معاندانہ پراپیگنڈا کے جواب میں طالبان حکومت کے موقف اور پوزیشن کی وضاحت کے لیے جو افغان مشن مختلف ملکوں میں جاتے تھے اور ان کی بات کسی نہ کسی حد تک کچھ لوگوں تک پہنچ جاتی تھی، ان سفارتی مشنوں کی آمد و رفت میں سلامتی کونسل کی پابندیوں کی وجہ سے رکاوٹ پیدا ہو گئی ہے۔ اور اس طرح طالبان حکومت کو عالمی رائے عامہ کے سامنے اپنے موقف کی براہ راست وضاحت کے حق سے محروم کر دیا گیا ہے۔
افغان قونصل جنرل کے مطابق ان پابندیوں کا تیسرا اثر یہ ہوا ہے کہ جنگ سے متاثرہ ایسے زخمی اور مریض جن کا علاج ملک میں نہیں ہو سکتا تھا، وہ کسی نہ کسی طرح علاج معالجہ کے لیے بیرونی ملکوں بالخصوص مغربی ممالک میں چلے جاتے تھے۔ مگر اب ایسا ممکن نہیں رہا اور اس قسم کے سینکڑوں مریض علاج معالجہ کی سہولت سے محروم ہوگئے ہیں۔
اس کے علاوہ اور کوئی عملی تبدیلی ان پابندیوں کی وجہ سے نمودار نہیں ہوئی، بالخصوص عام لوگوں کو ضرورت کی اشیا بازار میں دستیاب ہیں کیونکہ پاکستان، ایران اور ترکمانستان کے راستوں سے اشیا خورد و نوش اور دیگر عام ضروریات کی اشیا مارکیٹ میں پہنچ رہی ہیں اور افغان عوام کو اس سلسلہ میں کسی دشواری کا سامنا نہیں ہے۔
البتہ ایک بات بطور خاص ہم نے محسوس کی کہ بازار میں ایرانی مال کا تناسب زیادہ ہے اور نسبتاً وہ سستا بھی ہے۔ اس کی وجہ ایک افغان افسر نے ہمارے دریافت کرنے پر یہ بتائی کہ ہم پاکستانی تاجروں کی توجہ اپنی طرف مبذول کرانے میں کامیاب نہیں ہو پا رہے جبکہ ایرانی تاجر پوری منصوبہ بندی کے ساتھ افغان مارکیٹ میں اپنا اثر و رسوخ بڑھانے کے لیے کام کر رہے ہیں اور انہیں اس سلسلہ میں ایرانی حکومت کی پشت پناہی بھی حاصل ہے۔ افغان افسر نے کہا کہ ہماری دلی خواہش ہے کہ پاکستانی تاجر ادھر متوجہ ہوں اور افغان مارکیٹ میں اپنی جگہ بنائیں۔ اس کے لیے ہم ہر قسم کی سہولت فراہم کرنے کو تیار ہیں لیکن پاکستانی تاجر تحفظات کا شکار ہیں اور رسک نہیں لے رہے جبکہ ایرانی تاجروں نے تمام تحفظات بالائے طاق رکھ دیے ہیں اور افغان مارکیٹ میں اپنی اجارہ داری قائم کرنے کے لیے ہر قسم کا رسک لے رہے ہیں جس کی وجہ سے ایرانی مال افغانستان کے بازاروں میں ہر طرف نظر آرہا ہے۔
یہ بات جب میں نے گوجرانوالہ کے بعض تاجر دوستوں سے کی تو انہوں نے کہا کہ اس کی اصل وجہ یہ نہیں بلکہ یہ ہے کہ ایرانی صنعت کار اور تاجر کو اپنے ملک میں ان ٹیکسوں کا سامنا نہیں ہے جنہوں نے ہمارے ہاتھ پاؤں باندھ رکھے ہیں۔ اس لیے ایرانی تاجر اپنی اشیا کو افغان مارکیٹ میں جس پرچون نرخ پر فروخت کر رہا ہے وہ ہماری کاسٹ سے بھی کم ہے اور اس صورت حال میں ہم ایرانی مال کا مقابلہ کر ہی نہیں سکتے۔ ان تاجر دوستوں کا کہنا ہے کہ ایرانی حکومت اپنی پالیسیوں میں خودمختار ہے اس لیے وہ اپنے صنعتکاروں اور تاجروں کو نئی منڈیاں بنانے کے لیے ہر قسم کی سہولت دے سکتی ہے، جبکہ ہماری معیشت پر ورلڈ بینک اور آئی ایم ایف کا کنٹرول ہے اس لیے ہماری حکومت چاہے بھی تو ہمیں وہ سہولتیں اور ٹیکسوں میں چھوٹ نہیں دے سکتی جو افغان مارکیٹ میں ایرانی مال کا مقابلہ کرنے کے لیے بہرحال ضروری ہیں۔